Interviews

جیم فے غوری کا انٹرویو ‏
‏1۔ آپ کا پورا نام اور ادبی نام؟
جس دن میں پیدا ہوا اس دن کی مناسبت سے میرا نام رکھا گیا، پچیس دسمبر( 25) کو شروع ہوئے ابھی پندرہ منٹ ہوئے تھے کہ میں نے ‏اس دنیا میں آنکھ کھولی اسی دن کرسمس کی عبادت کے بعد ایک اٹلین پریسٹ ہمارے گھر تشریف لائے اور اس اہم دن کی مناسبت سے ‏اردو میں یوسف اور انگریزی میں جوزف کہہ کر مجھے بلایا یہاں پر نام ختم نہیں ہوا اس کے ساتھ دالد کا نام جوڑا گیا اور اس کے آگے ذات کا ‏نام غوری بھی لگایا گیا میں نے ہائی سکول میں کہانی لکھنی شروع کی اور کالج میں جا کر نظم کہنی شروع کی ایک بار نذیر قیصر نے اپنے ادبی رسالہ ‏نقطہ نظر میں جو اس وقت وہ ملتان سے نکالتے تھے میری ایک نظم شائع کی اور میرے انگریزی اور اردو نام کو مکمل اردو میں جیم فے غوری ‏لکھا تب سے میرا ادبی نام یہی ہے۔
‏2۔ اپنے اباواجداد کے بارے کچھ بتائیں ؟
افغانستان کے علاقے غور سے ہماری نسل کا تعلق ہے گیارہویں صدی میں بادشاہ محمد غوری کے ساتھ اس کی فوج میں اہم خدمات سرانجام ‏دیتے ہوئے جب لاہور سے ہوتے ہوئے بغاوتوں اور ریاستی معاملات درست کرنے کے بعد میرے اباواجداد واپس جا رہے تھے تو دریا ‏جہلم کے کنارے پڑاو ڈالا گیا وہاں ایک خفیہ حملے میں بادشاہ کو قتل کر دیا گیا اور بہت سے جانثار بھی مارے گئے۔میرے اباواجداد اپنی جان ‏بچاتے ہوئے موجودہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں روپوش ہو گئے اور کچھ نے کوئٹہ کے راستے افغانستان واپسی کا راستہ اختیار کیا مگر وسائل ‏اور نامساحد حالات کی وجہ سے وہاں پر ہی رک گئے کوئٹہ میں صدیوں رہتے گذر گئے مگر ہجرت کا سفر ابھی باقی تھا۔
کوئٹہ شہر میں جب انیس سو پینتیس 1935 میں زلزلے نے تباہی پھیلائی تو میرے دادا اور والدین سیالکوٹ ہجرت کر گئے وہاں انیس سو ‏چھپن 1956 میں میری پیدائش ہوئی وہاں ابھی میں سینٹ انتھونی ہوئی سکول میں دوسری جماعت کا طالب علم تھا کہ انڈیا اور پاکستان کی سن ‏انیس سو پینسٹھ ستمبر 1965 کی جنگ شروع ہوگئی جس میں میرے دالد کے ماموں اور تین قریبی رشتہ دار انڈین توپ خانے کی بھینٹ چڑھ ‏گئے ایک بار پھر ہم نے اس وقت کے لائل پور کی طرف ہجرت کی وہاں سن انیس سو اکیاسی 1981 میں میری شادی ہوئی میری تین بیٹیاں ‏تمثیل، تخلیق، زرین اور جوناتھن فیصل آباد میں پیدا ہوئے، اور وہاں سے سن انیس سو اٹھاسی 1988 میں یورپ کی طرف ہجرت کی اور ‏مستقل طور پر اٹلی کو اپنا دوسرا گھر بنا لیا ، اٹلی کے شمال میں ایک چھوٹے کم آبادی والے شہر فیدنسا میں بال بچوں کے ساتھ مستقل طور پر آباد ‏ہوں میرا اس بار ہجرت کرنے کا سبب پاکستان میں خوف کی فضا اور مذہب کی آڑ میں انسان کی تذلیل اور بے حرمتی تھی مذہب کی وجہ سے ‏آزادی اظہار رائے بھی متاثر ہوئی ہے اور سیاسی و معاشی ناہموری کی پیچدگیوں میں ہوا،
