Books Review

قاصر انجیلی کی کُلیات ِ انجیلی
جیم فے غوری
شاعری ایک وصف ہے جو جمالیاتی خصوصیات کے ساتھ لسانیات کے ذریعے تشکیل کے مراحل ‏طے کرتی ہے یا پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ لسانی اور خیال و تخیل پر مشتمل مواد سے جنم لیتی ہے اور اس ‏کی تخلیق کرنے والا اس کو لکھتے وقت ایسی زبان استعمال کرتا ہے جو پڑھنے اور سننے والا سمجھتا اور ‏محسوس کرتا ہے لیکن یہ عام بولی جانے والی زبان سے اپنے آپ کو ممتاز رکھتی ہے یہ قاری یا سامع ‏کے سننے اور پڑھنے کی قوت کے ذریعے کسی بھی خیال یا جذبہ کی تبلیغ کے لئے استعمال ہوتی ہے، ‏
عام طور پر عظیم شاعری زندگی کی عکاس ہوتی ہے انسانی جذبات کے ساتھ مرکزی خیال میں ‏ندرت اور گہری سوچ کی عکاسی کرتی ہے اردو زبان میں تخلیق کے اس عمل کو تین الفاظ میں یوں ‏بیان کیا جا سکتا ہے، پہلا شاعر ( تخلیق کار) دوسرا شاعری ( تخلیق کا عمل) اور تیسرا نظم ( جو چیز ‏تخلیق ہوئی)ـ لہذا شاعرخالق ہے شاعری کا ، جو وہ تخلیق کرتا ہے اور شاعری اپنے شاعر کو باہر ‏لانے کا سبب بنتی ہے یعنی وہ شاعر کو دینا سے متعارف کراتی ہے،
شاعری کی کچھ اقسام مخصوص تقاضوں اور روایات کے لئے مخصوص ہوتی ہیں اور شاعر جب اپنی ‏زبان میں شاعری تخلیق کرتا ہے تو وہ اس کے اردگرد پھیلے ماحول اور اپنے عقائد کی خصوصیات کا ‏جواب ہوتی ہیں جیسے دانتے ایلگریؔ ، گوئٹے اور رومی کی شاعری کی یہی شناخت ہے ان کی شاعری ‏کے مواد کی بنیاد باقاعدہ طور پر شاعری کے اصول و ضوابط اور وجود میں آنے والے مصرعوں پر ‏ہے جو ماحول، ذرائع اور مواد کے ہیش نظر تخلیق ہوئی،جس طرح بائبل کی شاعری وجود میں آئی ‏جو اس وقت کی روایات کے مطابق ہے جو سُر تال کو اپنائے ہوئے ہےجو یوفینی ( ) یعنی کانوں کو ‏بھلی لگتی ہے ،
آج کے اس جدید دور میں شاعر شاعری کی تمام روایات کے ساتھ چلتے ہوئے زندگی کی مثبت اور ‏منفی روایات کی عکاسی کرتا ہے جس کے لئے شاعر تیزی سے گلوبلائزڈ ہوتی دنیا میں متنوع ‏موضوعات کا انتخاب کرتا ہے اور موجودہ تقاضوں کے مطابق اپنی زبان کا سہارا لیتے ہوئے عمدہ ‏اشکال بناتا اور دلکش انداز بیان اور تکنیک اپناتے ہیں،
قاصر انجیلی بھی آج کے ان نمائندہ شعراء میں نمایاں مقام رکھتے ہیں جو اوپر بیان کردہ تمام ‏اوصاف کے مالک ہیں بلکہ قاصر انجیلی ایسے شاعر ہیں جو رومانوی انگریزی شاعر جان کیٹسؔ کے ‏بقول شاعری کو منطق کی منفی صلاحیت سے فرار سمجھتے ہیں،وہ اپنے ایمان میں پختہ ہیں اور اپنے ‏عقیدہ پر ظلم کی آندھیوں میں بھی قائم رہے اور کہتے رہے، ‏
خدا میں ہے وہ اور اس میں خدا ہے
نہ ابنِ خدا سے خدا وہ جدا ہے
خدا گر ہے لازم تو ملزوم ہے یہ
خدا ہے خدا اور روحِ خدا ہے
دنیا کے دس عدد عظیم اور آج بھی اپنی تخلیقات میں زندہ رہنے والےمسیحی شعرا میں سے ایک ‏مسیحی شاعر ٹی ایس ایلیٹ نے کہا کہ ایک یہ سوال نہایت اہم ہے کہ جو شاعر مذہب کے حوالے ‏سے شعر لکھ رہا ہے کیا وہ مسیحیت کو لکھ رہا ہے یا کہ ایک مسیحی کی حیثیت سے لکھ رہا ہے۔
قاصر انجیلی اس سوال کا بہترین جواب ہے کہ وہ مسیحی تھا اور اس نے مسیحیت کو ہی لکھا ہے جس کا ‏ثبوت کُلیات انجیلی کی شکل میں ہمارے سامنے ہے وہ بائبل کو اپنے ان دو اشعار میں بیان کرتے ‏ہیں
؎ خُدا ابتدا ہے خُدا انتہا ہے
خُدا مبتدا ہے خُدا منتہا ہے
