Novels

ہم گُمشدہ لوگ
ناول

جیم فے غوری
ناول کے کل اکیس ابواب ہیں اور کل تین سو چار صفحات ہیں
نستعلیق مطبوعات
F-3‎‏ الفیروز سنٹر غزنی سٹریٹ اُردو بازار، لاہور
‎0300-4489310 / 0331-4489310‎

Copyright © 2019‎
‎ All rights reserved.‎
The author would like to apologise
for any inconvenience caused.‎

جملہ حقوق بحق مصنف محفوظ ہیں
نام ناول ‏ ہم گمشدہ لوگ
مصنف ‏ جیم فے غوری
اشاعت اول نومبر ‏‎2019‎ء
سرورق احسن گرافکس
طابع حاجی منیر اینڈ سنز، لاہور
‏ تعاون ‏ ساکواہ اور سامواہ ( پاکستان اور اٹلی) ‏
قیمت

نستعلیق مطبوعات
F-3‎‏ الفیروز سنٹر غزنی سٹریٹ اُردو بازار، لاہور
‎0300-4489310 / 0331-4489310‎

انتساب

٭ یورپ میں آباد اردو زبان میں
‏ ادب تخلیق کرنے والوں
‏ کے نام۔
٭ ایم حمید شاہد،مرزا اطہر بیگ
‏ اور
‏ آصف عمران
‏ کے نام۔ ‏


مجھ کو دیارِ غیر میں مارا وطن سے دُور
رکھ لی مرے خدا نے مری بیکسی کی شرم
‏ ‏‎ ‎‏ ‏‎ ‎‏ غالب

پہلا باب:‏

‏ اگر ایک آدمی یہ سوچتا ہے کہ سوچنا ہی سب کچھ ہے تو جو کچھ وہ ذہن یا دماغ سےسوچ کرکرتا ہے اس عمل میں خیال بھی شامل ہوتا ہے۔
میں کیوں سوچتا ہوں میں اپنے لئے سوچتا ہوں کہ میرا وجود قائم رہ سکے کیا میں دوسروں کے لئے سوچتا ہوں کیا میں وقت بے وقت سوچتا رہتا ہوں ‏کیا میں خود کے لئے سوچتا ہوں کیا میں اس لئے زندہ ہوں کہ میں سوچتا ہوں یا پھر دوسروں کے لئے زندہ ہوں۔
یہ سوچ کا عمل کیا ہے میں کیوں سوچ رہا تھا ، نور جہاں کو ابھی تک میں کیوں نہیں سمجھ سکا میں اس کی سوچ تک کیوں نہیں پہنچ سکا وہ جو کچھ زبان سے ‏لفظوں کی صورت میں ادا کررہی ہوتی ہے اُس وقت میری اس کے دماغ کے اندر تک کیوں رسائی نہیں ہوتی تاکہ میں اس کے بولنے سے پہلے ہی ‏یہ جان لوں کہ وہ کیا کہنے والی ہے۔
‏ انسان کے سوچنے کا عمل کیا ہے یہ انسان کے لئے ایک دوسرے سے پوشیدہ کیوں ہے اس میں کیا راز ہے ایسا کیوں ہے یہ سب کچھ سوچتے ہوئے ‏اس نے دماغ کے پردے پر کئی منظر تخلیق کرنے کے بعد سوچا کیا شیکسپئر نے درست کہا ہے کہ ہم وہ نہیں ہوتے جو ہم کرتے ہیں بلکہ وہ ہوتے ہیں ‏جو ہم سوچتے ہیں یہ سب کچھ سوچنے کے ساتھ اس نے پیدل چلنا بند نہیں کیا ۔
‏ اس نے زیتون کے دو رُویہ درختوں کے درمیان سمینٹ، ریت اور بجری کے ملاپ سے بنائی گئی پگڈنڈی پر چلتے ہوئے زیتون کے پیڑوں کی طرف ‏دیکھنا شروع کر دیا جن پر پھل ابھی پوری طرح سے پکا نہیں تھا ابھی وہ تیل سے بھی مکمل طور سے بھرے نہیں تھے یہ درخت بڑی مہارت کے ‏ساتھ ایک قطار میں یکساں فاصلے پر لگائے گئے تھے وہ رُک گیا اور جب وہ درختوں کو دیکھتا ہوا ایک پاوں پر پورا گھو م کر سیدھاہوا تواُسے محسوس ‏ہواکہ وہ اپنی کوئی ضروری چیز کہیں پیچھے گرا آیا ہے وہ ٹھٹکا، ایک لمحہ کیلئے اس نے سوچا اور اپنے قریب سے گذرنے والی سرُخ و سفید رنگت اور ‏سڈول بدن والی تین لڑکیوں کو آنکھیں سکیڑ کر دیکھا ایک ہاتھ کو کندھے کے برابر لا کر پیچھے کی طرف اپنے کسرتی بدن کو گھُمانے کی کوشش میں وہ ‏تھوڑا سا پھسل گیا جس کی وجہ سے اس کے جُوگنگ بوٹوں کے تلوؤں نے سمینٹ سے بنے فرش کے ساتھ اس طرح رگڑ کھائی کہ مدہم سی انوکھی ‏آواز پیدا ہوئی جس پر ان تینوں سپورٹس لباس میں ملبوس یعنی دو کپڑوں والی لڑکیوں نے چلنے کی رفتار کم کیے بغیر گردن گھُما کر اس کی طرف ایک ‏انجانی نظر سے دیکھا اور پھر آپس میں باتیں کرتی ہوئیں تیز تیز قدم اُٹھاتی آگے کی طرف چلنے لگیں ۔ان میں سے ایک بھُورے بال اور سبز ‏آنکھوں والی اٹھارہ اُنیس سالہ لڑکی نے دوبارہ اسے مڑ کر دیکھا اور چند سکینڈ تک چلتے چلتے یوسف کو عجیب نظروں سے دیکھنے کے بعد دوبارہ اپنی ‏ساتھی لڑکیوں سے باتوں میں مصروف پگڈنڈی پر چلتی ہوئی آگے کی طرف بڑھ گئی۔
یوسف نے بھُورے بالوں والی لڑ کی کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اور نہ ہی دوسری دونوں لڑکیوں کی طرف دیکھا وہ پگڈنڈی پر نظریں جمائے جس ‏طرف سے آیا تھا اس طرف واپس چلنے لگا تقریباً سو میٹر واپس آنے کے بعد اسے وہ دستی گھڑی مل گئی جو اس کی زندگی کا لازمی حصّہ بن چکی تھی اُس ‏نے جھک کر دائیں ہاتھ سے اسے اُٹھایا اور بائیں ہاتھ کی اُنگلیوں سے اس کا شیشہ صاف کرنے کے بعد اسے اپنے دائیں کان کے ساتھ لگایاتاکہ یہ جان ‏سکے کہ گھڑی گرنے کے بعد صحیح کام کر رہی ہے یا خراب ہو چکی ہےگھڑی میں سے ٹک ٹک کی آتی آواز سن کر اس نے بند ہونٹوں میں سےْ ہوںٗ ‏کی آواز نکالی اور یہ یقین کرلینے کے بعد کہ گھڑی ابھی تک درست ہے اور اپنا کام ٹھیک طریقے سے کر رہی ہے اس نے دوبارہ گھڑی کلائی پر باندھ ‏لی اور دوبارہ پتلی پگڈنڈی پر چلنا شروع کر دیا۔
آج ا ُس کے چلنے کی رفتار معمول سے کم تھی اپنی بائیں کلائی آنکھوں کے سامنے لاتے ہوئے اس نے گھڑی پر وقت دیکھا تو شام کے چھ بج چکے تھے ‏وہ معمول کے مطابق پانچ بجے پارک میں داخل ہوا تھا اب تک اُسے اس پارک کے چار چکر مکمل کر لینے چاہیے تھے لیکن ابھی تک تین چکر مکمل ‏ہوئے تھے پارک کا ایک چکر سوا کلو میٹر کا تھا ابھی پندرہ منٹ کا ایک اور چکر لگانا باقی تھااُس نے تیز تیز قدم اٹھانے شروع کر دئیے تاکہ جلد چکر ‏مکمل کر سکے۔
آج پارک میں زیادہ لوگ نہیں تھے ایک ادھیڑ عمر کاجوڑا تھا جو اس کے پیچھے تھا اور تین لڑکیاں جو اس سے آگے چل رہی تھیں۔ چوتھا چکر مکمل ‏کرنے کے بعد وہ مصنوعی جھیل کے کنارے ایک بینچ پر بیٹھ گیا جو لکڑی کا بنا ہوا تھا مصنوعی جھیل تقریباً ایک کلو میٹر لمبی اور پانچ سو میٹر چوڑائی میں ‏تھی وہ جھیل میں پانی کی ٹھہری ہوئی سطح کی طرف بڑے غور سے دیکھنے لگا۔ ‏
یہ پارک شہر کی گنجان آبادی سے تھوڑے فاصلہ پر بنایا گیا ہے اس کی گولائی سوا کلو میٹر سے کچھ زیادہ ہے یہ پارک اور جھیل شہر کے جنوب کی ‏طرف واقع ہے اسی طرف چھوٹی سرسبزپہاڑیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جن پر زیتون کے باغات کے ساتھ ساتھ انگور کے باغات کا نہ ختم ‏ہونے والا سلسلہ ہے ان کے درمیان سیب اور ناشباتی کے باغ بھی کہیں کہیں نظر آ جاتے ہیں اس علاقے کی سُرخ مے اور سفید مے کے ساتھ ہلکی ‏گلابی مے سارے اٹلی میں مشہور ہے۔یہ علاقہ ڈئیری فارمز سے بھرا پڑا ہے اور ان فارمز پر زیادہ تر انڈیا سے ہجرت کرکے آنے والے کام کرتے ‏ہیں اطالوی لوگ زیادہ تر انڈیا سے ہجرت کر کے آنے والے ہندو یا سکھ لوگوں کو ملازم رکھتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں ان سے بہترگائے کی ‏حفاظت اور کوئی نہیں کر سکتا کیونکہ ہندو مذہب میں گائے ان کے لئے ایک مقدس جانور ہےیہاں پر دودھ سے پنیر کے علاوہ بہت سی اشیاء اور ‏گوشت کو محفوظ کر کے کئی اقسام کی ڈیشزز تیار کی جاتی ہیں.جس کی وجہ سے یہ علاقہ بہت امیر خیال کیا جاتا ہے اور چھوٹی سر سبز پہاڑیوں سے ‏گرنے والی آبشاروں اور چھوٹے دریاؤں کی وجہ سے دلکش قدرتی حسین مناظر اپنی خوبصورتی کی وجہ سے سیاحوں میں مشہور و مقبول ہیں۔
۔۔۔۔

دوسرا باب:‏
یوسف صحت مند اور خوبصورت نوجوان تھا جو برصغیر پاک و ہند اور اطالوی نسل کے ملاپ سے پیدا ہونے والا نوجوان تھا جس کی اس وقت پنتیس ‏سال عمر تھی،اس کے باپ نے اٹلی میں اس وقت ہجرت کی تھی جب وہ بیس برس کا خوبرو پنجابی نوجوان تھا اس نے اٹلی میں رہائش کے دوران ‏سب سے پہلا اہم کام اپنی زندگی کا یہ کیا تھا کہ ایک مقامی اطالوی دوشیزہ کی محبت میں گرفتار ہو کراسے مختلف طریقوں سے پہلے اپنی طرف متوجہ کیا ‏پھر اسے اچھی طرح سے اپنی محبت کے جال میں پھنسا کر شادی پر رضا مند کر لیا اور آخر کار ایک مقامی چرچ میں اس سے ساتھ شادی کر لی ۔
شادی کے ایک سال بعد یوسف کی پیدائش ہوئی اور چار سال بعداس کی بہن تمثیل نے جنم لیا۔‎ ‎یوسف نے اسی شہر میں تین سال کی عمر میں نرسری ‏سے تعلیم کا آغاز کیا اور اسی شہر کے میڈیکل کالج اور پھر مقامی یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔
‏ مطالعہ کا شوقین ہونے کی وجہ سے اس کے گھر کی لائبریری میں بے شمار کُتب تھیں جن میں اردو اور پنجابی کی کُتب بھی شامل تھیں ان میں بائبل ، ‏گیتا اور قرآن کے اردو تراجم بھی موجود تھیں ۔
وہ تاریخ کا مطالعہ بڑے شوق سے کرتا تھاآمدن معقول ہونے کی وجہ سے اپنے ملبوسات پر خاص دھیان دینے والا اورروایتی کھانوں کا بے حد ‏شوقین اور کھانے کے دوران اعلی کوالٹی کی سفید رنگ کی مے کا چھوٹا کلاس پینا اس کا معمول تھاوہ بڑا ملنسار اور اخلاق سے پیش آنے والا خوُبرو ‏نوجوان تھا ہر ملنے والے سے نرم لہجہ میں گفتگو کرتا تھا اور بات کرتے ہوئے بہت احتیاط کے ساتھ اچھے الفاظ کا انتخاب کرتا ۔
اسے اپنے ملنے والوں اور اپنےکلینک پر آنے والے مریضوں کی دل آزاری کرنا پسند نہیں تھی ان کا حوصلہ بڑھانا اور تسلی دینا اس کا پہلا کام تھا ، امن ‏پسند اور دینا میں امن کی داعی تنظیموں کے اجلاسوں اور احتجاج میں شرکت بھی کرتا اور اُنھیں باقاعدگی کے ساتھ چندہ بھی دیتا تھا ،کاتھولک فرقے ‏کا پبتسمہ یافتہ ہونے کے باوجود وہ کبھی کبھار ہی گرجا گھر میں ہفتہ وار ہونے والی عبادت میں شرکت کےلئے جاتا تھا ہاں البتہ جب کسی دوست ،رشتہ ‏دار یا کسی قریبی جان پہچان رکھنے والے کی موت واقع ہو جاتی تو وہ وقت نکال کر جنازے میں ضرور شرکت کرتا اور چرچ میں ہونے والی تمام ‏رسومات میں بھی شرکت کرتا تھا بلکہ تمام مذاہب کے ماننے والے جو اس کے حلقہِ جان پہچان میں تھے ان کی مذہبی اور ثقافتی تقریبات میں شامل ‏ہونے کی کوشش کرتا تھا۔
‏ وہ سفید رنگت اور سیاہ گھنے بالوں کا مالک تھا،آنکھوں کا رنگ بُھورا تھا اور ناک اس کی بالکل اپنی ماں جیسی ستواں اور خوبصورت تھی ہونٹ باریک ‏اور سرخ تھے جب وہ مسکراتاتھا تو سفید دانتوں کی قطار بہت بھلی لگتی تھی۔ ‏
وہ جھیل کے پانی کو مسلسل ٹکٹکی باندھ کر دیکھے جا رہا تھا اب اس کے سامنے سے راج ہنسوں کا ایک گروہ گذر رہا تھا جو بہت پُرسکون انداز میں پانی میں ‏ہچل پیدا کیے بغیر ایک قطار میں گذر رہے تھے ان کو دیکھتے ہوئےاس کی سوچ کا سلسلہ اس وقت ٹوٹا جب راج ہنسوں کے ایک گروہ میں شامل دونر ‏راج ہنسوں نے آپس میں لڑنا شروع کر دیا اور زور سےچیخنا چلانا شروع کر دیا۔ ان کا مسلہس یہ تھا کہ ایک ہی مادہ پر دونوں فدا تھے اور اس کے قریب ‏رہنا چاہتے تھے حالانکہ اس گروہ میں کافی مادہ تھیں۔
‏ چند لمحے وہ ان کی اس لڑائی کو دیکھتا رہا پھر اس نے گھڑی کی طرف دیکھا تو ایک گھنٹہ تیس منٹ اسے پارک میں گذر چکے تھے وہ بڑبڑایا، آج میں اتنا ‏سست کیوں ہوں، میرے ساتھ آج کیا ہو رہا ہے، حالانکہ آج سردی بھی زیادہ نہیں ہے اس نے گھڑی کی طرف دیکھا اس پر موجود موسم کا درجہ ‏حرارت آٹھ سیٹی گریڈ تھا اور دُھند بھی ہلکی سی تھی پارک میں بھی ہر شے معمول کے مطابق تھی وہی پگڈنڈی،وہی درخت اور جھیل اور اس میں ‏راج ہنس اور سفید اور رنگ دار بطخیں، وہی لوگ جن کو چند سالوں سے اسی طرح چہل قدمی کرتےہوئے کبھی نرم اور کبھی تند و تیز گفتگو کرتے ‏دیکھ رہا تھا۔
وہ لکڑی کےبینچ پر سے اُٹھا اور پگڈنڈی پر آ گیا اس وقت ایک ادھیڑ عمر جوڑا اس کے قریب سے گذر رہے تھے۔ رسمی سلام دعاکے بعد وہ جوڑا ‏آگے کی طرف بڑھ گیا یوسف ان کے پیچھے آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا ہوا چلنے لگا۔ اکثر وہ اُنھیں عالمی سیاست اور معاشیات پر گفتگو کرتے ہوئے پاتا تھا ‏مگر آج وہ دونوں اپنا ماضی یاد کر رہے تھے ۔
پہلی ملاقات،پہلا بوسہ اور پھرشادی اس کے بعد بچے اور وہ گھر جہاں اُنہوں نے زندگی کے پینتیس سال ایک ساتھ گذر دئیے۔
وہ اور آہستہ چلنے لگا ، کیونکہ وہ ان کی یادیں نہیں سننا چاہتا تھا اب کافی فاصلہ ہونے کی وجہ سے وہ ان کی آواز نہیں سن سکتا تھا۔اس نے گھڑی کی ‏طرف دیکھا ایک گھنٹہ پینتیس منٹ ہو چکے تھے۔‎ ‎آج نور جہاں بھی ابھی تک نہیں پہنچی اس نے زیرِ لب دہرایا اور پارک کے مرکزی دروازے کی ‏طرف چلنے لگا ابھی وہ چند قدم آگے بڑھا ہی ہو گا کہ اسے دور سے نور جہاں اپنی طرف آتی نظر آئی وہ دوبارہ بینچ پر بیٹھ گیا اور جھیل کے پانی پر تیرتی ‏ہوئی چھوٹی بطخیں دیکھنے لگا۔
نور جہاں پاکستانی اور اطالوی نسل کے ملاپ کا شاہکار تھی وہ تیکھے نین نقش والی تنتیس سالہ حسین عورت تھی جو باپ کی طرف سے پاکستانی اور ماں ‏کیطرف سے اطالوی تھی۔اُس کی پہلی محبت ناکام ثابت ہو گئی تھی جو ہائی سکول سے شروع ہوئی اور یونیورسٹی کے پہلے دو ابتدائی سالوں میں ہی ختم ہو ‏گئی تھی ۔
جس کی وجہ یہ تھی کہ نور جہاں اپنی پڑھائی اور ماں باپ کے ساتھ زیادہ وقت گذارتی تھی اور اس کے منگیتر کو یہ اچھا نہیں لگتا تھا جس کی وجہ سے ان ‏میں دوُری ہوتی چلی گئی ،ایک دن یونیورسٹی کے پیزا ہاوس میں لنچ کے دوران انہوں نے پُرامن مذاکرات کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ ہماری ‏مصروفیات کچھ اس طرح سےایک دوسرے سے مختلف ہو چکی ہیں کہ اب ہم ایک راستے پر سار ی زندگی نہیں چل سکتے ہمارے راستے اب الگ ‏الگ ہو چکے ہیں اس لئے آج سے ہم اپنے اپنے راستے پر چلتے ہوئے ایک دوسرے کو اپنی محبت کی قید سے آزاد کرتے ہیں۔ نور جہاں نے اپنی نیلی ‏آنکھوں سے بہنے والے آنسو صاف کیے اور ماریو کو آخری بوسہ دیتے ہوئے اسے کہا اپنا خیال رکھنا۔
‏ تم بھی اپنا خیال رکھنا ماریو کی طرف سے بھی اداس لہجے میں یہی جواب آیا۔
نور جہاں نے صرف سر ہلایا اور پیزا ہاوس سے نکل کر اپنے کلاس روم کی طرف چلی گئی۔
کلاس شروع ہونے میں ابھی دس منٹ باقی تھے مگر نور جہاں نے کلاس روم میں ہی بیٹھے رہنے کو ترجیح دی ۔اور آج کے اہم موضوع فرائیڈکی بیان ‏کردہ انسانی نفسیات پر لیکچر دینے کے لئے آنے والے پروفیسر اور کلاس فیلوز کا بظاہر پُر سکون انداز میں انتطارکرنے لگی۔مگر وہ اصل میں اپنی ‏زندگی کےبارے میں منصوبہ بند کر رہی تھی وہ سوچ رہی تھی اس کا مستقبل کس طرح کا ہونا چاہیےاور اتنی لمبی عمر دنیا میں بسر کرنے کا اس کا مقصد ‏کیا ہو گا اور اس جدید دنیا میں اسے زندگی کس ڈھنگ سے بسر کرنی ہے۔ اس کے زندگی کا ساتھی کیسا ہونا چاہیے، اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد وہ ‏کہاں ملازمت کرے گی کیا اسے ترقی یافتہ دنیا کو چھوڑ کر کسی دور دراز کی دنیا میں چلے جانا چاہیے جہاں ایسی دنیا آباد ہو جو بنیادی انسانی سہولیات سے ‏محروم ہماری جدید ترقی یافتہ دنیا سے نا آشنا ہو اور لوگ صحت کے لئے بنیادی طبعی اور غذائی سہولیات سے محروم زندگی کے دن گذاررہے ہوں آخر ‏میں وہ اس فیصلے پر پہنچ گئی کہ وہ زندگی کا ساتھی اس کو منتخب کرے گی جس کی زندگی کا مقصد میرے مقصد سے بالکل ملتا نہ بھی ہوا لیکن وہ اس کے ‏قریب ضرور ہو اور میرے مقصد کو سمجھتا ہو ، جو میرے ساتھ کسی غریب ملک کے پسماندہ لوگوں کی صحت کے مسائل کو حل کرنے میں میری مدد ‏کرے اور زندگی کے اس شعبے میں خدمت کرنے کے لئے میرے ساتھ تیار ہو۔‏
۔۔۔۔۔
تیسرا باب:‏
یوسف اپنے ایک ہاتھ میں پیزا کا ڈبہ اور دوسرے ہاتھ میں بیئر کی بوتل تھامے یونیورسٹی کے پیزا ہاوس میں اپنے بیٹھنے کے لئے جگہ تلاش کر رہا تھا ‏اسے ایک کونے میں دو کرسیوں والے چھوٹے میز پر نور جہاں بیٹھی نظر آئی جس کے سامنے والی کرسی خالی تھی اس سے پہلے کہ کوئی اور اس جگہ پر ‏قابض ہو جائے وہ جلدی سے اس کی طرف بڑھا اور اپنا بیگ خالی کرسی کی پچھلی ٹانگوں کے ساتھ لٹکاتے ہوئے بیٹھنے کی اجازت طلب کی ۔
کیا میں اس خالی کرسی پر بیٹھ سکتا ہوں ؟
کیا یہ واقعی خالی ہے آپ کو یقین ہے؟
‏ اور اس سے پہلے کہ نور جہاں کوئی جواب دے اس نے پیزے کا ڈبہ میز پر رکھا اور اپنا کوٹ بھی کرسی کی پشت پر لٹکایا اور بیٹھ گیا ۔
اس سارے عمل کے دوران نور جہاں پیزا کا آخری ٹکڑا کھانے میں مصروف رہی اس نے کسی قسم کا کوئی ردعمل نہیں دیا ۔‏
یوسف نے جلدی جلدی پیزا ختم کیا اور بیئر کی بوتل میں سے دو تین گھونٹ حلق میں اتارے تو اسے احساس ہوا کہ سامنے والی کرسی پر آج نور ‏جہاں غیر متوقع طور پر اداس بیٹھی ہے جس نے اس کے ساتھ کبھی بات نہیں کی تھی وہ ہر بار جب اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا تھا تو اس کا ‏دوست ماریو اس کے ساتھ ہونے کی وجہ سے بات نہیں کر پاتا تھا۔
اس نے ایک بار پھر بڑے غور سے نور جہاں کے چہرے کی طرف دیکھا اسے یوں لگا کہ وہ کچھ سوچ رہی ہے اس کی آنکھیں دیوار کی طرف تھیں وہ ‏فکر مند بھی دکھائی دے رہی تھی اور یوں لگ رہا تھا جیسے وہ دیوار پر کوئی لکھی تحریر پڑھ رہی ہے یا پھر کوئی منظر سفید دیوار پر تخلیق کر رہی ہے جس ‏کے لئے وہ نہ تو کوئی برش استعمال کر رہی ہے اور نہ ہی اس کے ہاتھ میں رنگوں کی ٹرے ہے وہ خیالوں میں ایک منظر ترتیب دے کر اس میں اپنی ‏مرضی اور پسند کے رنگ استعمال کر رہی تھی چند لمحے وہ اسے دیکھتا رہا آج وہ اسے جی بھر کر دیکھنا چاہتا تھا اسےیوں محسوس ہوا کہ وہ اپنی منزل کے ‏بالکل قریب ہے اسے سفر جاری رکھنا چاہئے وہ ہارنا نہیں چاہتا تھا وہ منزل کو قریب سے دیکھ کر دور نہیں کرنا چاہتا تھا لہذا وہ اسے اتنا دیکھنا چاہتا تھا کہ ‏اس کے دل و دماغ میں مکمل طور پر رچ بس جائے وہ اسے ساری عمر کے لئےاپنے دل و دماغ میں آباد کر لینا چاہتا تھا ۔
یوسف اسے خیالوں میں مگن دیکھ رہا تھا اور خود بھی مستقبل کے بارے سوچ رہا تھا وہ دونوں اپنی سوچوں میں مگن پیزا ہاوس کے ماحول سےبالکل بے ‏خبر تھے۔
یوسف کو آج وہ پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت لگی وہ اسے دیکھتا رہا پھر اس کے دل ودماغ میں فورا خیال آیا آج موقع ہے شاید دوبارہ قدرت مجھے یہ ‏موقع فراہم نہ کرے لہذا فائدہ اٹھانا چائیے یوسف نے بڑے دھیمے اور مہذب انداز میں اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔‏
نور جہاں کیا بات ہے دیوار کی طرف منہ کر کے بیٹھنے کی وجہ جان سکتا ہوں کیا تیرے ساتھ خدا نہ کرے کچھ برا تو نہیں ہوا ہے کیا آج کسی کے ساتھ ‏تُو تُو میں میں تو نہیں ہوئی ہے جو اس طرح اداس بیٹھی ہوئی ہو ؟
ہوں ،ہاں، نہیں نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے وہ میں اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ رہی تھی نور جہاں ایک لمحے میں خیالوں کی دنیا سے باہر آ ‏گئی۔
‏ اور مجھے ایسے لگ رہا ہے کہ تم اسی دنیا میں آباد ہونا چاہتی ہو جہاں تم اس وقت موجود ہو، وہاں سے باہر نکلنے کی تم کوشش بھی نہیں کر رہی ہو اور اس ‏ان دیکھی دنیا سے باہر آنے کا تمہارا کوئی اردہ نہیں لگ رہا ہےمجھے لگ رہا ہے جیسے دیوار پر تم کسی انسان کو اپنے خیالوں میں بنا رہی ہو یا پھر کوئی تحریر ‏پڑھ رہی ہو۔
‏ اور پھر اپنے اردگرد دیکھتے ہوئے بڑے راز دارانہ لہجے میں آہستہ سے کہا اگر تم نے اپنے مستقبل کے بارے معلوم کرنا ہے تو میں کس لئے ہوں ‏میں چند جملوں میں تمہارا مستقبل بتا سکتا ہوں یوسف نے ٹشو پیپر سے اپنے ہونٹوں سے پیزے کا بچا کچھا ذائقہ صاف کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ‏کہا۔
مجھے معلوم ہےآج کے اس جدید اورترقی کے تیز رفتار زمانے میں ابھی تک ہاتھوں کی لکیروں میں چھپی قسمت کا کھیل جاری ہے جس میں صنف ‏نازک کو مرد سے بر تر سمجھنے کی روایت ابھی ختم نہیں ہوئی ہے عورت سے مرد آج بھی ایک بے جان کھلونے کی طرح کھیلتا ہے اور زمانوں سے کھیلتا ‏آ رہا ہے۔ لیکن اگر مجھ پر بھروسہ کرو اور مجھے اپنے قریب آنے کا موقع دو تو میں یہ ثابت کروں گا کہ میں تمہارے ساتھ بے پناہ محبت کرتا ہوں ‏اور ہمیشہ کے لئے تمہارے ساتھ رہنا چاہتا ہوں میں دنیا کے کسی بھی کونے میں تمہارے ساتھ رہوں گا۔
‏ یوسف نے بیئر کا ایک لمبا گھونٹ بھرنے کے بعد پھر کہنا شروع کیا ۔
دیکھو ہم طب کے شعبے میں ڈگری لینے والے ہیں یہ ہمارا آخری سال اس یونیورسٹی میں ہے اس کے بعد میں ساری عمر تمہارے ساتھ رہنا چاہتا ہوں ‏ہم دونوں انسانیت کی خدمت کریں گے۔
نور جہاں نے کوئی جواب نہیں دیا وہ صرف دیوار کی طرف دیکھے جا رہی تھی۔
یوسف کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا آخر اس نے ایک بار پھر نور جہاں سے پوچھ ہی لیا کیا بات ہے کیا ہوا ہے آج کیوں مایوس اور اداس دکھائی دے رہی ‏ہو ؟
نُور جہاں ایک دم چونکی اور سوچوں کے سحر سے باہر آ گئی اور یوسف سے مخاطب ہو کر کہا ۔
ہاں ! کیاکہا ہے آپ نے مجھے ۔
نور جہاں اب مکمل ہوش و حواس میں تھی اور پھر یوسف سے کہا ۔
مجھے معلوم تھا تم مجھ سے ایک ساتھ اتنے سارے سوال پوچھو گے کیونکہ اس طرح کی صورت حال میں اور بھی بہت زیادہ سوال کیے جا سکتے ہیں جن ‏میں ہمدردی جتا کر لڑکی کا دل جیتنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی تمام تر کوشش کی جاتی ہے اور پھر خاموش ہو گئی ۔
‏ کچھ لمحوں کے دوبارہ یوسف سے مخاطب ہوئی ۔
مگر یہ بات سچ ہے کہ تم مجھے اچھے لگے ہو اپنے تمام تر سوالات کے ساتھ اور اپنی ہمدردی کے ساتھ کہ تم میرے لئے اپنے دل سے قدر کرتے ہو ‏اس لئے میں تمہیں سب کچھ بتانا چاہتی ہوں تمہیں بالکل اپنا سمجھتے ہوئے۔
یوسف کو محسوس ہوا جیسے کوئی اسے پہاڑ کی چوٹی پر گھسٹتا ہوا لے کر جا رہا ہے اور اوپر پہنچ کر سانس بھی لینے نہیں دے گا اور پھر نیچے کی طرف ‏دھکیل دے گا ایک لمحے میں سوچ کی گٹھڑی میں باندھ کر مجھے ذہن کے ساتھ ساتھ دل ودماغ سے باہر پھینک دیا جائے گا۔
‏ وہ کچھ لمحے انتظار کرتا رہا نور جہاں کے رد عمل کا ، مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ،
نُور جہاں اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئی کہنے لگی۔
میں نے اسے خداحافظ کہہ دیا ہے۔
کس کو خدا حافظ کہہ دیا ہے مجھے بتائیں گی تو مجھے معلوم ہو گا۔
بتا رہی ہوں آپ درمیان میں ہی سوال کر دیتے ہیں پہلے پوری کہانی دھیان سے سن لیں۔
وہ میرے قریب ضرور تھا یہ ایک حقیقت تھی لیکن اصل میں وہ مجھ سے کوُسوں دُور تھا وہ مجھے نہ سمجھ سکا اور نہ ہی میں اس کو سمجھ سکی اصل میں ہم ‏دونوں میں کوئی چیز مشترک نہیں تھی ہم دونوں کی سوچ کے راستے الگ الگ تھے ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دریافت کرنے کی بہت کوشش کی ‏مگر وہ میرا ذہن پڑھ نہیں سکا اور میں اس کے دل کی بات کو بوجھ نہ سکی پھر ہم دونوں نے ایک پیمان کیا ۔
وہ کیا پیمان تھا یوسف نے بے چینی سے پھر سے سوال داغ دیا ۔
وہی بتانے لگی ہوں ہم نے عہد کیا ہے ہم دوست ضرور رہیں گے لیکن زندگی بھر کے ساتھی نہیں ہوں گے خاندان کو ترتیب دینے اور بنانے کے ‏لئے ہماری راہیں جدا ہیں مجھے افسوس ہوا ہے میں نے اسے پرکھنے میں دیر کی۔
لیکن تم یقین کرو یوسف مجھے تمہارا ذہن پڑھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی تمہارے دل میں کیا ہے مجھے ایک دم معلوم ہو گیا ہے میں تمہارا چہرہ ‏پڑھ رہی ہوں تمہاری آنکھوں میں تمہاری سوچ کو واضح طور پر دیکھ رہی ہوں تمہاری پسند اور نا پسند، تمہارا فلسفہ زندگی کیا ہے مجھے سب کچھ تمہاری ‏باتوں سے معلوم ہو چکا ہے میری سوچ اور تمہاری سوچ آپس میں بہت حد تک ملتی جلتی ہے۔
‏ تم سب کچھ وہی ہو جو میں ہوں اور جو میں نہیں ہوں وہی سب کچھ تم ہو ۔
یوسف کے بدن میں جیسے بجلی دوڑ گئی وہ محبت کے جذبہ سے سرشار ہوتا گیا اس میں ایک دم اتنی ہمت اور حوصلہ آ گیا اس نے یہ بھی نہ دیکھا پیزا ‏ہاوس میں کافی لوگ موجود ہیں آہستگی کے ساتھ اس نے اپنا داہنا ہاتھ آگے بڑھا کر نُور جہاں کے میز پر رکھے ہوئے نرم ونازک سرخ و سفید دائیں ‏ہاتھ پر رکھ دیا۔
‏ دونوں نے محسوس کیا کہ ایک انجانی قوت اپنی پوری شدت کے ساتھ ان کے بدن میں آ رہی ہے وہ دونوں ایک شدید جذبے کے گہرے سمندر ‏میں نہایت آسانی اور تیزی کے ساتھ اترتے چلے گئے اس شدید جذبے کو مخلوق خدا محبت کہتی ہے۔
‏ نور جہاں بے خودی کے عالم میں کبھی اپنے ہاتھ اور کبھی یوسف کے ہاتھ کو دیکھتے جا رہی تھی۔
اس صورت حال میں یوسف نے کہنا شروع کیا۔ ‏
کیا تم نے بھی وہی محسوس کیا ہے جو میں نے محسوس کیا ہے نور جہاں نے یوسف سے پوچھا۔
ہاں بالکل !‏
‏ میں تو محبت کا وہ جذبہ محسوس کر رہا ہوں جو تم بھی محسوس کر رہی ہو یوسف نے آہستگی کے ساتھ کہا۔
‏ نور جہاں نے آہستہ آہستہ کہا یہ تو انوکھا جذبہ ہے ،
‏ اور یہ کیا ہے ؟
میں اسے سمجھنے کی کوشش کر رہی ہوں، کیا تم بھی ایسا ہی کر رہے ہو ،
‏ نور جہاں نے بڑی معصومیت سے میز پر بکھری چیزوں کی طرف دیکھتے ہوئے یوسف سے پوچھا۔
کیا یہ ایک حقیقت ہے؟
‏ یوسف نے اپنے دونوں ہاتھوں میں نور جہاں کا بائیں ہاتھ لے کر اسے آہستہ سے دباتے ہوئے کہنا شروع کیا ۔
زندگی کا فلسفہ اور محبت کا فلسفہ جنسی تعلقات کے ساتھ ساتھ اور ارادیت کے علاوہ انسانی خیالات، خواہشات اور اخلاقیات سے متعلق نظریات پر ‏مبنی ہے ،
اس کے علاوہ یہ اور کیا ہے ؟۔ ‏
‏ میں نے تو کتابوں میں یہی لکھا ہوا پڑھا ہے اور ہاں اس سے آگے محبت کی ذیلی شاخیں خود شناسی، مذہب، انسانی فطرت، سیاست اور اخلاقیات کے ‏بارے میں بیانا ت یا دلائل ہیں جو فطرت اور انسانی زندگی کے کردار کے بارے میں ایک مرکز کے درمیان رابطہ کا کام کرتے ہیں جس میں ‏افلاطونی محبت کے خلاف مزاحمت بھی ہے ۔
میں نے ارسطو کے سیکولر نظریے کا بھی مطالعہ کیا ہے میں نے ایک روح اور دو لاشوں کی وضاحت کے بارے میں بھی کافی پڑھا ہے یوں سمجھ لو کہ ‏محبت ایک ایسی خاصیت ہے جو بلندیوں کی طرف مسلسل پرواز کرتی رہتی ہے یوسف نے کریم بیئر کا آخری گھونٹ لیتے ہوئے اپنی بات اُدھوری ‏چھوڑ دی اور خالی بوتل کو خالی ٹرے میں رکھ دیا۔
‏ لہذا میں یوں سمجھ لوں کہ تم محبت کی جسمانی،جذباتی اور روحانی نوعیت کو خوب سمجھتے ہو، نور جہاں نے اپنے سامنے پڑے کافی کے خالی کپ کو اٹھا کر ‏میز کے دائیں کونے کے قریب رکھتے ہوئے کہا، ہاں ایسے ہی سمجھ لو یوسف نے جواب دیا ۔
یوسف نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا دیکھو نور جہاں پروفیسر کمرہ جماعت میں آ چکا ہو گا چلو کمرہ جماعت میں چلتے ہیں محبت ‏کرنے کے لئے ہمارے پاس ابھی ساری زندگی پڑی ہے۔
جماعت میں جانے کا میرا کوئی من نہیں کر رہا، بیٹھ جاو نُو ر جہاں نے کہا ۔‏
یوسف نے اس کا نرم و نازک ہاتھ دوبارہ تھام لیا اور اس کی ہتھیلی کی پشت پر ہلکے سے مالش کرتے ہوئے وہ کہہ رہا تھا اٹھو نور جہاں پہلے پڑھائی یہ ‏ہمارے مستقبل کا مسلہن ہے اٹھو، اٹھو جلدی کرو۔
چوتھا باب:‏