پرائمری تعلیم فیصل آباد میں مکمل کرنے کے بعد فاطمہ بورڈنگ ہاوس سے منسلک سینٹ البرٹ ہائی سکول گوجرہ سے میٹرک پاس کیا ‏بورڈنگ ہاوس کی چھوٹی سی لائبریری سے میں نے ٹارزن، بونوں کی دنیا، روبنسن کروسو اور ایلس ان ونڈر لینڈ کے علاوہ علی بابا چالیس چور ‏اور ڈانیل ڈیفیو کو پڑھا اور میٹرک کے اردو نصاب میں شامل غالب، میر تقی میر اور نظیر اکبر آبادی کی شاعری پڑھی۔ فیصل آبا د کے ‏یونیورسٹی گورنمنٹ کالج میں پروفیسر ریاض مجید کو سننے اور ان کی کتابیں پڑھنے کا موقع ملا ان دنوں نذیر قیصر سے بھی ملاقات ہوئی ان کی ‏شاعری پڑھنے اور ان کو یوتھ پروگرموں میں سننے کا موقع ملا، کالج میں اور آرٹ کونسل میں منعقد ہونے والی ادبی محفلیں اور خاص طور پر ‏مشاعرے بڑے شوق سے سننے جاتا،انجم سلیمی سے حلقہ ارباب ذوق کے اجلاسوں میں ملاقات ہوتی، میں نے پنجاب یونیورسٹی سے ‏گریجویشن اردو ایڈونس اور صحافت کے ساتھ پاس کی، نصاب میں شامل علم عروض کا مطالعہ کیا تو اس میں دلچسپی زیادہ ہو گی اس وقت میری ‏لائبریری میں سو سال پہلے علم عروض پر لکھی جانے والی کتب اصلی حالت میں موجود ہیں۔
اردو شعرا کے ساتھ انگریزی شعرا ورڈزورتھ، ولیم بلیک اور جان کیٹس جیسے نامور شعرا کو بھی پڑھنے کا موقع ملا، جب مجھے حالات کی ستم ‏ظریفی کی وجہ سے اٹلی ہجرت کرنی پڑی تو وہاں سے پرائیویٹ یونیورسٹی سے چار سال میں فلسفہ کی ڈگری حاصل کی وہاں عظیم فلاسفر رینے ‏ڈیکارٹ۔ ہیگل اور نطشے کا مطالعہ کیا اٹلی کے شہر میلان میں مجھے ویٹو سیلرنو کی قربت کا موقع ملا ان سے میری قربت اس لئے بھی زیادہ تھی ‏کہ وہ اردو زبان پر عبور رکھتے تھے انہوں نے علامہ اقبال کی بال جبریل اور بانگ دارا کے علاوہ مستنصر میر کی اقبال کا بھی اطالوی زبان میں ‏ترجمہ کیا ہے دو ہزار دس 2010 میں ساکواہ اور سمواہ اردو ادبی تنظمیوں ( جن کا میں بانی چئیرپرسن ہوں) کی طرف سے سالانہ منعقد ‏ہونے والے اردو ادبی سمینار میں پروفیسر ویٹو سیلرنو نے علامہ اقبال پر ایک طویل مقالہ پڑھا تھا اس سال بھی اگست کے دوسرے ہفتہ میں ‏منعقد ہونے والے اردو سمینار میں جناب حسن عباسی کے علاوہ پوری دنیا سے نامور ادیب و شاعر اور دانشور شرکت کر رہے ہیں۔
‏3۔ارژنگ کا جیم فے غوری سے ایک سوال، آپ کا نظریہ شعر کیا ہے؟
شعر باوزن اور بامعانی اور مروجہ بحور اور وضع کردہ اصولوں کے مطابق لکھی ہوئی سطر ہو،جس میں لکھنے والا اپنا تخیل استعمال کرتے ہوئے ‏موضوع اور الفاظ استعمال کرے جو انسان اور اس سے جڑی ہوئی اشیاء کی ترقی و ترویج اور فلاح و بہبود کے ساتھ وابستہ ہو،