خُدا ہے فقط اک وجود ِ حقیقی
نہ اس جیسا کوئی کہیں دوسرا ہے
بہت سا ادب روحانیات پر تخلیق ہوا ہے اور اسی طرح بہت سا ادب مختلف مذاہب پر بھی موجود ‏ہے۔ مرزا غالب نے جب بائبل پڑھنے کے لئے کھولی تو مسیحی نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی ایک تین ‏اشعار پر مشتمل غزل کے مطلع کے پہلے شعر کے پہلے مصرعے میں بائبل میں درج سچائی کو بیان ‏کردیا ،
؎ نہ تھا کچھ تو خُدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
سال دو ہزار پندرہ میں شائع ہونے والی کُلیات انجیلی جو ڈاکٹر پریا تاپیتا کی ترتیب و تدوین میں شائع ‏ہوئی ہے انہوں نے اس پر تفصیل کے ساتھ احوال بھی لکھا ہے اسکے علاوہ جناب اےآر ناظم کا ‘‘ ‏تبصرہ بر کلام انجیلی ’’ کے عنوان سے وضاحت کے ساتھ شامل ہے اور بہت سے ادبا و شعرا نے بھی ‏قاصر انجیلی پر مضامین تحریر کیے ہیں جو اس کلیات میں شامل ہیں بابا نجمی اور دوسرے نامور شعرا ‏نے اشعار کی صورت میں ان کی ادبی خدمات کا عتراف بھی کیا اور نذرانہ عقیدت بھی پیش کیا ہے ‏ایک خاص وصف جو ان میں شاعر و ادیب، صحافی اور مبلغ ہونے کے ساتھ ان کی شخصیت کو ‏نمایاں کرتا ہے وہ زمیں کے ساتھ محبت تھی جس کی ایک شکل بیٹا ، خاوند، باپ اور بہن بھائیوں اور ‏دوستوں کے لئے سراپا محبت اور شفقت کے چشمہ کی صورت میں تھی، وہ اپنی بیوی کی بیماری کی ‏وجہ سےپریشانی کے عالم میں اشعار لکھتے ہیں ایسا بہت ہی کم دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی نامور شاعر ‏نے اپنی بیوی کے لئے بھی اشعار کی شکل میں محبت کا اظہار کیا ہو،
آنکھوں کی میری ٹھنڈک جب سے بیمار ہے
شامت ہی آ گئی ہے میرے دل و جان کی
بہن کی وفات پر کہتے ہیں،
کیوں روٹھ گئی ہم سے اے بہن سلینہ
کیوں راس نہ آیا تجھے دنیا میں جینا
قاصر انجیلی ایک ایسے ماحول میں رہ رہے تھے جہاں ہر طرف مذہبی تعصب اور فرقہ ورایت کا ‏راج ہے جہاں پر لکھنے والے کوئی لفظ لکھنے سے پہلے اپنی زندگی اور اپنے اردگرد رہنے والوں پر غیر ‏متوقع نازل ہونے والے عذاب کے بارے سوچتے ہیں کہ موت کا پروانہ ان کی دہلیز پر آ جائے گا ‏تاہم جب وہ نعمت احمر کو مذہب کے نام پر سرعام قتل ہوتا دیکھتا ہے تو جرات مندانہ انداز میں ‏اپنے تاثرات لکھتا ہے انصاف کے لئے خدا کو پکارتا ہے،
ہے قتل نعم احمرؔ اک فعل وحشیانہ
رکھتا تھا قاتل دل میں اک قصد مجرمانہ
‏ اپنے ملک میں ساری عمر وہ گھٹن زدہ ماحول میں رہے وہ اس ملک میں رہ رہے تھے جہاں اقلیتوں کو ‏خوف کی فضا میں سانس بھی اپنی مرضی سے نہیں لینے دیا جاتا، امتیازی قوانین کی تلوار سر پر لٹکتی ‏ہے جس کا دکھ ان کے ساتھ ہمیشہ رہا، اس کا اظہار وہ یوں کرتے ہیں ،
میری طرح جہاں میں کوئی بد نصیب ہے
ہر موڑ پر مرے لیے ٹھہری صلیب ہے
انصاف کے لیے بھلا کس در پہ جاؤں میں
یارو ! فقیہہ شہر بھی اپنا رقیب ہے
قاصر انجیلی ایسے شاعر ہیں جن کی شاعری مسیحی قدریں، تعلیمات، بائبل کے حوالہ جات اور ‏موضوعات پر مشتمل ہے جو اردو مذہبی ادب میں ایک گراں قدر اضافہ ہے ان کے قارئین کا ‏وسیع حلقہ ہے جو ان کی شاعری کو پڑھتے ہیں اور برصغیر پاک و ہند میں اپنی عبادات میں ان کی ‏شاعری گا کر حمد و ثنا کرتے ہیں ،ان کی شاعری سے متعلق اے آر ناظم لکھتے ہیں شاعری زندگی کی ‏ترجمانی کرتی ہے اور شاعر زندگی کا ترجمان ہوتا ہے.