نور جہاں گاڑی پارک کر کے تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی یوسف کے قریب پہنچ چکی تھی اور یوسف کو بینچ پر بیٹھے ہوئے کچھ بڑبڑاتے ہوئے سن رہی تھی ‏مگر بہت کوشش کے باوجود سمجھ نہیں سکی کہ یوسف کیا بول رہا ہے اور یہ بھی سمجھ نہ سکی وہ ایسا کیوں کر رہا ہےوہ خاموشی سے اس کی طرف دیکھتی ‏جا رہی تھی اور سوچ رہی تھی یوسف ایسا کیوں کر رہا ہے ۔
اس نے ایک لمحے کے لئے سوچا ہو سکتا ہے وہ اسے تنگ کرنے کے لئے جان بوجھ کر ایسی حرکت کر رہا ہے۔
کچھ لمحوں کے بعد یوسف واپس تصوراتی دنیا سے نکل کر دوبارہ موجود لمحے میں آ گیا ۔‏
اس نے خود کو پارک میں بینچ پر بیٹھا پایا ، اسے بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی آخر اس کے ساتھ کیا ہوا ہے اس نے اردگرد دیکھا اس کے قریب ہی نُور ‏جہاں کھڑی تھی جو اسے بڑے غور سے دیکھ رہی تھی۔ نور جہاں کو سامنے دیکھتے ہی یوسف نے سوال کیا ۔
آج بہت دیر کر دی تم نے، کیا وجہ تھی ؟
تم اچھی طرح سے جانتے ہو کہ میں آج کیوں دیر سے آئی ہوں۔ تمہیں میں نے بتایا تو تھاکہ آج میں نے ایم ڈی /پی ایچ ڈی کے فائنل مقالے کی ‏درافٹ لائن تیار کرنی تھی اور کمرشل سینٹر بھی کھانے کے سامان کے لئے ہفتہ وار خریداری کرنے کے لئے جانا تھا۔نور جہاں نے اس کے قریب ‏بینچ پر بیٹھتے ہوئے جواب دیا اور یوسف سے پوچھا تم یہاں پر بیٹھ کر آنکھیں بند کر کے کیا بڑبڑا رہےتھے، یوسف گھبرا گیا۔
‏ میں بڑبڑا رہا تھا مجھے بتاو گی میں کیا کہہ رہا تھا میں تو صرف تمہیں دیکھ رہا تھا ۔
میں تم سے ملاقات کا وہ منظر دیکھ رہا تھا جس میں ہم نے دل و دماغ کے مضبوط پنکھوں کے سہارے محبت کی اونچی منزل کی طرف پرواز کا آغاز کیا ‏تھا۔ ‏
‏ اور میں نے کیا دیکھنا تھا نُور جہاں۔
‏ ہاں مجھے یاد آ گیا ہے میں معذرت چاہتا ہوں بھُول گیا تھا ۔کیونکہ میں آج تھوڑا نروس ہو گیا تھا اس لئے میرے ذہن سے نکل گیا۔
‏ ہاں تم نے مجھے سب کچھ بتایا تھا میں معذرت خواہ ہوں۔
یوسف تجھے معلوم ہے کہ فائنل مقالہ لکھنے کے لئے مجھے کلاسز کے بعد یونیورسٹی کے مرکزی کتب خانے میں اضافی دو گھنٹے مختلف سائنس دانوں کی ‏لکھی کتب ، مضامین اور مقالاجات اور اس کے اوپر مختلف فلاسفر اور محققین اور ناقدین کے لکھے ہوئے مواد کی فہرست تیار کرنی تھی اور نوٹس بنا کر ‏فائنل امتحان کی تیاری کرنی تھی۔
نور جہاں میں تمہیں بہت مس کر رہا تھا میں خود کو اکیلا محسوس کر رہا تھا۔
اوراس اکیلے پن کی وجہ سے بہت کچھ بُھول گیا صرف تمہاری خیالوں میں کھو گیا تھا۔
یوسف صرف چار ماہ کی بات ہے میں مقالہ جمع کرا دوں گی اور پھر یونیورسٹی کے چکر ختم ہو جائیں گے اور پھر ہماری زندگی کا ایک دوسرا نیا دور شروع ‏ہو جائے گا۔
ہاں مجھے معلوم ہے مگر اس دل کا کیا کیا جائے جو سکون اور اطمینان کی تلاش میں صرف تیرا ہی قرب ڈھونڈتا رہتا ہے میں تیرے ساتھ ایک بھر ‏پور زندگی چاہتا ہوں۔‏
دیکھو یوسف یہ بالکل سچ ہے عورت اور مرد ایک دوسرے کے لئے ہیں۔
‏ اس نے یوسف کے اور زیادہ نزدیک ہوکر کہنا شروع کیا ۔
‏ بقائے انسانی کے لئے نہایت اہم عورت اور مرد کا آپس میں جڑے رہنا ہے ۔
مگر آج کی اس مہذب دنیا میں بہت سے کام ایسے بھی ہیں جن کی تکمیل کے بغیر ہم ایک خوبصورت اور بھرپور زندگی سے محروم رہ جائیں گے۔
‏ لہذا جس عہد میں ہم جی رہے ہیں اس میں اُن اشیا کی تکمیل بھی اشد ضروری ہے۔دیکھو ہمارا جذبہ ہمارے ایمان پر زندہ ہے اور پختہ عزم سےاپنی ‏محبت کو ہمیشہ قائم رکھنا ہے ‏
میں اسے جسمانی توجہ اور ذہنی ہم آہنگی کے ساتھ متوازن رکھوں گی۔
مجھے معلوم ہے نُور جہاں ،سکول میں آٹھویں جماعت میں مجھے یہ سب کچھ پڑھا دیا گیا تھا ہماری اُستانی جو خاندانی زندگی اور انسانی جنسیات کا مضمون ‏پڑھاتی تھی وہ انسانی سائنس اور خاندانی امور کی ماہر تھی اس نے اس مضمون پر نامور ماہرین کی کتب کا مطالعہ کیا ہوا تھا وہ اپنے ذہن میں خاندانی ‏زندگی کا بہت وسیع علم رکھتی تھی۔
وہ کہتی تھیں ایک خاندان معاشرے کے اندر اخلاقی اصولوں کے ساتھ روایتی انداز میں ایمانداری ، وفاداری، فنی کمال اور جذبہ و ایمان منتقل کرتا ‏ہے اگر ہم معاشرےمیں وجود رکھتے ہیں تو ہمیں کسی نہ کسی طریقہ سے اس کا ثبوت دینا ہوتا ہے معاشرے کی ترقی و ترویج میں مکمل طور پر حصہ ‏ڈال کر ہم انسانی بقا میں مناسب اور عملی طور پر اپنا تجربہ اور مشائدہ شامل کرتے ہیں۔
‏ مگر یوسف تمہیں میرے خیال میں ابھی تک بہت ساری عملی چیزوں کا علم نہیں ہے۔
‏ اس بات کا مجھے اچھی طرح سے علم ہے نور جہاں ۔
مجھ میں تجربے کی کمی بہرحال ابھی ہے۔
‏ اس لئے کچھ چیزیں جو میرے تجربے اور مشاہدے میں آ رہی ہیں ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آ رہی ہیں لیکن میری سمجھ سے بالاتر نہیں ہیں۔
نُورجہاں نے اپنی کمر کے گرد بندھے ہوئے چھوٹے سے بیگ کی زِپ کھول کر اس میں سے چاکلیٹ نکال کر یوسف کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا۔
‏ ہم دونوں مل کر ایک دوسرے سے سیکھیں گے اور اپنے معاشرے میں زندگی کے مقصد اوراہمیت کو آگے بڑھایں گے۔
یوسف نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا اور اس کو اپنی طرف ہلکے سے کھینچ کر اور زیادہ قریب کیا اور کہا باقی باتیں گھر چل کر ‏کرتے ہیں۔
نور جہاں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے بکھرے بالوں کو بڑے سلیقے کے ساتھ سمیٹ کر اُوپر کیا اورایک ہاتھ کی اُنگلیوں میں بالوں کو تھام کر ‏دوسرے ہاتھ سے رنگین تتلی کی شکل میں بنی کلپ نکالی اور بالوں کو پُونی کی شکل میں اچھی طرح باندھ لیا اور ایک لمبا سانس لے کر اپنا سر چلتے چلتے ‏یوسف کے سینے سے لگا دیا۔
تم کتنے اچھے ہو ۔
میں سمجھ گیا ہوں، تم کچھ کہنا چاہتی ہو اب جلدی سے بتا دو۔
مجھے معلوم ہے کوئی اچھی خبر ہو گی۔
خبر یہ ہے کہ ہماری یونیورسٹی کے پروفیسر نرمل سنگھ جو ہمیں میڈیکل سائنس کا مضمون پڑھاتے ہیں اور میرے ایم ڈی، پی ایچ ڈی کے مقالے کے ‏بھی وہ انچارچ ہیں وہ آج رات کا کھانا ہمارے ہاں کھائیں گے۔
ارے ہاں اس پروفیسر کے ساتھ ۔ اس کا مطلب ہے آج تو مجھے بھی برصغیر کے مسالوں کی خوشبو سے لبریز مزیدارکھانا ملے گا۔ واہ مزا آ جائے گا۔ ‏
جی ہاں،نور جہاں نے یوسف کے سینے سے اپنا سر اٹھاتے ہوئے کہامیں وہ سب کچھ بازار سے خرید کر لے آئی ہوں جو آپ کو پسند ہے۔
‏ آپ جان چکے ہوں گے سیخ کباب اور بریانی مسالہ اور پاکستانی باسمیتی چاول ۔
‏ مگر آج پھروہی برصریی پاک و ہند پر لیکچر بھی سننا پڑے گا۔یوسف نے آنکھیں سکیڑتے ہوئے کہا۔
جی ہاں، ایک با ر پھر آپ کو کچھ گھنٹے میرے حصہ کی نصیحتیں بھی خاموشی اور توجہ کے ساتھ سننا پڑیں گی۔
مگر یہ بات سچ ہے کہ یہ وہ کارآمد باتیں ہیں جو زندگی میں آپ کے بھی کام آئیں گی۔
نور جہاں جب میں اس کی بڑی توند کی طرف دیکھ کر ہلکا سا مسکراتا ہوں تو وہ کم بخت پروفیسر فوراً پھانپ لیتا ہے اور مجھے نالائق کہنے کے بعد زیادہ ‏کھانے کے فائدے سنانے شروع کر دیتا ہے ان کے ذائقہ اور کھانا پکانے اور اسے مزےدار بنانے کے بے شمار طریقے بتاتا ہے اور مجھے سمجھانے ‏کی کوشش کرتا ہےکہ میں کس طرح زیادہ کھانا کھا سکتا ہوں اور کس طرح سے میں موٹاتازہ ہو سکتا ہوں۔وہ مجھے موٹا ہونے کے ایک سو ایک ‏طریقے بتا تا ہے۔
میں تو بس آپ دونوں کی بے سمت اور لاحاصل یعنی بے مقصد باتوں سے خوب بُور ہوتی ہوں مگر کہیں نہ کہیں میں اس بحث کو با مقصد بھی پاتی ‏ہوں۔
اور یوسف کے دائیں بازو کو اپنے بائیں بازو میں لے کر گھر کی طرف چل پڑی۔
۔۔۔۔۔

پروفیسر نرمل سنگھ ۔
پروفیسر نرمل سنگھ ادھیڑ عمر اور سانولے رنگ کا موٹا تازہ آدمی تھا۔اپنی بات سامنے والے کو سمجھانے کے لئے اس کے پاس ہر وقت سینکڑوں دلائل ‏اور مثالیں موجود ہوتی تھیں۔وہ اچھے اور خوبصورت الفاط فقروں میں خوب استعمال کرتا تھا ۔
اس کے علاوہ بہت سے نامور شعرا ء کا اردو اور انگریزی کا کلام بھی اسے زبانی یاد تھا مگر بہت زیادہ ملن سار ہونے کے باوجود اس سے بہت کم لوگ ملنا ‏پسند کرتے تھے کیونکہ وہ باتُونی تھا۔
لمبے قد کا مالک اور بھاری بھر کم جسم اور کافی سے زیادہ باہر کو نکلی ہوئی توند کے باوجود وہ پیدل چلنے کا شوقین تھا۔پندرہ سال پہلے اس کی شادی ہوئی تھی ‏جو اس کے باپ نے انڈیا میں اپنے ایک بچپن کے دوست کی بیٹی کے ساتھ اپنے کیے ہوئے وعدے کے مطابق کر دی تھی جو نرمل سنگھ سے پوچھے ‏بغیر طے کی گئی تھی ۔
نرمل سنگھ تاہم بہت خوش تھا اب اس کے دو بچے تھے۔
‏ اس کی بیوی امینہ کماری ایک نرم مزاج اور صبروتحمل کی مالک عورت تھی وہ ایک ایسے گاوں کی رہنے والی تھی جو ترقی یافتہ دنیا کی نظروں سے آج ‏بھی بہت دور تھا جہاں اب بھی گائے بھینس کے گوبر کو خشک کر کے ایندھن کے طور پر جلا کر کھانا بنایا جاتا ہے اور پالتو جانور اور انسان ایک ہی ‏ندی سے پانی پیتے اور ایک ہی چھت تلے سوتے ہیں ۔
‏ نرمل سنگھ نے شادی سے پہلے کبھی امینہ کماری کو نہ دیکھا تھا اور نہ ہی امینہ کماری نے نرمل کودیکھنا تو درکنار تصویر بھی نہ دیکھی تھی ۔
وہ بہت خوبصورت خدو خال کی مالک تھی ہر وقت کانوں میں چھمکے ، ماتھے پر سرخ ٹکا ، مانگ میں سیندُور اور ستواں خوبصورت ناک میں نتھلی کے ‏علاوہ دونوں بازوں کی کلایؤں میں رنگ دار کانچ کی چوڑیاں پہنے رکھتی تھی اپنے گھر کے کام کاج اور بچوں میں ہر وقت اپنے آپ کو بہت زیادہ ‏مصروف رکھتی تھی۔
‏ اس نے نرمل سنگھ سے کبھی کوئی فرمائش نہیں کی تھی اس کی زندگی صرف اور صرف خاوند اور بچوں کے گرد گھومتی تھی ۔
نرمل سنگھ نے بھی کبھی دوسروں کے ساتھ اپنے بیوی بچوں کا ذکر شوق سے نہیں کیا تھا اگر کوئی ان کے بارے پوچھ بھی لے تو مختصر جواب دے دیتا ‏۔
ہاںسب ٹھیک ٹھاک ہیں، سب خوش ہیں اس جواب کے ساتھ بات آگے بڑھانے کی بجائے ٹال دینا اس کا معمول تھا ۔
لباس کے معاملے میں اس کی اپنی کوئی پسند نہیں تھی ہر صبح امینہ کماری نے جو کپڑے تیار کردیئے پہن لیے، پگڑی اور ٹائی کے بغیر وہ کبھی گھر سے ‏باہر نہیں نکلا تھا ان کے رنگ کے بارے بھی اس کی کوئی خاص پسند نہیں تھی۔ بس جو امینہ کماری تیار کر کے رکھ دیتی وہ ہر صبح یونیورسٹی جانے سے ‏پہلے خوشی سے پہن لیتا اور وائے گرو جی کہتے ہوئے یونیورسٹی چلا جاتا ۔
‏ نرمل سنگھ کھانے کا بے حد شوقین تھا اٹلین کھانوں کے ساتھ وہ ہندوستانی مرچ مسالوں والے مزےدار روایتی کھانوں کو اب بھی بڑے شوق کے ‏ساتھ کھاتا اور زیادہ مقدار میں کھانااس کی عادت میں شامل تھا۔
روایتی انداز میں دیسی گھی سے تیار شدہ مٹھائیوں کا دلدادہ، خاص طور پر موتی چُور کے لڈو، گلاب جامن اور پستہ بادام شامل کر کے بنائی ہوئی برفی کا ‏ذائقہ وہ ابھی تک نہیں بھولا تھا۔
نرمل سنگھ کا باپ اور نور جہاں کا باپ مولوی نظام دین آپس میں گہرے دوست تھے ان کی پہلی ملاقات روم شہر کےبین الاقوامی ہوائی اڈے پر ‏ہوئی تھی جب وہ اپنے دیس اور پیاروں کو خیر باد کہہ کر اپنی اور اپنے گھر والوں کی قسمت بدلنے کے لئے اٹلی آئے تھے ۔
دونوں کا اٹلی میں کوئی جاننے والا نہیں تھا اور دونوں ہی روم کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے مسافر لاونج میں ایک ہی بنچ پر بیٹھے کسی غیبی مدد کے ‏منتظر بیٹھے ہوئے تھے ۔
آخر نرمل سنگھ کے باپ نے اپنے ساتھ والی نشست پر بیٹھے ہوئے نُورجہاں کے باپ سے پوچھا۔
‏ سر جی آپ کو کوئی لینے نہیں آیا،
نہیں جی۔ اور آپ کو ،
یار مجھے بھی کوئی لینے نہیں آیا،
کیوں آپ نے اپنے آنے کی اطلاع کسی کو نہیں دی تھی، ‏
یار میں اطلاع کس کو کرتا اس ملک میں تو میرا کوئی جاننے والا ہے ہی نہیں ۔سارے جاننے والے تو سعودیہ میں ہیں تو کچھ مسقط میں ہیں یعنی سب ‏میرے شہر کے دوست احباب اور رشتے دار مڈل ایسٹ کے عرب ممالک میں کام دھندے کے لئے گئے ہوئے ہیں۔
بس اوپر والے کے سہارے گھر سے نکل آیا ہوں۔
جناب تو میرا بھی یہاں کوئی جاننے والا نہیں ہے۔
بس یہاں سے ان کی دوستی کا آغاز ہونے کے ساتھ اٹلی میں نئی زندگی شروع ہوئی۔
‏ وہ فٹ پاتھ پر سرد راتوں میں گتے کے ڈبوں کو تہہ کرنے کے بعد ان پر اکھٹے سوتے رہے،رفاعی عالمی ادارے کاریتاس سے مفت کھانا اکھٹے ‏کھاتے۔ ‏
اور جب محنت مزدوری شروع کی تو ایک ہی فیکٹری میں اکھٹے کام شروع کیا اس وقت سے ایک ہی شہر میں اب تک مقیم ہیں نور جہاں کے باپ نے ‏مقامی اطالوی لڑکی سے شادی کی جبکہ نرمل سنگھ کے باپ نے سوئس نثزاد اطالوی لڑکی سے شادی کی۔
‏ اب اُن کے بچوں کے بچے ہو چکے تھے مگر وہ ابھی تک اپنی زبان پنجابی ، اردو اور ہندی نہیں بھولے تھے اور بظاہر اپنی تہذیب و ثقافت سے جڑے ‏ہوئے تو نظر آتے تھے مگر ان کی نسل اپنی تہذیب و ثقافت کو تقریبا بھُول چکی تھی ۔
اب تو وہ اپنی زبان کو صرف تھوڑا بہت بول اور سمجھ سکتے تھے جس طرح کوئی اضافی علم کے طور پر زبان سیکھ لیتا ہے۔ اردو اور پنجابی زبان تو لکھنے اور ‏پڑھنے سے بالکل عاری تھے ۔
کبھی کبھار وہ انڈین اور پاکستانی ایمبسی کی طرف سے قومی تہواروں پر ہونے والے پرچم کشائی اور موسیقی اور کبھی کبھار مشاعروں کے پروگرموں ‏میں شرکت کے لئے جاتے تھے جن میں اردو پنجابی میں ہونے والے فوک اور کلاسیکل موسیقی جیسے پروگراموں کا اہتمام کیا جاتا تھا۔وہ اکثر موسم ‏گرما میں ہونے والے مقامی میلوں میں بھی شرکت کرتے جہاں اطالوی روایتی بئیر اور اطالوی کھانوں کے علاوہ دیسی کھانوں کا عام مقامی لوگوں کے ‏ساتھ لُطف اٹھاتے۔
وہ مذہب کے ابھی تک پاپند تھے نرمل سنگھ گورداوارہ باقاعدگی کے ساتھ جاتاجو اس عمارت میں بنایا گیا تھا جو ایک پرانے اور کم آمدن ہونے کی ‏وجہ سے کافی عرصہ سے بند رہنے والے ڈیری فارمز کو اپنی مدد آپ کے تحت خرید کر گوردوارہ میں تبدیل کر لیاگیا تھا اسی طرح ایک پرانی اور ‏دیوالیہ ہو کر بند ہو جانے والی موٹر ورکشاپ کے وسیع ہال کو بنا سنوار کر مسجد میں تبدیل کر لیا گیا تھا جہاں اسلامی درس وتدریس کے علاوہ پاکستان ‏اور انڈیا سے دھن دولت کے چکر میں آنے والے حضرات کی رہنمائی کی جاتی اور ایک دو دن کی رہائش اور کھانے کا بندوبست بھی کیا جاتا اس مسجد ‏کے بانیوں میں نور جہاں کے باپ کا بھی شمار ہوتا تھا ۔
وہ اسی مسجد میں چندہ بھی دیتا اور مسجد کی تمام سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیتا۔جبکہ نور جہاں اپنی ماں ماریا گمریتی اور یوسف اپنے علاقہ ‏میں کاتھولک چرچ جاتے جہاں ان کا پپتسمہ اور استحکام کی رسم بھی ہوئی تھی اور پہلی پاک شرکت کی تقریب بھی منعقد ہوئی تھی وہ اپنے گروپ کے ‏بچوں میں ذہین مانے جاتے تھے اٹھارہ سال کی عمر تک وہ مقامی پیرش کی سرگرمیوں میں اپنے ہم عمر بچوں سے آگے تھے پھر کالج و یونیورسٹی کی ‏مصروفیات کی وجہ سے وہ صرف عبادتی تقریبات تک محدود ہو کر ر ہ گئے جس گلی میں وہ رہتے تھے وہا ں دو قدیم چرچ تھے۔ ایک گلی کے شروع میں ‏اور دوسرا گلی کے اختتام پر۔
‏ گلی کے اختتام پر جو چرچ تھا وہ ا ب بند ہو چکا تھا اور صرف سیاحوں کے لئے کھولا جاتا تھا اب یہ چرچ اٹلین محکمہ اوقاف کی تحویل میں تھا اور قدیم ‏ورثہ کے طور پر اس کی دیکھ بھال کی جاتی تھی ۔
۔۔۔۔۔

پانچواں باب:‏‎

مولوی نظام دین ۔
بڑھاپے کی طرف رواں دواں تھا ، جوانی میں اٹلی ہجرت کرنے والا یہ شخص اب بھی توانا اور مضبوط جسم کا مالک تھا وہ کبھی بھی کسی سکول میں تعلیم ‏حاصل نہ کر سکا مگر وہ انگریزی ، اردو، اٹلین ، پنجابی اور عربی بول ، پڑھا اور لکھ بھی سکتا تھا وہ ایک عرصہ سے مقامی مسجد کا امام مسجد تھا اور امامت کے ‏فرائض ادا کرتا تھا وہ داڑھی اور مونچھوں کوہر روز باقاعدگی سے (شیو )صاف کرتا، مسواک کی بجائے ٹوتھ پیسٹ استعمال کرتا اور ٹخنوں سے اوپر ‏شلوار کی بجائے ہمشیہ جین کی پتلون اور ٹی شارٹس استعمال کرتا تھا۔
جب وہ کسی مقامی مسیحی یا سرکاری تقریب میں شرکت کے لئے جاتا تو باقاعدہ طور پر ٹائی اور اورکوٹ کے اوپر اورکوٹ زیب تن کرتا ، وہ بہت ہنس ‏مکھ اور ملن سار تھا۔
وہ پاکستان کے ایک دور افتادہ پہاڑی علاقے میں پیدا ہواتھا جس کے تقریباً سو کلو میٹر اردگرد نہ کوئی سکول نہ کوئی مسجد نہ کوئی ہسپتال تھا اور نہ ہی کوئی ‏مناسب ٹرانسپورٹ کا بندوبست تھا ۔ٹیلی فون اور ڈاک خانہ تقریباً پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ وہاں کے لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ پاکستان ‏اور ہندوستان دو علیحدہ ممالک بن چکے ہیں اور کشمیر برطانیہ راج نے دونوں ملکوں انڈیا اور پاکستان کے درمیان آدھا آدھا بانٹ دیا ہوا ہے تاکہ ‏مذہب کے نام پر لوگ آپس میں لڑتے رہیں اور دوبارہ ایک نہ ہو سکیں۔
‎ ‎اگر آج انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش اور کشمیر ایک مشترکہ ہندوستان ہوتا تو دنیا کی سپر پاور ہوتا یا پھر مذہب اور رنگ و نسل کی بنیاد پر آپس میں یوں ‏لڑتے کہ آج درجنوں نئے ممالک اس خطہ زمین پر معرض وجود میں آ چکے ہوتے۔
‏ حیران کن بات یہ ہے کہ دونو ں ممالک کو آزاد ہونے کے بعد یہ احساس ہوا کہ کشمیر تو سارے کا سارا ہمارا تھا اس لیے دونوںممالک کشمیریوں کی ‏حقیقی رائے کو نظر انداز کرتے ہو ئے آج بھی آپس میں گتھم گتھا ہوکر ایک دوسرے کا منہ نوچنے میں مصروف ہیں۔ ‏
وہ ان پہاڑی کچے اور تنگ اور خطرناک راستوں پر اور ڈھلونوں پر کھیلتا ہوا اور اپنی بقا اور فنا کی جنگ لڑتے ہوئے گیارہ برس کا ہو گیا۔تو اس کا باپ ‏اسے اپنے ساتھ پشاور شہر میں لے آیاجہا ں وہ ایک مقامی ہوٹل میں برتن دھونے اور ہوٹل کی صفائی کا کام کرتا تھا۔
اس شہر کے مشہور قصہّ خوانی بازار کی ایک تنگ گلی میں وہ اپنے ایک جاننے والے جو اسی ہوٹل میں کھانا پکانے پر مامور تھا اس کے ساتھ مقیم تھا۔ ‏اس کی سفارش پر ہوٹل کے مالک نے نظام دین کو بھی ہوٹل میں معمولی معاوضہ پر رکھ لیا۔
وہ برتن دھونے کے علاوہ ہوٹل کے گندے کپڑوں کی دھلائی اور کمروں کی صفائی میں بھی ان کا ہاتھ باٹتا۔ وہ یہاں پر بہت خوش تھا کیونکہ اب آلو ‏کے شوربے اور مکئی اور جُو کی موٹی روٹیوں کی بجائے ہوٹل میں تیار شدہ کھانا اسے ملتا تھا اگرچہ وہ کھانا بچا ہوا ہوتا تھا مگر مزیدار ہوتا تھا اور وہ رات ‏کو کام سے تھک ہار کر سکھ چین کی مٹھی نیند سوتا۔جب بھی اسے کچھ فارغ وقت ملتا وہ کبھی کبھی بازار میں بھی گھومنے نکل جاتا۔
ایک دن نظام دین طتیع کی ناسازی کی وجہ سے ہوٹل نہ گیا اس کے باپ نے اسے آرام کرنے کا کہا اور ہدایت کی کہ گھر سے باہر نہیں جاؤ گے اور ‏ہاں ‏‎ ‎شام کو آتے ہوئے میں حکیم سے تیرے لئے بخار کی دوا لیتا آوں گا۔
‏ وہ چپکے سے میلے کچیلے گدے پر پڑا رہا اور کچھ کھائے پئیے بغیر سو گیا اس کی آنکھ اس وقت کھلی جب اس کے باپ کا دوست جسے و ہ چاچا شبیر خان کہتا تھا ، ‏اس کی کمر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہہ رہا تھا ‏
اٹھ جا میری جان ، کیا آج سارا دن سوتا رہے گا۔
‏ نظام دین نے آنکھیں بند رکھتے ہوئے کہا اٹھتا ہوں، چاچا شبیرکیا بات ہے آج آپ‎ ‎اتنی جلدی کام سے واپس آ گئے ہیں مجھے تو بہت تیز بخار ہے میں ‏ٹھیک نہیں ہوں۔
اُٹھ اُٹھ دیکھ میں تیرے لئے کیا لایا ہوں منہ بولے چاچے شبیر نے اخبار میں لپیٹی کوئی چیز اس کی طرف بڑھائی۔
یہ کیا ہے؟
آنکھیں تو کھولو ۔
‏ اس نے دیکھا اخبار میں مٹھائی تھی۔
یہ ساری تیرے لئے لایا ہوں ، کھا موج کر اور مجھے بھی موج کروا دے۔
اس نے وہ مٹھائی بخار ہونے کے باوجود بڑے شوق کے ساتھ کھا لی مگر چند ہی منٹ بعد اس کا جسم اس طرح سے بے حس و حرکت ہونا شروع ہو گیا ‏کہ وہ دیکھ سب کچھ سکتا تھا مگر نہ تو اپنے جسم کا کوئی حصّہ ہلا سکتا تھا اور نہ ہی بول سکتا تھا ۔
پھر اس نے اپنی خوف زدہ آنکھوں سے دیکھا کیسے اس کے کپڑے اتارے گئے اور اس منہ بولے چاچا شبیر نے اس کے ساتھ کس طرح کا وحشیانہ ‏کھیل کھیلا وہ نہ تو چیخ سکا نہ فریا د کر سکا اور نہ ہی اس شیطانی کھیل سے بچنے کے لئے اپنے بدن کو جنبش دے سکا۔ وہ چاہتا تھا اس درندے نما انسان کا ‏منہ نوچ لے اور اسے اپنے بدن سے علیحدہ کر کے ہوا میں اتنا اونچا اچھال دے کہ زمیں پر گرتے ہی اس کی ہڈیوں کا سرمہ بن جائے مگر وہ ایسا کر نہ ‏سکا کیونکہ مٹھائی میں ملی دوائی کی وجہ سے وہ گہری نیند کی آغوش میں جا چکا تھا ۔
‏ جب وہ اپنے آپ کو جنبش دینے کے قابل ہوا تو اس نے محسوس کیا کہ اس کی کمر کے نیچے کچھ رکھا ہوا ہے اس نے ہاتھ سے محسوس کیا تو وہ تہہ کیا ‏ہوا ایک کاٹن کا کپڑا تھا جو اسے گیلا لگا۔
اسی دوران منہ بولے شبیر چاچے کی آواز آئی کچھ نہیں ہوا۔بس وہ پہلی بار تیرے ساتھ یہ ہوا ہے نا اس لئے ایسے ہو جاتا ہے گھبرانے کی کوئی بات ‏نہیں ہے ایک دو دن میں زخم مندمل ہو جائے گا اس کے بعد کبھی تکلیف نہیں ہو گی۔
بس تو ابھی ٹھیک ہو جائے گا یہ لے گرما گرم دودھ کا گلاس ، ایک ہی سانس میں پی جا اور سو جا، تجھے آرام کی ضرورت ہے یہ ابھی شروعات ہے گبھرا ‏مت تُو اس کا عادی ہو جائے گا۔
اور ہاں خبردار اگر کسی کو بتایا ورنہ تم اور تمہارا باپ اس رہائش اور نوکری سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو گے۔
‏ جس طرح کچھ دیر پہلے اس کا جسم بے حس و حرکت ہوا تھا ۔ رہائش اور نوکری کی بات سن کر اب اس کا دماغ بھی سن ہونے لگا اس کا غصہ سوچ کی ‏صورت میں اس کے دل و دماغ میں سے برقی لہروں کی طرح ہوامیں تحلیل ہونا شروع ہو گیا تھا ۔
‏ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آہستہ آہستہ اس نے اس واقعہ کے بارے میں سوچنا بند کر دیا اور اپنی ماں اور بہن کے خوابوں کے ساتھ ساتھ اپنے باپ ‏اور خود کے مستقبل کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا وہ مستقبل کی منصوبہ بندی کے دوران آہستہ آہستہ یہ بھی سمجھ چکا تھا کہ جو کچھ اس کے ساتھ ‏ہو چکا ہے اگر اور کسی کو اس واقعہ کے بارے میں بتایا تو اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔
وہ اپنی ماں بہن اور باپ کی ترقی اور مستقبل کے لئے سوچ کر خاموشی سے سب کچھ برداشت کرتا رہا ۔اور اس نے بھیانک اور شرمناک کھیل ‏اوراپنے جنسی استحصال کوہمہشی ہمہش کیلئے اپنے سینے میں دفن کر لینے کا عہد کیا اور دل میں اس نے شیطان نما انسان کو وقتی طور پر معاف کر دینے کا ‏سوچا مگر ایک لمحے کے لئے اس نے غور کیا کہ ہو سکتا ہے اور کتنے اس کی وحشت کا شکار ہو چکے ہوں گے یا پھر ہونے والے ہیں وہ سوچنے لگا ، نہ جانے ‏کتنے اس کی ہوس کا نشانہ بن چکے ہیں ۔ سوچ کے ایک مقام پر اس نے یہ فیصلہ کر لیا کہ میں یہ سارا واقعہ سب کو بتاوں گا میں اسے جان سے مار دوں گا ‏پھر اس نے سوچا میرے اور میرے خاندان کا کیا بنے گا پھر وہ آہستہ آہستہ نارمل ہوتا گیا اور یوں محسوس کرنے لگا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے یہ ‏سوچتے ہوئے اسے دوبارہ نیند آنے لگی اور وہ اپنے خوابوں میں کھو گیا جو وہ کچھ سالوں سے دیکھتا آ رہا تھا اور گہری نیند سو گیا۔
۔۔۔۔۔