ولیم ورڈزورتھ نے کہا کہ شاعری طاقتور جذبات کی اچانک فروانی ہے جو اپنی اصلی جذباتی حالت میں سکون و خاموشی میں جنم لیتی ہے، ‏مغرب کے ناقدین کے وضع کردہ نظریہ شعر سے اردو زبان کے نظریہ شعر کے بارے میں کچھ کام کیا گیا ہے تاہم شعر کا تعلق سماج کے رسم ‏و رواج اور انسانی جذبوں اور احساسات سے ہونا چاہیے سماج کی حالت ادب کاآئینہ ہوتا ہے اور ادب کا آئینہ سماج ہو سکتا ہے خیال کی سچائی کو ‏سماجی ساخت پر پرکھا جاتا ہے خیال سماجی معروضیت کا حصہ ہوتا ہے اور معروضی مادی حقیقت شاعر و ادیب اور نقاد و فلسفی پر اثر انداز ہوتی ‏ہے سماجی اور معروضی صورت حال ہی خیالات کو جنم دیتی ہے اردو ادب میں شعر کو تھورائیز کرنے میں ابھی وقت لگے گا کیونکہ ابھی اردو ‏نقاد و ادیب نظریہ شعر پر متفق ہونے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے کیونکہ ان کو موجودہ حالات میں محبت یا مذہب کو ایک ساتھ یا ان دونوں ‏میں سے ایک کو منتخب کرنے میں بہت سی مشکلات کا سامنا ہے ہماری سوچ انسان، مذہب، ادب اور سماج کے بارے میں واضح نہیں ہے لہذا ‏آج کے نقاد اور ادیب کا اردو میں نظریہ شعر کا خیال دھندلا سا ہے، ہمارے ہاں جدید علوم و افکار کو مذہب کے ساتھ لے کر چلنے کی بجائے ‏مذہب کا زندگی میں ضرورت سے زیادہ بے جا عمل دخل بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے شاعر بہت احتیاظ سے لکھتا ہے یا پھر لکھتا ہی نہیں ہے ‏کیونکہ خوف و ہراس اور افراتفری کے ماحول میں محبت کے جذبوں کی سچائی کا بیان کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے ‏معاشرے میں آزادی اظہار رائے پر قدغن کی وجہ سے سماجی، مذہبی اور ادبی ماحول میں وہ سب کچھ قابل سزا ہے جو شاعر لکھنا چاہتا ہے، ‏نصاب میں ایک دوسرے کے عقائد اور مسالک کو نفرت انگیز طریقے سے نئی نسل کو پڑھایا جاتا ہے تاریخ کو مسخ کر کے اس میں خود کو ‏سب سے اعلی اور باقی تمام اقوام کو حقیر اور پست لکھتے ہیں ہم دنیا کے کسی بھی کونے میں اپنے ہم مذہب کے ہر کام کو اس طرح فخریہ انداز ‏میں دیکھتے ہیں کہ اپنی نسل کو انسانیت کے خلاف کام کرنے والے کو ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں چاہے وہ کام پر امن دنیا کی تباہی و بربادی کا ‏سبب بنے اور انسانیت کی اس میں نذلیل اور ہماری بدنامی کا سبب ہو، یوں میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ دور میں اردو میں تخلیق ہونے والی ‏شاعری آنسوں کی مانند ریت میں جذب ہو رہی ہے۔
‏4۔ ایک ادیب کی معاشرتی اور ادبی ذمہ داریاں کیا ہیں ؟ ‏
ادیب اپنے معاشرے کا قرض دار ہوتا ہے اور اس قرض کو وہ یوں اتار سکتا ہے کہ جس معاشرے میں وہ زندہ ہے اس کو امن، محبت اور ‏انصاف کا پیغام دے اور اس جدید دور میں ادیب کو سچ لکھنے کی عادت ڈالنی پڑے گی اور جھوٹ کو سچ لکھنا چھوڑنا پڑے گا دلائل اور حقائق ‏کے ذریعے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے کو قائل کرنا ہے ناکہ تشدد اور زور زبردستی سے اپنی بات منوانے کے طریقے اپنائے۔ آج نامساحد ‏حالات میں ادیب کی ذمہ داریاں انتہائی نازک موڑ پر ہیں کیونکہ ہم نے اپنی نئی نسل کو ایسے طرز احساس اور فکر و خیال کا اثاثہ منتقل کرنا ہے ‏جو اپنی تہذیب و ثقافت کی اقدار کی حفاظت بھی کر سکے اور عالمی سطح پر در پیش چیلنجزز کا سامنا بھی کر سکے ادیب کا ادب کے ساتھ ایمان دار ‏ہونا ضروری ہے وہ تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ہو اپنے اردگرد ماحول پر نظر رکھتے ہوئے لوگوں کو در ہیش مسائل کے پائیدار اور مستقل حل ‏کی تلاش میں رہے اور قابل اعتماد اور درست سمت کا تعین کرے۔