قاصر انجیلی کی شاعری کا فقط ایک رخ ہے وہ ‏یسوع مسیح سے محبت ہے ملاحظہ فرمائیے، کہتے ہیں
مری آرزو ہے مسیحا مسیحا
مری جستجو ہے مسیحا مسیحا
قاصر انجیلی ایک روحانی شاعر ہے اس کے ہاتھوں میں بائبل کی سنہری گمان ہے جس میں سے وہ ‏امن، انصاف اور محبت کے تیر چلاتا ہے،وہ مشرق سے مغرب تک خدا کو دیکھتا ہے اور اپنے ‏مشائدے اور تجربے کو شاعری میں بدلنے کا ہنر جانتا ہے،
پرتو ہے کبریا کا زمیں پر وہ ذات ہے
صورت خدا کی ہے یہ بڑی صاف بات ہے
کلیات انجیلی اردو زبان و ادب میں ایک ایسی دستاویز ہے جس کے ذریعے اس عہد کا انسان دلی ‏اطمینان اور روح کےلئے روحانی خوارک حاصل کرتا رہے گا اور اس کو پڑھنے سے ذہنی طور پر پُر ‏سکون ہوتا رہے گا ، ۔۔۔ ( جیم فے غوری)‏

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضطر کاشمیری کی شاعری
جیم فے غوری
شاعری ایک ایسا فن ہے جو لسانیات کا سہارے لیتے ہوئے کائنات اور انسانی جذبات و احساسات کے حوالے سے زندگی کی جمالیاتی ‏خصوصیات کی عکاسی کرتی ہے یہ زبانی اور ادبی لہاظ سے نثر سے امتیاز رکھتی ہے یہ فرق شاعری سننے والا اور پڑھنے والا محسوس کرتا ہے اسکے ‏ذریعے سامعین اور قارئین کے ذہن اور سماعت میں جذبات و احساسات کی تبلیغ کی جاتی ہے، یہ ایک آسان اور منفرد طریقہ ہے خیالات ‏اور جذبات قاری اور سامعین تک پہنچانے کا ، اور فطرت کی تمام رنگینی کو بیان کرنا کا ، کیونکہ خیال، تخیل،الفاظ کی بندش اور جو زبان ‏استعمال کی گئی ہو اس میں موسیقیت کی خصوصیات کا ہونا بھی لازمی ہے، جیسے مضطر کاشمیری نے کہا،
یہی تو شاعر ِ فطرت کا استعارہ ہے
وہ ایک ایسی نسل سے تعلق رکھتا ہے جو ڈار کہلاتی ہے مگر وہ ایک معصوم پرندہ ہے جو اپنے سے بڑے اور خطرناک پرندوں کی اڑتی ہوئی ڈار ‏سے اپنے وجود کو الگ رکھنا چاہتا تھا اس لئے اس نے اپنا عقیدہ جو اس کے دل و دماغ کو اچھا لگا وہ اس نے جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنایا ‏اور آج بھی وہ اس پر قائم و دائم ہے گو جس ملک کے ماحول میں وہ رہ رہا ہے وہاں کا سرکاری قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی ‏مسلمان ترک اسلام کرے کیونکہ ریاست کے قانون میں مرتد کی سزا موت درج ہے بلکہ یہاں تک ہوتا ہے کہ کوئی ہجوم اور یا پھر کوئی ‏متوالہ بھی ماورائے عدالت مرتد اور گستاخ کو بے دردی سے کسی بھی جگہ قتل کر کے اپنے مذہبی جنونی ہونے کا ثبوت علماء کرام کو دے سکتا ‏ہے، مگرمضطر کا شمیری ایک خاموش طبع اور تنہا شخصیت ہے اس نے شاعری کے ذریعے ہمارے معاشرے کی تمام مخالف قوتوں کو شکست ‏دی اور اپنی شاعری میں محبت، امن اور بھائی چارے کا درس دیا وہ کہتے ہیں،
دین و ایماں اور مسلک گو مقدم ہیں مگر
نفرتوںکی تیرہ شب میں روشنی کو دیں فروغ