٭٭٭
نظام دین جب اٹھارہ برس کا ہوا تو ان کے پاس کچھ رقم بھی جمع ہو چکی تھی اس کا باپ اپنے ایک پچپن کے دوست کے پاس اسے لے کر گیا جس نے ‏نظام دین کو سعودی عرب کام کے لئے بھیجنے کا مشورہ دیا تھا اور ایک ایجنٹ سے بھی ملوا دیا تھاجس نے کچھ رقم ایڈونس میں لی اور باقی کی رقم ہر ماہ ‏اقساط میں لینے کا طے کر لیااس ایجنٹ نے چھ ما ہ کے اندر ایک ہسپتال میں صفائی کے کام کے لئے سعودی عرب جانے کے لئے تیار رہنےکو کہا اس ‏دوران اسے پاسپورٹ ، میڈیکل سرٹیفیکٹ اور دوسری ضروری دستاویزات تیار کرنے کو کہا اور یوں وہ کچھ ماہ کے انتظار کے بعد سعودی عرب میں ‏بطور خاکروب کام‎ ‎کے لئے آ گیا۔
سعودی عرب میں اسے کام کرتے ہوئے تقریباً پانچ سال گذر گئے وہ سال میں ایک ماہ کی چھٹی پر پاکستان آتا۔ اس کا باپ بھی اپنے کام سے چھٹی لے ‏کر گاؤں آ جاتا۔ یوں وہ ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے تھے۔ روپے پیسے ہونے کی وجہ سے اور سعودی عرب میں کام کی وجہ سے پورا گاؤں ان کو ‏عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھنے لگا اس کے علاوہ ان کے تمام رشتہ دار ان کو خاندان میں بہتر مقام دینے لگے اور اپنے ہر معاملے میں ان سے صلاح ‏مشورہ کرنا مناسب سمجھنے لگے۔
‏ اس سال جب وہ چھٹی پر گھر آیا تو اس کے باپ نے اسے یاد دلایا کہ تمہاری بہن اب جوان ہو گئی ہے اس کے لئے مناسب رشتہ دیکھ کر شادی دھوم ‏دھام سے کردیں۔
یہ تو بہت خوشی کی بات ہے کیا کوئی اچھا لڑکا مل گیا ہے۔
نہیں ابھی تو نہیں لیکن رشتہ داروں میں دو لڑکے میری نظر میں ہیں اس کے باپ نے کہا۔
تو پھر دیر کس بات کی ہے۔
‏ چلو آج ہی ان دونوں خاندانوں میں سے ایک کے گھر والوں سے مل کر شادی کی بات طے کر لیتے ہیں اور جب میں دوبارہ چھٹی پر آؤں گا تو شادی کر ‏دیں گے۔
بیٹا تمہارا خیا ل بالکل ٹھیک ہے مگر مجھے تھوڑا وقت درکار ہے مجھے ان لڑکوں کے بارے اردگرد کے لوگوں سے مزید معلومات حاصل کر لینے دو پھر ‏میں ان میں سے ایک کو منتخب کرنے کے بعد اپنی رائے تمہیں دوں گا اس کے لئے کچھ اور وقت چاہیے۔
‏ تو فکر نہ کر ، تُو نے ہاں کر دی ہے اس لئے اگلی بار جب تُو چھٹی پر گھر واپس آئے گا تو اس کی شادی کر دیں گے۔
جیسے آپ سوچ رہے ہیں میں آپ سے متفق ہوں۔
نظام دین چھٹی کے بعد واپس سعودی عرب آ گیا اور اپنے کام میں مگن ہو گیا اسے ابھی دو ماہ بھی نہیں ہوئےتھے ایک دن اچانک اس کے قریبی ‏رشتہ دار کا فون آیا کہ تمہارے ماں باپ اور بہن کو طالبان کے ایک گروپ نے اغوا کر لیا ہے اور تاوان کے طور پر بہت بڑی رقم مانگ رہے ہیں۔
اس نے دوستوں اور تمام جاننے والوں سے اُدھار کے طور پرکافی رقم اکٹھی کی۔مگر وہ طالبان کی مانگی ہوئی رقم کے برابر تو کیا رقم کا آدھا حصہ بھی جمع ‏کرنے میں ناکام رہا۔
اس نے طالبان کو کچھ وقت اور دینے کی درخواست کی مگر زائد وقت ملنے کے باوجود مطلوبہ رقم جمع نہ ہو سکی۔
‏ پھر دو دن بعد اسے معلوم ہوا کہ اس کی ماں اور بہن کو کسی نامعلوم مقا م پر رکھا گیا ہے اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہاہے اور باپ کو جسمانی تشدد کا ‏نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ‏
اس نے اردہ کیا کہ وہ یہ رقم جو اس کے پاس ہے لے کر وطن جائے گا اور اغوا کرنے والوں سے درخواست کرے گا کہ اس کے خاندان کورہا کر دیا ‏جائے اور اس کے بدلے وہ ہر وہ کچھ کرنے کو تیار ہے جو وہ اس سے چاہتے ہیں میں اپنے خاندان کی رہائی کے بدلے میں خود کو ان کے حوالے کرنے ‏کو بھی تیار ہوں اس نے ایک لمحے کے لئے سوچا اور فیصلہ کر لیا کہ وہ ان کے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے خودکش بمبار بھی بننے کو تیار ہو جائے گا ‏میں ان کا غلام بن کر رہنے کو تیار ہوں۔
مگر یہ بات طالبان تک پہنچانے کا اس کو موقع ہی نہیں ملا کہ اسے خبر دی گئی کہ اس کے خاندان کے تینوں افرادپر بھیانک تشدد کے بعد انھیں گولیا ‏ں مار کر قتل کرنے کے بعد ان کے گاؤں کی قریبی پگڈنڈی پر لاشیں پھینک دی گئی ہیں۔
اس نے سعودیہ کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کر لیا اور پاکستان جا کر طالبان سے بدلا لینے کی ٹھان لی۔ اس نے جہاد کے نام پر منصوبہ بندی شروع کی ۔ اس نے ‏اینٹی طالبان گروپ کی تشکیل کے بارے میں سوچا اور ان کے خلاف بندوق اٹھانے کا فیصلہ کر لیا ۔
چند دنوں کے بعد جب وہ اس صدمہ سے کچھ سنبھلا، تو اس کی سوچ نے پھر رخ بدلا ۔
‏ اور اس نے واپس اپنے گاؤں جانے کی بجائے اپنی زندگی کو بچانے کےلئے چپکے سے یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ اب واپس گاؤں جانے کی بجائے یورپ کے ‏کسی ملک میں چلا جائے گا کیونکہ اکثر وہ دوستوں سے یورپ کی خوشحالی اور امن و انصاف اور انسانی ہمدردی اور انسان دوستی کے قصے سنا کرتا تھا ‏خاص طور پر جنت کی حوریں جو یورپ کی سرزمین پر اتر ی ہوئی ہیں ان کی برصغیر کے نوجوانو سے لازوال محبت کی داستانیں وہ اکثر اپنے کچھ دوستوں ‏کی زبانی سنا کرتا تھا ۔
ہر روز کام سے چھٹی کے بعد اور خاص طور پر رات کو سونے سے پہلے اپنے ساتھیوں سے ایسی داستانیں سننے کا عادی ہو چکا تھا ۔یورپ کی جدید ترقی اور ‏وہاں کے لوگوں کی فیاضی کی کہانیاں سارے عرب ممالک اور برصغیر میں مشہور تھیں۔
‏ اور یوں دوستوں سے ادھار کے طور پر جمع کی ہوئی رقم ان کو واپس لوٹنے کی بجائے اس نے انسانی سمگلر جسے عام طور پر ایجنٹ کا نام سے پکارا جاتا تھا ‏کو دینے کا فیصلہ کر لیا اس طرح جونہی انسانی سمگلر کو رقم اداہوئی اس نے نظام دین کو دو ہفتے کے کھٹن اور تھکا دینے والے سفر کے بعد اٹلی پہنچا دیا۔
۔۔۔۔۔

چھٹا باب:‏‎

نرمل سنگھ نے اسکاچ وہسکی کے دوسرے پیک کی آخری چسکی لی اور نور جہاں سے کہا ارے نُوری پُتر کچھ کھانے کو بھی ملے گا یا پھر آج اسکاچ پر ہی ‏مجھے رہنا پڑے گا۔
‏ نور جہاں نے باروچی خانے سے ہی کہا ابھی لائی اور چند لمحے میں شامی کباب سے بھری ٹرے اُن کے سامنے لا کر رکھ دی۔
کاش میری بیٹی بھی تیرے جیسی جوان ہوتی تو وہ میرے لئے اس طرح کے کھانے بناتی اور میں بس کھاتا رہتا۔ نرمل سنگھ نے شامی کباب بائیں ہاتھ ‏کی تین انگلیوں سے اٹھاتے ہوئے کہا۔‎
میں بھی آپ کی بیٹی کے برابر ہی ہوں، نور جہاں نے تھوڑے لاڈ بھرے لہجے میں کہا۔‎
بیٹیاں خدا کی خاص نعمت ہوتی ہیں اس لئے تم بھی میری بیٹی ہی ہو ، تم بھی بہت سندر ہو، میرا مطلب ہے شادی شدہ ہو۔اپنے گھر والی ہو اس لئے ‏ذرا سنبھل کر لاڈ پیار کی بات کرنی پڑتی ہے کہ کہیں ہمارے داماد یوسف جی ناراض نہ ہو جاہیں۔
نور جہاں نے یوسف کی طرف ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ دیکھتے ہوئے کہا‏‎ ‎۔
پروفیسر صاحب آپ نے درست کہا ہے وہ حسد میں ناراض بھی تو ہو سکتے ہیں۔ مگر میں سوال تو کر سکتی ہوں نا آپ سے ؟
جی جی کیوں نہیں پُتر جی میں تمہارے ہر سوال کا جواب دینے کے لئے تیار ہوں۔
کہو کیا سوال ہے جی؟
آج آپ نے یہ خبر سنی ہو گی برصغیر کے ایک ملک میں دو عدد خودکش بمباروں نے خود کو ایک ہجوم میں دھماکے سے اڑا لیا ہے ان دھماکوں میں دو ‏سو سے زیادہ معصوم شہری ہلاک ہوئے ہیں اور تین سو سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں ۔
جی جی میں نے ٹی وی پر سنی ہے، آگے بتا پُتر۔
آج کل اس طرح کے واقعات زیادہ تر مسلم ممالک میں ہی کیوں ہو رہے ہیں یہ آپس میں کیوں لڑ جھگڑ رہے ہیں مسلم دنیا میں یہ جو جنگ و جدل کا ‏راج ہےاورجس کی وجہ سے غیر مسلم دنیا بھی خوف میں مبتلا ہے۔ یہ کیا ہو رہا ہے اس کا کیا مطلب ہے۔
میرے پاس اس کا جواب ہے مگر میں سب کے سامنے نہیں بتاوں گا۔ کیونکہ میں ابھی زندہ رہنا چاہتا ہوں۔ ‏
‏ تم نے یہ محاورہ سنا ہو گا دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں اور میں ابھی کسی شدت پسند کی گولی کا نشانہ نہیں بننا چاہتا میں ابھی محبت کا پیغام پھیلانے ‏کے واسطے زندہ رہنا چاہتا ہوں اور بلاوجہ خوف کی زد میں آ کر مرنا نہیں چاہتا۔تاہم میں اتنا ضرور کہوں گا۔
یہ سب اینٹی کرائسٹ ہیں یعنی میرا مطلب ہے انسانیت کے دشمن ہیں۔
‏ ہو سکتا ہے یہ سب کچھ انڈین لابی کا کام ہو یا پھر اسرائیل فلسطین سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لئے کروا رہا ہے یہاں تک تو تبصرہ نگار کہہ رہے ہیں مگر ‏افغانستان میں جو خانہ جنگی یعنی ان کی آپس کی لڑائی ہے اس کا ذمہ دار پاکستان بھی ہے اور روس بھی ہے کیونکہ پاکستان اس ملک پر اپنی عمل داری ‏چاہتا ہے اس پر قبضہ کرنا چاہتا ہے انڈیا آزادکشمیر پر قبضہ کرنے کی کوشش کررہا ہے وہ آزاد کشمیر میں دہشت گرد بھیج کر امن کو تباہ کر رہا ہے ‏پاکستان مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کرنے کی کوشش میں ہے اس کا وہ عملی مظاہرہ بھی کر چکا ہے اس مقصد کے لئے اس نے مقبوضہ کشمیر پر اپنی فوج کو ‏ایک بار اتار ا بھی تھا ، مگر اس لڑائی میں اسے بری طرح سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا یہ سب مسلم دنیا میں تعلیم کی کمی اور مذہبی انتہا پسندی کی وجہ ‏سے ہو رہا ہے شدت پسندی کی وجہ سے انسان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے اسی لئے وہ جدید دنیا کی جدید ترقی سے حسد کا سبق ‏اپنے اپنے فرقوں کے مدارس میں دیتے ہیں۔
ان میں کچھ لوگ اسی وجہ سے اس خلفشار اور انتشار کی حمایت کرتے ہیں کہ وہ دولت مند ہیں اور وہ امیر تر ہونا چاہتے ہیں یا پھر اپنی دولت کھونا نہیں ‏چاہتے اور کچھ مخالفت اس لئے کرتے ہیں کہ وہ غریب ہیں اور سیاسی و سماجی راہنماوں کے بغیر ان کے گھر کا چولہا نہیں چلتا ہےاور اس نہ ختم ہونے ‏والے محاذ میں حصہ ڈال کر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔
وہ کس طرح سے؟ تھوڑی وضاحت کریں گے آپ ؟
نوُر جہاں نے اس انداز میں سوال کیا جیسے اس کو کسی بھی بات کی سمجھ نہیں آئی ہو اور کمرہ جماعت میں وہ ایک طالبہ کی حیثیت سے استاد کے سامنے ‏بیٹھی ہوئی ہے۔
پروفیسر نرمل سنگھ نے پہلے اپنی نیلے رنگ کی پگڑی پر دائیں ہاتھ کی انگلیوں کو اس انداز میں رگڑا جیسے پگڑی کے نیچے اپنے سر کے بالوں میں خارش کر ‏رہا ہے پھر چہرے پر سنجیدگی طاری کرتے ہوئے اپنے دونوں ہونٹوں کو دائرہ کی شکل دی اور پھر پگڑی سے انگلیاں ہٹا کر اپنی لمبی مونچھوں پر ان کو ‏پھرتے ہوئے جواب دینا شروع کیا۔
دراصل میرے نزدیک بڑی وجہ وہاں پرجدید تعلیم کی کمی ہے اور اس کے علاوہ مذہبی کتابوں میں کیا لکھا ہوا ہے اس سے ناآشنائی ہے۔اپنے مذہبی ‏راہنماوں کی زبان سے جو کچھ سنتے ہیں اسی کو حرف آخر سمجھتے ہوئے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس طرح وہاں پر مذہبی انتہا پسندی‎ ‎کا ‏رحجان پیدا ہوا ہے ۔
جس کی وجہ سے زیادہ تر مسلم ممالک پر غربت کا راج ہے اور امیر طبقہ پسماندہ عوام کے لئے جدیدسائنسی اور فنی علوم کی تعلیم کے حق میں نہیں ‏ہے۔
‏ جہا ں غربت کا راج ہو گا وہاں نفسا نفسی کا عالم ہو گا ایسے معاشروں میں صبر اور برداشت کا عنصر ختم ہو جاتا ہے اور افراد ہجوم کی شکل میں عدالت کی ‏بجائے سڑکوں پر خود فیصلہ کرنا شروع کر دیتا ہے۔
‏ دوسری بڑی وجہ یہ ہے سارے امیر مسلم ممالک اپنا اپنا قدیم طرز نظام حکومت کو بچانے اور مسلم دنیا کے غریب ممالک کو اپنے زیر اثر رکھنے کے ‏لئے مختلف طرز پر مذہبی اور رفاہی ادارے اور گروپ ترتیب دیتے ہیں اور ان کو رقوم مہیا کرتے ہیں تاکہ مذہب کے نام پر قتل و غارت کا کھیل ‏جاری رکھیں‎ ‎اور غریب عوام ان کے زیر اثر رہیں۔
نُور جہاں نے ہلکی سی ہنسی کے ساتھ پروفیسر کی طرف دیکھتے ہوئے اپنا دایاں ہاتھ اوپر کرتے ہوئے ایک اور سوال داغ دیا۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ موجودہ اسلامک دنیا اس جنگ سے باہر کیوں نہیں نکلنا چاہتی؟
‏ انڈیا اور پاکستان کشمیر کی جنگ کو کیوں ختم نہیں کرنا چاہتے ؟
اور اس سے پہلے کہ پروفیسر جواب دینا شروع کرے۔
‏ خود ہی کہا ، معاف کرنا میں آپ کی باتوں میں اتنی مگن ہو گئی تھی میں آپ کو بتانا ہی بُھول گئی تھی کہ میرے اَنکل شہاب الدین بھی ابھی کھانے کے ‏لئے تشریف لانے والے ہیں جوایک جانی پہچانی پاکستانی شخصیت ہیں جن کی آج آپ کے ساتھ پہلی ملاقات ہو گی وہ پاکستان میں عوام کے ہر دل ‏عزیز دانشور ہیں اور اردو زبان کے بہت اچھے اور معروف شاعر بھی ہیں وہ صرف معروف ہی نہیں بلکہ نامور شعراء و ادبا میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
یہ کہنے کے بعدوہ معذرت چاہتی ہوئی کسی جواب کو سنے بغیر باورچی خانے کی طرف تیزی کے ساتھ چلی گئی تاکہ قورمہ کو جلنے سے بچا سکے۔
‏ پروفیسر نرمل سنگھ نے پاس بیٹھے ہوئے یوسف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔
آپ نے یہ کبھی بتایا ہی نہیں کہ آپ کے خاندان میں کوئی شاعر اور دانشور بھی ہے۔ میں بھی شادی سے پہلے شعر کہا کرتا تھا۔ابھی تک تمام شاعری ‏جو میں نے لکھی تھی میرے پاس محفوظ ہے بلکہ جلد ہی میں اپنا دیوان چھپوا رہا ہوں میں نے کچھ رقم اس مقصد کے لئے جمع کی ہوئی ہے۔پروفیسر ‏نے یوسف کی طرف مسلسل دیکھتے ہوئے بڑے پراعتماد انداز میں کہا اس دوران وہ دائیں ہاتھ سے اپنی مونچھوں کو تاؤ بھی دیتا رہا۔
یوسف نے اپنی آنکھوں کو معمول سے زیادہ کھولا جس کی وجہ سے اس کے ماتھے کی ‏‎ ‎تیوریوں میں اور زیادہ اضافہ ہو گیااور وہ حیرانگی سے بولا کیا یہ ‏واقعی سچ ہے ۔اس کو ثابت کرنے کے لئے اب آپ کو اپنا کوئی شعر تو سنانا پڑے گا۔
یہ تو آپ نے صحیح کہا ہے اگر شاعر ہوں تو شعر تو سنانا پڑے گا ۔
چلو جہاں زندگی کی بے شمار آزمائشوں سے گزرا ہوں یہ بھی دیکھ لیتے ہیں پروفیسر نے ہاتھ کی انگلیوں میں دبایا ہوا شامی کباب پلیٹ میں واپس رکھا ‏اور بے چینی سے پہلو بدل کرکہا ۔
عرض کیا ہے پھر کچھ لمحے گہری سوچ میں چلا گیا ۔
ہاں یاد آیا ، عرض کیا ہے۔
جی ارشاد یوسف نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
ایک غزل کا مطلع عرض کرتا ہوں،پروفیسر نے تھوڑا کھانستے ہوئے کہا،موجودہ حالات کے تناظر میں لکھا ہے۔
قافلے کی شکل میں سفر میں ہیں
ہم لوگ اس شہر کی نظر میں ہیں

واہ بہت ہی خوب، یہ شعر تو واقعی بہت اچھا ہے یو سف نے کہا۔
جی آپ کی مہربانی بہت شکریہ بڑی نوازش پروفیسر نے جواباً کہا۔
۔۔۔۔۔
شہاب الدین۔

شہاب الدین ایک اُدھیڑ عمراعلی تعلیم یافتہ سانولے رنگ کا مالک خوب صورت نین نقش کا مالک شخص تھا۔ افغانستان کی ایک ریاست غور کے علاقہ ‏سے اس کے اَباواجداد کا تعلق تھا جس پر وہ بہت فخر کرتا تھا۔
‏ اس کے آباواجداد شہاب الدین غوری کی فوج میں اہم عہدوں پر فائز تھے اور اس کے ہمراہ شہر پر شہر فتح کرتے جا رہے تھے وہ جب اس کے ساتھ ‏موجودہ پاکستان میں جہلم کے علاقے میں ہونے والی بغاوت کو کچلنے کے لئے آئے اور دریائے جہلم کے کنارے پڑاو ڈالا ، وہاں رات کے اندھیرے ‏میں دشمن کے اچانک حملہ میں بادشاہ کے مارے جانے کے بعد واپس وطن لوٹنے کی بجائے موجودہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں پھیل گئے اورپھر ‏نسل در نسل یہاں کے ہی ہو کر رہ گئے ۔
اکثر جب لوگ ان سے کہتے کہ آ پ بہت خوش قسمت ہیں تو وہ بہت پریشان ہو جاتا اور اپنے آباواجداد کو کُوسنا شروع ہو جاتا اور کسی کو سوال کا ‏موقع دئیے بغیر ان کے کارنامے بیان کرنے شروع کر دیتا خاص طور پر قتل و غارت کے واقعات اور کوئی بھی علاقہ فتح کرنے کے بعد وہاں کے مال و ‏اسباب کی تقسیم پر آپس میں مقابلہ اور ایک دوسرے کا بلاجواز خون بہانا، خوبصورت لڑکیوں اور خواتین کی بندر بانٹ کی دلچسپ اور دل خراش ‏داستانیں بڑی ہی دلچسپی کے ساتھ بیان کرنے کا عادی ہو چکا تھا۔
مگر ان سب باتوں پر وہ شرمندہ بھی ہوتا تھا اور سرعام معافی کا طلبگار بھی ہوتا تھا۔
اس نے شادی نہیں کی تھی اور نہ ہی کرنے کا خواہش مند تھا۔ وہ پاکستان سے یورپ میں اس لئے آیا تھا کہ بہتر معیار زندگی گزار سکے، کیونکہ اس ‏کے خون میں شاہانہ زندگی بسر کرنے کے انداز ابھی تک موجود تھے اور اسی خواہش کے ساتھ وہ یوسف کی مالی اوراخلاقی مدد کے ساتھ‎ ‎اس ملک ‏میں ‏‎ ‎پہنچا تھا یہاں پر ایک چھوٹی سی فیکٹری میں وہ ملازم تھا جہاں سُورکے گوشت کو محفوظ کر کے یہاں کی مقبول اور ہر گھر میں استعمال ہونے والی ‏سلامی اور پرشوتو تیار کیا جاتا تھا۔
وہ مذہبی طور پررسم و رواج کا قائل نہیں تھا وہ مذہب کی رو سے کھانے اور پینے کی تمام ہدایات کو نظر انداز کرتا تھا ۔ لباس کے معاملے میں وہ بہت ‏ہی اعلی ذوق رکھتا تھا گھر سے باہر نکلتے ہوئے وہ ہمیشہ صاف ستھرے اور یورپ کی مشہور کمپنوں کے تیار کردہ ملبوسات استعمال کرتا تھا۔ اوور کوٹ ‏اور فلیٹ ہیڈ جب سے وہ یورپ میں آیا تھا اس کی زندگی کا حصہ تھے۔وہ ایک نرم مزاج اور ذہین انسان تھا وہ ہر موضوع پر گفتگو کرنا جانتا تھا ‏موضوع سے باہر جانا اس کو نہایت بُور کر دیتا تھا۔ان سب باتوں کے ساتھ اردو شاعری کا اعلی ذوق اور شاعری کے اسرار و رمُوز پر اس کی دسترس ‏تھی اس نے عالمی ادب کا گہرا مطالعہ کیا ہوا تھا۔
شہاب الدین نے اندر داخل ہوتے ہی رسمی سلام کرتے ہوئے پہلے اپنا اوور کوٹ اور ہیڈ دروازے کے ساتھ بنے سٹینڈ پر لٹکائے اور سیدھا کھانے ‏کی میز کی طرف بڑھا جہاں پہلے سے ہی یوسف اور نرمل سنگھ براجمان تھے اور نور جہاں یوسف کی کرسی کے پیچھے کھڑی تھی اور اس کے دونوں ہاتھ ‏یوسف کے کاندھوں پر سے ہوتے ہوئے اس کے سینے کو چھُو رہے تھے ۔وہ بڑے انہماک سے نرمل سنگھ کی طرف دیکھ رہی تھی ۔
نرمل سنگھ نے دوبارہ سے اپنی عالمانہ طرز کی گفتگو کو یوں شروع کیا۔
‎ ‎میرا ایک دوست ہے جو دن رات مذہب کے تمام اصولوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے جب میں اسے ایسا کرتا ہوا دیکھتا ہوں تو مجھے محسوس ‏ہوتا ہے کہ اَنا پرست ہےصرف اپنے لئے جینا چاہتا ہے ، جب وہ مجھے اپنے مسلمان ہونے کے فائدے بتاتا ہے اور مزے لے کر کہانیاں سناتا ہے ‏کہ میں نے کبھی نماز قضا نہیں کی ، خیرات اور روزہ کے تمام فرض ادا کرتا ہوں ۔ تو مجھے لگتا ہے کہ میں اس کا دفتر میں ہیڈ باس ہوں اور وہ چاہتا ہے ‏کہ میں اپنے باس سے اس کی سفارش کروں اور اپنے باس سے اس کے لئے سفارش کروں تاکہ اسے جنت میں بھی کوئی اعلی عہدہ مل جائے۔
وہ اپنی ان حرکات سے کیا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کبھی کبھی مجھے یہ سوچنے میں دیر نہیں لگتی کہ وہ صرف اپنی بھلائی کے لئے اس دنیا میں جی ‏رہا ہے صرف اپنی عاقبت سنوارنے کے لئے دوسروں کی زندگی سے کھیلنا پسند کرتا ہے ، صرف جنت میں اپنے لئے آرام اور عیش و عشرت سے ‏بھرپور زندگی کے لئے نمازیں پڑھتا ہے ،جنت میں حوروں کے حصول کے لئے وہ ہر وہ کام بھی کرتا ہے جس میں چاہے انسانیت کی تذلیل ہی کیوں ‏نہ ہو، چاہے وہ چیز مقدس کتاب میں منع کی گئی ہو۔ میرا مطلب یہ ہے کہ جو کام دنیا میں منع ہے وہ مرنے کے بعد جنت میں حاصل کرنے کی لگن ‏میں انسانی اخلاقیات کی تمام حدوں کو پھلانک کر آگے نکلنے کی دوڑ میں زندگی گذار رہا ہے ۔‏
شہاب الدین نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا،مگر پروفیسر تم یہ پورے یقین کے ساتھ کیسے کہہ سکتے ہو کہ دنیا میں ہم سب ایک ہی سوچ کے مالک ہیں۔
نرمل سنگھ نے اپنے خالی گلاس میں وہسکی انڈیلتے ہوئے جواب دیا ، میں اپنی اُس دنیا کی بات کر رہا ہوں جس میں تم اور میں سانس لے رہے ہیں ‏کیونکہ میں جن لوگوں سے ملا ہوں ان کے ساتھ دوستی‎ ‎‏ کی بنیاد رکھنے کی سعی لاحاصل کی ہےوہ تمام لوگ کچھ عرصہ بعد اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ‏ہیں کہ میں ان کی شخصیت سے زیادہ ان کے مذہب سے متاثر ہو گیا ہوں، لہذا وہ مجھے دعوتِ اسلام دینا شروع کر دیتے تھے جس کی وجہ سے اب میں ‏بہت محتاط ہو گیا ہوں اور اب میں سمجھ گیا ہوں ۔
اسی لئے نرمل سنگھ تم بڑی احتیاط کے ساتھ میرے ساتھ گفتگو کر رہے ہو ، او ر پھر شہاب الدین اس شخص کی طرح سے مسکرانے لگا جو مذہبی ہونے ‏کے باوجود ذات پات سے حسد اور نفرت کا قائل نہیں ہے اور نہ ہی رنگ و نسل کی تفریق میں وقت برباد کرنے والا شخص ہے بلکہ وہ اچھے لباس ‏،اچھا کھانے اوراچھی شراب پینے کا عا دی ہو۔
اور کچھ چاہیے نُور جہاں نے باروچی خانے کی چھوٹی سی کھڑکی میں سے اپنا سر باہر نکال کر کہا اور کسی کے جواب دینے سے پہلے ہی فروٹ سے بھری ‏ہوئی ٹوکری لا کر میز کے درمیان میں رکھ دی جس میں چیری، اسٹرابری، مالٹے اور سیب تھے ٹوکری میز پر رکھتے ہی ایک اسٹرابری اُٹھا کر منہ میں ‏ڈالتے ہوئے کہا۔
آج افراد کے رویوں کے بارے میں ہی گفتگو ہو گی یا کھانے کی طرف بھی توجہ دی جائے گی یہ میں اس لئے کہہ رہی ہوں کہ میں اپنے ہاتھ سے ‏بنائے کھانے کی تعریف کی منتظر ہوں۔ مجھے اپنے ہر کام کی تعریف بہت اچھی لگتی ہے۔
یہ تو ہم بھول ہی گئے ہمیں کھانا کھائے بغیر تعریف کرنے سے پہلے کھانا ضرور کھا لینا چاہیے ورنہ اگلی بار دعوت نہیں ہو گی شہاب دین نے گلاس منہ ‏سے لگایا اور اسکاچ کا آخری گھونٹ گلے سے نیچے اُتارنے کے بعد منہ میں وہسکی کی کڑواہٹ کو محسوس کرتے ہوئے چہرے پر عجیب تاثرات لاتے ‏ہوئے کہا۔
جس پر سب نے ہنسنا شروع کر دیا اور کھانے کی ڈشوں کی طرف متوجہ ہو گئے۔
شہاب الدین مالٹے کا چھلکااتارتے ہوئے کہہ رہا تھا میں انڈیا اور پاکستان کی سرحد کے قریب ایک چھوٹے سے شہر کے محلے میں پیدا ہوا وہاں پر ‏مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے خاندان تقریباً ایک صدی سے آباد تھے ان میں زیادہ کی معاشی حالت بہت ہی خراب تھی۔ یہ تین گلیوں پر ‏مشتمل محلہ شہر کی اس جگہ پر تھا جو شہر کے مرکز سے نہ زیادہ دور تھا اور نہ ہی بہت زیادہ قریب تھا یہ وہ جگہ تھی جو تقسیمِ ہند سے پہلے انگریز حکمران ‏نے ان خاص لوگوں کو دی تھی جو شہر کو صاف رکھنے کا کام کرتے تھے یہ وہ لوگ تھے جو زیادہ تر نچلی ذاتوں سے تعلق رکھنے کی بنا پر مذہبی معاشرے ‏میں کوئی خاص مقام نہیں رکھتے تھے یا پھر مختلف شہروں سے ہجرت کر کے آئے ہوئے افراد تھے ۔ ‏
‏ یہ لوگ اپنے شہروں اور قبائل سے جدا ہو کر یہاں پر آباد ہوئے تھے اور اپنے معاشرے میں نفرت اور تعصب کی وجہ سے اپنے اصلی عقائد و ‏نظریات سے منحرف ہو کر اب ایک ہی مذہب کے پیرو کا ر تھے۔
جبکہ اس شہر میں ان کے اردگرد کی آبادی اسلام کو ماننے والی تھی جو زیادہ تر ہند و پاک کی تقسیم کے بعد انڈیا سے ہجرت کر کے آئے تھے یہ لوگ ‏ان ہندو افراد کے گھروں پر قابض ہو گئے تھے جو یہاں سے تقسیم کے بعد انڈیا ہجرت کر گئے تھے۔لیکن اپنے سامان سے بھرے گھروں کو کھلا ‏چھوڑگئے تھے ۔ اسی طرح ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے مسلمان بھی اپنے اثاثے وہاں چھوڑ کر آئے تھے۔جو یہاں سے ہجرت کر کے ‏جانے والوں کے استعمال میں ہیں۔
یوسف نے ایک لمبی سانس لیتے ہوئے شہاب الدین کی طرف دیکھے بغیر اس کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا میں اب تک جو سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ ‏ایک مذہبی جنگ تھی جس کی لپیٹ میں پورے ہندوستان کی آبادی آئی ۔
یورپ کے انگریز مسیحی اس وقت ہندوستان کے حکمران تھے ہندو اور مسلمان ان کے تابع تھے مسلمان ایک بڑی مذہبی اقلیت کے طور پر ہندوستان ‏میں تھے‎ ‎جب آزادی کے مطالبے نے زور پکڑ لیا تو یورپین مسیحیوں یعنی انگریز وں نےواپس برطانیہ لوٹ جانے سے پہلے ہندوستان کو تقسیم کرنے کا ‏فیصلہ کیا مگر برطانوی حکومت اس بات کا اندازہ نہ کر سکی کہ ہندو اور مسلم اکھٹے مل کر آزادی کا نعرہ لگانے والے، ایک ساتھ جلسے جلوس اور انگریز ‏سرکار کے خلاف تقاریر کرنے والے، ایک ساتھ جلسوں اور اجتماعات میں انگریز سرکار کے تشدد اور گولی کا نشانہ بننے والے، برطانوی حکومت کے ‏خلاف دو بڑے اتحادی ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ہوتے ہی ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے اور مذہب اور عقیدہ کے نام پر ایک دوسرے کو ‏گاجر مولی کی طرح کاٹنا شروع کر دیں گےتاہم پانی سر سے گذر چکا تھا اور برطانوی حکومت کی طرف سے تقسیم ہند کے سرکاری اعلان کے بعد ‏شروع ہونے والی لوٹ مار اور ہجرت کے دوران ہندو اور مسلم کے درمیان وسیع پیمانے پر پیدا ہونے والی مذہبی نفرت و حسد کے نام پر قتل و غارت ‏پر قابو پانے میں ناکام رہی۔
‏ یوسف تم درست فرما رہے ہو نرمل سنگھ نے کہا ۔
مگر یوسف نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ۔
ہندو ازم اور مسلم ازم میں بہت زیادہ فرق ہونے کی وجہ تو سمجھ میں آتی‎ ‎ہے مگر مسیحیت اور اسلام میں تو دونوں کا آسمانی خدا بھی ایک ہی ہے اور ‏اس کی صفات میں بھی کوئی فرق نہیں ہے۔یعنی خدا محبت ہے وہ رحیم و کریم ہے وہ معاف کرنے والا اورسب کا خالق و مالک ہے۔اس زمین و آسمان ‏کا تخلیق کار ہے، بائبل اور قرآن میں بہت ساری چیزیں ایک جیسی ہیں پھر ان کی آپس میں کیا دشمنی ہو سکتی ہے۔
نرمل سنگھ نے بے چینی سے پہلو بدلتے ہوئے سامنے پڑے شیشے کے چھوٹے سے گلا س کو انگوٹھے اور دو اُنگلیوں سے پکڑ کراُٹھایا اور اپنے ہونٹوں ‏پر اس انداز میں رکھا کہ اس کی باقی دونوں اُنگلیاں گلاس کے نیچے سے ہوکر اس کی ہتھیلی کے درمیانی حصہ کو چُھو رہی تھیں۔
‏ ایک سکینڈ میں اس نے ایک گھونٹ لیمن چینو کا حلق میں اُتارا اور اس طرح سے منہ کو بنایا جیسے اپنے حلق سے آگ نیچے اُتار رہا ہے اور پھر ہونٹوں ‏کی گول شکل بنا کر سانس کو باہر کی طرف پھینکا اور پھر شیشے کے گلاس پر بنے رنگین گیندے کے پھولوں پر نظریں جما دیں۔‎
نرمل سنگھ نے اچانک کہنا شروع کر دیا ، یوسف جی ،میں نے کہا سرکار ذرا رُکیے، بریک لگایئے۔‎
آپ نے خدا اور انسان کی محبت کا ذکر کیا ہے۔
یوسف نے نرمل سنگھ کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیا ہوا ہے پروفیسرجی، کیا میں نے کسی کے دل دکھانے والی بات کہہ دی ہے۔
نہیں میرا یہ مطلب نہیں ہے نرمل سنگھ نے اسٹاربری منہ ڈالتے ہوئے کہا۔
‏ میری سرکار اس محبت نے تو مجھے کسی کام کا نہیں رہنے دیا اور پھر بوتل سے ایک بار پھر لیمن چینو چھوٹے گلاس میں ڈالتے ہوئے کہنا شروع کیا۔
یہ محبت کیا چیز ہے میرے لئے یہ ایک بھید ہے جو میں اپنے دل سے اکثر پوچھتا رہتا ہوں‎ ‎۔‎
‏ اس کا اسرار کیا ہے ؟ یہ کیوں، کب، کہاں اور کیسے ہوتی ہے مگر اس کا جواب آج تک مجھے نہیں ملا ہے کبھی اسے سمجھ سکوں گا یا نہیں ، یہ معلوم نہیں ‏ہے۔
کسی دوسرے شخص کے لئے ہمدردی، شفقت یا پھر رحم جیسے جذبے کا اظہار ہی محبت کہلاتی ہے۔
‏ یا پھر اس کے جذبہ اور کام سے ، جس سے انتہائی خوشی اور مسرت ملتی ہے جیسے مجھے میری نریندر کور سے سکون و راحت اور میرے بے قابو جذبوں ‏کو تسکین ملتی ہے ہو سکتا ہے اسی کا نام محبت ہے اسی کو انسان محبت سمجھتا ہے کیا میں نے درست کہا ہے۔
شہاب الدین نے بھی موقع دیکھ کر ایک دم بولنا شروع کیا دیکھو بھائی ہر مذہب میں محبت کا درس موجود ہے اور یہ میں ہی نہیں دنیا کا ہر فرد تسلیم ‏کرتا ہے تمام انسان بذات خود محبت کا نشان ہیں۔
‏ مگر مجھے کوئی یہ بات سمجھا دے کہ اگر سب سچ ہے تو پھر لڑائی کس بات پر ہو رہی ہے مذہب کے نام پر قتل و غارت کا بازار کیوں گرم ہے۔کیوں ‏انسان خانوں میں بٹ گیا ہے ہر کوئی اپنے مذہب کو دوسرے مذہب سے کیوں بہتر و برتر سمجھتا اور کہتا ہے۔
شہاب الدین نے نیپگین اُٹھاتے ہوئے یوسف اور پھر نور جہاں کی طرف اس انداز میں دیکھا جیسے اپنی بات کو جاری رکھنے کی اجازت مانگ رہا ہو۔
یوسف فوراً سمجھ گیا اور کہا آپ بولیں چاچا جی ہم سب آپ کو بڑے دھیان سے سن رہے ہیں۔
‏ تو میں کہہ رہا تھا دراصل مذہب ایک ایسا مضمون ہے جو محبت کی نوعیت اور انسان کے اخلاق اور سیاسی اثرات کا معائنہ کرتا ہے۔
ایک فلسفی کے لئےمحبت کے بارے میں سوال “پیار کیا ہے؟” بہت سے مسائل پیدا کرتا ہے۔
‏ محبت کا خلاصہ اور اختتام کیا ہے کیا یہ ایک حقیقی لفظ ہے تمام محبت کرنے والوں کے لئے، محبت ایک ایسا ذریعہ ہے جس کی وجہ سے ہمارا ” خود ” اور” ‏محبت ” ایک دوسرے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے بے حد متاثر ہوتے ہیں۔
کچھ نے اس کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہےاور کچھ نے اسے ناقابل اعتماد کے دائرے میں چھوڑدینے کو ترجیح دی ہے۔
تاہم یہ ناقابل یقین نہیں ہے کہ محبت ہماری ثقافتوں میں ایک بہت بڑا اور ناگزیر کردار ادا کرتی ہے ہم اس پر شاعر کے تخلیق کردہ گانوں، فلم، اور ‏ناولوں میں مزاحیہ طور پر یا سنجیدہ طور پر بحث‎ ‎کرتے ہیں ‏‎ ‎یہ موجودہ جدید زندگی میں نوجوانوں کے لئے ایک زندہ متحرک موضوع بھی ہے بلکہ ‏ایک مستقل موضوع بھی ہےفلسفہ محبت کی اہمیت قدیم یونانیوں کے وقت سے ایک اہم موضوع کے طور پر زیر بحث ہے۔
سمجھا دے مجھے اپنا فلسفہ محبت کا
تجھ کو دل سے دیتا ہوں واسطہ محبت کا