‏5۔ آپ ادبی گروہ بندیوں کو ادب کے لئے نقصان دہ سمجھتے ہیں یا مفید ؟
اگر تو انسانی رنگ ونسل اور امتیازی رویوں کی بنا پر یا ذات برادری یا مذہب یا پھر ذاتی پسند و نا پسند کی بنیاد پر گروہ بنائے جائیں تو یہ ادب کے ‏لئے ناقابل برداشت ہیں کیونکہ ایسے میں جو ادب تخلیق ہوگا وہ کسی بھی طرح مقامی یا بین اقوامی سطح پر معیاری نہیں ہوگا اور اگر یہ ادب کی ‏اصناف اور شعبوں پر مبنی ہیں تو ادب کی ترقی وترویج کے لئے سود مند ہیں۔
‏6۔ آپ کی تنظیم کا نام اور کس طرح کے پروگرام منعقد کروا چکے ہیں آپ کی کتنی کتب اب تک شائع ہو چکی ہیں؟
سن انیس سو چوراسی 1984 میں فیصل آباد سے ساوتھ ایشین کرسیچن رائٹرز ایسوسی ایشن کا آغاز کیا تھا جب میں اٹلی آ گیا تو دو ہزار نو ‏‏2009 میں ایک اور تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا نام ساوتھ ایشین مینارٹیزز رائٹرر ایسوسی ایشن ہے کیونکہ یورپ میں ہم برصغیر سے آئے ‏ہوئے لوگ رنگ ونسل اور زبان و ثقافت کی وجہ سے اقلیت میں ہیں اس لئے اس تنظیم کی اشد ضرورت تھی ہم دو ہزار نو 2009 سے ‏سالانہ عالمی اردو زبان و ادب پر چار روزہ کانفرنس اور سمینار اپنی مدد آپ کے تحت کرواتے ہیں جس میں مشاعرے، مقالے، ثقافتی ‏پروگرام اور ایشین موسیقی کے پروگرام ترتیب دئے جاتے ہیں۔ میرے اب تک چھ شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں ایک، نئی ‏رت کے گیت ، کا مجموعہ گیتوں پر مشتمل ہے اور ایک اردو زبان میں، خواب کی کشتی پر، ماہیوں پر مشتمل مجموعہ ہے باقی مجموعوں کے نام ‏ہیں، ہاتھ پر دیا رکھنا،ندی میں اترتا ستارہ، ستارا ندی اور میں اور برگزیدہ حسین لوگ شامل ہیں اس کے علاوہ دو افسانوی مجموعے ، لاریب اور ‏شطرنج لڑکی اور فالتو چیز ہیں ایک طویل ناول ،ہم گمشدہ لوگ، مکمل ہے جو اگلے شائع ہو گا کچھ کتب کے اردو میں تراجم کیے ہیں جو شائع ہو ‏چکی ہیں ایک کتاب مسیحی مسلم رابطہ وقت کی اہم ضرورت بھی فیصل آباد سے شائع ہو چکی ہے۔ ‏
‏7۔ مشاعرہ اردو ادب کی ترقی و ترویج کے لئے کتنا اہم اور ضروری ہے ؟
مشاعرہ اردو شاعری کی ایک پرانی روایت ہے جس کا اردو شاعری کی ترقی میں اہم کردار رہا ہے اس روایت کو قائم رہنا چاہیے مگر آج کل ‏مشاعروں میں سنائے جانے والے شعری کلام کے خیال و موضوع اور الفاظ کے انتخاب کے علاوہ صنائع بدائع اور مروجہ بحور پر توجہ دینے ‏کی ضرورت ہے۔
‏8۔ اٹلی کے حوالے سے اپنی یادوں کو ہمارے ساتھ شئیر کریں ؟