مضطر کاشمیری جس ماحول میں پیدا ہوا ، جہاں اس کی تعلیم وتربیت ہوئی،وہاں پاکستان کی آزادی کے بعد سے ہی غریب و امیر کے درمیان ‏کشمکش کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیازی قوانین کی بھر ماراور ریاست کی شدت پسندوں کی پشت پناہی کا طوفان ‏آ چکا تھا یہ با ت یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ تاریخ کو بھی مسخ کر کے نئی نسل کے سامنے پیش کیا جاتا ہےیہ چیزیں قوم کو تباہی کے دھانے پر ‏لا چکی ہیں مگر یہ تمام سلسلے ابھی تک رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا، ‏
سینہ ِتاریخ میں پنہاں ہے راز ِ ارتقا
جھوٹ کے رستے پہ لیکن چل رہا ہے آدمی
جیمس جوائس کی آواز کی بازگشت اس دور میں میں بھی گونج رہی ہے کہ ہم شاخوں پر پکے ہوئے زیتون ہیں ہمیں نچوڑ لو یا پھر ڈیلان تھامس ‏کے مطابق روشنی کی موت کے خلاف اپنے غصہ کا اظہار کرو، مضطر کاشمیری نے بھی اس گھٹن زدہ ماحول میں زندہ رہنے کے لئے مزاحمت ‏کی تبلیغ کی ہےجس کا اظہار ان کی شاعری میں بہت نمایاں ملتا ہے،
ظلم سہہ کر چپ رہے جو اے رفیقان سفر
وہ خلاف ِ ظلم کیسے کر سکے گا احتجاج
وہ ان لوگوں کے لئے لکھتا ہے جن کی قسمت خاک میں مل چکی ہے اور پسینہ کی مزدوری کے دشت میں دربدر ہیں اور جن کے خون کی ‏خوشبو پھولوں میں رچ بس گئی ہے ہو سکتا ہے اس کی شاعری ہمارے معاشرے میں کوئی تبدیلی نہ لا سکے مگر یہ ایک دن ہر کچلے ہوئے بے ‏کس فرد کا منہ بن جائے گی جن کے ہونٹ پھڑپھڑاتے رہیں گے اور یہ آواز کبھی بھی کوئی بھی طاقت بند نہیں کر سکتی ، یہ فطرت کے اصول ‏کے مطابق حرکت میں رہتی ہے،
مری فطرت مجھے آمادہ ِ پیکار رکھتی ہے
میں کاغذ کے سپاہی کاٹ کر لشکر بناتا ہوں
وہ مذہب کے نام پر امتیازی سلوک،رنگ و نسل اور معاشی استحصال کے خلاف ایک بھرپور اور توانا آواز ہےاور ان حالات میں مضطر ‏کاشمیری جمود کی موجودہ کیفیت سے مایوس نہیں ہے وہ جدو جہد پر یقین رکھتا ہے،
؎ظلمتوں کی ہر روش کو نور میں ڈھالیں گے ہم
شب گزیدہ شہر میں جگنو نیا پالیں گے ہم
؎ٹوٹ جائے جس سے دنیائے تعصب کا فسوں
اے نگارانِ چمن اس آگہی کو دیں فروغ
؎وقت برہم دے رہا ہے ہم کو اذنِ انقلاب
کاش مل جائے ہمیں موسی سا کوئی راہنما
مضطر کاشمیری کا ایک ایک شعر شاعری کے اسرار و رموز کی عمدہ مثال ہےاس حوالہ سے جناب اے آر ناظم نے بھی انکی کتاب ‘‘ بدن کا ‏صحرا’’ کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ ان کی شاعری کے سبھاؤ، زبان کے رساؤ اور الفاظ کے بہاؤ کو دیکھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ان کی ‏شاعری ریشمی شاعری ہے، میں نے بطور شاعری کے طالب علم کی حیثیت سے ان کی شاعری کا جتنا مطالعہ کیا ہے انھیں اپنی ذات میں ایک ‏مکمل اور توانا شاعر پایا ہے جو وقت کی دھول میں گم ہو رہا ہے مگر نامساحد حالات کے باوجود بلندیوں کو چھو رہا ہےوہ ملفوظی اور مکتوبی الفاظ کی ‏پہچان کا ماہر ہے، بحور کا استعمال بخوبی جانتا ہےمشکل بحور کے ساتھ آسان بحور کا استعمال بھی بڑی عمدگی کے ساتھ کرتا ہے یوں ان کے فنِ ‏شاعری کا معیار بہت بلند ہے۔
۔۔۔مضمون نگار جیم فے غوری شاعر،صحافی اور دانشور ہیں اور ایک عرصہ سے اٹلی میں مقیم ہیں۔۔۔۔۔‏