شعر کہنے کے بعد دوبارہ کہنا شروع کیا ۔
‏ محبت کے مادیاتی تصور سے نظریات کی بنیاد کو تیار کیا جاتا ہے یہ بالکل خالص طور پر ایک جسمانی رجحان ہے۔
یہ ایک حیوانی یا جینیاتی خواہش ہے جو ایک انسانی معاشرے میں رویے سے متعلق نظریات کا تعین کرتی ہے۔
روحانی معاملہ میں محبت کی شدت پسندی ہم سب کو اجازت دیتی ہے کہ ہم خدا کے ساتھ محبت و عقیدت کا اظہارکر سکیں۔
‎ ‎مغربی روایت میں تاریخی طور پر افلاطون کی بحث کے نتیجے میں جو ابتدائی متن ہمارے سامنے آتا ہےاس کا حوالہ ہمیں ایک بہت ہی بااثر اور ‏پرکشش تصور فراہم کرتا ہے کہ محبت بلندیوں کی ایک سلسلہ وار خاصیت ہے جس میں جانوروں کی بھی خواہشات یا بنیاد پرستی کی ایک پر کشش ‏فکری تصویر کے ساتھ پذیرائی کی جاتی ہے ۔
‎ ‎محبت جس کو محبت کے مذہبی نقطہ نظر کے حوالے سے بھی تشکیل دیا جاتا ہے جو اس سے بھی زیادہ حد تک متاثر کن ہے جو حساس توجہ کے ساتھ ‏مطلقیت کی طرف منتقل ہوتی ہے۔
پروفیسر نرمل سنگھ نے شہاب الدین کی بات کو درمیان میں کاٹتے ہوئے کہا ۔
‏ شہاب صاحب میں نےپڑھا ہے پلاٹونیکی محبت کے خلاف مزاحمت اور اس کے حامیوں کے ساتھ ساتھ متبادل نظریات بھی ہمارے سامنے پیش ‏کیے جاتے ہیں اس میں فلیٹو کے طالب علم، ارسطو اور اس کے اس سے زیادہ متاثر کرنے والے سیکولر نظریات بھی شامل ہیں، جس میں انہوں نے ‏‏’دو لاشیں اور ایک روح کی وضاحت بھی کی ہے۔
شہاب الدین نے بات کو پھر اپنی طرف لاتے ہوئے کہنا شروع کیا ۔
دراصل پیار میں فلسفیانہ انداز کے متعلق متعدد ذیلی مضامین بھی اس میں شامل کیے گئے ہیں علم کے اصول کے مطابق تحقیق و تنقید کے لئے ‏مذہب، انسانی فطرت، سیاست اور اخلاقیات، عام طور پر محبت کے بارے میں بیانات یا دلائل پر منحصر ہوتے ہیں اس کے لئے ہم دیکھتے ہیں کہ ‏فطرت اور انسانی زندگی میں اس کا کردار کیا ہے مثال کے طور پر فلسفہ کے تمام مرکزی نظریات سے رابطہ قائم رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں ۔
کہ اس کے مقابلے میں جنسی تعلقات اوراس کے ساتھ ساتھ جسم کے فلسفہ اور ارادی انسانی خیالات، خواہشات، اخلاقیات اور اسی طرح کے ‏مختلف نظریات پر مبنی محبت کا فلسفہ ہے۔
یہاں پر نُور جہاں نے بات کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
‏ آپ نے اپنی کہانی شروع کی تھی اب اور کوئی اس چھوٹی سی دعوت میں نہیں آنے والا کیونکہ میں نے نرمل سنگھ اور چوہدری امین کے علاوہ ‏پاسٹرسلیم ڈیوڈ بھٹی کو بھی آپ کے بارے میں بتایا تھا اور اگر وہ مصروف نہیں ہیں تو آج ہمارے ساتھ کھانے میں شامل ہو جائیں لیکن آج وہ اپنی ‏مصروفیت کی وجہ سے نہیں آ سکے کسی اور دن اُن سے ملاقات ہوگی۔
شہاب الدین نے گلے کو صاف کرنے کے انداز میں کھنکھارتے ہوئے کہنا شروع کیا ۔
میں ذکر کر رہا تھا کہ جس محلے میں ہم رہتے تھے وہاں ایک ایسا خاندان بھی آ کر آباد ہوا تھا جو موجودہ افغانستان کے علاقے غور سے ہجرت کر کے ‏آیا تھا اور افغانستان کے بادشاہ محمد غوری کی نسل سے تعلق رکھتا تھا۔
جب اس خاندان کے ہاں آٹھویں بچے کی ولادت ہوئی تو اُسے آخری سمجھتے ہوئے اس کے باپ نے اس کا نام اکبر رکھا۔اسکی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ یہ ‏سب سے چھوٹا ہے اس لئے ہو سکتا ہے اپنی عمر کے حساب سے اس کی طبعی عمر ہم سب سے لمبی ہو اور اس کی موت سب کے آخر میں ہو گی۔
میرے خیال میں یہ کوئی اتنی خوبصورت بات تو نہیں تھی نام میں کیا رکھا ہے یہ تو صرف ایک انسان کی شناخت کے لئے رکھنا پڑتا ہے۔نرمل سنگھ ‏نے اپنی طرف سے نہایت مدبرانہ انداز میں کہا۔
شہاب الدین یہ بات سننے کے بعد ایک لمحہ کے لئے خاموش رہا اور پھر اپنی بات شروع کر دی۔‎
اکبر کی پیدائش کے بعد جشن کا سماں شروع ہو گیا کچھ رقم اُدھار لی گئی تاکہ شاہانہ شوق اور انداز کو پورا کیا جا سکے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اُدھار کی ‏رقم وہ کیسے واپس کریں گے کوئی کام دھندہ ان کے پاس تھا نہیں اس خاندان میں کوئی بھی اعلی تعلیم یافتہ نہیں تھا اور نہ ہی کوئی ہنر مند تھا۔‏
‏ لیکن گھر کا سربراہ بڑے پر اعتماد لہجے میں ادھار دینے والے کو کہہ رہا تھا میں تمہاری ایک ایک پائی سود کے ساتھ وقت پر آپ کو واپس کروں گا لیکن ‏پورے محلے کو کھانے کی دعوت ضرور دوں گا یہ میری خاندانی روایت ہے میری انا اور وقار کا مسلہ ہے۔
نرمل سنگھ نے شہاب کو ایک بار پھر ٹوک دیا اور کہا میرے خیال میں رات کافی ہو چکی ہے اگر شہاب جی آپ کو ناگوار نہ لگے تو اگلے ہفتہ میرے گھر ‏پر آپ سب شام کے کھانے پر تشریف لائیں اور ہندوستانی دیسی کھانا کھائیں آپ کی بھابی امینہ کماری بہت اچھا مزےدار کھانا بناتی ہے مرچ مسالہ ‏ڈال کر، میرا کہنا کا مطلب ہے بارہ مسالے ڈال کر ۔
ویسے تو میں بھی کھانا بنانے میں ماہر ہو گیا ہوں مگر کھانا آپ کی بھابی کے ہاتھ کا بنا ہوا ہی مجھے پسند ہے مجھے قوی اُمید ہے کہ آپ کو بھی پسند آئے گا اور ‏مجھے یقین ہے آپ انگلیاں چاٹتے رہ جائیں گے۔ اُمید کرتا ہوں کہ کوئی بھی بہانہ نہیں بنائے گا اور وقت پر آپ سب آئیں گےیہ کہتے ہوئے اس ‏نے گلاس میز پر رکھا اور گھر جانے کے لئے کھڑا ہو گیا۔
‏ اس کے ساتھ ہی شہاب الدین بھی کرسی کو پیچھے کی طرف سرکاتے ہوئے کھڑا ہو گیا میری آپ سے درخواست ہے میری لمبی اور دلچسپ داستان ‏سب کوسننی پڑے گی کیونکہ اس آب بیتی میں کچھ ایسے موڑ بھی آئیں گے جو ہمارے اردگرد رہنے والے بہت سے لوگوں کی کہانی سے مشابہت رکھتے ‏ہیں کچھ دوستوں کے لئے نصیحت آموز بھی ہیں اوربہت سے کردار اب بھی اس جدید دنیا میں آپ کو زندہ وجاوید ملیں گے آخر میں آپ سب کا ‏شکریہ ۔
میرے پیارے ویر جی، تمہاری کہانی مکمل طور پر سننے کے لئے ہی میں نے دعوت کا اہتمام کیا ہے کچھ اور دوست بھی آئیں گے جو کہانی اور شاعری ‏سننے کے شوقین ہیں نرمل سنگھ نے بڑے نرم لہجے میں کہا۔
یوسف اور نُور جہاں نے بھی ہاں کہہ دیا اور تمام لوگ ایک دوسرے کو خدا حافظ اور اگلے ہفتہ پھر ملاقات ہو گی کہتے ہوئے آہستہ آہستہ مرکزی ‏دروازے کی بڑھنے لگے۔
۔۔۔۔۔

ساتواں باب:‏‎

نرمل سنگھ اپنی بیوی سے پوچھ رہا تھا امینہ کماری کھانا کہاں تک پہنچا ہے ۔
جی اسٹشنھ پر پہنچ گیا ہے فکر نہ کریں۔‏
او ہو بڑی مذاقیاً ہو گئی ہے نرمل نے ہلکا سا مسکراتے ہوئے کہا میرا مطلب ہے بالکل تیار ہے یا پھر ابھی وقت لگے گا۔
بس تیار ہے جی میں برتنوں میں ڈال کر ترتیب سے رکھ رہی ہوں۔
او سُندریے ذرا جلدی کر لے اور سُن خود بھی تیار ہو جا اور کوئی ڈھنگ کی اور سوہنے جے رنگ والی ساڑی پہننا، تمام کے تمام دوست اور رشتہ دار آ ‏رہے ہیں آج کی محفل رات دیر تک جاری رہنی ہے‎ ‎اس لئے کہہ رہا ہوں۔
جی بالکل ٹھیک ہے امینہ کماری نے پلیٹیں میز پر ایک ساتھ ہی رکھتے ہوئے کہا۔‎
اور دیکھ وہ وہسکی ، بیئر اور دیگر مشروبات بھی ابھی سے میز پر لگوا لے۔
جی جی آپ پریشان نہ ہوں میں نے اٹلین اور جرمن بئیر کی بوتلیں بھی ٹھنڈی ہونے کے لئے فرج میں رکھ دی ہیں آپ فکر نہ کریں۔
خوش کردیا ہے تُو نے او میری امینہ کماری او میری سوہنی، خوش رہ تُو ۔
آپ باتیں ہی کرتے رہیں گے کیا خود تیار نہیں ہوں گے۔
او ہو یہ تو بالکل میں نے سوچا ہی نہیں تھا اور تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا غسل خانے کی طرف چلا گیا۔
پہلا مہمان جو نرمل سنگھ کے ساتھ ایک چھوٹے ہال نما کھانے کمرے میں داخل ہوا وہ شہاب الدین تھا جو نیلے رنگ کے سوٹ کے ساتھ سفید رنگ ‏کی شرٹ اور ہلکے سرخ رنگ کی ٹائی زیب تن کیے ہوئے تھا۔نرمل سنگھ بھی سفید رنگ کا سوٹ اور ہرے رنگ کی شرٹ کے ساتھ سُرخ رنگ کی ‏ٹائی اور اسی رنگ کی پگڑی باندھے ہوئے تھا۔ دونوں دیوار کے‎ ‎ساتھ رکھے ہوئے سیاہ رنگ کے چمڑے سے بنے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئے۔
آپ پینے کے لئے کیا لیں گے نرمل سنگھ نے شہاب سے پوچھا؟
ابھی سانس تو لینے دو یار ، ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے پئیں گے کھائیں گے سنیں گے سنائیں گے اور آپ کی شاعری سے بھی لطف اندوز ہوں گے ‏شہاب نے صوفے کے پیچھے کی طرف اپنی کمر لگاتے ہوئے کہا۔
نرمل سنگھ نے اپنی ٹائی پر اُنگلیاں گھماتے ہوئے جواب دیا۔سرکار آپ کا اپنا گھر ہے تکلف کی کوئی بات ہی نہیں ہے یہ شام آپ جیسے با ذوق اور ‏صاحب ہنر حضرات کے لئے ہی ہے۔
‏ اس دوران ایک دبُلا پتلا تقریباً آٹھ سالہ لڑکا تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوئے نرمل سنگھ کے قریب آیا اور بڑے ادب کے ساتھ کہا پاپا جی انکل یوسف آئے ‏ہیں ،ٹھیک ہے بیٹا ان کو یہاں ہی لے آو۔
‏ یہ نرمل سنگھ کا بیٹا راہول سنگھ تھا جو اطلاع دینے کے فوراً بعد واپس دوڑتا ہوا جس طرف سے آیا تھا یعنی باروچی خانے کی طرف چلا گیا۔
شہاب نے راہول کی طرف دیکھا اور پھر نرمل سنگھ سے پوچھا کہ یار تمہارا بیٹا تو خوبصورت ہندوستانی مٹی کا بہترین شاہکار ہے۔ ہاں جی ہاں یہ تو ‏خالص ہندوستانی خون ہے یعنی میرا اور میری سندر امینہ کماری کا بیٹا ۔نرمل سنگھ ابھی اور کچھ کہنے ہی والا تھا کہ یوسف کی آواز آئی۔
چاؤ توتی‎ (Ciao tutti) ‎سب کو سلام اور کھانے کمرے کے اندر آ گیا اس کے پیچھے نور جہاں بھی اپنی والدہ ماریا گمریتی کے ساتھ اندر داخل ہو ‏گئیں اور کمرے کی دائیں دیوار کے ساتھ رکھے ہوئے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کمرے پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہوئے کمرے میں موجود ہر چیز کا ‏جائزہ لینے کے بعد ماریا اپنی بیٹی سے اطالوی زبان میں باتیں کرنے لگیں۔
نرمل سنگھ ابھی یوسف کے ساتھ کھڑا اس کا حال چال ہی پوچھ رہا تھا کہ راہول پھر آیا اور پھر نہایت ادب کے ساتھ کہا پاپاجی اور مہمان بھی آئے ‏ہیں۔
نرمل سنگھ نے معذرت خواہ کے انداز میں کہا میں ابھی واپس آتا ہوں اور راہول کے ساتھ کمرہِ طعام سے نکل کر باہر گیٹ کی طرف چلا گیا‎ ‎۔
جب نرمل سنگھ دوبارہ کمرہِ طعام میں داخل ہوا تو اس کے ساتھ نُور جہاں کا والد مولوی نظام دین اور پاسٹر ڈیوڈ سلیم بھٹی اور بیگم بھٹی اور ان کے دو ‏بچے جُوشوا اور کرن بھی تھے ان کے پیچھے چوہدری امین اور اصغر دیوانہ راجپوت بھی تھا۔
رسمی سلا م دعااور حا ل احوال کے بعد اس چھوٹے سے ہا ل نما کھانے کے کمرے میں چند سکینڈ کی خاموشی چھا گئی، اس خاموشی کونرمل سنگھ نے ‏توڑتے ہوئے کہا۔
آپ سب کو میری اور میری گھر والی، اور میرے دل کی ملکہ امینہ کماری اور ہمارے اکلوتے بیٹے راہول سنگھ کی جانب سے اس چھوٹے سے گھر میں ‏خوش آمدید۔ ‏
میز پر آپ کی پسند کے مطابق مشروبات اور پکوان تیار رکھے ہیں ۔آپ جہاں سے مرضی شروع کرسکتے ہیں‎ ‎میرے کہنے کا مطلب یہ ہے جی آپ ‏اپنی پسند کے مطابق گرم مشروب یا پھرٹھنڈے مشروب یا پھر آپ نمکین یا میٹھے پکوان سے اپنے کھانے کا افتتاح کر سکتے ہیں۔‏‎
‏ حضرات نرمل سنگھ کے کہنے کا مطلب ہے مشرق و مغرب یا پھر شمال و جنوب کی سمت سے یا پھر جس ڈش پر آپ کی نظر ٹھہر جائے وہاں سے اپنے ‏کھانے کا آغاز کر سکتے ہیں اصغر دیوانہ راجپوت نے مذاق کے طورپر کہا اور پھر اکیلے ہی ایک ہلکا سا قہقہ لگایا جس کے جواب میں بچوں سمیت ہرایک ‏نے مسکرا کر جواب دیا جی جی شروع کرتے ہیں۔
ماریا گمریتی یہ کہتے ہوئے کیوں نہیں ، مشروبات کی میز کی طرف بڑھ گئی اور مالٹے کا جُوس شیشے کے گلاس میں انڈیل کر واپس اپنی جگہ پر آ گئی۔
سرمئی رنگ کے لمبے بالوں والی ماریا گمریتی پچھتر(75)برس کی عمر میں بھی اپنے سارے کام خود کرنے کی عادی تھی مولوی نظام دین سے عمر میں ‏دس برس بڑی ہونے کے باوجود اس کی ہم عمردکھائی دینے والی سُرخ و سفید اور خوبصورت نین نقش کی مالک ماریا گمریتی نے سُرخ رنگ کی لپ ‏اسٹک ہونٹوں پر لگا ئی ہوئی تھی اگر وہ سرخی نہ بھی لگائے تو اس کے ہونٹ خدا نے پہلے ہی سرخی مائل گلابی رنگت کے بنائے ہوئے تھے یوں لگتا ‏ہے کہ اس نے لپ اسٹک پہلے سے ہی لگا رکھی ہے اس عمر میں بھی پُرکشش اور حسین دکھائی دے رہی تھی۔حالانکہ چہرے پر کسی بھی قسم کا میک ‏اپ نہیں کیا ہوا تھا وہ ہاتھ میں جُوس کا گلاس تھامے بہت احتیاط کے ساتھ قدم اُٹھاتی ہوئی نظام دین کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی اورآہستہ لہجے میں ‏اس سے پوچھا۔
کیا مسجد کمیٹی کی میٹنگ کامیاب رہی؟
ہم کہہ سکتے ہیں کہ کامیاب رہی نظام دین نے جواب دیا ۔
کیا کچھ گڑ بڑ تو نہیں ہوئی ہے۔
‏ تمہیں معلوم ہے تھوڑی بہت تو ہو جاتی ہے معمول کے مطابق فنڈز پر گرما گرم بحث ہوئی ، حسبِ معمول تلخ کلامی شروع ہوگی اورپھر کامران ‏گجراتی نے میٹنگ کا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی دے دی مگر کچھ اراکین کے بیچ میں آ جانے سے زیادہ گڑبڑ تو نہیں ہوئی مگرچندے سے اخرجات ‏چلانے کا معاملہ بغیر کسی نتیجے پر پہنچے اگلی میٹنگ تک ملتوی ہو گیا‎ ‎۔
اب کیا ہو گا؟ماریا نے پوچھا
ایک اور میٹنگ بلانی پڑے گی۔اور ساتھ ہی ماریا سے کہا برائے مہربانی میرے لئے میز پر سے انگور کا جُوس تو لانا میں ذہنی طور پر بہت تھک گیا ہوں‎ ‎یہ اس کا ایک حربہ تھا ماریا کے بہت سارے سوالوں سے بچنے کا۔
‏ ماریا بھی اب نظام دین کا یہ حربہ بہت اچھی طرح سے سمجھ چکی تھی مگر وہ ہر بار اس کا جواب دینے کی بجائے خاموش رہنا پسند کرتی تھی اور نظام دین ‏کا ہر کام خوشی سے کرنا پسند کرتی تھی۔
ماریا اُٹھ کر مشروبات کی میز کی طرف چلی گئی۔اس کے جاتے ہی نظام دین اپنی نشست سے اُٹھا اور سیدھا شہاب الدین کے ساتھ والی خالی جگہ پر ‏بیٹھ گیا یہ کرسی نرمل سنگھ کے باروچی خانے میں اپنی بیگم کے بلانے پر چلے جانے پر ایک منٹ پہلے خالی ہوئی تھی۔
اب سارے مرد حضرات کھانے کمرے میں ایک طرف ہی جمع ہو گئے تھے۔
چوہدری امین نے سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا میرا خیال ہے صوفے کی بجائے کھانے کی میز پر چلتے ہیں گپ شپ بھی چلتی رہے گی اور کھانے ‏پینے کا دور بھی چلتا رہے گا۔
چوہدری امین نے پرشُوتو کوتو ( گوشت پکا کر محفوظ کیا ہوا ) کے کاغذ کی طرح پتلے کاٹ کر پلیٹ میں سجا کر رکھے ہوئے قتلاوں میں سے ایک کو ‏اپنے بائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور شہادت کی اُنگلی سے پکڑ کر اپنے سر کے برابر اونچا کیا اور پھر منہ میں ڈال لیا اور پھر دائیں ہاتھ میں پکڑے ہوئے بئیر ‏کے گلاس کو ہونٹوں سے لگا لیا۔
۔۔۔۔۔
چوہدری امین۔
‏ پنجاب کے ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور سیر و سیاحت کا شوقین تھا مختلف ممالک میں اپنی بیوی بچوں کے بغیر گھومتے رہنا اس کا ‏محبوب مشغلہ تھا وہ جس ملک میں بھی جاتا وہاں سیاسی پناہ کی درخواست جمع کروا دیتا اور وہاں تب تک رہتا جب تک اس کی درخواست رد نہ کر دی ‏جاتی اس طرح وہ چھ سال تک چھ ممالک میں رہنے کا تجربہ حاصل کر چکا تھا اس کا اسے مالی طور پر بھی فائدہ ہوتا ااور سیر کی سیر بھی ہو جاتی کیونکہ ‏جس ملک میں وہ سیاسی پناہ کی درخواست کرتا وہاں وہ حلفیہ بیان دیتا کہ اسے اپنے ملک میں نظریات کی بنیاد پر جان کا خطرہ ہے اگر وہ واپس اپنے ملک ‏میں گیا تو اس کے مخالف اسے جان سے مار دیں گے لہذا وہ اپنے ملک نہیں جانا چاہتا اس طرح اسے اس ہر ملک میں عارضی طور پر روٹی کپڑا اور مکان ‏کی مفت سہولت فراہم ہو جاتی اس کے علاوہ اس کو صحت کی سہولت کے ساتھ ہر ماہ مناسب جیب خرچ بھی مل جاتا مگر جب اس کا سیاسی پناہ کا دائر کیا ‏ہوا دعوی غلط ثابت ہو جاتا تو اس ملک کی سرکار اسے اس کے جھوٹ بول کر سیاسی پناہ لینے کی سزا دینے کی بجائے نہایت مہذب اور ہمدردنہ انداز ‏میں ان کا ملک چھوڑ دینے کا پروانہ دے دیتے اور وہاں کی انسانی فلاح و بہبود کے لئے رضاکارانہ طور پر کام کرنے والی تنظمیں اس کی مدد کو پہنچ ‏جاتیں جو اسے واپس جانے کے لئے ہوائی جہاز کے کرایہ کے علاوہ کچھ اضافی رقم کی بھی مدد کرتے تاکہ اپنے ملک واپس جا کر کوئی چھوٹا موٹا کاروبار ‏بھی کر سکے۔
مگر چوہدری امین ان کی دی ہوئی امدادی رقم سے اپنے ملک میں کاشت کاری کے لئے اپنے لئے ایک اور زمین کا ٹکڑا یا رہائشی پلاٹ خرید لیتا اور خود ‏یورپ کے کسی اور ملک میں غیر قانونی طریقہ سے د اخل ہو کر پھر سیاسی پناہ کی درخواست جمع کروا دیتا۔
‏ آخر کار جب یورپ میں ایک مشترکہ کرنسی یورو کے نام سے رائج ہو گئی اور یورپین یونین میں شامل تمام ممالک کو ویزہ فری ایک دوسرے کے ‏ملک میں آنے جانے کی سہولت کا آغاز ہو گیا اور ہجرت کر کے آنے والوں کا ڈیٹا سسٹم پورے یورپ میں ایک ہو گیا تو چوہدری امین نے یہ فیصلہ کیا ‏کہ اس سے پہلے وہ اس جدید نظام کی زد میں آ جائے اس نے ایک ملک کا انتخاب کر کے وہاں مستقل طور پر رہنے کا فیصلہ کیا تاکہ اسے سرکاری طور ‏پر اس کے آبائی ملک زبردستی نہ بھیج دیا جائے اس طرح اس نے اپنی انگلیوں کے نشان یورپین نظام میں محفوظ ہونے سے پہلے ہی اٹلی کا رخ کیا ۔
یہاں اس نے سب سے پہلے تو سیاسی پناہ کی درخواست جمع کروا دی تاکہ سرکاری طور پر اسے عارضی طور پر رہائش کا پرمٹ مل جائے اور پھر کچھ ماہ ‏بعد ایک ہوٹل میں ڈش واشر کا کام شروع کیا جس کی وجہ سے اسے اٹلی میں رہائش کا مستقل اجازت نامہ مل گیا اور اب اس کے پاس غیر معینہ ‏مدت کا رہائشی پرمٹ ہے اب وہ سیر و سیاحت کے موسم میں اگر کام مل جائے تو کر لیتا ہے اور جن دنوں اس کے پاس کام کاج نہیں ہوتا وہ بے روز ‏گاری کے دفتر سے تنخواہ کے برابر ہر ماہ بے روز گاری الاونس کی رقم وصول کرتا ہے اور جب تک اسے کوئی دوسرا کام نہیں ملتا وہ چھٹیوں کے طور پر ‏پاکستان میں اپنے باپ کی ورثہ میں چھوڑی اور اپنی خریدی ہوئی زمین پر چلا جاتا ہے۔وہاں پر اپنے چھوٹے بھائی کا کاشت کاری میں ہاتھ بٹاتا ہے اور ‏آرام و سکون کے ساتھ اپنی دو عدد بیویوں اور بال بچوں کے ساتھ وقت گذارتا ہے۔
‏ چوہدری امین گندمی رنگ اور معمولی خد و خال کا مالک تھا چہرے پر لمبی مونچھوں کے ساتھ وہ اب بھی پاکستان کے کسی دور افتادہ گاؤں کا رہنے والا ‏دکھائی دیتا تھا اوراپنے کسرتی جسم کوچوق و چوبند رکھنے کے لئے وہ صبح کی سیر ضرور کرتا ۔
لباس کے معاملہ میں وہ شرٹ پتلون کی بجائے اپنا قومی لباس شلوار قمیض گھرمیں اورگھر سے باہر یورپین لباس پہننا پسند کرتا۔ شدید سردی میں وہ ‏شلوار قمیض کو نائٹ سوٹ کے طور پر بھی استعمال کرتا۔
وہ نہایت ملن سار تھا اور یورپ کے کافی ممالک میں رہنے کی وجہ سے بہت زیادہ وقت کا پابند اور ادب و آداب کا عادی ہو چکا تھا مگر ایک عادت اس ‏میں ایسی تھی جو مقامی دوستوں کو پسند نہیں تھی اور وہ عادت مذہب کے حوالے سے تھی کہ جب وہ مقامی لوگوں کے ساتھ ہوتا تو ان کے ساتھ ‏چرچ بھی جاتا اور کھانے میں جو بھی ہوتا بغیر کسی ناز نخرے کے کھاتا اور پیتا تھا مگر جب بھی اپنے ہم وطن پاکستانی مسلم دوستوں کے ساتھ ہوتا تو ‏مقامی لوگوں کی برائی گالیوں اور بُرے القابات سے کرتا انھیں نفرت سے کافرکہتا اور اپنی تہذیب و ثقافت کو دنیا کی بہترین ثقافت اور مذہب کو عالم ‏گیر اور دنیا کا بہترین مذہب کہتا ۔
۔۔۔۔۔

٭٭٭
بیئر کا گلاس ختم کرتے ہی چوہدری امین نے پرُشوتو کوتو کا قتلا خربوزے کی قاش پر لپتے م ہوئے برابر میں بیٹھے ہوئے پاسٹرڈیوڈ سلیم سے مخاطب ہو ‏کرکہا۔
نمکین اور میٹھے کواگر اس انداز میں ملا کر کھایا جائے تو مزہ دوبالا ہو جاتا ہےمیری طرف سے اس امتزاج کو ایجاد کرنے والے کیلئے بہت ساری ‏دعائیں۔
پاسٹر سلیم نے مقامی طور پر تیار کردہ سُرخ مے کا گھونٹ حلق سے نیچے اُتارتے ہوئے جواب دیا‎ ‎۔
جی آپ نے بالکل سچ کہا ہے ،میں بھی جب تربوزپرہلکا سا نمک چھڑک کرچٹخارے لے کر اسے کھاتا ہوں تو یہاں کے مقامی لوگ مجھے حیرت کے ‏ساتھ دیکھتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ یہ کیسا عجیب ملاپ ہے تو میں ان کو مطمئن اس طرح کرتا ہوں کہ جب آپ لوگ خربوزے اورنمکین ‏پرشتو کا ملاپ کر کے کھا سکتے ہیں تو ہم لوگ اُمرود ، کینو اور تربوزپرنمک چھڑک کر کیوں نہیں کھا سکتے۔
چوہدری امین نے خالی بیئر کا گلاس میز پر رکھتے ہوئے کہا واہ کیا خوب بات بتائی ہے آپ نے، میں نے یہ کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ اور ایک بار ‏پھرخربوزے کی قاش اُٹھا کر اس پر پرشوتُو کو لپٹنا شروع کر دیا‎ ‎۔
پاسٹر ڈیوڈ سلیم نے اپنی ساڑھے آٹھ سالہ بیٹی کرن کو اپنی طرف دیکھتے ہوئے پایا تو وہ سمجھ گیا کہ اسے کسی چیز کی ضرورت ہے۔اور فوراً اس نے ‏پوچھا۔
بیٹی کیا چاہیے؟‎ ‎
کرن جو بہت شرمیلی اور خوبصورت تھی آہستہ سے اپنا نرم ونازک ہاتھ اُٹھا کرمیز کی اس طرف اشارہ کیاجہاں شامی کباب رکھے ہوئے تھے ڈیوڈ ‏سلیم نے بیٹی کا اشارہ سمجھتے ہوئے کہا ہاں میں سمجھ گیا بیٹی کہ آپ شامی کباب لینا چاہ رہی ہیں۔
جی پاپا او ر خاموشی سے کرن نے اپنی پلیٹ آگے کر دی۔کباب کھانے سے پہلے کرن نے اپنے اردگرد ایک نظر دیکھا جیسے کسی کو تلاش کر رہی ہو ‏اور پھر کباب کھانے میں مصروف ہوگئی۔
۔۔۔۔۔

٭٭٭
نرمل سنگھ اور اس کی بیگم امینہ کماری اور بیٹا باروچی خانے سے نکل کر ایک ساتھ کمرہِ طعام میں داخل ہوئے تو یوسف نے بریانی سے بھرا ہوا چمچہ منہ ‏میں ڈالنے سے پہلے کہا آپ لوگ باورچی خانے کو اب تھوڑی دیر کے لئے خیر باد کہہ دیں اور کھانے ختم کرنے میں ہمارا ساتھ دیں ورنہ اتنا لذیذ ‏کھاناآپ کے بغیرکم از کم مجھے تو ہضم نہیں ہو گا۔
‏ اس بات پر تمام لوگوں نے ہلکا سا قہقہ لگایا اور دوبارہ کھانے میں مصروف ہو گئے۔
راہول تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا کرن کے برابر والی کرسی پر بیٹھ گیا او ر کرن کی پلیٹ میں دیکھتے ہوئے اس سے پوچھا۔
کرن کیا کھا رہی ہو؟
تمہیں نظر نہیں آ رہا شامی کباب کھا رہی ہوں۔
مجھے بھی یہ بہت پسند ہیں میں بھی یہی کھاؤں گا اور خود ہی اُٹھ کر پلیٹ میں کباب ڈال کر کھانا شروع ہو گیا۔
‏ کمرہ طعام میں کچھ لمحے خاموشی رہی اور پھر اس خاموشی کو نُور جہاں نے یہ کہہ کر توڑا ۔ حضرات آج پھر ہم محترم شہاب الدین سے ان کی گذری ‏زندگی کی حقیقی داستان وہاں سے دوبارہ سنیں گے جہاں سے سلسلہ پچھلی بار ٹوٹا تھا اس لئے اطمینان سے کھاتے اور پیتے رہیں اورشہاب الدین جی کو ‏سننے کے لئے تیار بھی رہیں۔
شہاب الدین نے پہلو بدلتے ہوئے کہاجی جی پہلے کھانا ختم کرتے ہیں۔ بھئی دعوت ہو تو ایسی کیونکہ کھانے کی دعوت میں وہسکی کا ایک دو جام نہ ‏پیاجائے تو دعوت کا مزا اُدھورا رہ جاتا ہے۔اوراپنے سامنے پڑی ریڈ لیبل کی بوتل کو نیچے کی طرف سے پکڑکراُوپر کی طرف اُٹھاتے ہوئے پہلے ‏نرمل سنگھ کے گلاس میں وہسکی انڈیلی اور چوہدری امین کی طرف دیکھا ۔
‏ چوہدری امین نے جواب دیا کہ میں ابھی بیئر پی رہا ہوں اس کے بعد ایک دو جام ضرور لوں گا ۔ ‏
اس کے بعد شہاب الدین نے مولوی نظام دین کی طرف بوتل بڑھائی مگر اس خیال سے واپس کھینچ لی کہ مولوی نظام دین قہر بھری نظروں سے ‏اسے دیکھیں گے اور پھر کچھ نصیحت کریں گے شراب کے نقصانات پر تقریر کریں گے مگر اس بار ایسا نہیں ہوا۔
مولوی نظام دین نے بڑے دھیمےاور میٹھے ا نداز میں جواب دیا کہ جناب میں شراب نہیں پیتا یہ کہتے ہوئے اس نے مالٹے کے جُوس والا گلاس ہاتھ ‏میں لیا اور اسے تھوڑا اُونچا کرتے ہوئے کہا آپ سب کی صحت اور سلامتی کے نام اور ایک گھونٹ پینے کے بعد گلاس میز پر رکھ دیا۔
نرمل سنگھ اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا او ر کہا ایک بہت عمدہ شعر آپ سب کی سماعتوں کی نذرکرتا ہوں جو آج کی محفل میں شریک دوست احباب کے ‏لئے ہے جو اپنے وطن سے نئے گھر کی تلاش میں نکلے لیکن راستے کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر رہ گئے ہیں اور شعر سنانا شروع کر دیا ، جی عرض کیا ‏ہے۔
ایک دن ملے گا اصل گھر یقیں ہے
سفر پر چلے ہم گُم شدہ لوگ ہیں

ہال میں موجود تما م افراد نے شعر سننے کے بعد داد کے لئے تالیاں بجائیں اور پھر خاموشی سے شہاب الدین کی طرف دیکھنے لگے۔
شہاب الدین نے وہسکی کا نیا جام بنایا اور اس میں پانچ عدد برف کی چھوٹی ڈلیاں ڈال کر تھوڑا سا ہلایا اور ایک چسکی لینے کے بعد کہناشروع کیا۔
میں آپ سب حضرات کا شکرگزار ہوں،کہ آپ سب میری کہانی سننے کے لئے اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ وقت نکال کر یہاں جمع ہوئے ہیں۔
ابھی وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ راہول کے پیچھے کرن دوڑتی ہوئی آئی اور چند لمحے اپنے باپ کے پاس کھڑی رہنے کے بعد دوبارہ راہول کے پیچھے دوڑی ، ‏پاسٹر سلیم اسے کچھ کہنے ہی والا تھا لیکن اتنی دیر میں وہ لان میں کھلنے والے دروازے سے باہر جا چکی تھی‎ ‎۔
میرے خیال میں بچوں کو بھی اب کھیلنا بند کر کے ایک جگہ پر بیٹھ جانا چاہیے مولوی نظام دین نے کہا اور اپنی کرسی سے اُٹھ کر بچوں کے پیچھے باہر نکل ‏گیا۔
جب وہ واپس کچھ منٹ بعد دوبارہ کمرے میں داخل ہوا تو کرن، راہول اور جوشوا کیساتھ واپس آیا تب تک سب لوگ کھانے کی میز سے ہٹ کر ‏صوفوں اور کرسیوں پر براجمان ہو چکے تھے وہ چاروں بھی کھانے کی میز کی طرف آگئے اور خالی کرسیوں پر اس طرح خاموشی کے ساتھ بیٹھ گئے ‏جیسے کوئی آس پاس نہیں ہے کمرے میں مکمل طور پر خاموشی چھا چکی تھی۔
سب لوگ کھانے سے فارغ ہو کر اپنے اپنے پسندیدہ مشروب گلاس میں لیے اپنی اپنی نشستوں پر براجمان ہو چکے تھے۔
‏ سب سے پہلے اصغر دیوانہ راجپوت کو اپنے اشعار سُنانے کی دعوت دی گئی ۔
‏ غزل کا مطلع عرض کرتا ہوں۔
کسی نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا ، سب لوگ اپنی باتوں میں مصروف تھے۔
اس نے دوبارہ تھوڑی اونچی آواز میں کہا ۔‏
جی عرض کیا ہے میری تازہ غزل کا مطلع سماعت فرمایں۔
مگر کوئی بھی اس کی طرف توجہ نہیں دے رہا تھا ۔
آخر نرمل سنگھ نے اٹھ کر دونوں ہاتھوں سے تالی بجاتے ہوئے کہا۔
حضرات توجہ فرمایں اور شعر سننے کے بعد داد ضرور دیجیے گا ۔
‏ یوں بلاآخر اصغر دیوانہ اپنی غزل کامطلع سنا نے میں کامیا ب ہو ہی گیا۔
تنہا ہی پانیوں پہ سفر میں ہیں
ہم لوگ تو بھنور کی نظرمیں ہیں