سن انیس سو چھیانوے 1996کا واقعہ ہے اٹلی میں آئے مجھے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا اطالوی زبان بھی ابھی کوئی خاص نہیں آتی تھی ‏ایک بار میں مقامی تھیٹر میں دانتےایلگری کی ڈیوئن کامیڈی پر مبنی سٹیج ڈرامہ دیکھنے اکیلا ہی چلا گیا پورے ہال میں صرف اکیلا میں ہی برصغیر ‏سے تھا ڈرامے کے کرداروں کی مجھے کچھ سمجھ آ گئی مگر اطالوی زبان کے مکالمے مجھے سمجھ نہ آئے ڈرامہ ختم ہو گیا تو ڈرامہ کا ڈائریکٹر مجھے ‏برصغیر سے آیا ہوا سیاح سمجھ کر میرے پاس آ گیا اور مجھ سے سوال کیا کہ آپ کو ڈرامہ کیسا لگا ہے میں نے جواب میں کہا بہت اچھا تھا اور پھر ‏میں نے اسے انگریزی میں ڈیوئن کامیڈی سنانی شروع کر دی کیونکہ میں پاکستان میں ڈیوئن کامیڈی پڑھ چکا تھا وہ بڑے دھیان اور انہماک ‏سے سن رہا تھا اور بار بار سر کو جنبش یوں دے رہا تھا کہ جیسے ہرلفظ اسے سمجھ آ رہا ہے کہ چوکیدار کی آواز آئی کہ حضرات میں نے ہال بند کرنا ‏ہے جب ہم ہال سے باہر آئے تو اس نے خدا حافظ کہنے سے پہلے مجھے کہا کہ مجھے انگریزی نہیں آتی اس لئے مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی کہ آپ ‏نے کیا کہا ہے مگر ایک بات میں آج سمجھ گیا ہوں کہ پاکستانی عالمی ادب کو پڑھتے اور اطالوی ادب کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ‏
‏9۔ زندگی کا کوئی یاد گار واقعہ ؟
میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا اور بورڈنگ ہاوس میں رہتا تھا سال میں تین یا چار مرتبہ گھر جانے کا موقع ملتا تھا یوں ماں اور بڑی بہن ‏جمیلہ کے پاس رہنے کا بہت کم وقت ملتا تھا کیونکہ ان دونوں سے میرا زیادہ پیار تھا اس بار جب میں گرمیوں کی چھٹیوں میں گھر آیا تو ماں بہت ‏بیمار تھی ایک دن میں ان کی چارپائی کے قریب بیٹھا ہوا تھا کہ ماں نے مجھے کہا تمہارا باپ کہاں ہے میں نے جواب دیا کہ وہ دوسرے کمرے ‏میں ہیں جلدی سے ان کو بلاو میں دوڑ کر گیا اور انہیں بلا لایا ماں نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے میرے باپ سے کہا جوجے ( گھر میں ‏میرا لاڈ کا نام ) کا خیال رکھنا اور اس کے ساتھ ہی ماں کی سانس بند ہونا شروع ہو گئی اور آہستہ آہستہ اس کی جان نکل گئی میں نے اپنی ماں کو ‏اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے دیکھا مگر اس کی سانس بحال نہ کر سکا چند منٹ کے بعد میں تیز بخار اور پیٹ کی بیماری میں مبتلا ہو گیا او ر ایک ‏ہفتہ مجھے ہسپتال میں داخل رہنا پڑا ، یوں ڈاکڑوں نے مجھے مرنے سے بچا لیا ۔ دوسرا واقعہ میری بہن جمیلہ کا آگ میں جل کرمرنا تھا جو خاوند ‏اور چار بچوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی بسر کر رہی تھی اور ڈاکٹرز اس کو بچا نہ سکے دونوں واقعات آج بھی کبھی کبھار میری راتوں کی نیند ‏اڑ دیتے ہیں اور مجھے بیوی بچوں سے بے خبر کر کے کسی اور دنیا میں گم کر دیتے ہیں۔
‏10۔ سیاست سے دلچسپی ہے ؟
‏ ہا ں بالکل ہے مگر وہ سیاست جو تشدد اور خوف سے پاک ہو جو صاف ستھری اور سچ، امن و انصاف اور محبت پر مبنی ہو۔