ہال میں موجود تمام لوگوں نے واہ واہ ،کیا کہنے ، بہت خوب کا شور مچا دیا اور کچھ نے تو زور دار تالی بجا کر داد دی اور شاعر کی حوصلہ افزائی کی۔

۔۔۔۔۔

آٹھواں باب

شہاب الدین نے وہسکی کے ایک بھر پور گھونٹ کے بعدکچھ لمحے میز پر بکھری پڑی کھانے پینے کی بچی کھچی اشیا کی طرف دیکھا اور کہنا شروع کیا۔
اس رات کا ایک ایک لمحہ مجھے آج بھی یاد ہے وہ چوبیس دسمبر کی سرد ترین رات تھی۔ ہمارے محلے سے کوئی کلو میٹر کے فاصلے پرواقع بہت ہی قدیم ‏گرجا گھر کی گھنٹیوں کا بجنا اس بات کااشارہ تھا کہ رات کے بارہ بج چکے ہیں اور مسیحی عقیدے کے مطابق حضرت یسوع مسیح دو ہزار سال پہلے فلسطین ‏اور اب موجودہ اسرائیل کے شہر بیت اللحم کے ایک سرائے میں رات بارہ بجے کے بعد اس دنیا میں تشریف لاچکے تھے۔ ہمارے محلے کے تمام ‏افراد مسیحی عقیدے پر یقین رکھتے تھے اس لئے تقریباً سبھی لوگ گرجا گھر میں عبادت کے لئے جمع ہو چکے تھے رات بارہ بجے کی عبادت نہایت ‏عقیدت و احترام کے ساتھ کی جاتی تھی اوراس کے بعد نہایت جوش و خروش کے ساتھ یسوع مسیح کی پیدائش کا تہوار منایا جاتا تھا۔
میں اپنے والد اور بڑے بھائی کے ساتھ کمرے میں آتش دان کے قریب بیٹھا اپنے آپ کو گرم رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔میرے والد کریم الدین ‏نے گرم چائے کا آخری گھونٹ لیا اور پیالہ ایک طرف رکھتے ہوئے کہاخدا سب اچھا کرے گا۔
میں نے آخری مونگ پھلی چھیل کر اس میں سے نکلے دونوں دانے ایک ساتھ منہ میں ڈالتے ہوئے بڑے بھائی ریاست الدین کی طرف دیکھا جس ‏کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے اور وہ آتش دان میں جلتی ہوئی لکڑیوں کو ٹکٹکی لگا کر مسلسل دیکھے جا رہا تھا۔میں نے نہایت دھیمے لہجے میں بھائی ‏کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
سب ٹھیک ہو جائے گا بھائی صاحب۔
ہاں مجھے اُمید ہے یہ مشکل وقت بھی گذر جائے گا۔ ریاست الدین نے بڑے کرب ناک انداز میں جواب دیا اور اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا،کچھ لمحے ‏چھت کو گھورنے کے بعد بے چینی سے کمرے میں ایک دیوار سے دوسری دیوار تک چکر لگانے لگا۔ دائیں طرف والی دیوارکیساتھ ایک لمحے کے ‏لئے رُک کر کچھ سننے کی کوشش کرتااور پھرتیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا بائیں طرف کی دیوار کی طرف مڑ جاتا، یہ سلسلہ پچھلے دو گھنٹے سے جاری تھا کہ یک ‏لخت دیوار کے پارسے آنے والی اذیت ناک آوازوں کا سلسلہ رک گیا اورمیری بیگم نفسہ کی دیوار کے پار سے آواز آئی ، اے جی سنتے ہو، ہمارے گھر ‏چھوٹے شہزادے تشریف لے آئے ہیں۔آپ سب کو بہت بہت مبارک ہو۔
چھوٹے شہزادے کی آمد پر مبارک ہو، خدا اس کے نصیب اچھے کرے۔ اوئے ریاست تمہاری ان دیکھی اور کھو جانے والی ریاست کا شہزادہ آ گیا ‏ہے اس کا نام کیا رکھیں۔
ریاست نے باپ کی طرف دیکھا اور نہایت ادب کے ساتھ جواب دیتے ہوئے کہا ابا جی کیا پہلے بچوں کے نام میں نے رکھے تھے ہمیشہ نام دادا جی یعنی ‏آپ حضور نے رکھے ہیں اور مجھے معلوم ہے آپ نے نام چُن لیا ہوا ہے۔
اچھا تجھے معلوم ہے تو سُن اس کا نام اکبر الدین ہو گا۔
ریاست نے باپ کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا۔ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا میرے لئے یہ اہم ہے کہ وہ لڑکا ہے اور میرا بیٹا ہے۔ جو میری ‏نسل کے نام کو آگے لے کر جائے گا۔اور دیوار کی طرف منہ کر کے کچھ سوچنے لگا۔
کریم الدین اپنی جگہ سے اُٹھا اور ہولے ہولے قدم اُٹھاتا ہوا ریاست کے قریب جا کر رک گیا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا مجھے معلوم ہے ‏تُو کیا سوچ رہا ہے اور اپنے کُرتے کی دائیں جیب میں سے کچھ روپے نکال کر اُس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے تھوڑی اُونچی آواز میں کہا دیکھو بیٹے آج ‏اگرہمارے پاس بادشاہت نہیں ہے نوکر چاکرنہیں ہیں ہمارے پاس دولت بھی نہیں ہے کوئی ڈھنگ کا کاروباربھی ہمارے پاس نہیں ہے اور نہ ہی ‏ہمارے پاس ہیرے جواہرات ہیں اور نہ ہی جائیداد کاکوئی ٹکڑا ہے مگر دیکھ ہماری نسل تو آگے بڑھ رہی ہے نا ۔مجھے اُمید وثوق ہے ہماری نسل رہتی ‏دنیا تک قائم و دائم رہے گی۔
ریاست الدین نے احسان مند نگاہوں سے باپ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
باباحضور آپ کا اقبال بلند ہو، آپ کی شفقت کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رہے۔
اب تُو جا اور نومولود اکبر کو جی بھر کے دیکھ کر آ۔ کریم نے اسے تھپکی دیتے ہوئے کہا۔
جب وہ اپنے کمرے کے دروازے پر پہنچا جہاں پر چھوٹے شہزادے اکبر کی ابھی کچھ دیر پہلے ولادت ہوئی تھی تو اس نے کمرہ کا دروازہ کھلاہوا پایا،تو ‏وہ حسب عادت دروازے پر دستک دئیے بغیر اندر داخل ہو گیا اور اپنے سامنے دائی ماں کی گود میں اکبر کو دیکھا۔ دائی ماں نے ریاست کو دیکھتے ہی ‏اونچی آواز میں کہنا شروع کر دیا۔ ‏
مبارک ہو، مبارک ہو، ریاست بیٹا دیکھ زچہ و بچہ بالکل خیریت سے ہیں تیری بیگم نے ایک اور ہیرا جنم دیا ہے جواس خاندان کی قسمت بدل کر ‏رکھ دے گا۔
دیکھ اس کی آنکھیں بالکل تیرے جیسی ہیں بالکل بُھوری اور دیکھ ابھی سے مجھے آنکھ مار رہا ہے اور دیکھ اس کا گورا چٹا رنگ بھی اس نے تیرے سے ‏ہی لیا ہے ، لے اپنے ہاتھوں میں اُٹھا کر اسے اپنے سینے سے لگا۔
دائی ماں نے اپناداہنا ہاتھ بچے کی پیٹھ کے نیچے سے تھوڑا آگے کی طرف نکال کر کہا۔
اکبر کو اپنے ہاتھوں میں اُٹھانے سے پہلے ریاست نے اپنے ہاتھ میں پکڑے میلے نوٹ دائی ماں کے ہاتھ پر رکھے اور نومولودکو اپنے ہاتھوں میں لے لیا ‏اس کے ماتھے کو بوسہ دیا اور اپنی بیگم زہرہ کی طرف دیکھ کر کہا یہ تو بہت خوبصورت ہے بالکل تم پر گیا ہے۔
یہ تم کہہ رہے ہو مجھ پر گیا ہے اور جو ابھی دائی ماں کہہ کر گئی ہے کیا وہ صرف آپ سے انعام لینے کے لئے کہہ کر گئی۔ زہرہ بیگم نے نقاہت بھری ‏آواز میں جواب دیا۔
زہرہ بیگم آپ آرام کریں اور کچھ دیر کے لئے نیند پوری کر لیں آپ مجھے کافی کمزور لگ رہی ہیں ریاست نے بہت ہی پیا ربھرے انداز میں کہا ‏اورنومولود بیٹا نفسہ بیگم کے حوالے کر دیا جو تھوڑا پیچھے کھڑی تھی۔
جی بھائی جان آپ فکر مت کریں میں ادھرہی ہوں اور اکبر الدین کواپنی گود میں اُٹھا لیا۔ اور زہرہ بیگم کی چارپائی کی طرف بڑھ گئی۔
ریاست کمرے سے جاتے ہوئے دروازے پر پہنچ کر ایک لمحے کے لئے رُکا اور مڑ کر زہرہ بیگم کی طرف دیکھا جس کا رنگ زردی مائل تھا آنکھیں بند ‏تھیں اور وہ قدرے پُرسکون دکھائی دے رہی تھی اس نے منہ کھول کرایک لمبی سانس اندر کی طرف کھینچی اور پھر ہوا کو منہ سے باہر پھینکتا ہوا ‏کمرے سے باہر چلا گیا۔
۔۔۔۔۔

٭٭٭
صرف ڈھائی میٹر چوڑی اور سرخ اینٹوں کے فرش سے بنی تنگ سی گلی میں آج کے دن کی مناسبت کی وجہ سے معمول سے زیادہ بجلی کے قمقمے لگائے ‏گئے تھے اس طرح گلی عام دنوں سے زیادہ روشن تھی محلے کے تمام لوگ مڈ نائٹ سروس کے بعدگرجا گھر سے واپس آ رہے تھے۔
اس محلے کے ہر گھر میں آج خواتین بہت زیادہ مصروف تھیں تاکہ اچھے اور مزے دار پکوان تیار کر یں اور بچے ، نوجوان اور بزرگ اس سے لطف ‏اندوز ہو سکیں ۔کیونکہ سال میں یہ ایک خاص موقع ہوتاہے کہ لوگ محنت مزدوری سے چھٹی کرتے تھے اور جن کو چھٹی نہیں ملتی تھی وہ کوئی بہانہ ‏بنا کر چھٹی کر لیتے تھے کیونکہ مذہبی اقلیتیوں کے کسی بھی بڑے تہوار پر سرکاری چھٹی نہیں ہوتی تھی۔
ریاست گھر سے نکل کر ابھی چند قدم ہی آگے بڑھا تھاکہ اسے لالوپرشاد اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آتا نظر آیا جس کا گھر گلی کی نکڑ پر تھا اور گلی میں ‏سب سے اونچا اور کھلا اور جدید انسانی بنیادی سہولیات سے آراستہ گھر تھا۔محلے میں اس کی عزت و احترام بہت زیادہ تھی کیونکہ محلے کے ساٹھ فی ‏صد لوگوں نے لالو پرشاد سے سُود پر قرض لے رکھا تھا۔ریاست الدین بھی پہلی دفعہ اس سے قرض کا خواہش مند تھایہی سوچ کر وہ گھر سے باہر نکلا ‏تھاوہ اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھ رہا تھا کہ لالو پرشاد اسے گلی میں ہی مل گیا تھا۔
لالو پرشاد نے ریاست کے قریب آتے ہوئے کہا برخوردار بڑا دن مبارک ہو اس کے ساتھ تمہیں بیٹے کی بھی مبارک بھی ہو۔
بھئی کیا خوب دن اور وقت تمہارے بیٹے نے منتخب کیا ہے اُدھر ہمارا یسوع مسیح پیدا ہوا اور اِدھر تمہارا بیٹا پیدا ہوا،خدا اس کے نصیب اچھے کرے ‏اچھا اب ہم چلتے ہیں ابھی ہمیں بہت سے کا م کرنے ہیں پھر ملاقات ہو گی۔
ریاست الدین نے تھوڑا شرماتے ہوئے کہنا شروع کیا۔
وہ حضور لالو پرشاد جی آپ کو بھی آج کا خوشیوں سے لبریز دن مبارک ہو،وہ بات دراصل یہ ہے کہ میں آپ کی طرف ہی جا رہا تھا، مجھے بیٹے کی ‏خوشی کو دوبالا کرنے کے لئے آپ کی مدد کی ضرورت تھی۔ ‏
بھئی میں تو کہتا ہوں کہ آج کے دن تو تمہارے لئے پہلے ہی دہری خوشی کا دن ہے ایک تو کرسمس ہے اور اُوپر سے تمہیں خدا نے ایک اور بیٹا دیا۔
جی جی حضور لالو پرشاد جی آپ میری بات نہیں سمجھے، میں کچھ کھانے پینے کا انتظام کرنے کے لئے سوچ رہا تھا۔
تو کرو بیٹا تمہیں مجھ سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے لالو پرشاد نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہااوربیوی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ‏چلیں ابھی بہت کام کرنے والے باقی ہیں۔
ریاست الدین نے لالو پرشاد کا راستہ روکتے ہوئے کہا حضور آپ میری بات کا مطلب نہیں سمجھے۔
تو مجھے آسان لفظوں میں سمجھا دو یا تم انگریزی میں بات کر رہے ہو جو مجھے سمجھ نہیں آرہی اور یا پھر میں فارسی بول رہا ہوں جو تمہیں سمجھ نہیں آ ‏رہی ،لالو پرشاد نے تیز لہجے میں کہا۔
وہ حضورِ والا مجھ غریب پر اگر آپ کی نظرِ عنایت ہو تو کچھ رقم مجھے قرض کے طور پر دے دیں آپ کی بڑی مہربانی ہوگی اور اپنے سینے پر دائیں ہاتھ ‏رکھ کر تھوڑا سا آگے کی طرف جھکا۔
ریاست بیٹا آج ایک مقّدس دن ہے میں تو آج کوئی کاروباری کام نہیں کروں گا مجھ کو کیوں گنہگار کرتا ہے لالو پرشاد نے خالص کاروباری انداز میں ‏کہا اور اپنے چھوٹے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر آگے کی طرف چل پڑا۔
ریاست نے ان کا راستہ چھوڑ دیا اور مایوسی کے عالم میں ابھی لفظ ہی تلاش کر رہا تھا کہ کس طرح لالوپرشاد کو سمجھائے کہ ہم اپنی روایات کو برقرار ‏رکھنا چاہتے ہیں چاہے اس کے لئے کچھ بھی کرنا پڑے۔
اچانک کچھ دور جاکر لالو پرشاد رُک گیا اور واپس ریاست کی طرف مڑا اوربیوی بچوں کو گھر جانے کا کہتے ہوئے تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا اس کے ‏قریب آ کر رُک گیا۔
ریاست بیٹا میں نے اپنی ساری عمر میں کبھی بھی مقّدس تہواروں کے دن قرض کے لین دین کا کاروبارنہیں کیا۔مگرآج صرف تمہارے لئے اپنا یہ ‏اصول توڑ رہا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ آج دنیا کے مُنجی کی پیدائش کا دن ہے اور آج تمہارے گھر میں بھی ایک اور بیٹے کی پیدائش ہوئی ہے لہذ ‏اپنے ایمان کی خاطر میں اپنے اصول کو صرف آج پہلی اور آخری بار توڑ رہاہوں۔
بول تجھے کتنی رقم درکار ہے، چل میرے ساتھ گھر پر جتنی رقم میری تجوری میں ہے تجھے قرض میں دینے کے لئے تیار ہوں اور ریاست کا ہاتھ پکڑ ‏کر اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔
۔۔۔۔۔

٭٭٭
دائی ماں جب پورے محلے کے ایک ایک گھر میں کریم الدین اور ریاست الدین کی جانب سے بیٹے کی ولادت اور کرسمس کے تہوار کی خوشی میں ‏شام کےکھانے کی دعوت دے کر واپس لوٹ رہی تھی تو صبح کا سورج نکل آیا تھااور چند بچے صبح سویرے ہی محلے سے منسلک گروانڈ جس کا نام دارا تھا ‏میں کھیل رہے تھے یہ دارا صرف محلے کے رہنے والے اور ان کے بچوں کے لئے مخصوص تھا اردگرد کے لوگ یہاں آنا پسند نہیں کرتے تھے اس ‏کی وجہ یہ تھی کہ اس گراونڈ کی حالت اتنی خراب تھی کہ گھاس نام کی کوئی چیز اس چھوٹے سے میدان میں نہیں تھی،جگہ جگہ گڑھے پڑے ہوئے ‏تھے۔ محلے کے کچھ بے روز گار نوجوان اور بوڑھے صبح سویرے ہی اپنی اپنی چارپائی کے ساتھ اس چھوٹے سے میدان میں اتر جاتے اور سارا دن ہر ‏آنے جانے والوں کو دیکھتے رہنے اور ہر اجنبی کا جائزہ لینے کے بعد شام کو اپنے گھروں کو لوٹ جاتے۔
‏ میدان کے ایک کونے میں برگد کا بہت ہی پرانا درخت تھا اور دوسرے کونے میں اتنا ہی پرانا برنے کا درخت تھا پورے میدان میں صرف یہ دو ‏ہی درخت تھےمشرق کی طرف بنے ہوئے پرانے اور خستہ گھروں کے گندے پانی کی نکاسی کے لئے آدھا فٹ چوڑی نالی اس میدان کو دو حصّوں ‏میں بانٹ کر مغرب کی طرف بنی ہوئی بڑی نکاسی آب کی نالی میں جا گرتی تھی۔
اس بڑی نالی کے کنارے لکڑی کے دھواں سے سیاہ ہو چکی چاندی کی چھ عدد دیگیں ایک نوجوان ہاتھ سے چلانے والی ریڑھی سے اُتار رہا تھا ان کے ‏ساتھ ہی چاول اور بھینس کے گوشت کے علاوہ مسالحہ جات اور دوسرا سامان اُتار کر بڑے دھیان سے رکھ رہا تھا۔ اس کے قریب ہی چار بوڑھے ‏ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی پر بیٹھے دھیان سے تمام اشیاء اور اس نوجوان کا جائزہ لے رہے تھے ان کی چارپائی کے نزدیک ہی چار عدد کُتے بیٹھے اُونگھ رہے ‏تھے۔
اسی اثناً میں شمال کی طرف سے میدان کو ملانے والی گلی سے ایک اور دو پہیوں والی ریڑھی ایک دبلا پتلا نوجوان بیل کی طرح کھنچتا ہوا داخل ہوا اور ‏پہلی ریڑھی کے برابر آ کھڑا ہوا۔اس ریڑھی پر مٹھائی تیار کرنے کا سامان تھا۔ نوجوان نے سامان اتارا اور واپس جانے کے لئے ریڑھی کو موڑنا ‏شروع کیا تو پہلے نوجوان نے اسے کہا او کہاں جا رہے ہو۔
میں گھر جا رہاہوں دوسرے ریڑھی بان نے جواب دیا۔
کیا ہو گیا ہے تجھے ،یہاں پر رات گئے تک لذیزکھانے اور تازہ مٹھائی کی ریل پیل ہونے والی ہے اور تو گھر جا رہا ہے پہلے ریڑھی بان نے دوسرے ‏ریڑھی بان کے قریب جاتے ہوئے نہایت آہستہ آواز میں اس سے کہا۔
مجھے معلوم ہے لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں آج کی دعوت نہیں اُڑا سکوں گا۔ ‏
پہلے ریڑھی بان نے حیرت سے دوسرے ریڑھی بان سے منہ بنا کر سوال کیا، ارے تیری طبیعت تو ٹھیک ہے کیوں دعوت نہیں اُڑاے گا کیا ہوا ‏ہے۔
وہ دراصل بات یہ ہے دوسرے ریڑھی بان نے پہلی ریڑھی والے کے کان کے قریب اپنا منہ کرتے ہوئے ضرورت سے زیادہ آہستہ آواز کرتے ‏ہوئے ٹوٹی چارپائی پر بیٹھے ہوئے چاروں بوڑھے حضرات کی طرف دیکھا اور کہنا شروع کیا۔ ‏
مجھے اس محلے کی طرف آتے ہوئے دیکھ کر میرے محلے کے امام مسجد نے مجھے روک کر پوچھا تھا کہ کہاں پر مٹھائی بنانے کا سامان لے کر جا رہے ہو، ‏میں نے بتایا کہ مسیحیوں کی بستی میں کریم الدین کا پُوتا پیدا ہوا ہے اور آج ان کا مذہبی تہوار بھی ہے تو اس وجہ سے انہوں نے پورے محلے کو ‏کھانے کی دعوت دی ہے بس وہاں پر جا رہا ہوں ۔
پہلے تو میں سمجھا مولوی صاحب سے میں نے جو وعدہ کیا ہوا ہے مجھے وہ یاد دلائیں گے اس سے پہلے کہ وہ آگے کچھ کہیں میں نے فوراً جواب دیا ۔
‏ مولوی صاحب مجھے یاد ہے آپ سے جو میں نے وعدہ کیا ہوا ہے، خود میں وہاں ہی کھاکر آؤں گا آپ کے لئے اور بچوں کے لئے واپسی پر لیتا آؤں گا۔
مولوی صاحب نے پہلے تو(نعوذبا للہ) پڑھی پھر مجھے سختی سے ڈانٹتےہوئے کہا۔خبردار جو وہاں سے میرے لئے کچھ لایا وہ تو عیسائیوں کا محلہ ہےاگر تو ‏سچا مسلمان ہے تو وہاں پر سامان اُتار کر سیدھا واپس آ کر مسجد میں حاضری دینا اور توبہ کرنا کیونکہ ان لوگوں کا پکایا ہوا کھاناتو ایک طرف ، ان کے زیر ‏استعمال کسی چیز کو ہاتھ لگانا بھی گناہ کبیرہ ہے ان سے دور رہنا چاہیے ان سے میل جول رکھنا یا کسی بھی قسم کا لین دین کرنا ہم پر حرام ہے۔
اچھا جی میں بھول گیا تھا۔
‏ جی جی مولوی جی میں ابھی واپس آیا، میں پوری طرح سے سمجھ گیا ہوں۔ میں سامان اُتارتے ہی واپس آ جاؤں گا آپ فکر بالکل مت کریں۔ ‏
اب تو تم سمجھ گئے ہو میں کیوں یہاں پر نہیں ٹھہروں گا۔ میں پکا مسلمان ہوں الہذ میں کافر یعنی غیر مسلم کے گھر کا کھانا کھا کر اپنے آپ کو گہنگار نہیں ‏کر سکتا۔یہ کہتے ہوئے دوسرا ریڑھی بان دونوں ہاتھوں سے لکڑی سے بنی ریڑھی کھنچتا ہوا میدان سے باہر جانے کے لئے چل پڑا۔
پہلے ریڑھی بان کے منہ سے جواب کی شکل میں کوئی لفظ نہ نکلا، وہ صرف حیرت سے اسے جاتے دیکھتا رہا جب تک وہ گلی سے مڑ کر نظروں سے ‏غائب نہیں ہو گیا۔
‏ پہلا ریڑھی بان اسے جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور منہ ہی منہ میں بڑبڑا رہا تھا مولوی جی کے کہنے پر کیا تو جنت کا وارث بن جائے گا مسیحی بھی اہل کتاب ‏ہیں یہ بھی آدم کی اولاد ہیں میں حافظ قرآن ہوں میں نے تو کہیں نہیں پڑھا کہ اگر پاک و ہند کی تقسیم سے پہلے ہندو ہم سے نفرت کرتے تھے تو کیا ‏ہم اس کا بدلہ مسیحیوں کے ساتھ نفرت کا اظہار کر کے لیں میرا اسلام یہ تو نہیں کہتا ہے اور سامان اتارنے کے بعد چارپائی پر براجمان بوڑھوں میں ‏سے ایک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،‎ ‎چاچاجی میں نے سامان اتار دیا ہے ایک نظر اس کو دیکھ لیں ۔ ‏
‏ لیکن کسی بوڑھے نے اس کا جواب نہیں دیا اور ٹوٹی چارپائی پر بیٹھے چاروں بوڑھے یوں حقے کے باری باری کش لگاتے رہے جیسے نہ دیکھنے ، سننے ،اور ‏نہ بولنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
۔۔۔۔۔

٭٭٭
دائی ماں جب ریاست الدین کے گھر میں داخل ہوئی تو اس کے چہرے پر تھکاوٹ کے آثار نمایاں تھے.وہ سیدھی ریاست اور اس کے باپ کریم ‏الدین کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی لو جی اب میں اور کہیں نہیں جاؤں گی محلے کی تینوں گلیوں میں برادری کے ہر گھر میں شام کے کھانے کی دعوت ‏دے آئی ہوں۔تمام لوگ آئیں گے کسی نے بھی انکار نہیں کیا ہے۔
دائی ماں واقعی تُو ٹھیک کہہ رہی ہے سارے محلے کا چکر لگا کر تُو آئی ہے اور ابھی شام کو بہت سے کام کرنے ہیں ساری رات تو جاگتی رہی ہے تُو جا تھوڑا ‏آرام کر لے۔ ‏
اسی دوران کریم الدین نے شہاب الدین کے خراٹوں کی آواز سنی اور اس کی طرف دیکھتے ہو ئے کہا ریاست اپنے چھوٹے بھائی کو بھی جگا لے،ابھی ‏بہت سے کام باقی ہیں۔
ریاست نے باپ کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا اسے کچھ دیر اور سو لینے دیتے ہیں وہ پہلے ہی بہت تھک چکا ہے آج معمول سے زیادہ سردی بھی ہے ‏ساری رات وہ ہمارے ساتھ جاگتا رہا ہے، بابا حضور آپ بھی کچھ دیر کے لئے آرام فرما لیں میں آتش دان میں کچھ اور لکڑیاں ڈال دیتا ہوں اور پھر ‏میں دارا کا چکر لگا کر آتا ہوں تاکہ شام کے لئے آنے والے سامان میں کہیں کسی چیز کی کمی نہ رہ گئی ہو، چھوٹے سے آتش دان میں کچھ سوکھی ‏لکڑیوں کے ٹکڑے ڈالنے کے بعد وہ چپکے سے گھر سے باہر کی طرف چلا گیا۔
ریاست کو اپنی طرف آتے دیکھ کر چاروں بوڑھے چارپائی سے اُٹھ کر کھڑے ہو گئے اور باری باری کرسمس کی مبارک باد اور بیٹے کی دلادت کی ‏مبارک باد دینے کے بعد دوبارہ ٹوٹی ہوئی چارپائی پر بیٹھ گئے چارپائی سے عجیب سی آواز نکلی مگر اس پر کسی نے توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ‏کی۔
ریاست پہلے ریڑھی بان کی طرف چلا گیا اور اس سے سامان کے بارے باتیں کرنے لگا جو دیگوں کی اندر سے صفائی کر رہا تھا۔
ریڑھی بان نے ریاست کو بتایا کہ جناب میں سارا سامان بہت دھیان سے لایا ہوں آپ جناب ایک بار گنتی کر لیں تاکہ اگر کسی چیز کی کمی رہ گئی ہے ‏تو مجھے حکم کریں میں ابھی جلدی سے لے آتا ہوں دکان قریب ہی تو ہے۔
ریاست الدین نے زمین پر بکھرے ہوئے کھانا پکانے کے سامان اور کھانے کی اشیاء پر سرسری نظر دوڑائی اور کہا سب کچھ ٹھیک ہے اور دوبارہ گھر ‏کی طرف چل پڑا۔
چاروں بوڑھے باری باری چارپائی سے اُٹھ کر کھڑے ہو گئے اور ریاست کو گلی کے موڑ تک جاتے ہوئے دیکھتے رہے جب وہ ان کو نظر آنا بند ہو گیا تو ‏دوبارہ باری باری چارپائی پر بیٹھ گئے۔
شہاب الدین نے کھانے کمرے میں موجود تمام لوگوں پر ایک سرسری نظر ڈالی اور تسلی کرنے کے بعد کہ بچے کہانی سنتے سنتے سو چکے ہیں اور کچھ ‏لوگ کہانی دلچسپی سے نہیں سن رہے ہیں تو کچھ لمحے خاموشی اختیار کی اورمیز پر اپنے سامنے پڑے خالی گلاس پر نظر ڈالی اور پھر ریڈ لیبل کی خالی ‏بوتل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،بوتل جب خالی ہو جائے تو سمجھ لو کہ کہانی میں وقفہ ضروری ہے۔
نور جہاں نے موقع کو مناسب سمجھ کر تھوڑا اونچی آواز میں کہا تاکہ سب لوگ سن سکیں۔
تمام بچے بھی سو چکے ہیں اور کافی رات ہو گئی ہے میرے خیال میں باقی کہانی اگلے ہفتہ کو سنی جائے گی کیا خیال ہے آپ سب کا۔
پاسٹر سلیم ڈیوڈ نے نور جہاں کی اس تجویز پر ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا بالکل درست ہے باقی داستان میرے گھر آنے والے ہفتہ کے دن شام کے ‏کھانے پر سنی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی تمام لوگ گھروں کو واپس لوٹنے کے لئے کھڑے ہو گئے۔
۔۔۔۔۔

نواں باب:‏

آسمان پر گہرے ، سرمئی رنگ اور کہیں کہیں کالے رنگ کے بادل چھائے ہوئے تھے یہ سلسلہ پچھلے چار دن سے جاری تھا کبھی تو بارش تیز شروع ہو ‏جاتی اور دس پندرہ منٹ کے بعد رُک جاتی اور بازاروں میں خریداری کرنے والے لوگ رنگ برنگے چھتریاں کھول لیتے،ہر طرف کچھ منٹ کے ‏لئے پانی ہی پانی نظر آناشروع ہو جاتا، یونہی بارش تھم جاتی تو پانی بھی غائب ہو جاتا۔ لوگ اپنے روز مرہ کے کاموں میں مصروف ہو جاتے کسی کو نہ ‏تو بارش سے شکایت تھی اور نہ بادلوں سے ، ہر کوئی نہ تو جلدی میں تھا اور نہ ہی سست روی کا شکار تھا بس ہر کوئی اپنی دھن میں مگن اپنے اپنے کام میں ‏مصروف تھا۔
‏ پاسٹرسلیم ڈیوڈ اپنے دونوں ہاتھوں میں کھانے کے سامان سے بھرے تھیلے اٹھائے سُپر مارکیٹ کے مرکزی دروازے پر آ کر رُک گیا کیونکہ باہر ‏بارش شروع ہو چکی تھی اور وہ چھتری گاڑی میں ہی بھول آئے تھے اس نے سامان سے بھرے ہوئے دونوں تھیلے شیشے کی بنی راہداری کی دیوار کے ‏ساتھ رکھے اور مارکیٹ میں آنے جانے والوں کو دیکھنے لگا۔
جمیلہ تم بھی اِدھر تھیلے رکھ لو بارش تھوڑی کم ہوتی ہے تو چلتے ہیں ورنہ ہمارے ساتھ سارا سامان بھی بھیگ جائے گاپاسٹر سلیم نے اپنی بیگم کی طرف ‏دیکھتے ہوئے کہا۔
جی اچھا ابھی رکھتی ہوں،جمیلہ نے جواب میں کہا اور اپنے پرس میں سے خریدے ہوئے سامان کی رسید نکال کر سامان کے ساتھ ان کی قیمتیں بھی ‏کنٹرول کرنے لگی۔
جمیلہ یہ کیا کر رہی ہو، پاسٹر نے ذرا سخت لہجے میں مگر آواز کو تھوڑا دھیما کرتے ہوئے کہا۔
آپ دیکھ تو رہے ہیں کہ میں سامان اور اس کی رسید کو دیکھ رہی ہوں، باہر بارش ہو رہی ہے الہذ میں نے سوچا یہ کام ادھر ہی نمٹ لوں۔گھر میں آج ‏ہفتہ وار دعوت کی ہماری باری ہے باروچی جانے سے ہی فرصت نہیں ملے گی۔
پاسٹر سلیم نے جواب دینے کی بجائے اپنے ہونٹوں کو سکیڑا اور آنکھوں کو ضرورت سے زیادہ کھول کر اپنی ابروئیں اوپر کی طرف کھینچ لیں اور شیشے ‏کی دیوار سے باہر کی طرف دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ وہ اس وقت چُونکا جب اسے محسوس ہوا کہ کوئی اس کے پاس آ کر کھڑا ہوا ہے اس نے اپنی ‏دائیں جانب دیکھا تو ایک نوجوان جوڑا اس کے قریب رُک کر بارش میں ہی اپنی گاڑی تک جانے کی تیاری کر رہے تھا۔ وہ باہر دیکھنے کی بجائے ان کی ‏طرف متوجہ ہو گیا۔
وہ ان کی عمر کا اندازہ لگانے لگا لڑکی کوئی اٹھارہ سال کی ہو گی اور لڑکا تقریباً انیس سال کا ہو گا، دونوں نے بارش سے بچنے کے لئے رین کوٹ پہنے ہوئے ‏تھے انہوں نے کوٹ کے ساتھ منسلک ٹوپیاں سر کے اوپر ڈال لیں اور جلدی سے شیشے کے بنے ہوئے خود بخود کھلنے والے دروازے سے باہر نکل ‏گئے۔
پاسٹر سلیم کی نظریں ان کا تعاقب کر رہی تھیں وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے بڑے اطمینان اور سکون کے ساتھ اپنی گاڑی کی طرف بڑھ ‏رہے تھے گاڑی کے قریب پہنچ کر لڑکے نے آگے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ کھولا اورلڑکی جب گاڑی کی سیٹ پر بیٹھ گئی تو پھر خودبھی گاڑی میں بیٹھ کر ‏گاڑی اسٹارٹ کی اور آہستہ آہستہ پارکنگ سے گاڑی باہر لے گیا ۔
‏ جب وہ پاسٹر کی نظروں سے غائب ہو گئے تو اسے احساس ہوا کہ بارش تو رُک چکی ہے ۔ اس نے مڑ کر جمیلہ کی طرف دیکھا تو وہ ابھی تک رسید اور ‏سامان کی جانچ پڑتال کرنے میں مگن تھی پاسٹر نے آواز لگائی جمیلہ جلدی کرو بارش تھم چکی ہے اور دونوں تھیلے ہاتھوں میں پکڑ کر گاڑی کی طرف ‏تیزی کے ساتھ چل پڑے۔
جمیلہ نے بھی رسیدیں جلدی سے پرس میں ڈال لیں اور دونوں تھیلے اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر اپنے خاوند کے پیچھے چل پڑی۔
پاسٹر سلیم بھٹی اور اس کی بیٹی کرن گھر کے مرکزی دروازے پر کھڑے ہر آنے والے کو خوش آمدید کہہ رہے تھے کرن کچھ زیادہ ہی پُر جوش ‏دکھائی دے رہی تھی اس کی آنکھیں کسی خاص مہمان کی منتظر تھیں۔
آخرکار اسے راہول اپنے باپ نرمل سنگھ کے ساتھ اور اپنی ماں امینہ کماری کے ساتھ دروازے سے اندر آتے دکھائی دئیے وہ دوڑتی ہوئی ان کے ‏پاس گئی اور کہا انکل آپ اتنی دیر سے کیوں آئے ہیں اور جواب سنے بغیر راہول کی طرف اپنی دائیں ہاتھ کی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ ‏ضرور راہول نے دیر کروائی ہو گی۔اور تیزی سے راہول کے قریب آ کر اسے بازو سے پکڑا اور تیز لہجے میں کہا راہول اب تمہاری سزا یہ ہے کہ تم ‏باروچی خانے میں میرا اور ماما کا ہاتھ بٹاؤ گے اور اسے اپنے ساتھ باروچی خانے کی طرف لے گئی۔
راہول ابھی تک کچھ بھی نہیں سمجھ پا رہا تھا وہ تذبذب کے عالم میں کرن کے ساتھ اس کا ہاتھ تھامے چلا جا رہا تھا جو وہ کہتی کرتا چلا جا رہا تھا جیسے وہ کہتی ‏وہ بلا چُون وچرا کیے اس پر عمل کر رہا تھا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ اس سے نظر بچا کر سیدھا کھانے کمرے میں بھاگ جانا چاہتا تھا مگر وہ ایسا کرنے ‏سے باز رہا کیونکہ وہ کرن کی یہ سب باتیں پسند کرتا تھا ۔
تقریبا سب لوگ کھانے کمرے میں جمع تھے کھانے پینے کا سامان میز پر ترتیب سے رکھا جا چکا تھا پاسٹرسلیم کمرے ہال میں ایک طرف کھڑا کچھ ‏حساب کتاب لگا رہا تھا۔ اسی دوران راہول کے پیچھے کرن دوڑتی ہوئی پاسٹرسلیم کے آگے سے گذری مگر پاسٹر سلیم نے ان دونوں کی طرف کوئی ‏توجہ نہیں دی وہ اس وقت صرف یہ محسوس کر رہا تھا کہ گرم گرم کھانے کا سامان ٹھنڈا ہونے سے پہلے ہم سب کو کھا لینا چاہیے ورنہ ٹھنڈے کھانے ‏کا مزا نہیں آئے گا لہذا اس نے دونوں ہاتھوں سے تالی بجاتے ہوئے ہال میں جمع سب افراد کو اپنی طرف متوجہ کیا اور کہنا شروع کیا۔
عزیز دوستو، بہنو اور بھائیو اور برزگو۔آپ سب کی تشریف آوری کا بہت شکریہ اور اس کے لئے میں خداوند اقدس کا بہت ممنون ہوں کہ ہر ہفتہ ہم ‏اپنے ایک عزیز کے گھر پر جمع ہوتے ہیں ہمارا مقصد صرف کھانے کے لئے اکھٹے ہونا نہیں ہوتا بلکہ ہم پاکستانی اور ہندوستانی اور اٹلین ایک دوسرے ‏کے ساتھ مل کر اپنی روایات اور تہذیب و ثقافت کو یاد کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ شراکت کرتے ہیں اور اپنی موجودہ اور آنے والی ‏نسلوں کو ان سے متعارف کرانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے آباواجداد کو یاد رکھیں اپنی زبان اور ادب سے آگاہی حاصل کریں لیکن ایک ‏کہاوت ہے کہ جیسا دیس ویسا بھیس پر بھی عمل پیرا ہونا ہے ورنہ پرائے دیس اور اجنبی لوگوں میں اجنبی زبان کے ساتھ ہمارا انضہام نہایت مشکل ‏ہے ۔اگرچہ مجھے معلوم ہے کہ ہماری آنے والی نسلوں کو ان چیزوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن ہم سب مل کر یہ وعدہ کرتے ہیں کہ جب تک ہم ‏زندہ ہیں ہم اپنی آبائی زبان و ثقافت کی حفاظت کریں گے آپس میں ہم اپنی ماں بولی زبان میں بات چیت کریں گے اور اپنے بچوں کو اپنی مادری ‏زبانیں بولنا، لکھنا اور پڑھنا سکھائیں گے۔
راہول جو ایک کونے میں خالی کرسی کے قریب کھڑا تھا اپنا ہاتھ اوپر اُٹھا کر بولا انکل مجھے تو اُردو اور پنجابی بولنی آتی ہے میں سمجھ بھی لیتا ہوں مگر لکھ ‏اور پڑھ نہیں سکتا۔
شہاب الدین نے جو دوسرا پیک ریڈ لیبل کا تیار کر رہا تھا گلاس میں برف کی ڈلی ڈالتے ہوئے اور کرسی سے اُٹھے بغیر کہا۔
بیٹا میں آپ سب بچوں کو اپنی زبان لکھنی اور پڑھنی سکھاؤں گا۔ یہ بہت ضروری ہے ورنہ ہماری دوسری نسل کو یاد بھی نہ رہے گا کہ ہماری زبان کا ‏نام کیا تھااور اگر معلوم بھی ہو تو اُنھیں یاد بھی نہ ہو گا کہ اردو زبان کو اردو کیوں کہتے ہیں۔
مولوی نظام دین جو کھانے میں مصروف تھاکوئلوں پر بُھونی ہوئی مرغی کا ٹکڑا ہاتھ سے اُٹھا کراپنی پلیٹ میں رکھتے ہوئے تیز اور اونچی آواز میں بولا ۔
ایک منٹ، ایک منٹ، تھوڑا ٹھہریں۔
سب سے زیادہ اہم عربی زبان ہے جناب۔
وہ کیوں بھائی مولوی نظام دین وہ تو ہماری ہندوستانی زبان نہیں ہے شہاب الدین نے وہسکی کی ایک ہلکی سی چسکی لیتے ہوئے کہا۔
‏ یہ تو مڈل ایسٹ میں بولی جاتی ہے اور یہاں یورپ میں ہم لوگ جو برصغیر پاک و ہند سے آ کر آباد ہوئے ہیں یہاں پر اپنی اپنی مادری یا پھر قومی ‏زبانیں اردو ، پنجابی اور اپنی علاقائی زبانیں بولتے اور لکھتے ہیں برصغیر کے کسی علاقے میں عربی نہیں بولی جاتی، پھر عربی کیوں؟
‏ دیکھیں ہم سب ابھی تک اطالوی ماحول میں رہتے ہوئے سال ہا سال سے اطالوی زبان سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ابھی تک ہمیں نہ تو اطالوی ‏زبان لکھنی آئی ہے اور نہ ہی اچھی طرح سے پڑھنی اور بولنی آئی ہے دوسری طرف عربی نہ تو ہماری مادری اور نہ ہی قومی زبان ہےیورپ میں عربی ‏کا کیا فائدہ ہے کیا ہم اٹلین لوگوں سے عربی میں بات کریں گے۔
چوہدری امین بڑے دھیان سے تمام گفتگو سن رہا تھا شہاب الدین کے الفاظ سنتے ہی پہلو بدل کر بولاشہاب صاحب ۔
آپ بالکل صیحح فرما رہے ہیں میری مثال لے لیں پچھلے پچیس برس سے میرا واسطہ صبح شام اطالوی زبان اور ثقافت سے ہے گھر سے باہر ہر جگہ پر ‏اطالوی لوگوں سے بات چیت کرنی پڑتی ہے اوررات دن مقامی لوگوں کا سامنا رہتا ہے مگر مجھ بوڑھے طوطے کو پھر بھی اطالوی زبان پوری طرح ‏سے نہیں آئی بس برائے رابطہ تھوڑی بہت آ گئی ہے میں تو ابھی تک اطالوی لکھنے، پڑھنے اور بولنے میں پیدل ہی ہوں۔اوپر سے مولوی نظام دین ‏صاحب آپ عربی سیکھنے کی نصیحت فرما رہے ہیں۔
اس سے پہلے کہ مولوی نظام دین اپنی بات کے حق میں دلائل دیتے جو مسلسل اپنی داڑھی پر کبھی دایاں اور کبھی بایاں ہاتھ پھیر رہے تھے اصغر ‏دیوانہ راجپوت بول پڑا۔
جناب میری بات بھی سن لیں۔
میری طرف دیکھیں میری ماں بولی زبان پنجابی ہے اور میرے ساتھ اس معاملہ میں سنگین اور الجھا ہوا مسلہہ یہ ہے کہ میں سوچتا پنجابی میں ہوں ‏اور لکھتا قومی زبان اردو میں ہوں، سکول میں گیا تو وہاں مجھے اردو زبان میں لکھنا اور پڑھنا سے واسطہ رہا اور جب میں کسی سرکاری یا پرائیویٹ دفتر ‏میں جاتا ہوں تو وہاں مجھے انگزیزی زبان میں درخواست لکھنی پڑتی تھی اور انگزیزی زبان میں سوال و جواب کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور اپنے علم کا ‏رعب دوسروں پر ڈالنے کے لئے انگریزی میں گفتگو کرنی پڑتی تھی یہ کیا ہے میرا مطلب ہے ابھی تک میرے ملک میں جناب ایسا ہی ہو رہا ہے۔
اور آپ جناب مولوی جی عربی کو اہم قرار دے رہے ہیں میں تو کہتا ہوں ہمارے ہاں پہلے ایک محارہ تھا پڑھیں فارسی اور بیچیں تیل، مگر اب یہ محارہ ‏عربی پر صادق آتا ہے۔
سب لوگ مولوی صاحب کی طرف دیکھنے لگے۔ مولوی نظام دین اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا اورنہایت دھیمے انداز میں کہنا شروع کیا۔
دیکھو حضرات قرآن مجید عربی زبان میں نازل ہوا لہذ ا اسے پڑھنے اور سمجھنے کے لئے عربی زبان کا جاننا نہایت ضروری ہے۔تمام اقوام عالم کے ‏لئے یہ ایک مقّدس زبان ہے کیونکہ یہ ہمارے نبی پاک کی زبان تھی۔
یوسف جو کھانے سے فارغ ہو چکا تھا اور مولوی نظام دین کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھا ہو اتھا، میز کی طرف جھکا اور مولوی صاحب کی طرف منہ ‏موڑتے ہوئے بولا۔
میرے محترم سسر صاحب اب تو قرآن پاک کا دنیا کی تقریبا ہر زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے دنیا کے ہر کونے میں ہر فرد اپنی زبان میں قرآن مجید کو ‏بآسانی پڑھ اور سمجھ سکتا ہے۔
اسی طرح مسیحیت میں بھی ایسا ہی ہے بائبل کا ترجمہ ہر زبان میں آپ کو مل جائے گا اس لئے بائبل کو ہر گروہ اور ہر علاقے کا فرد کسی قسم کی مشکل ‏محسوس کیے بغیر پڑھ اور سمجھ سکتا ہے کیونکہ ہر کسی کو آجکل اس کی زبان میں بائبل دستیاب ہے۔
نور جہا ں نے یوسف کو اپنی گوری اور نازک کلائی پر بندھی ہوئی سوئس گھڑی پر دائیں ہاتھ کی انگلی رکھتے ہوئے اشارے سے کہاکہ یہ بحث کسی اور ‏وقت کے لئے یہاں پر ختم کر دیتے ہیں وقت تیزی کے ساتھ گذر رہا ہے لہذا شہاب الدین سے درخواست کی جائے کہ پچھلے ہفتہ جہاں سے کہانی ‏ختم کی تھی وہاں سے دوبارہ شروع کی جائے ۔
۔۔۔۔۔

٭٭٭
شہاب الدین کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری، اس نے جیب سے ہالینڈ کا بنا ہوا سگار نکالا اور لائٹر سے سلگایا اور دھواں اوپر کی طرف اُچھال ‏دیا ۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور اپنے دائیں طرف سرخ کارپٹ سے سجی راہداری پر آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا ہوا اس جگہ پر آ گیا جہاں پر ایک چھوٹا سا ‏لکڑی کا میز اور ایک کرسی رکھی گئی تھی جہاں پر بیٹھ کر وہ سب کے کانوں تک اپنی آواز پہنچا سکتا تھا اور سب اس کو بآسانی دیکھ اور سن سکتے تھے۔
‏ وہ ابھی بیٹھا ہی تھا کہ اصغر دیوانہ راچپوت ایک چھوٹی ٹرے میں پانی کی بوتل کے ساتھ گلاس اورو ہسکی کی بوتل اور ایک پیالی میں برف کے ٹکڑے ‏ڈال کر لے کر آیا اور میز کے ایک کونے پر رکھ کر واپس چلا گیا ۔
شہاب الدین نے اس کا شکریہ ادا کیا اور تمام حاضرین پر ایک گہری نگاہ ڈالی جیسے تمام دوستوں کی گنتی کر رہا ہو کہ کوئی غیر حاضر تو نہیں ہے اس نے ‏سگار کا ایک اور گہرا کش لگایا اور اس کے بعد گلاس اپنے ہونٹوں کے ساتھ لگایا اور وہسکی کی ایک چسکی لگائی جب وہسکی حلق سے نیچے اُتر گئی تو ہلکا سا ‏کھانسا اور کہنا شروع کیا۔
‏ محلے کے دارا میدان جس کو کچھ برزگ کھاڈا کے نام سے بھی پکارتے تھے میں تقریبا دو سو کے قریب مرد، خواتین اور بچے جمع تھے وہ سب باسمیتی ‏چاول اورہندوستانی قورمے کے منتظر تھے کچھ آپس میں باتیں کرنے میں مصروف تھے کچھ چھوٹی ٹولیوں میں زمین پر بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ لوگ ‏کھڑ ے ریاست کے خاندان سے متعلق ایک دوسرے کو معلومات فراہم کر رہے تھے اور کچھ نوجوان غیر شادی شدہ لڑکیوں کی ایک ٹولی کی طرف ‏دیکھ کر آپس میں دھیمے لہجے میں باتیں کر رہے تھے۔
سب لوگ خوش تھے کیونکہ ایک تو مذہبی تہوار بڑادن ( کرسمس) اور دوسرا ریاست الدین کے نومولود بیٹے کی خوشی کی دعوت تھی۔ کھاڈا کے ‏ایک الگ تھلگ کونے میں ایک نوجوان جوڑا بھی اپنے دو بچوں کے ساتھ پھٹے پرانے اور خستہ حال لباس کے ساتھ چاول اور گوشت کے قورمے کا ‏منتظر تھا۔
وہ سارا سال اس انتظار میں رہتے تھےکہ محلے میں کوئی شادی ہو یا مذہبی تہوار پر آج کی طرز کی دعوت ہو ،جس میں وہ بن بلائے مہمان شرکت ‏کریں اور اچھے کھانے کی دعوت اڑائیں آج بھی وہ اس موقع کوکھونا نہیں چاہتے تھے ۔
‏ ان کے دونوں بچے چپ چاپ بیٹھے اس طرف دیکھ رہے تھے جہاں پر عارضی طور پر چولہے بنائے گئے تھے اور ان پر چاول اور قورمے کی دیگیں ‏رکھی ہوئی تھیں جو پک کر بالکل تیار تھیں صرف ہلکی آنچ پر آخری دم کے لئے چولہوں پر رکھی ہوئی تھیں۔
‏ ان میں استعمال ہونے والے مسالحوں کی تیز خوشبو اور چولہوں میں جلنے والی لکڑی کے دھواں کی بُو سارے میدان میں پھیلی ہوئی تھی جو وہاں پر ‏موجود افراد کی بھوک کو اور زیادہ بھڑکا رہی تھی۔
زیادہ لوگوں کی نظریں اس گلی پر تھیں جس میں ریاست الدین اپنے خاندان کے ساتھ مقیم تھا اور وہاں سے وہ میدان میں اپنے نومولود بیٹے اور ‏خاندان کے افراد کے ساتھ آنے والا تھا تا کہ کھانے کا افتتاح کرے اورکھانا تقسیم کرنا شروع کیا جائے۔ پھر گلی کے شروع میں کھڑے کچھ لوگوں ‏کی آوازیں فضا میں بلند ہوئیں وہ آ رہے ہیں یہ سنتے ہی تمام لوگ گلی کے شروع میں جمع ہونے شروع ہو گئے۔
دیگوں کے بالکل قریب لکڑی سے بنی ہوئی کچھ کرسیاں لگائی گئی تھیں جوصرف ریاست الدین کے خاندان کے لئے مخصوص تھیں۔جب وہ سب ‏کرسیوں پر بیٹھ چکے تو اس علاقے یعنی پیرش میں تعینات راہب کا مددگار مناد جس کو عرف عام سب لوگ احترامًا بابو جی کہتے تھے وہ اس علاقے ‏میں مقامی چرچ کی طرف سے تعینات تھا ہجوم میں سے آگے نکل کر ریاست الدین کے سامنے آیا اور پوچھا حضور اگرآپ کی اجازت ہو تو تیار ‏کھانے پر برکت دینے کا آغاز کیا جائے اور آج کے اس اجتماع اور خوشی کے موقع پر اور خاص طور پر ، جو کھانا ہمارے رب کریم نے ہمیں عطا کیا ‏ہے ان سب کے لئے شکریہ کی دعا مانگ لی جائے۔
جی جی بالکل بابو جی شروع کریں ریاست الدین اور شہاب الدین کے ابا حضور کریم الدین نے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
ریاست الدین نے بھی ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے کہاکیوں نہیں، خدا کا نام لے کر شروع کریں اور دعا کے احترام میں کرسیوں سے کھڑے ہو ‏گئے۔
دعا ختم ہوئی تو ریاست خاندان دوبارہ کرسیوں پر براجمان ہو گیا باورچی جس کو روزمرہ کی زبان میں اس علاقے میں نائی بھی کہتے تھے اپنے ‏ساتھیوں کے ساتھ بڑے تھالوں اور پراتوں میں چاول اور قورمہ بھر کر لائے اورتام چینی کی تھالیوں میں ڈال کرسب کو باری باری دینے لگے۔
اسی اثناً میں لوگ دیگیوں کے گرد جمع ہو چکے تھے ان لوگوں میں کوئی ترتیب نہیں تھی سب چاہتے تھے کہ وہ پہلے چاول اور قورمہ لے کر کھا ئیں۔
شائد اُنھیں یہ خوف تھا کہ کھانا کہیں ان کی باری آنے سے پہلے ہی ختم نہ ہو جائےشور اتنا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی کھانا بانٹنے ‏والے چلّا رہے تھے قطار بنائیں کھانا بہت ہے سب کو ملے گا کھانا لینے والے الگ چیخ رہے تھے مجھے پہلے دیں، مجھے پہلے دیں۔ اس دھکم پیل میں چاول ‏اور گوشت نیچے زمین پر بھی گر رہا تھا جو لوگوں کے پاؤں کے نیچے آ کر کچلا جا رہا تھا اور دارا میدان کی مٹی میں قورمہ اور چاول گھل مل رہے تھے۔ ‏
ایسے لگ رہا تھا تمام لوگ صدیوں کے بھوکے ہیں اور اس موقع کے بعد ان کو شائد اس طرح کا کھانا نصیب نہیں ہو گا ہر کوئی اپنا حصہ وصول کرنے ‏کے لئے بے چین تھا۔
دارا میدان کے ایک کونے میں کھانے کے انتظار میں بیٹھے ہوئے نوجوان جوڑے نے بھی اپنے دونوں بچوں کو ساتھ لیا اوردیگوں کے اردگرد جمع ‏لوگوں کے پاس جا کر رک گئے کچھ ہی دیر بعد دیگوں کے گرد جمع بھیڑ کم ہونا شروع ہو گئی لوگ اپنا اپنا حصّہ اپنے اپنے برتنوں میں لے کر بھیڑ سے ‏نکل کردیگوں سے تھوڑی دُور جا کر زمین پر بیٹھ کر اطمینان کے ساتھ کھانے میں مصروف ہو گئے تھے ۔
نوجوان جوڑے کے بیٹے نے اپنے باپ سے کہا،
باپُو مجھے بھوک لگی ہے تھوڑے سے چاول لے دو،
بیٹا تھورا سا صبر اور کر لو، بس اب ہماری باری آنے والی ہے باپ نے بڑے راز دارانہ انداز میں بیٹے کو جواب دیا۔اور منہ پر انگلی رکھ کر چپ رہنے ‏کا اشارہ کیا۔ اس کو خوف تھا اگر ان لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ ہم بن بلاے مہمان ہیں تو آج کی دعوت سے محروم رہ جاہیں گے۔
آخر اس کی باری آ ہی گئی اس نے اور اس کی بیوی نے اپنے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی سلور کی مڑُی تُڑی دیگچیاں آگے بڑھا دیں، کھانا تقسیم کرنے ‏والے ایک آدمی نے ان کی حالت دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
آج بڑا دن ہے اور ریاست الدین کے گھر بیٹا کی ولادت بھی ہوئی ہے اور آپ نے صاف کپڑے بھی نہیں پہنے، کہاں سے آپ آئے ہیں مجھے تو آپ ‏اس محلے کے رہنے والے نہیں لگتے،آپ کسی اور محلے کے رہنے والے ہیں۔
ابھی وہ نوجوان سوچ ہی رہا تھا کہ کیا جواب دے، کہ ساتھ والے نے اسے کہا۔
او خیردین جلدی سے اس کی دیگچی میں چاول اور سالن ڈال، کیا شام تک اس سے سوال و جواب ہی کرتا رہے گا دیکھ ابھی اسکے پیچھے اور بہت سے ‏لوگ بھی ہیں اور مجھے بھی بہت زور کی بھوک لگی ہے جلدی ہاتھ چلا۔ اور ہاں اپنا حصہ علیحدہ نکال کر محفوظ جگہ پر رکھ لیا تھا۔ ‏
ہاں ہاں فکر نہ کر ، میں نے سب سے پہلے اپنا حصہ نکال لیا تھا ۔
‏ نوجوان نے اسے بڑی عاجزی سے کہا بھائی کچھ زیادہ چاول اور گوشت کا سالن ڈال دے دیکھ ہم چار لوگ ہیں۔خیر دین نے ایک دیگچی میں چاول بھر ‏دئیے اور دوسری میں قورمہ بھی ڈال دیا۔ اس نوجوان نے ایک دیگچی دونوں ہاتھوں سے اُٹھائی اور دوسری اس کی بیوی نے اُٹھائی اور بھیڑ سے خود ‏کو اور بچوں کو بچاتے ہوئے دارا میدان سے غائب ہو گئے۔ ‏
کریم الدین نے بھی اُنھیں بھیڑ میں سے نکلتے ہوئے ایک سرسری نگاہ سے دیکھا لیکن میدان سے باہر جاتے ہوئے اُنھیں نہیں دیکھ سکا کچھ دیر اس ‏نے سوچا کہ یہ کون لوگ تھے اسے کچھ یاد نہ آیا کہ اس چھوٹے خاندان کو اس نے کہاں دیکھا تھا پھروہ اپنے بیٹے ریاست الدین کی طرف متوجہ ہو ‏گیا جوتھالی میں سے چاول ختم کرنے کے بعد گوشت کے ایک بڑے ٹکڑے کو منہ میں ڈالنے کے بعد تھالی کو نیچے زمین پر اپنی کرسی کے ساتھ رکھ رہا ‏تھا۔
پھر شہاب دین کی طرف دیکھا جو اپنی خالی تھالی کب کا نیچے زمین پر رکھ چکا تھا پھر اس نے ایک پُرسکون لمبا سانس لیا اور اپنی جگہ سے اُٹھ کر دیگوں ‏کے پاس گیا اور خیردین سے پوچھا سب ٹھیک ہے خیردین نے دائیں ہاتھ کی انگلیوں میں پکڑی ہڈی کے ساتھ جڑے گوشت کو دانتوں سے علیحدہ ‏کرتے ہوئے چاول اور گوشت سے بھرے منہ کے ساتھ جواب دیا ۔
جی حضور سب کچھ ٹھیک ہے بہت سا کھانا بچ بھی گیا ہے۔
کریم نے پھر سوال کیا گھر کی خواتین کے لئے کھانا بھیجاتھا۔
جی حضور وہ دائی اماں لے کر گئی تھی۔
حضور والا ایک دیگ چاول اور ایک دیگ قورمے کی بچ گئی ہے اس کا کیا کرنا ہے۔
وہ ہمارے گھر میں چھوڑآو۔ اور ریاست الدین سے مخاطب ہو کر کہا۔
چلو اب گھر چلتے ہیں اپنے اکبر شہزداے کو بھی تو دیکھنا ہے سب اُٹھ کر گھر کی طرف چلنے لگ تو چارپائی پربیٹھے ابھی تک کھانے میں مصروف چاروں ‏بوڑھے ہاتھوں میں اپنی اپنی تھالی تھامے کھڑے ہو گئے جب کریم الدین کا ساراخاندان ان کے پاس سے گزر گیا تو وہ پھر بیٹھ گئے اور دوبارہ کھانے ‏میں مصروف ہو گئے۔

۔۔۔۔۔

دسواں باب:‏

تقریباًدو سو سال سے آباد پرُانا یہ محلہ تین گلیوں پر مشتمل تھاہر گلی کی چوڑائی ڈھائی میٹر سے زیادہ نہیں تھی اس محلے میں کوئی بھی مکان دو منزلہ ‏نہیں تھایوں تو پکی اینٹوں سے بنے ہوئے گھر تھے مگر ان کوچَکنے بُھورے رنگ کے مٹی گارے سے جوڑا گیا تھا زیادہ تر مکان خستہ اور ٹوٹ پھوٹ کا ‏شکار ہو چکے تھے ہر گلی میں چھوٹے بڑے لگ بھک پچاس گھر تھے جن کی دیواریں ایک دوسرے گھر کیساتھ سانجھی تھیں ہر گلی پّکی سرخ اینٹوں سے ‏بنی ہوئی تھی اور گلی کے دونوں اطراف ایک چھوٹی سی نالی بغیر چھت کے بنائی گئی تھی جو ہر گھر کے گندے پانی کے نکاس کے لئے بنائی گئی تھی ‏جوبلدیہ کا ایک سرکاری ملازم ہر روز صبح سویرے صاف کرنے کے بعد، اس نالی کے دونوں کناروں پر پانی کا چھڑکاو کر کے دھو دیتا۔
وہ پانی دارا میدان میں سرکار کی طرف سے لگے پانی کے بڑے نل سے چمڑے کے بڑے مشکیزے میں بھر بھر کر لاتااور گندی اینٹوں اور نالی کو دھو ‏دیتا۔
ہر روز اپنا کام ختم کرنے کے بعد میونسپل کمیٹی کا م وہ لازم وقت گزاری اور اپنی تفریح یا پھر کام کے وقفہ کا صحیح استعمال کرنے کے لئے دارا میدان ‏میں ایک ہی چارپائی پر بیٹھے بوڑھوں کے پاس جا کر زمین پر ہی بیٹھ جاتا اوراپنے واسکٹ نما سُولکے کی جیب میں سے پُرانے اخبار کے چھوٹے سے ‏ٹکڑے میں لپٹی دو گرام چرس کی ڈلی نکال کر اپنے سامنے زمین پر رکھ لیتا ۔‏
پھر سگریٹ میں سے بڑی احتیاط کے ساتھ تمباکو نکال کر اسے خالی کر کے اخبار کے ٹکڑے پر چرس کی ڈلی کے ساتھ رکھتااس کے بعد ماچس میں ‏سے دو عدد تیلیاں نکال کر ایک میں چرس کی ڈلی پرُو کر ایک ہاتھ کی دو انگلیوں میں تھام لیتا اور دوسرے ہاتھ میں پکڑی تیلی کو اپنے پاؤں کی انگلیوں ‏کے نیچے دبائی ہوئی ماچس پر لگے بھُورے رنگ کے مسالحے پر رگڑ لگا کر جلاتا اور دوسری تیلی پر لگی ہوئی چرس کی ڈلی کو اس کی آگ پر گرم کرنا ‏شروع کرتا آگ پر جب چرس اس حد تک گرم ہوجاتی کہ بالکل نرم ہو جاتی تو اسے فوراً سگریٹ سے نکالے ہوئے تمباکو کے ساتھ ملا کر ہلکا ہلکا مسل ‏کر اچھی طرح دونوں کوملانے کے بعد خالی کی ہوئی سگریٹ میں دوبارہ بھر لیتا اور پھر بڑے سکون و اطمینان کے ساتھ سلگا کر گہرے گہرے کش لگا ‏کر اس کا دھواں باہر پھینکنے کی بجائے پھپھڑووں میں لے جاتا۔ اس سارے عمل کے دوران بوڑھے اسے خاموشی کے ساتھ دیکھتے رہتے اورایک ہی ‏حقہّ کے باری باری کش لگاتے رہتے۔
جب دوپہر بھی گذر جاتی اورسہ پہر قریب آ جاتی تو وہ چپکے سے اُٹھتا اپنا پانی والا خالی مشکیزہ کندھے پر لٹکاتا اور سیدھا کریم الدین کے گھر کے ‏دروازے پر پہنچ کر دروازے پر لگی لوہے کی کنڈی ہاتھ کی مدد سے ہلکے سے دو تین با ر بجاتا،کچھ دیر بعد اندر سے دائی ماں کی آواز آتی۔
ابھی لے کر آتی ہوں۔
‏ اچھا جی دائی ماں، وہ کہہ کر دروازے کے آگے بنائے ہوئے پُتلی اینٹوں کے چھوٹے سے تخت پر بیٹھ جاتااور انتظار کرتا۔
آج اسے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا، چند منٹ بعد ہی لکڑی کا دروازہ کھلا اور دائی ماں نے باہر جھانکتے ہوئے کہا۔
ابے او ماشکی کے پُتر کل تُو کہاں تھا۔
جی دائی ماں تمہیں تو معلوم ہی ہے میں بیمار رہتا ہوں کل تو بخار کے ساتھ سر میں درد بھی تھا اس لئے چھٹی پر تھا او ر کام پر بھی نہیں آ سکا مجھ سے ‏قسم لے لو جو کل سے کھانے کا ایک بھی نوالا میرے پیٹ میں گیا ہو۔
تمہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ کل بڑا دن تھا اور تمہیں کسی نے یہ بھی نہیں بتایا ہوگا کہ کل ہی ہمارے ریاست الدین کے گھر میں ایک اور بیٹا پیدا ہوا ‏ہے جس کا نام اکبر الدین رکھا گیا ہے۔
دائی ماں بہت بہت مبارک ہو، اس نے کھڑے ہو کر کہا۔
‏ مبارک ہو ! اب کہنے آ گیا ہےتُو چرس سے بھرے سگریٹ پی کر اپنی جھونپڑی میں سویا ہو گا دائی ماں نے طنز اور غصہ بھرے انداز میں کہا۔
سچ کہا تُو نے دائی ماں ایسا ہی ہوا تھاکل دو کی بجائے چھ سگریٹ پی لیے تھے ماشکی نے کچھ شرمندگی سی محسوس کرتے ہوئے کہا۔
دائی ماں نے ایک چاندی دھات کی دیگچی آگے بڑھاتے ہوئے کہا یہ لے اور جلدی سے خالی کر کے مجھے واپس کر۔
ماشکی نے اپنے کندھے پر رکھی ہوئی کاٹن کے کپڑے کی صافی اُتار کر زمین پر بچھائی اور دیگچی اس پر اُلٹ دی پھر دیگچی ایک طرف زمین پر رکھ ‏کرصافی میں چاول اچھی طرح سے باندھ کرخالی دیگچی دائی ماں کو واپس کر دی۔
دائی ماں نے اس کے بعد مٹی کا ایک بڑا پیالہ آگے بڑھاتے ہوئے کہا یہ بھی تمہارے لئے ہے۔
اس میں کیا ہے دائی ماں ؟اس نے پوچھا۔
اس میں بھینس کے گوشت سے بنا ہوا قورمہ ہے یعنی سالن ہے اور سُن یہ پیالہ اپنے ساتھ لے جا اور کل یاد سے واپس لیتے آنا،سمجھ گیا ہے نا ۔
جی دائی ماں جی ! تمہاری بہت مہربانی اور ہاں دائی ماں حضورِ والا جناب کریم الدین اور حضورِ والا جناب ریاست الدین کو میری طرف سے بہت ‏بہت شکریہ کہہ دینا اگر خدا نے چاہا تو کل پھر حاضرِ خدمت ہوں گا میرے کرنے کے لئے کوئی کام ہو توبندہ ہر وقت حاضر ہے اور دائی ماں کو آداب ‏عرض کرتا ہوا میدان کی طرف چل پڑا۔
‏ میدان میں پھر وہ چاروں بوڑھے لوگوں کے پاس سے گذرا مگر چاروں ہی حقّہ کے باری باری کش لگانے میں مصروف تھے اور چارپائی پر آلتی پالتی ‏مارے بڑے سکون کے ساتھ بیٹھے تھے حسب معمول چاروں خاموش ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ اس نے ان کی طرف ایک اچتیل نگاہ سے ‏دیکھا ایک لمحے کے لئے رُکا لیکن پھر کچھ سوچتے ہوئے اپنی جھونپڑی کی طرف چل پڑا۔ نشہ کی وجہ سے چلتے ہوئے اس کے قدم ڈگمگا رہے تھے مگر ‏وہ چلتا جا رہا تھا اس نے زیرِ لب ایک مشہور فلمی گیت کے بول گنگنانے شروع کیے۔نگاہیں ملا کر بدل جانے والے ۔ ہمیں تم سے کوئی شکایت نہیں ‏ہے۔
‏ اور گلی سے باہر نکل گیا یہ اُس کا روز کا معمول تھا۔
اس محلے میں رہنے والے موجودہ لوگوں کے آبا و اجداد مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے تھے مگر دو صدیاں پہلے جب اس محلے کی بنیاد اس وقت کے ‏انگریز حکمرانوں نے رکھی تھی تو وہ ایک خاص مقصد کے تحت رکھی گئی تھی کہ ان لوگوں کو شہر سے باہر لیکن شہر کے بالکل قریب ہی رکھا جائے ‏کیونکہ یہ لوگ شہر کی صفائی کے کام پر مامور تھے ان میں اکثریت نچلی ذات کے غریب لوگوں کی تھی جن کو اونچی ذات والے ہندو برہمن اپنے ‏برابردیکھنا پسند نہیں کرتے تھے ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جن کی ذات تو اونچی تھی مگر وہ اپنے قبیلے یا اپنی برادری سے بغاوت کے جرم کی سزا ‏کی وجہ سے یہاں آباد ہو گئے تھے اور خاص طور پر وہ لوگ آباد ہوئے تھے جو مذہب کی تبدیلی کی وجہ سے یا پھر اپنی ذات برادری سے باہر محبت کی ‏شادی کر بیٹھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنوں کے ظلم و زیادتی کا شکار ہونے کے بعد یہاں پر آباد ہوئے ان میں زیادہ تر بے گھر افراد تھے یا بہت زیادہ ‏غریب لوگ تھے جن کے پاس زندہ رہنے کے لئے اور کوئی راستہ نہیں تھا ۔
‏ یہ اتنا بڑا شہر تو نہیں تھا مگر مسلسل بدلتے حکمرانوں کی وجہ سے ٹوتتا اور بنتا رہا ۔
صدیوں سے آریائی، یونانی، فارسی ،ہندؤ، بدھ، سکھ اور انگریز حکمرانوں کے زیر تسلط رہا تھا
‏ اب مسلم حکمرانوں کے زیرِ تسلط تھا اس لئے یہاں اس شہر میں ہر مذہب ، ذات فرقے کے لوگ آباد تھےمگر اب اس شہر کی مسلم آبادی دوسری ‏لوگو ں پر حاوی تھی اس بستی کے لوگ انگریز کے دور حکومت میں ہی مسیحیت قبول کر چکے تھے۔
‏ اسلئے تین نسلوں سےمذہب کے لحاظ سے مسیحی عقیدہ سے منسلک چلے آ رہے تھے۔مگر کچھ خاندان اب اپنی معاشی حالت بہتر کر چکے تھے اور بہت ‏سے افراد اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلی سرکاری عہدوں پر فائز تھے اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی تھی کہ ایک ہائی سکول اور ایک کالج اس محلے ‏کے بالکل نزدیک تھا مگر انگریزوں کے بنائے ہوئے ان تعلیمی اداروں میں مذہبی تعصب کا کوئی وجود نہیں تھا ہر شہری کا تعلیم حاصل کرنے کا حق ‏یکساں تھا ۔
‏ یہاں پر مقیم لوگ اپنے بڑے مذہبی تہواروں پر اکثر دیسی شراب کا استعمال کثرت سے کرتے اور زیادہ شراب نوشی کی وجہ سے ایک دوسرے کے ‏ساتھ بلاوجہ دنگا فساد کرتے اور آخر کا ر شام کو تھک ہار کر سو جاتے اور اگلے دن سب کچھ بھول بھال کر دوبارہ اپنے اپنے کاموں میں مگن ہو جاتے۔
گیارہواں باب:

سکول میں اکبر الدین کا آج پہلا دن تھابہت بڑے سکول میں وہ اپنے آپ کو اجنبی محسوس کر رہا تھا جب وہ اپنے باپ ریاست الدین کے ساتھ اپنے ‏کمرہ جماعت کے دروازے پر پہنچا تو کلاس شروع ہو چکی تھی کلاس انچارچ ماسٹر جی نے دیکھا کہ ریاست الدین حضور آئے ہیں تو وہ کرسی سے اُٹھ ‏کر باہر آئے اور چھوٹے شہزادے حضور کو کلاس میں خوش آمدید کہا۔
ماسٹر جی اکبر الدین اب آپ کے حوالے ہے آپ اس کے استاد بھی ہیں اور آج سے آپ اس کے دینی اور روحانی علم و تعلیم کے باپ بھی ہیں۔
آپ فکر مت کریں ،ماسٹر جی نے دائیں ہاتھ کو سینہ پر رکھتے ہوئے کہا یہ بھی میرے بیٹے جیسا ہی ہے میں کلاس میں بیٹھے بچوں اور بچیوں کو اپنے ‏بچوں کی طرح پیار کرتا ہوں اور نیک نیت سے ان کو تعلیم دیتا ہوں۔
ماسٹر جی آپ کا بہت شکریہ ریاست نے یہ کہتے ہوئے ماسٹر جی سے اجازت چاہی اور سکول سے گھر آ گیا۔
‏ ماسٹر جی نے اکبر کے لئے اگلے بنچوں میں سے کسی پر بیٹھنے کے لئے جگہ تلاش کی مگر وہ سب پُر ہو چکی تھیں ماسٹر جی نے پچھلے بنچوں پر نظر دوڑائی تو ‏اسے سب سے پچھلے بنچ پر دو عدد خالی جگہیں نظر آئیں ماسٹر جی نے بغیر وقت ضائع کیے اکبر کو وہاں پر بیٹھنے کے لئے کہا۔
اس کلاس میں تیس بچوں کی گنجائش تھی شہر کے بڑے اور مشہور مشنری ہائی سکول کی یہ پہلی جماعت تھی جہاں سے اصل تعلیم کے سفر کا آغاز ‏ہوتا تھااور اس میں بیٹھے ہوئے تمام بچوں کا سکول میں پہلا دن تھا تمام بچے ایک دوسرے کواجنبی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اس جماعت میں دس ‏عدد لکڑی کے لمبے بینچ تھے ہر بینچ پر تین بچوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی اور بینچوں کے سامنے دیوار کے ساتھ چیڑ کی لکڑی سے بنا ہوا ایک عدد چھوٹا ‏میز اور کرسی رکھی گئی تھی جس پر ماسٹر جی بیٹھتے تھے ماسٹر جی کے پیچھے دیوار پر سیاہ رنگ کا بورڈ بنا ہوا تھا جس پر ماسٹر جی سفید چاک سے لکھ کر بچوں ‏کو اردو اور انگریزی کے حروف تہجی اورالفاظ کے علاوہ مختلف اشکال کے ذریعے بنیادی چیزیں سمجھاتے تھے۔
آخری بینچ جس پر اکبر اور ایک لڑکی بیٹھی ہوئی تھی ان کے پیچھے دیوار کے ساتھ پٹ سن سے بنی ہوئی بُوریوں کی قطار لگی ہوئی تھی جن میں گندم ‏تھی یہ گندم امریکہ سے پاکستان کی غریب عوام کے لئے آئی ہوئی تھی یہ گندم ہر سال خاص طور پراس بستی کے مکینوں اور شہر کے غریب افراد ‏کے لئے امریکہ کی حکومت بھیجتی تھی سکول میں ایک سٹور تھا سٹور جب بھر جاتا تو بچی ہوئی گندم کی بُوریاں سکول کے کمروں میں رکھ دی جاتیں ‏تاکہ بارش کے موسم میں خراب ہونے سے محفوظ رہیں۔ یہ گندم وقفہ وقفہ سے اس بستی کے لوگوں میں بھی بڑے منظم طریقے سے تقسیم کی جاتی ‏تھی۔
اکبر نے بینچ پر بیٹھ کر اپنا بستہ اپنے آگے فرش پر رکھا جہاں پر ایک اورگلابی رنگ کا بستہ پہلے سے ہی پڑا ہوا تھا پھر اس نے ساتھ والی جگہ کی طرف ‏دیکھا وہاں پر ایک لڑکی جو اس کی ہم عمر تھی سمٹی ہوئی اور گھبرائی ہوئی بیٹھی تھی پوری جماعت میں تیئس لڑکے اور سات لڑکیاں تھیں چھ عدد ‏لڑکیاں اس کے اگلے دو بنچوں پر براجمان تھیں اب صرف ایک بچہ غیر حاضر تھا اور وہ خالی جگہ اکبر کے ساتھ والی جگہ تھی اس طرح آج صرف وہ ‏دونوں ہی ایک بینچ پر ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔
تفریح کے پیریڈ کے دوران سب بچے کھیل کود میں مصروف تھے لیکن اکبر اور وہ لڑکی جس کا نام زینب تھا ایک طرف کھڑے چپ چاپ کھیلتے ‏ہوئے ہم جماعت ساتھیوں کو دیکھ رہے تھے۔
اکبر نے اپناٹفن کھولا اورپراٹھے کا ایک ٹکڑا نکال کر کھانا شروع کیا اور پھر اچانک اسے خیال آیا کہ اس کے قریب زینب کھڑی ہے اس نے جلدی ‏سے نا شپاتی ٹفن میں سے نکالی اور زینب کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔
کھاؤ گی؟
زینب نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا نہیں میں نہیں کھاؤں گی، اور اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ٹفن کو کھولنا شروع کیاہی تھا کہ تفریح ختم ہونے ‏کی گھنٹی بجی اور تمام طالب علم اپنے اپنے کمرہ جماعت کی طرف چل پڑے۔
کمرہِ جماعت میں پہنچ کراکبر اور زینب بینچ پر بیٹھ گئے اور ماسٹر جی دروازے پر رک کر دوسرے بچوں کا انتظار کرنے لگے اسی دوران زینب نے اکبر ‏کی طرف بھر پُور نگاہ سے دیکھا تو اکبر نے شرما کر نظریں نیچے کر لیں اوراپنے آگے فرش پر رکھے بستے کی طرف دیکھنے لگا۔
یہ کس کی جگہ ہے زینب نے خالی جگہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
اکبر نے گھبرا کرزینب سے نظریں چُراتے ہوئے جواب دیا مجھے معلوم نہیں ہے۔
اسی دوران ماسٹر جی کمرے میں داخل ہوئے تو سب بچے ان کے احترام میں کھڑے ہو گئے۔
ماسٹر جی اندر داخل ہوئے سیدھے اپنی میز کی طرف گئے اور کرسی پر بیٹھ گئے اور پھر بچوں کی طرف دیکھ کر کہا سٹ ڈاؤن بچو پلیز ، بیٹھ جاؤ۔
ماسٹر جی نے بیٹھتے ہی تمام طالب علم بچوں کو پھر ایک بار خوش آمدید کہا اور سکول کے قواعد و ضوابط مختصراً بتانے کے بعد اخلاقیات کے بارے اپنے ‏خیالات کا اظہار کیا اور پھر باری باری بچوں سے ان کے تاثرات پوچھنے شروع کیے کہ سکول میں ان کو اپنا پہلا دن کیسا لگا۔
اکبر نے کہناشروع کیاکہ مجھے دائی ماں نے کہا تھا کہ تمہیں بہت ساری کتابیں پڑھنا ہیں اور بہت سے سوالوں کا جواب تلاش کرناہے اور آخر میں ‏بہت بڑا آدمی بننا ہے مگر یہاں پر تو سب کچھ ٹھیک ہے نہ پڑھائی ہوئی اور نہ ہی سوالوں کے جواب دینے پڑے۔
زینب کی باری آئی تو وہ بہت ہی گھبرائی ہوئی تھی اس نے بس یہی کہا کہ میں بہت خوش ہوں مجھے یہ سکول بہت اچھا لگا ہے ۔
سکول ختم ہونے کی گھنٹی بجی تو تمام بچے خوشی سے باہر کی طرف لپکے مگر دروازے پرماسٹر جی کو دیکھ کر رک گئے ماسٹر جی نے تمام بچوں سے کہا ایک ‏قطار میں باہر نکلیں اور خاموشی اختیار کریں۔
سکول کے مرکزی دروازے پر اکبر کی ماں اور دائی ماں دونوں اس کا انتظار کر رہے تھے دروازے سے باہر نکلنے سے پہلے اکبر ایک لمحے کے لئے رُکا ‏اور پیچھے مڑ کر دیکھا اور زینب کو بچوں کے ہجوم میں تلاش کرنا شروع کیا پھر اس نے دیکھا کہ وہ سب سے پیچھے اکیلی آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتی ہوئی ‏بڑے دروازے کی طرف آ رہی تھی وہ سرخ پھولوں والی سفید فراک پہنے ہوئے تھی گورے رنگ اور سیاہ لمبے بالوں والی یہ لڑکی اسے بہت اچھی ‏لگی تھی ایک لمحے کے لئے اس نے سوچا کہ وہ واپس جا کر اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کے ساتھ دروازے سے باہر نکلے مگر زیادہ بھیڑ ہو جانے کی وجہ سے ‏اس نے ایسا نہ کیا اور دوڑتا ہوا باہر نکلا اور سامنے کھڑی اپنی ماں سے لپٹ گیا۔
اگلے دن صبح اکبر جلدی اٹھ گیا آج اکبرخوشی سے تیار ہوا اس نے دائی ماں کے آگے کوئی مزاحمت نہیں کی، ناشتہ بھی بغیر چُوں چرا کیے کر لیااور ‏چپ چاپ دائی ماں کی اُنگلی پکڑے گلی میں جانے سے پہلے اس نے اپنی ماں کو گلے لگایا اور ماں کے گال پر بوسہ دیااور دائی ماں کے ساتھ گلی میں نکل ‏گیا سکول ان کے گھر سے کوئی آٹھ سو میٹر کے فاصلہ پر تھا اس لئے سکول کے لئے کسی سواری کا بندوبست نہیں کیا گیا تھا۔
ابھی وہ اپنی گلی سے نکل کر دو سو میٹر ہی چلے ہوں گے کہ ایک گھر کی چھت سے نیچے آتے ہوئے پرنالے سے گندا پانی اچانک سے گرایا گیا پرنالہ کا ‏پائپ ایک جگہ سے ٹوٹا ہونے کی وجہ سے گندے پانی کے چھینٹے دونوں کے کپڑے پر اس طرح گرے کہ سیاہ اور بھورے رنگ کے داغ نمایاں ‏طور پر نظر آنے لگے پانی بدبُو دار ہونے کی وجہ سے ان کے کپڑوں سے کافی بدبُو آنی شروع ہو گئی۔
پورے محلے میں ایک آدھ ہی مکان ایسا تھا جس کے پرنالے کو اچھی طرح سے ڈھک دیا گیا تھا دائی ماں نے کچھ منٹ وہاں رُک کر اس گھر میں رہنے ‏والوں کو دل کھول کر خوب بُرا بھلا کہا اس میں کچھ گالیاں بھی شامل تھیں۔
جب وہ واپس اپنے گھر کے اندر دوبارہ داخل ہوئے تو زہرہ نگاہ گھبرا گئی اور پریشانی کے عالم میں دونوں کی طرف لپکی اور کئی سوال ایک ساتھ کر ‏ڈالے۔
کیا ہوا، کیوں واپس آ گئے ہو، اکبر ٹھیک تو ہے اور پھر اپنی ناک پر ہاتھ رکھ کر کہا یہ اتنی بدبُو کہا ں سے آ رہی ہے؟‏
میں بتاتی ہوں دائی ماں نے اکبر کا بستہ ایک طرف رکھتے ہوئے کہا اور پھر تمام کہانی سنائی۔
زہرہ نگاہ نے اکبر کے صاف دُھلے ہوئے کپڑے ڈھونڈے مگر نہ ملے لہذا فیصلہ کیا گیاکہ دائی ماں اسی وقت کپڑے دھو کر صحن میں چھانک رہی ‏دھوپ میں خشک ہونے کے لئے ڈال دے تاکہ کل سکول سے چھٹی نہ کرنی پڑے۔
اس دن اکبر سکول نہ جا سکا ہاں مگر سارا دن سکول کو یاد کرتا رہا۔
اگلے دن دائی ماں نے اکبر کو صبح چھ بجے اُٹھا دیا، اسے جلدی سے تیار کیا اس کا بستہ صاف کیا اور ایک عدد پنسل اور ایک عدد کاپی کے علاوہ ایک عدد ‏سلیٹ اور سفید چاک بھی بستہ میں رکھ دیا ۔
‏ پھر اکبر کا ناشتہ تیار کرنا شروع کر دیا اتنی دیر میں اکبر بھی اپنے بالوں میں کنگھی کر چکا تھا اور مطبخ کے دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا کہ اُدھر سے ‏آواز آئی ۔
‏ اکبر بیٹا آ جاؤ ناشتہ تیار ہے ۔
‏ وہ ناشتہ کھانے کے لئے بالکل تیار تھا تاکہ جلد سے جلد سکول پہنچ جائے ۔
اسے پڑھائی میں تواتنی دلچسپی نہیں تھی جتنی اسے کمرہِ جماعت میں بینچ پر اس کے ساتھ بیٹھی زینب سے تھی وہ اسے دیکھنے کے لئے بے چین تھا اس ‏کا دل چاہتا تھا کہ فوراً اُڑ کر سکول پہنچ جائے تاکہ کمرہ جماعت میں بینچ پر زینب کے ساتھ والی جگہ پر کوئی اور نہ بیٹھ جائے۔
آخر کار اس کی ماں زہرہ نگاہ کی آواز آئی بیٹا ۔
کیا تو سکول کے لئے تیار ہے تو ناشتے کے لئے ادھر ہی آ جاؤ، ناشتہ بالکل تیار ہے۔ ‏
اکبر نے جواب میں کہا ابھی آیا اماں حضور ،اورتقریباً دوڑتا ہوا مطبخ میں ماں کے پاس پہنچا اور تپائی پر بیٹھ گیا دائی ماں نے ایک عدد چھوٹا پراٹھا اور ‏اس کے اُوپر چنے کی دال ڈال کر اس کی طرف بڑھائی جس کو جلدی جلدی کھانے کے بعد اور ہاتھ دھونے کے بعد اکبر نے دائی ماں کی طرف ‏دیکھتے ہوئے کہا،
چلواب سکول چلیں۔
دائی ماں نے پراٹھے کا آخری نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا چلوچلتے ہیں مگر بیٹا ابھی تو آٹھ بجنے میں ایک گھنٹہ ہے۔
اکبر نے بے چینی سے جواب دیا نہیں ابھی چلتے ہیں۔
دائی ماں نے کہا ٹھیک ہے چلو اور اپنے دوپٹے کے پلو سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے مطبخ سے باہر کی طرف چل پڑی۔
پرانے انداز میں شاہانہ طرز پرتعمیر شدہ یہ مطبخ اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا مگر ابھی تک استعمال کے قابل تھا کیونکہ کریم الدین اپنے بیٹوں کی مدد ‏سے اس کی گاہے بگا ہے مرمت کرتے رہتے تھے ۔
‏ ایک کونے میں بڑے بڑے دیگچے اور کڑاہیاں ایک دوسرے کے اُوپر تلے ترتیب سے رکھی ہوئی تھیں جن میں کبھی ماضی میں انواع و اقسام کے ‏پکوان بنائے جاتے تھے جو اب ماضی کا قصَہ ِ پارنیہ ہو گئے ہیں ۔
اب سال ہا سال سے اس چھوٹے سے شاہی مطبخ میں پڑے یہ قدیم برتن تھے جو ایک عرصہ سے استعمال نہیں ہوئے تھے ان پر اس وقت کے رسم ‏ورواج کے مطابق نقش و نگار بھی کھُدے ہوئے تھے جو ماضی کی گم شدہ داستانیں بیان کرتے تھے، مغربی دیوار کے ساتھ مٹی کی مدد سے کچھ چولہے ‏اس انداز میں بنائے گئے تھے جن میں کبھی لکڑی جلا کر کھانا بنایا جاتا تھا اب ان میں جلانے والی لکڑی کوسٹور کیا جاتا ہے، اور ایک چولہے کو مٹی سے ‏پُر کرنے کے بعد دو عدد چھوٹے چولہے اس کے اوپر بنا لیے گئے تھے جن میں اب بھی لکڑی جلا کر کھانا تیار کیا جاتا تھا ایک چھوٹے چولہے سے زہرہ ‏نگاہ نے چائے بنانے والا برتن اُتار کر ایک طرف رکھا ہی تھا کہ اکبر نے اماں حضور سے کہا اچھا اب ہم سکول چلتے ہیں۔
زہرہ نگاہ نے بیٹے کو گلے سے لگایا گال پر بوسہ لیا اور اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا بیٹا ماسٹر جی کی ہر بات بڑے دھیان سے سننا اور یاد ‏رکھنا،اور اپنے ہم جماعت ساتھیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، مجھے کوئی شکایت نہیں آنی چاہیے۔
جی اماں حضور میں ایسا ہی کروں گا آپ فکر نہ کریں اکبر نے جواب دیا اور دائی ما ں کے ساتھ گھر سے ہاہر نکل گیا۔
اکبر اور دائی ماں سات بجے گھر سے چل پڑے تھے پندرہ منٹ پیدل چلنے کے بعد وہ دونوں سکول کے گیٹ کے آگے پہنچ چکے تھے اور سکول شروع ‏ہونے میں ابھی پون گھنٹہ باقی تھا سکول آٹھ بجے شروع ہوتا تھا اور سکول شروع ہونے سے صرف پندرہ منٹ پہلے سکول کا بڑا گیٹ کھول دیا جاتا ‏تھا۔
جب گیٹ کھل گیا تو دائی ماں نے اکبر کو اس کا بستہ پکڑاتے ہوئے کہا اب جلدی سے اپنے کمرہ جماعت کے آگے جا کر کھڑا ہو جا اور ماسٹر جی کا انتظار ‏کرنا اور پھر دوسرے بچوں کے ساتھ جماعت میں داخل ہونا۔
جی اچھا دائی ماں، میں چلا جاتا ہوں اور گیٹ کے اندر داخل ہو گیا چند قدم سکول کے اندر وہ چلتا گیا اور پھر پیچھے مڑ کر دیکھا تو دائی ماں گھر کی طرف ‏چل پڑی تھی اور کافی دور جا چکی تھی وہ دوبارہ پھر سے واپس گیٹ کی طرف آ گیا اور بے چینی سے اپنے دائیں جانب والی سڑک پر دیکھنے لگا ۔
‏ سکول شروع ہونے میں ابھی پانچ منٹ باقی تھے کہ اسے زنیب اپنے باپ کے ساتھ بائیسکل پرآتی نظر آئی جو بائیسکل کے پیچھے والی سیٹ پر بیٹھی ‏ہوئی تھی۔
بائیسکل سے زینب کو اس کے باپ نے بڑی احتیاط سے اتارا اور بستہ اس کے کندھے پر ڈال کر کہا کہ چھٹی کے وقت میں یہا ں پر ہی کھڑا ہوں گا۔
زینب نے صرف اتنا کہا جی اباجی، اور گیٹ کے اندر داخل ہو گئی اور سیدھا اپنی جماعت کے باقی طالب علموں کےساتھ جا کر کھڑی ہو گئی اسے ‏معلوم ہی نہیں ہوا کہ اکبر الدین اس کے پیچھے پیچھے آ رہا ہے اور وہ اس کے بالکل پیچھے کھڑا ہے اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ گیٹ پر اس کا انتظار کر ‏رہا تھا اور وہ دونوں آگے پیچھے چلتے ہوئے اپنے ہم جماعت ساتھیوں کی قطار میں کھڑے ہو گئے ہیں ۔
پہلی جماعت سے لے کر دسویں جماعت کے تمام طالب علم سکول کے وسیع کھیل کے میدان میں نہایت ادب و احترام اور ترتیب کے ساتھ جمع تھے ‏اور ہر جماعت کا انچارچ ماسٹر ان کے ساتھ کھڑا تھا یہ سب سکول کے مشرق کی طرف بنے ہوئے ایک بڑے سٹیج کے آگے جمع تھے جس کے ‏درمیان میں پاکستان کا سبز و سفید ہلالی پرچم لہرا رہا تھا۔ ‏
سکول کا پرنسپل ایک غیر ملکی مسیحی راہب تھا جو جذبہ انسانی خدمت سے سرشار پردیس سے اپنا گھر بار اور خاندان کو خیر باد کہہ کر پاکستان کے شہر ‏سیالکوٹ میں مقیم تھا وہ یہاں کے رسم ورواج اور نئی نسل کی تعلیم و تربیت میں گُم ہو چکا تھا اس نے کبھی یورپ واپس جانے کا نہیں سوچا تھا وہ لوکل ‏زبان پنجابی اور اردو روانی سے بولتا تھا وہ یورپین تہذیب و ثقافت کو تقریباً بُھول چکا تھا اور اب ہندوستانی تہذیب و ثقافت اس کا اوڑنا بچھونا تھا وہ بے ‏لوث خدمت انجام دے رہا تھا وہ سٹیج کے درمیان پاکستانی پرچم کے بالکل نیچے کھڑا تھا اور اس کی نظریں میدان میں جمع بچوں پر تھیں۔
ٹھیک آٹھ بجے مختلف جماعتوں سے خوش گُلو چار عدد بچے سٹیج کے اُوپر آئے اور قومی شاعر علامہ اقبال کی نظم ،، بچے کی دعا ،،جس کے بول تھے
؎ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
ترنم کے ساتھ گانا شروع کی، اس نظم کا ہر شعر تمام بچے ان چار بچوں کے پیچھے دہراتے اس نظم کے اختتام کے بعد سب نے مل کر پاکستان کا قومی ‏ترانہ یک زبان ہو کر گایا ترانے کے ختم ہوتے ہی سکول کے پرنسپل نے انسانی اخلاقیات پر دو منٹ کا درس دینے کے بعد نہایت افسردہ لہجے میں ‏اعلان کیا آپ سب جانتے ہیں پاکستان اور انڈیا کے درمیان زمینی اور فضائی جنگ چھڑ چکی ہے ہم سب مل کر اس کے جلد ختم ہونے کے لئے دعا ‏کریں اس کے بعد تمام بچے اپنی اپنی جماعتوں میں روز مرہ کی نصابی پڑھائی میں مشغول ہو گئے ۔
اکبر الدین اور زینب ایک ہی بینچ پر بیٹھے تھے اکبر الدین بہت خوش تھا ۔
مگر آج ماسٹر جی ہشاش بشاش دکھائی نہیں دے رہے تھے ان کے چہرے پر فکر و پریشانی کے آثار صاف نظر آ رہے تھے ان کے ہاتھ میں مقامی ‏اخبار کا ایک جنگی ضمیمہ تھا وہ بار بار اس میں درج سُرخیوں پر سرسری نظر ڈالتے اور پھر چپ چاپ اپنی کرسی پر بیٹھے دروازے کی جانب دیکھتے جا ‏رہے تھے ۔
‏ آج وہ کسی بچے کو ڈانٹ نہیں رہے تھے اور نہ ہی سبق پڑھا رہے تھے وہ اپنے ہاتھ میں لوکل اخبار کا جنگی ضمیمہ تھامے تھے بار بار اس کی طرف دیکھتے ‏جو ان کے ہاتھوں میں تقریباً پورا کا پورا تہہ ہو چکا تھا وہ کبھی کبھی اس کے صفحے اُلٹ پلٹ کر دیکھتے اور پھر بے چینی سے پہلو پر پہلو بدلتے جاتے، کچھ ‏دیر بعدوہ اُٹھ کر جماعت میں چکر لگاتے ایک بار تو دیوار کے ساتھ پڑی گندم کی بُوری کو مُکا بھی مارا ، جس سے دھم کی آواز پیدا ہوئی تو زینب نے ‏گھبرا کر اکبر الدین کا ہاتھ پکڑ لیا،۔ ‏
اسی وقت کوئی جماعت کے دروازے پر آیا اور ماسڑ جی سے باتیں کرنے لگا یہ ساتھ والی دسویں جماعت کے انچارچ ماسٹر محمدجمال کشمیری تھے وہ بھی ‏کچھ بے چین اور گھبرائے ہوئے تھے اورماسٹر جی کو بتا رہے تھے۔ انڈین افواج ہمارے شہر کے بالکل قریب پہنچ چکی ہیں ہماری پاک فوج بھی ان کو ‏پوری طاقت کے ساتھ روکنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے ماسٹر جی نے ان سے سوال کیا اب کیا ہو گا ؟ اگر انڈین افواج نے شہر پر قبضہ کر لیا تو ۔
کچھ بھی نہیں ہو گا کیونکہ انیس سو سنتالیس سے پہلے بھی تو ہم سب ایک ہی تھے ایک ہی ملک میں تھے ماسٹر جمال کشمیری نے بڑے اطمینان سے ‏جواب دیا۔
مگر اس وقت ہم میں کوئی جھگڑا نہیں تھا نہ سرحدوں کا تنازعہ تھا ، نہ کشمیر کی تقسیم کا اور سب سے بڑھ کر نہ مذہب کا کوئی معاملہ تھا اب تو باقاعدہ جنگ ‏ہےماسٹر جی نے اداس لہجے میں کہا۔
‏ ماسٹر جمال کشمیری نے ایک بار پھر ہمارے ماسٹر جی کو تسلی دینے کے انداز میں کہاانگریز سے آزادی کے بعد اور دو ملکوں میں بٹ جانے کے بعد بھی ‏ہم ایک ہی ہیں ہماری تہذیب و ثقافت تو اب بھی ایک ہی ہے مذہب تو میرا اور آپ کا ذاتی مسلہ ہے پہلے تو ہم سب انسان ہیں اس لئے مجھے کوئی ‏فرق نہیں پڑے گا ، اگرہندوستان کا ہندؤ، سکھ ، مسلمان یا کوئی مسیحی وزیر اعظم ہو ، وہ تو ہر شہری کے لئے ایک جیسا ہوتا ہے وہ توذات پات، مذہب ‏اور رنگ و نسل کے لئے نہیں ہوتا ہے یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں بھر آئیں تھیں۔
ماسٹر جی نے اس سے پھر پوچھا میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ہم کیوں لڑ رہے ہیں ؟
ماسٹر جمال کشمیری نے ایک ہلکی سی آہ کھنچ کر جواب دیا ہم جموں اورکشمیر کے لئے لڑ رہے ہیں۔
اور انڈیاکیوں لڑائی کرتا ہے ماسٹر جی نے پھر سوال داغ دیا۔
وہ بھی آزاد جموں کشمیر کے لئے ہمارے ساتھ لڑتا ہے ماسٹر جمال کشمیری نے جماعت کے اندر جھانکتے ہوئے جواب دیا۔ماسٹر جی میں آزاد کشمیر کا ‏رہنے والا ہوں کشمیر میرے آباؤ اجداد کی زمین ہے ہم لوگ آزاد ہونا چاہتے ہیں ہم سنتالیس سے پہلے انگریز کے غلام تھے اور آزادی کے بعد آدھا ‏کشمیر انڈیا کی غلامی میں چلا گیا اور آدھا پاکستان کی غلامی میں آ گیا ہے اس طرح ہمیں دو حصوں میں بانٹ دیا گیا۔
ماسٹر جی نے کمرہ جماعت کے دروازے میں سے اونچی آواز میں کہا بچو میں آ رہا ہوں اور ماسٹر جمال کشمیری کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پھر پوچھا ‏کہ ایسی جنگ میں نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان پہلی بار دیکھی ہے مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ ہم آپس میں کتنے دنوں تک لڑتے رہے رہیں ‏گے۔
میں بتاتا ہوں ماسٹر جمال کشمیری نے اپنے دائیں بائیں دیکھتے ہوئے کہا، دراصل انڈیا اور پاکستان کے درمیان باقاعدہ جنگ کا آغاز آزادی کے فوراً بعد ‏ہی شروع ہو گیا تھا۔ ‏
‏ جب ہماری پاکستانی فوج بھیس بدل کر جموں اور کشمیر میں آپریشن گلمرگ کے نام سے اس مقصد کے ساتھ داخل ہوئی کہ وہاں کے لوگوں میں انڈیا ‏کے خلاف نفرت کے جذبات اُبھارکر بغاوت کو ہوا دی جائے اور یوں جموں اور کشمیر بھی آزاد کشمیر کے طرح پاکستان کے کنٹرول میں آ جائے اس ‏مقصد کے لئے بیس لشکر پشتون قبائلیوں پر تیار کیے گئے ہر لشکر میں ایک ہزار آدمی شامل تھے یہ سب آزادی کے بعد ایک ہفتہ بعد ہی شروع ہو گیا ‏تھا۔
‏ مگر کمزور اور ناقص حکمت عملی کی وجہ سے انڈیا کو اس خبر کی اطلاع پہلے ہی مل گئی اور یہ منصوبہ بندی بُری طرح سے ناکام ہو گئی۔‏
مگر ماسٹر جی اس بات کا پاکستانی ذرائع نے کبھی بھی اقرار نہیں کیا ہے کہ ان کا کوئی اس طرح کا منصوبہ تھا اور نہ ہی کوئی اس طرح کا ایکشن کیا گیا ۔
‏ ابھی وہ اپنی بات مکمل نہ کر سکے تھے کہ دسویں جماعت کا مانیٹر دوڑتا ہوا ان کی طرف آیا اور پھولی ہوئی سانس کے ساتھ یہ کہنا شروع کیا،ماسٹر جی ‏کچھ لوگ سکول کے اندر زبردستی گھس آئے ہیں اور پرنسپل صاحب کے دفتر میں جانے کی کوشش کر رہے ہیں جمال کشمیری فوراً اس بچے کے ساتھ ‏اپنی جماعت کی طرف چلا گیا۔
‏ ماسٹرجی بھی اندر آ کر کرسی پر بیٹھ گئے اور بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے۔
بچو کیا آپ کو معلوم ہےکہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ شروع ہو چکی ہے؟ بچوں میں سے کسی نے بھی اس بات کا جواب نہیں دیا اور ماسٹر جی ‏کی طرف دیکھنے لگے۔
ماسٹر جی کچھ لمحے خاموشی کے بعد بچوں سے یوں گویا ہوئے دیکھو بچو ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ خدا ہند و پاک کے حکمرنواں کو ہدایت دے کہ لڑائی کی ‏بجائے باہمی میل ملاپ اور صلاح مشورے سے اپنے مسائل کا حل ڈھونڈ کر امن کو فروغ دیں ۔
میں اندر آ سکتا ہوں سکول کے چپڑاسی شکُر دین نے اندر آتے ہی ایک کاغذ ماسٹر جی کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے کہا کہ پرنسپل صاحب نے میٹنگ ‏کے لئے آپ کو سٹاف روم میں بلایا ہے۔
ماسٹر جی نے شکُر دین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا میں ابھی آتا ہوں اور بچوں کو بھی یہ کہتے ہوئے میں ابھی آتا ہوں سٹاف روم کی طرف چلا گیا۔
میٹنگ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی کچھ سٹاف اراکین برآمدے میں کھڑے آپس میں باتیں کر رہے تھے اور کچھ اندر کرسیوں پر بیٹھے فکر مند ‏دکھائی دے رہے تھے وہ بھی برآمدے میں کھڑے سنیئر سٹاف میں شامل اپنے قریبی دو دوستوں کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اور ان کی گفتگو بڑے ‏دھیان سے سننے لگا۔
دسویں جماعت کو تاریخ جغرافیہ پڑھانے والے ماسٹر لارنس کمار بتا رہے تھے کہ برٹش پارلیمنٹ نے ہندوستان کو آزاد کرنے کی تاریخ جون اینس سو ‏اڑتالیس طے کی تھی مگر ہندوستان میں برٹش حکومت کے خلاف نفرت بہت زیادہ بڑھ جانے کی وجہ سے بغاوت کے آثار نمایاں ہو گئے تھے اس ‏لئے کسی قسم کے خون خرابے سے بچنے کے لئے انھیں آزادی دینے کا فیصلہ جلد کرنا پڑا۔
‏ جولائی اُنیس سو پنتالیس کو برطانیہ کے عام انتخاب میں لیبر پارٹی نے کامیابی حاصل کی تو اس پارٹی کی اہم قیادت نے فیصلہ کیا کہ برطانوی سلطنت اب ‏وسیع برطانوی سلطنت کے انتظامات نہیں چلا سکتی اس لئے اب برصغیر کو آزاد کر دینا چاہیے۔اب میں سمجھا ہندوستان کی تقسیم کیوں غلط طریقے سے ‏ہوئی ماسٹر جی تھوڑے آگے کی طرف جھک کر بولے۔
ماسٹرلارنس کمار نے اپنا دائیں ہاتھ اپنے سینے سے تھوڑا اُوپر کرتے ہوئے کہا، ماسٹر جی آپ درست فرما رہے ہیں کہ اُنیس سو تیس سے پہلے کسی مسلم ‏راہنما کے ذہن میں پاکستان کا نام نہیں تھا اور نہ ہی تقسیم کا صحیح نقشہ تھا محمد علی جناح مسلم لیگ کے راہنما اور انڈین نیشنل کانگریس کے راہنما جواہر ‏لعل نہرو بھی جلدی سے آزادی چاہتے تھے اس جلد بازی میں بہت ساری غلطیاں تینوں فریقین سے سرزد ہوئیں جن کا خمیازہ آج ہمارے سامنے ‏ہے۔
ماسٹر جی کے ساتھ کھڑے دسویں جماعت کے اسلامیات کے استاد مولانا فضل محمد نے پُر جوش انداز میں سب کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ‏ہوئے ماسٹر لارنس کمار کی بات کو ٹوکتے ہوئے کہنا شروع کیا۔
‏ میرے خیال میں غلطی اور کہیں نہیں ہوئی تھی صرف غلطی ہوئی تھی تو ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماونٹ بٹین سے ہوئی تھی کہ اس نے ‏ہندوستان کو تقسیم کرتے ہوئے مسلمانو ں کے جذبات کو مدَ نظر نہیں رکھا تھا وہ صرف اور صرف ہندؤ قوم کے طرف دار تھے اس لئے ہمیں آج کی ‏اس خوفناک جنگ و جدل اور ایک دوسرے سے نفرت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
‏ ماسٹر جمال کشمیری نے اپنے ہاتھ میں تھامی چھڑی کو دائیں بغل میں دباتے ہوئے کہا میرے خیال میں ایسا نہیں ہوا بلکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ غلطی ‏اس وقت کے برطانوی قانون دان اور وکیل سائرل ریڈکلف نے کی تھی کیونکہ اس کے پاس بہت کم وقت تھا تقسیم کا نقشہ مکمل کرنے کے واسطے ، ‏اور دوسری وجہ یہ تھی وہ ہندوستان کی صحیح صورت حال سے پوری طرح واقفیت نہیں رکھتے تھا اور نہ ہی اس کے پاس ہندوستان کے جدید نقشے اور نہ ‏ہی مردم شماری کا بہتر نظام اور مواد موجود تھا جس کی وجہ سے تقسیم صرف دو مذاہب کو سامنے رکھتے ہوئے کی گئی اور باقی مذاہب اور فرقوں اور ‏قبائل کو نظر انداز کر دیا گیا۔
‏ اگر بارڈر اور علاقائی فاصلوں کے ساتھ علاقائی زبانوں کو بھی سامنے رکھ کر ہند و پاک کی تقسیم کی جاتی تو کبھی بھی کوئی لڑائی نہ ہوتی اور تقسیم کے ‏وقت بڑے پیمانے پر قتل و غارت نہ ہوتی، بلکہ ہندوستان کی تقسیم مذہب کی بنیاد پر نہیں زبان ، علاقہ، اور نسل کی بنیاد پر ہونی چاہیے تھی تاکہ ہر کوئی ‏اپنی اپنی حدود اور اپنے علاقہ اور رسم و رواج کے اندر رہتے ہوئے خوش و خرم ہوتا اور ہمیں یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔
ماسٹر جی نے ہلکی سی کھانسی کے ساتھ اپنے دائیں طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اب تو یہ دن ہمارے مقدر میں تھے اور ہیں دیکھتے جائیں آگے کیا کیا ‏ہوتا ہے فی الحال تو پرنسپل صاحب اندر تشریف لا چکے ہیں چلیں اندر چلتے ہیں۔ ‏
۔۔۔۔۔

٭٭٭
پرنسپل صاحب پچھلے تیس ‏‎(30)‎برس سے تعلیم کے شعبے میں بلا معاوضہ خدمات انجام دے رہا تھے وہ اس عرصہ میں اپنے دیس میں اپنے ماں باپ ‏کو ایک بار بھی ملنے کے لئے واپس گئے اور نہ ہی کسی رشتہ دار کی خوشی اور غم میں شریک ہونے کے لئے اپنے آبائی ملک گئے ان کے ذہن پر ایک ہی ‏دھن سوار تھی صرف اور صرف انسانیت کی خدمت ، بس اسی میں ان کا سکون و اطمینان اور خوشی تھی۔
‏ اس عرصہ میں ان کے والدین بھی فوت ہو گئے مگر وہ اس خوف سےان کی رسم جنازہ میں شرکت کے لئے نہ جا سکے کہ ہو سکتا ہے واپسی پر مجھے ‏پاکستانی حکومت ویزا دینے سے انکار کر دے اور ان کا مشن اُدھورا رہ جائے، وہ جب ہندوستان میں آیا تھا تب وہ تیس ‏‎(30) ‎برس کا خوبرو نوجوان تھا ‏وہ اپنے کام خود کرنے کا عادی تھا حتی کے اس کے پاس نہ خانساماں ، مالی اور نہ ہی ڈرائیور تھا ۔
‏ اس نے کاتھولک راہب کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی سے فلسفہ اور علم الہیات کی تعلیم بھی مکمل کی اس کے بعد اس نوجوان نے ‏میڈیکل کی بنیادی تعلیم حاصل کی اور پھر وقت ضائع کیے بغیر وہ فوراً ہندوستان میں چلا آیا اور سیالکوٹ شہر میں ڈیرے ڈالے۔
کیونکہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں مسیحیت کو اس علاقے کے لوگوں نے غیر ملکی مشنریوں کی مدد سے زندہ رکھا اس شہر میں مرے کالج جہاں سے علامہ ‏سر محمد اقبال سے لے کر فیض احمد فیض تک نے تعلیم حاصل کی ۔
اس شہر میں سینٹ انتھنی ہائی سکول کے علاوہ اسکاچ مشن ہائی سکول بہت متحرک تھے جس میں قائد اعظم بھی کچھ عرصہ زیر تعلیم رہےان تعلیمی ‏اداروں کا تعلیم کے شعبہ میں نمایاں حصَہ تھا اور ابھی تک جاری و ساری ہے کیونکہ یہ اپنی تعلیمی اور علمی سرگرمیوں کی وجہ سے پورے ہندوستان ‏میں ایک خاص مقام کے حامل تھے ۔
سکول کے پرنسپل کا نام فادر ڈیگولیگوری تھا سرخ و سفید رنگ اور دراز قد ، سنہرے رنگ کے بال اور فرنچ کٹ لمبی سنہری داڑھی میں وہ بہت ‏خوبصورت دکھائی دیتا تھا وہ نرم گو اور ٹھنڈے مزاج کاشخص تھا اب وہ ‏‎(70)‎‏ ستر برس کا ہو چکا تھا مگر ہر کام اب بھی ایک نوجوان کی طرح نہایت ‏چُستی کے ساتھ کرنے کا عادی تھا وہ اپنے روز مرہ کے معاملات میں کبھی بھی فرق نہیں آنے دیتا تھا۔‏
فادر ڈیگو لیگوری سفید کاٹن کے جُبہَ میں سٹاف روم کے چھوٹے سے سٹیج پر لکڑی کی ایک پرانی کرسی پر بیٹھا اساتذہ کو کہہ رہا تھا ابھی تھوڑی دیر پہلے ‏شہر کے علمائے دین میرے آفس میں آ کر مجھے دھمکی دے کر گئے ہیں کہ ہمارا ملک جتنی جلدی ہو چھوڑ دو ورنہ نتائج آپ کے حق میں اچھے نہیں ‏ہوں گے یعنی آپ اپنی جان سے بھی جا سکتے ہیں۔
لیکن میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے کوئی بھی یہ رائے نہیں رکھتا کہ میں یہ سکول اور پاکستان چھوڑ کر اپنے پرانے دیس چلا جاؤں جہاں اب میرا ‏کوئی نہیں ہےمیں نے اپنی جنم بھومی کو خیر با دکہا اور پاکستان اور اس کی مٹی سے محبت کی ہے ۔‏
‏ میں ایک بار پھر پاکستان اور یہاں کے لوگوں سے کیا ہوا وعدہ آپ کے سامنے دُھراتا ہوں کہ میرا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے میں مروں گا تو ‏یہاں اور مرنے کے بعد اسی دیس کی خاک میں دفن ہوں گا یہی میرا مقدر ہے یہی خدا کی رضا ہے ۔‏
یہ سنتے ہی پہلی قطار میں بیٹھے ہوئے مولانا فضل محمد نے تالی بجا کر فادر ڈیگو لیگوری کی جذباتی مختصر تقریر کی حمایت کی اس کو دیکھتے ہوئے تمام اساتذہ ‏نے بھی تالی بجانی شروع کر دی مولانا نے ہوا میں ہاتھ بلند کیا اور جوش کے ساتھ کہا پاکستان، جس کے جواب میں تمام اساتذہ نے ایک ساتھ بلند ‏آواز میں جواب دیا۔
زندہ باد۔
مولانا نے اپنے دونوں ہاتھ ہوا میں بلند کرتے ہوئے پھر اونچی آواز میں کہا فادر ڈیگو لیگوری، اس کے پیچھے تمام اساتذہ نے پُر جوش انداز میں جواب ‏دیا۔
زندہ باد۔
اور پھر ایک لمحے کے لئے کمرہ میں خاموشی چھا گئی فادر ڈیگو لیگوری اپنی کرسی سے کھڑا ہو گیا اور دوبارہ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہنا شروع کیا۔
میرے پاکستانی بھائیو ہم دعا کریں کہ دونوں فریق آج ہی جنگ بندی کا اعلان کریں اور ایک میز کے گرد بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے آپس کے تمام ‏جھگڑوں کا پُر امن حل تلاش کریں تاکہ دونوں ممالک ترقی کریں اور خوشحالی کا دور آئے اور اس خطے میں امن و سکون کا راج ہو۔
‏ ہم عہد کرتے ہیں کہ پاکستان کی سلامتی کی خاطر ہم اپنی جان بھی دینے کو تیار ہیں ان الفاظ کے ساتھ ہی میں میٹنگ ختم کرنے کا اعلان کرتا ہوں اور ‏اُمید کرتا ہوں کہ آپ بچوں کو نفرت نہیں بلکہ امن و صلح اور محبت کا درس دیتے رہیں گے آپ سب کا بہت شکریہ۔
میٹنگ تقریباً آدھا گھنٹہ جاری رہی۔
۔۔۔۔۔