‏11۔ محبت ایک بار ہوتی ہے یا ایک بار سے زیادہ بار ہو سکتی ہے ؟
محبت ایک انمول جذبہ ہے جو خدا نے انسان کو تحفہ دیا ہے اگر آپ کائنات کی ہر چیز کو محبت سے دیکھنا شروع کر دیں تو آپ کے مشائدے ‏میں آئے گا کہ ہر چیز خوبصورت ہے آپ کو احساس ہو گا کہ محبت وہ چیز نہیں ہے جو آپ کرتے ہیں بلکہ وہ ہے جو آپ محبت سے کرتے ہیں ‏محبت تو ہوا کی طرح ہے جس کو آپ دیکھ نہیں سکتے محسوس کر سکتے ہیں، افلاطون نے کہا کہ محبت کو جو چھو لیتا ہے وہ شاعر بن جاتا ہے، نطشے ‏نے کہا کہ محبت میں ہر وقت پاگل پن موجود ہوتا ہے لیکن اس پاگل پن کا ہمیشہ کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے اور بخشش محبت کی حتمی شکل ہوتی ‏ہے، محبت انسان کو بار بار اپنی گود میں لے لیتی ہےلیکن خاندان بنانے کے لئے محبت ایک بار ہی ہوتی ہے جو انسانی بقا کے لئے نہائت اہم ‏ہے۔
‏12۔ اٹلی میں اردو زبان و اد ب کی کیا صورت حال ہے ؟
اٹلی میں اردو زبان کی بہت مخدوش حالت ہے لیکن ہم ابھی تک اردو کا دامن تھامے ہوئے ہیں لکھنے پڑھنے اور بولنے کے لئے اسی کا استعمال ‏کرتے ہیں مگر صرف گھروں میں اور ہم وطنوں کے پروگراموں میں۔ لیکن ہماری نسل بولنے اور سمجھنے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے پڑھنا اور ‏لکھنا وہ بھول چکے ہیں اور ان کے بچے یعنی ہماری تیسری نسل اس کو کوئی اجنبی زبان کے طور پر لیتے ہیں چند فقرے اور الفاظ کے علاوہ وہ کچھ ‏نہیں جانتے، چند آن لائن اردو اخبار زبان کی خدمت کر رہےہیں اسی طرح اردو ادب کی صورت حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے جو لوگ اردو ‏زبان میں لکھ رہے ہیں وہ انگلیوں پر شمار کیے جا سکتے ہیں اردو زبان و ادب کو زندہ رکھنے کی کوششوں میں رضا الحق اور ملک نصیر کے ساتھ دو ‏تین لوگ ہیں جو سال میں ایک دو بار اپنی مدد آپ کے تحت مشاعرہ یا کسی نامور شخصیت کے اٹلی آنے پر پروگرام کر لیتے ہیں پورے اٹلی ‏میں صرف تین ادبی تنظمیں ہیں حلقہ ادب و ثقافت پاکستان، ساکواہ اور سمواہ، جو اردو زبان و ادب کی اپنی مدد آپ کے تحت خدمت کر ‏رہی ہیں حکومت پاکستان کو ایک واضع پالیسی کے تحت اٹلی میں پاکستانی ایمبسی اور قونسل خانے کو فنڈز مہیا کرنا چاہیے جو اردو زبان و ادب ‏اور پاکستانی ثقافت کے لئے مختص ہوں۔ ‏
‏13۔ یورپ میں کتاب کا مستقبل کیا ہے ؟
جدید ٹیکنالوجی کے باوجود یورپ میں آج بھی کتاب کا مستقبل روشن ہےآج بھی زیادہ تر لوگ کتاب خرید کر پڑھتے ہیں بڑے تہواروں پر ‏تحفے میں کتاب دینے کا رواج ہے آج بھی ایک کتاب کا یورپ میں بولی جانے والی کم از کم چار زبانوں میں ایڈیشن بیک وقت لاکھوں کی تعداد ‏میں شائع ہوتا ہے لوگ فارغ وقت میں کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں سفر میں زیادہ تر لوگ کتاب کو ہم سفر رکھتے ہیں اور کتاب کا مصنف ایک ‏کتاب کی اشاعت سے اتنے پیسے کما لیتا ہے کہ خوشحال زندگی بسر کرتا ہے۔