٭٭٭
‏ ماسٹر جی کے کمرہ جماعت سے غیر حاضری کے عرصہ کے دوران اکبر الدین اور زینب بہت خوش تھے کہ اُنھیں آپس میں بولنے اور کھیلنے کا موقع مل ‏گیا تھا یوں سمجھ لیں انھیں ایک دوسرے کے بارے میں جاننے کا موقع مل گیا وہ دونوں کھیلتے ہوئے بینچ سے اُٹھ کر پیچھے دیوار کے ساتھ پڑی ہوئی ‏گندم کی بُوریوں کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے اکبر کی نظر نیچے پڑی ہوئی ایک بُوری پر پڑی جس میں ایک طرف چھوٹا سا سوراخُ تھا اس ‏سوراخُ میں سےگندم کے سُرخی مائل بھورے رنگ کے دانے سیمنٹ کے بنے فرش پر بکھرے ہوئے تھے اکبر نے زینب سے کہا۔
زینب دیکھ گندم کے دانے کتنے خوبصورت لگتے ہیں۔‏
زینب نے اپنے نرم و نازک سُرخ و سفید رنگ کے دائیں ہاتھ کی مٹھی میں گندم کے دانے اُٹھا کر اکبر کو دکھاتے ہوئے کہا،کھاؤ گے اور خود بھی بائیں ‏ہاتھ کی دو اُنگلیوں سے دو عدد دانے منہ میں ڈال کر چبانے لگی ۔
پھر اُنہوں نے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کمرہ جماعت کا چکر لگانا شروع کر دیا کمرہ جماعت میں کچھ بچے اپنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھیلنے میں مگن تھے ‏اور کچھ اونچی آوازوں میں باتیں کر رہے تھے
کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ کمرہ جماعت سے باہر اور سکول سے باہر اور شہر میں اور سرحدوں پر کیا ہو رہا ہے سب ماسٹر جی کے بغیر عارضی طور پر ‏بہت خوش دکھائی دے رہے تھے۔
‏ اسی دوران ایک بچے نے اُونچی آواز میں کہا ماسٹر جی آ رہے ہیں یہ سنتے ہی تمام بچے اپنی اپنی جگہوں پر آکر بیٹھ گئے اور یوں خاموشی اختیار کر لی کہ ‏جیسے ماسٹر جی کے کمرہ جماعت سے باہر جانے کے بعد کوئی بھی اپنی جگہ سے نہ ہی ہِلا اور نہ ہی اُونچی آواز میں بولا ہے۔‏
ماسٹر جی کمرہ جماعت میں داخل ہوئے تو بچوں نے حسب معمول کھڑے ہو کر ماسٹر جی کا استقبال کیا اُنہوں نے حسب معمول جواب میں کہا سیٹ ‏ڈون پلیز اور کرسی پر خاموشی سے بیٹھ گئے۔‏
کچھ دیر بچوں اور پھر گندم کی بُوریوں کی طرف دیکھنے کے بعد بچوں کو انڈیا اور پاکستان کی جنگ کے متعلق معلومات دینی شروع کیں، تمام بچوں کو ‏ہند و پاک کی جنگ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی وہ اس کے انجام اور نتائج سے بے خبر ماسٹر جی کی باتیں سُن رہے تھے ۔ ‏
جب سکول کا وقت ختم ہونے کی گھنٹی بجی تو اکبر الدین کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ آج وقت اتنی تیزی سے گذر جائے گا وہ گھر نہیں جانا چاہتا تھا وہ زینب ‏اور دوسرے ہم جماعت ساتھیوں کے ساتھ ہی رہنا چاہتا تھا کھیلنا اور باتیں کرنا چاہتا تھا مگر ماسٹر جی نے سب کو قطار بنانے کے لئے کہا اور خدا حافظ ‏کہتے ہوئے سٹاف روم کی طرف چلا گیا۔
اگلے دن ریاست الدین خود اکبر الدین کو سکول چھوڑنے گیا کیونکہ شہر میں یہ خبر گرم تھی کہ انڈین فوج چونڈہ ضلع پسرور کے مقام پر ٹینکوں کی ‏لڑائی میں شدت آ چکی تھی اور دونوں اطراف سے بھاری تعداد میں ٹینک تباہ ہو کر ناکارہ ہو چکے تھے یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد ٹینکوں سے لڑی ‏جانے والی دوسری بڑی لڑائی تھی اس جگہ کو اب ٹینکوں کے قبرستان کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
‏ انڈیا رات کے اندھیرے میں سیا لکوٹ شہر کی سرحد پر پہنچ چکا تھا اور کسی بھی وقت شہر میں داخل ہو کر شہر پر قبضہ کر سکتا ہے۔‏
‏ دوسری خبرآج صبح اکبر الدین کو سکول چھوڑ کر آنے سے پہلے ماشکی نے گلی کی صفائی شروع کرنے سے پہلے ریاست الدین کو دی تھی کہ کل رات ‏کچھ مذہبی شدت پسندوں نے سکول کے ساتھ منسلک چرچ پر حملہ کیا ہے اور چرچ کے اندر داخل ہو کرعبادت میں استعمال ہونے والی مقَدس اشیاء ‏کی توڑ پھوڑ کر کے بے حرمتی کی ہے ۔
‏ ریاست الدین بے چین سا ہو گیا کیونکہ اس کے ذہن میں جو بات کل سے ایک اندیشہ کے طور پر گردش کر رہی تھی وہ سچ ہو گئی تھی وہ فکر مند تھا کہ ‏کہیں سکول کے پرنسپل اور پیرش پریسٹ کو جسمانی نقصان نہ پہنچایا جائے ، اس لئے اس نے اکبر الدین کو سکول چھوڑنے کے لئے سکول شروع ‏ہونے سے کچھ وقت پہلے ہی جانے کا فیصلہ کیا تاکہ چرچ کو پہنچایا جانے والا نقصان اور فادر ڈیگو لیگوری کی خیر خیریت بھی معلوم کر سکے۔
جب ریاست الدین اپنے بیٹے اکبر کا بستہ اپنے کندھے پر لٹکائے اور اس کا ہاتھ تھامے سکول کے بڑے گیٹ پر پہنچا تو گیٹ کھلا تھا مگر چوکیدار اور ‏چپڑاسی کہیں بھی نظر نہیں آ رہے تھے سکول کے اندر میدان میں بھی بہت کم بچے نظر آ رہے تھے وہ اکبر کا ہاتھ تھامے گیٹ کے اندر داخل ہوتے ‏ہی اپنے دائیں جانب چرچ کے ساتھ واقع فادر ڈیگو لیگوری کی رہائش گاہ جسے پیرش ہاوس بھی کہتے تھے تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا گیا تو اس کا بھی دروازہ ‏کھلا تھا اس نے اندر جھانک کر دیکھا تو فادر اپنے دفتر میں کرسی پر بیٹھا تھا وہ جلدی سے دفتر کے اندر بغیر اجازت ہی داخل ہوگیا اور فادر ڈیگو لیگوری ‏سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے خیریت دریافت کی۔
فادر ڈیگو لیگوری نے اپنی کرسی پر پہلو بدلتے ہوئے ریاست کو بتانا شروع کیا کہ کیسے شدت پسند پہلے اسے جان سے مار دینے کی دھمکی دے کر گئے ‏تھے اور پھر دوبارہ رات کو وہ کس طرح پہلے چرچ کا بڑا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے اور قیمتی اشیاء کی توڑ پھوڑ کی اور عبادت میں استعمال ہونے والی ‏پاک اشیاء کی بے حرمتی کی اور بہت سا قیمتی سامان لوٹنے کے بعد میری رہائش گاہ میں داخل ہو کر میرے کمرےمیں گھس آئے اور مجھ پر الزام ‏لگاتے رہے کہ تم انڈیا کے لئے جاسوسی کرتے ہو اسی لئے تمہارے پاس چھوٹا سا ریڈیو بھی ہے جس سے تم خبریں سنتے رہتے ہو، تم بھی ہمارے ‏دشمن ہو۔
‏ مجھے تھپڑ اور لاتوں سے مارتے رہےمجھے وہ مجبور کرتے رہے کہ میں ان کے کہنے کے مطابق اقرار کروں کہ میں انڈیا کے لئے جاسوسی کرتا ہوں ۔ ‏
تمہارے علاوہ بستی میں رہنے والے تمام مسیحی انڈین ایجنٹ ہیں اور تو اور کچھ لوگ اس بستی سے انڈیا کے باقاعدہ تنخواہ دار جاسوس بھی ہیں وہ سب ‏تمہارے ساتھی ہیں آپ لوگوں کی وجہ سے انڈیا ہمارے خلاف جنگ میں کامیاب ہو رہا ہے ۔
مگر میں نے ان کو ہاتھ جوڑ کر سمجھنے کی بہت کوشش کی کہ قومیت کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے سارا شہر مجھے جانتا ہے میں سب سے پہلے ایک ‏وفادار پاکستانی ہوں پھر کچھ اور ہوں، میری ساری زندگی پاکستان کے لئے وقف ہے اور تمام مسیحی سچےپا کستانی اور پاکستان کے وفادار ہیں۔
‏ مگر یہاں تک مجھے کہا گیا کہ ابھی قبول اسلام کر لو، تو تمہاری جان بخشی ہو سکتی ہےکلمہ ہمارے سامنے پڑھو تو ہم تجھے کچھ نہیں کہیں گے جب میں نے ‏انکار کیا ،تو پھرفادر ڈیگو لیگوری نے میز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا دیکھو ایک انتہا پسند نے مجھے اپنے بازؤں میں جکڑ لیا اور دوسرے نے میری ‏داڑھی پکڑ کر اتنی زور سے کھینچی کہ داڑھی کے تمام بال جڑ سے اکھڑ کر اس کی مٹھی میں آ گئے یہ دیکھ ریاست میری زخمی تھوڑی اور یہ ہیں بال ‏پڑے ہوئے، اس نے میز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جہاں پر داڑھی کے سنہری بال پڑے ہوئے تھے ۔
ریاست غصَہ سے لال پیلا ہو رہا تھا اور خود پر نادم ہو رہا تھا کہ وہ پاکستانی ہونے کے باوجود فادر ڈیگو لیگوری کی کسی قسم کی مدد نہیں کر سکتا تھا کیونکہ وہ ‏خود بھی غیر مسلم ہے ۔
ایک لمحہ کے لئے وہ اپنے آباو اجداد کے دورِ بادشاہت میں چلا گیا جہاں وہ اپنی سپاہ کو حکم دے رہا تھا
سپہ سالار! تمام ملزمان کو جتنی جلدی ممکن ہو انصاف کے لئے میرے سامنےدربار میں حاضر کیا جائے۔
سپہ سالار ایک قدم آگے بڑھا اور کورنش بجا لایا اور با آواز بلند کہا حضور کا اقبال بلند ہو،
‏ آپ کا حکم سر آنکھوں پر، ملزمان ابھی گرفتار کر کے آپ کے دربار میں پیش کرتے ہوں ۔
‏ پھر سپہ سلار اپنے سر کو زمین کی طرف نیچے کیے پچھلے قدموں پر چلتا ہوا اور اپنے دائیں ہاتھ سے آداب بجا لاتا ہوا دربار سے باہر نکل گیا۔ ‏
دوسرے دن سپہ سالار نے دربار میں حاضری کی اجازت چاہی،
بادشاہ نے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے حاضری کی اجازت فرمائی،
اجازت ہے کیا خبر ہے۔
بادشاہ حضور کے سامنے حاضر ہوتے ہی سپہ سالار نے عرض کیا اگر حضور کی شان میں گستاخی نہ ہو اور جان کی امان پاؤں تو عرض کرتا ہوں۔
‏ ملزمان پیش خدمت ہیں۔
بادشاہ حضور ہم نے ہر طرح سے تصدیق کر لی ہے اور گواہان نے گواہی دے کر تصدیق کر دی ہے اور ثبوت بھی حاصل کر لیے گئے ہیں یہی وہ ملزم ‏ہیں جنہوں نے چرچ کی بے حرمتی کی ہےاور قیمتی اشیاء بھی لوٹ لی تھیں اور سکول کے پرنسپل اور پیرش پریسٹ کو مارا پیٹا اور بلا تصدیق ان پر الزام ‏لگایا کہ وہ انڈیا کے لئے جاسوسی کرتے ہیں۔
دربار میں خاموشی چھائی ہوئی تھی تمام باتیں سننے کے بعد بادشاہ نے ایک لمحے کے لئے سوچا اور پھر اپنی مسند سے کھڑا ہو کر ہاتھ اوپر بلند کیا اور اپنے ‏دائیں جانب کھڑے محافظ کے پاس گیا اور اس کی میان سے تلوار باہر کھینچی اور پانچ ملزمان کی باری باری گردن اُڑا دی تمام ملزمان کی گردن تن سے ‏جُدا کرنے کے بعدتلوار محافظ کی میان میں دوبارہ رکھ دی اور دربار میں تمام حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
خُدا کی قسم اگر اب بھی رعایا شکایت کرے کہ ہماری سلطنت میں کسی کو انصاف نہیں ملا تو ہم بادشاہت چھوڑ کر جنگل میں چلے جائیں گے اور ساری ‏عمر خُدا کی ریاضت اور عبادت میں گزار دیں گےاب دربار برخاست ہوتا ہے۔
ریاست الدین اس وقت چونکا جب اکبر الدین نے اپنا ہاتھ ریاست کی گرفت سے آزاد کرتے ہوئے کہا۔
‏ بابا حضور میں کمرہ جماعت میں جا رہا ہوں۔
ریاست الدین نے محسوس کیا کہ وہ زمین پر کھڑا کھڑا ہزار سال پہلے کی دُنیا میں چلا گیا تھا اس نے فوراً اکبر الدین کی طرف دیکھا اور کہا۔
‏ بیٹا میں آپ کو جماعت تک چھوڑ کر آتا ہوں۔
‏ اور پھر فادر ڈیگو لیگوری کی طرف متوجہ ہوا جو اپنی ٹھوڑی پر بندھی پٹی کو درست کر رہاتھا۔
فادر جی آپ فکر نہ کریں مجھے پورا یقین ہے خدا ان کو معاف کر دے گا اور سیدھے راستے پر لائے گا
میرا بھی یہی یقین ہے کہ خُدا ایسا ہی کرے گا فادر ڈیگو لیگوری نے جواب دیا۔ کیونکہ وہ رحم کرنے والا ہے۔ اور اس کی ذات پر یقین رکھنے والوں کو ‏وہ معاف کرتا ہے۔
فادر ڈیگو لیگوری جی آپ خُدا کے بندے ہیں اور عبادت گزار بھی ہیں میری آپ سے درخواست ہے کہ دعا کریں کہ ہند و پاک کے حکمرانوں کو خُدا ‏ہدایت دے کہ مذہب اور زمین کے ایک ٹکڑے کے لئے جنگ بند کر دیں آپس میں مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے اس مسلہ کا حل تلاش کریں ‏میرے خیال میں کشمیر کے مقامی لوگوں کو یہ حق دیا جائے کہ وہ زندگی اپنی مرضی کے مطابق بسر کریں۔
فادر ڈیگو لیگوری نے آگے بڑھ کر اکبر الدین کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھا اور جواب دیا۔
دیکھو ریاست میں اس دھرتی پر پیدا نہیں ہوا مگر مرنا اسی زمین پر پسند کروں گا میری بھی یہی رائے ہے کہ کشمیر ایک آزاد اور خود مختار ملک ہونا ‏چاہیے تاکہ اربوں روپے جو اسلحہ اور جنگوں پر ضائع کیے جا رہے ہیں وہ عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لئے خرچ کیے جائیں۔
فادرجی اب اجازت دیں اور کہا۔
‏ کیا میں کل پھر آپکی خیریت دریافت کرنے آ سکتا ہوں ۔
ضرور کیوں نہیں ، آپ لوگ ہی میرے بہن بھائی اور دوست ہیں۔‏
‏ ریاست نے اپنا داہنا ہا تھ سینے پر رکھتے ہوئے کہا میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بندہ حاضر ہے آپ خدا کے خادم اور ہماری نئی نسل کے استاد ہیں ‏آپ کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔
‏ اکبر کو سکول چھورنے کے بعد جب ریاست الدین گھر واپس جا رہا تھا تو جنگی سائرن کی تیز آواز پورے شہر میں گونجنا شروع ہو گئی سب لوگ ادھر ‏اُدھر بھاگنے لگے اور جس کو جہاں جگہ ملی چھپ گیا سڑک پر تمام ٹریفک رک گئی پیدل چلنے والے ، تانگا بان اور بائیسکل والے تمام رُک گئے اور جو ‏لوگ گھروں میں تھے انہوں نے کھلی جگہ کی بجائے گھروں میں ہی اپنے آپ کو محفوظ کر لیا۔
‏ ریاست بھی ایک دکان کے برآمدے میں چھپ گیا وہاں پہلے ہی کچھ لوگ اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے چھپے ہوئے تھے جنگی سائرن کا مطلب ‏تھا کہ دشمن نے ہوائی اور زمینی حملہ کیا ہے یعنی انڈیا نے شہری علاقے پر بھی بمباری شروع کر دی ہے ۔
‏ ہر طرف توپوں کے گولے گر کر پھٹ رہے تھے اور چیخ و پکار کی آوازیں آ رہی تھیں جب کہیں پاس ہی کوئی گولہ گرتا تو اس کے پھٹنے کی زور دار ‏آواز کے نیچے کچھ دیر کے لئے چیخ و پکار دب کر رہ جاتیں مگر آسمان پر بارود کا دھواں بلند ہوتے ہی دوبارہ شروع ہو جاتیں اور پہلے سے زیادہ درد و ‏کرب میں ڈوبی ہوئی ہوا میں بلند ہو جاتیں۔
ریاست نے ایک لمحےکے لئے اکبر کے بارے میں سوچا اور بمباری کے باوجود سکول کی طرف دوڑنا شروع کر دیا اس نے یہ ہمت اس لئے کی کیونکہ ‏اسے اکبر کی سلامتی کی فکر لاحق تھی وہ سکول پہنچ کر سیدھا اکبر کے کمرہ جماعت میں گیا اور یہ دکیھ کر اور زیادہ پریشان ہو گیا کہ جماعت میں کوئی بچہ ‏اسے نظر نہیں آ رہا تھا اور نہ ہی وہاں پر ماسٹر جی کرسی پر موجود تھے اس نے گھبرا کر اکبر کو آوزیں دینی شروع کر دیں۔‏
اکبر ، اکبر کہاں ہو ، تم ٹھیک تو ہو،اکبر کہاں ہو، جواب دو، وہ دوسری جماعت کی طرف جانے کے لئے مڑا ہی تھا کہ کمرہ جماعت میں سے اس کو اکبر ‏الدین کی آواز سنائی دی۔
میں یہاں ہوں بابا حضور جی، میں ادھر ہوں ۔
ریاست ایک دم پھر پہلی جماعت کی طرف آیا اور کمرے میں یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرنے لگا کہ اکبر الدین کی آواز کمرے کے کس کونے میں ‏سے آئی تھی اس نے آخری ینچوں پر نظر دوڑائی اور پھر ان کے پیچھے پڑی امریکہ کی طرف سے عطا کی گئیں امریکن گندم کی بُوریوں کی طرف دیکھا ‏تو اکبر اور زینب ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے اسے نظر آئے۔‏
بابا حضور جی ہم یہاں ہیں اور ریاست الدین کی طرف دونوں دوڑتے ہوئے آئے۔
بابا حضور مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے مجھے گھر لے چلو، میں یہاں ایک لمحہ بھی ٹھہرنا نہیں چاہتا۔
اکبر تم ٹھیک تو ہو اور اسے اپنے بازؤں میں لے کر اس کا منہ چوما اور پھر زینب کی طرف دیکھتے ہوئے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھا پھر اسے خیال ‏آیا یہ کون اس کے ساتھ ہے اور اکبرالدین سے سوال کیا بیٹا یہ کون ہے ؟
بابا حضور جی یہ زینب ہے جماعت میں میری ساتھ والی جگہ پر بیٹھتی ہے ہم دونوں دھماکوں کی آوازیں سن کر گندم کی بوریوں کے پیچھے چھپ گئے ‏تھے، شکر ہے آپ مجھے واپس لینے آ گئے۔ ‏
مجھے بھی دھماکوں سے بہت ڈر لگا رہا ہے مجھے میرے گھر پہنچا دیں زینب نے روتے ہوئے کہا ۔
‏ مجھے معلوم ہے میرے ابا جان بھی مجھے لینے کے لئے آتے ہی ہوں گے اس نے ریاست کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔‏
اکبر اپنے بابا حضور سے کہیں کہ مجھے اکیلے یہاں پر نہ چھوڑ کر جائیں جب تک میرے ابا جان نہ آ جائیں اس وقت تک میرے پاس ہی رہیں پھر زنیب ‏نے خوف زدہ آنکھوں کے ساتھ ریاست کی طرف دیکھتے ہوئے دوبارہ کہا مجھے یہاں اکیلے چھوڑ کر نہ جائیں اور پہلے سے زیادہ زور زور سے رونا ‏شروع کر دیا اور اکبر کا ہاتھ اور زیادہ مضبوطی سے تھام لیا۔
ٹھیک ہے بیٹا ہم تمہارے پاس ہی رہیں گے جب تک تمہارے اَبا حضور نہ آ جائیں اور دونوں کا ہاتھ پکڑ کر مرکزی دروازے کی طرف چل پڑا ۔
جب وہ سکول کے مرکزی دروازے کی طرف جا رہے تھے تو اچانک دوبارہ گولہ باری اور فائرنگ کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں اور فضا میں جنگی ‏طیاروں کی آوازیں اور ایک دوسرے پر شیلنگ کی تیز اور خوفناک آوازوں کا راج ہو گیا وہ تینوں مرکزی دروازے کی اوٹ میں کھڑے ہو گئے اور ‏اپنے آپ کو اس بھیانک شور اور طیاروں کی گھن گرج سے محفوظ سمجھنے لگے تقریباً پانچ منٹ بعد یہ سلسلہ پھر بند ہو گیا مگر اس دوران فضا باروُد کی بُو ‏سے بوجھل ہو چکی تھی اور آسمان پر سیاہ اور سفید دھواں بادلوں کی طرح منڈلا رہا تھا۔
سکول کے دروازے سے باہر نکل کر وہ تینوں کھڑے تھے وہ آخری تین فرد تھے جو سکول کے آگے کھڑے تھے گولہ باری اور فائرنگ بند ہونے کے ‏بعد حالات دوبارہ معمول پر آنے شروع ہو گئے تھے لوگ گھروں سے باہر نکل آئے اور شہر کے معروف بازاروں میں دوبارہ لوگوں کی کاروباری ‏مصروفیت بحال ہونا شروع ہوگئی تھیں۔
اَبا جان آ رہے ہیں اچانک زینب نے اُچھل کر اپنے دائیں جانب اشارہ کرتے ہوئے خوشی سے کہا اور پھر اپنا ہاتھ اکبر کے ہاتھ سے چھُڑا کراپنے باپ ‏کی طرف دوڑ کر گئی، اور اپنے ابا جان کا ہاتھ پکڑ کر واپس اکبر اور اس کے بابا حضور کے پاس لے آئی اور کہنے لگی۔
اَبا جان یہ اکبر الدین ہے اور ان کے ساتھ جو کھڑے ہیں وہ اکبر کے اَبا حضور ہیں، میں اُن کے ساتھ کھڑی آپ کا انتظار کر رہی تھی مجھے دھماکوں اور ‏بارود کے دھواں سے لبریز اس ماحول سے بہت ڈر لگ رہا تھا آپ اتنی دیر سے کیوں آئے ہیں میں نے ان لوگوں کو گھر جانے نہیں دیا کہ آپ ضرور ‏آئیں گے زینب نے اکبر اور اس کے بابا حضور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے ابا جان سے کہا ۔
زینب کا باپ ایک ہاتھ سے اپنی بائیسکل کا ہینڈل تھامے اور دوسرے ہاتھ سے زینب کا ہاتھ پکڑے ان کے پاس آئے اور کہا آپ کا بہت بہت شکریہ ‏کہ آپ نے میری بیٹی کو گُم ہونے سے بچا لیا ۔یہ جنگ بھی عجیب چیز ہے کہ جس علاقے میں ہوتی ہے اس علاقے پر نحوست اور بد بختی کا راج ہو جاتا ‏ہےاس علاقے سے پرندے تک ہجرت کر جاتے ہیں وہا ں پر موت کا رقص شروع ہو جاتا ہے اور بھُوک کا عفریت شہروں کے گھروں بازاروں ‏گلیوں میں آزاد گھومتا ہے جنگ علاقوں کا سارا نظام درہم برہم کر دیتی ہے۔
‏ ریاست نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اب ہمیں گھر چلنا چاہیے کہیں بمباری دوبارہ شروع نہ ہو جائے جنگ میں کچھ بھی کسی وقت بھی ہو سکتا ‏ہے۔
آپ نے بالکل درست فرمایا ہے ہمیں جلد گھروں کو لوٹ جانا چاہیے ورنہ آنے والے لمحے کو کون جانتا ہے گھر میں میری بیوی اور بچے بہت فکر مند ‏ہوں گے ۔
جی حضور اب ہمیں چلنا چاہیے اس سے پہلے کہ دوبارہ بمباری شروع ہو جائے ریاست نے کہا ۔
‏ وہ ایک دوسرے کو خُدا حافظ کہتے ہوئے اپنے گھرو ں کی سمت چل پڑے اس دوران نہ تو زینب نے اکبر سے کوئی بات کی اور نہ ہی اکبر نے کچھ اس ‏سے کہا صرف ایک دوسرے کو جاتے ہوئے ضرور دیکھا، اکبر کو یقین تھا کہ کل پھر وہ سکول میں ایک دوسرے سے ملیں گے ، زینب بھی شائد یہی ‏سوچ رہی تھی کہ کل دوبارہ ملاقات ہو گی ۔
۔۔۔۔۔

٭٭٭
مطبخ میں دائی ماں اور زہرہ نگاہ کے علاوہ نفیسہ بیگم بھی جلدی جلدی شام کا کھانا تیار کرنے میں مصروف تھیں ان کے چہروں پر ایک انجانے خوف کی ‏پرچھائیں نمایاں تھیں ایک دوسرے سے وہ تینوں آج زیادہ بات بھی نہیں کر رہی تھیں ، بس اپنا اپنا کام تیزی کے ساتھ ختم کر نے میں مگن تھیں ۔‏
دائی ماں نے مطبخ کے ایک کونے میں دیوار کے ساتھ گول شکل میں لیپٹ کر کھڑی کی گئیں چٹائیاں دیوار کے برابر معمول کے مطابق بچھا دیں اور ‏سب کو آواز دی کہ کھانا تیار ہے سب لوگ ہاتھ دھو کر تشریف لے آیئں تاکہ ٹھنڈا نہ ہو جائے۔
ریاست الدین نے گندم کے آٹے سے بنائی گئی گول چپاتی کے دو ٹکڑے کرتے ہوئے اپنے باپ کریم الدین سے پوچھا ۔
بابا حضور آپ نے حکومت کی طرف سے ہونے والا اعلان سُنا ہے جو دو گھنٹے پہلے ریڈیو پاکستان پر نشر ہوا ہے کہ سیالکوٹ شہر کو میدان جنگ میں ‏تبدیل ہو جانے کا شدید خطرہ ہے اس لئے عوام سے درخواست کی جاتی ہے وہ شہر کو خالی کر دیں اور محفوظ مقامات کی طرف چلے جایئں کیونکہ ‏انڈین فوج نے سیالکوٹ شہر کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے اور کسی بھی وقت وہ شہر کے اندر داخل ہونے کی کوشش کریں گی تاہم ہماری پاک فوج ‏اپنی پوری طاقت سے مزاحمت کررہی ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ شہری آبادی بھی اس لڑائی کی لپیٹ میں آ جائے لہذا جانی نقصان سے بچنے کے لئے ‏تمام شہریوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ گھر بار چھوڑ کر اپنے رشتہ دار وں یا پھر جاننے والوں کے پاس محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہو جائیں عوام کو ‏خاص تاکید کی جاتی ہے کہ جنگ ختم ہونے سے پہلے گھروں کو واپس نہ لوٹیں جب جنگ ختم ہو گی تو دوبارہ ریڈیو پر اعلان کر دیا جائے گا۔
ہاں میں نے سُنا ہے ،کریم الدین نے حلق سے نیچے نوالا اُتارتے ہوئے کہا۔
تو بابا حضور آپ نے کیا فیصلہ کیا ہے ۔
دیکھتے ہیں ابھی تو اس بستی کے سب لوگ گھروں میں ہی مقید ہیں ۔
بابا حضور اگر ہمیں یہ گھر چھوڑ کر کہیں اور جانا پڑ گیا تو کہاں جائیں گےرحیم الدین نے جو کھانا ختم کر چکا تھا نہایت اُداس اور خوف زدہ لہجے میں اپنے ‏باپ سے سوال کیا ۔
بیٹا رحیم الدین ہماری نسل کے ساتھ قدرت کی ستم ظریفی رہی ہے کہ ایک دو نسلوں کے بعد ہمیں ہجرت کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے تقریباً ہزار ‏سال سے ہم اس زمین پر در بدر ہیں اگر قدرت کو یہی منظور ہے تو میں تیار ہوں یہ میرے لئے انوکھی چیز نہیں ہو گی۔
دائی ماں نے پہلے چٹائی پر سے برتن اُٹھائے اور ایک بڑے ٹب میں صاف کرنے کے لئے ڈال دیئے جو پہلے ہی پانی سے آدھا بھرا ہوا تھا پھر اس نے ‏چٹائی کو لپیٹ کر دیوار کے ساتھ لگا کر کھڑا کر دیا اور مطبخ کی صفائی شروع کر دی۔
‏ ابھی اس نے مطبخ کی صفائی مکمل نہیں کی تھی کہ انڈین فوج کے توپ خانے کی طرف سے گولہ باری شروع ہو گئی اس کے ساتھ ہی فضا میں ہوگ ‏ہنٹر ، ایف چھیاسی سابیر ، ایف ایک سو چار اور بی ستاون کنیبرا طیارو ں کی آوازیں اور شیلنگ شروع ہو گئی تما م شہر میں تیز آوازوں والے سائرن جو ‏دشمن کےحملہ سے خبردار کرتے ہیں بجنا شروع ہو گئے اور گھر میں موجود تمام افراد میں افرتفری مچ گئی ، کچھ لوگ صحن میں دو دن پہلے بنائے گئے ‏مورچے میں چھپ گئے اور کچھ گھر کے اندر دو میز جوڑ کر ان کے نیچے چھپ کر بیٹھ گئے۔
‏ جب بمباری اور فضا میں طیاروں کی لڑائی میں کمی واقع ہوئی تو رحیم الدین نے دروازہ کھول کر گلی میں جھانک کر دیکھا تو گلی میں آس پاس گھروں ‏والے اپنے ہاتھوں میں مختصر سامان اٹھائے اور چھوٹے بچوں کو کندھوں پر اٹھائے اور کچھ لوگ بچوں کی انگلی پکڑے محفوظ شہروں کی طرف جانے ‏کے لئے اسٹیشن اور بسوں کے اڈے کی طرف جا رہے تھے ۔
رحیم الدین فوراً اندر آیا اور اپنے باپ کریم الدین کو بتایا کہ ہمارے محلے کے سب لوگ ہمارے اس جنگ زدہ علاقے کو خالی کر رہے ہیں اور جان ‏بچانے کے لئے محفوظ علاقوں کی طرف کُوچ کررہے ہیں ۔
چند منٹ کے لئے کریم الدین نے سب کو ایک جگہ پر جمع کیا اور مختصر صلاح مشورے کے بعد فیصلہ یہ کیا گیا کہ کریم الدین اس گھر کی حفاظت کے ‏لئے دائی ماں کے ساتھ گھر پر ہی ٹھہرے گا کیونکہ کریم الدین کے دونوں گھٹنوں میں پیدل چلنے سے درد کی تکلیف ہے اور اس تکلیف کی وجہ سے ‏گھٹنے اور دونوں پاؤں پر سوجن آ جاتی ہے جس کی وجہ سے کریم الدین چلنے پھرنے سے معذور ہو کر رہ جاتا ہے اور دائی ماں ان کے کھانے پینے اور ‏گھر کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھے گی ۔ گھر کے باقی افراد صرف ضروری سامان کے ساتھ اسٹیشن پر چلے جائیں گے اور وہاں سے جو بھی پہلی ٹرین ‏آئے گی اس پر سوار ہو کر کسی اور محفوظ شہر میں جا کر پناہ لے لیں گے اور جب جنگ ختم ہونے کا اعلان ہو جائے تو گھر واپس آ جائیں گے ۔
بچوں کے علاوہ نوجوان اور برزگوں سمیت سولہ افراد پرمشتمل کریم الدین کا کنبہ جب شہرکے مرکزی ریلوے اسٹیشن پر پہنچا تو ہر طرف گہرا ‏اندھیرا چھا چکا تھا بلیک آوٹ ہونے کی وجہ سے اندھیرا معمول سے زیادہ لگ رہا تھا اسٹیشن کی پوری عمارت اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی دس گھنٹے ‏خوف میں ایک ہی جگہ پر بیٹھے رہنے کے بعد ٹرین کے آنے کی آواز کانوں میں پڑی ، تمام افراد جو اسٹیشن پر جمع تھے ان میں ہل چل سی مچ گئی لوگوں ‏کا ایک جم غفیر اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر امڈ آیا ، نجانے کہاں سے لوگ اپنا اپنا سامان اُٹھائے پلیٹ فارم پر آ گئے ، لوگوں کا ایک سیلاب اچانک پلیٹ ‏فارم پر ریل گاڑ ی کا منتظر نظر آنے لگا اور پھر دھکم پیل شروع ہو گئی گاڑی دھیرے دھیرے اسٹیشن کی حدود میں داخل ہونا شروع ہوئی کچھ لوگوں ‏نے ریل گاڑی میں سب سے پہلے سوار ہونے کی خواہش میں ریل گاڑی کے مکمل طور پر رُکنے کا انتظار بھی نہیں کیا اور ٹرین کے کھلے دروازوں میں ‏سے سوار ہونے کی کوشش کرنے لگے اس کے لیے اُن کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ گاڑی کے اندر تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی اور ‏دروازوں میں پہلے سے کھڑے لوگوں نے نئے سوار ہونے والوں کو روکنے کی بھر پور کوشش کی کہ وہ کس اور ڈبے میں سوار ہونے کے لئے چلے ‏جائیں کیونکہ ٹرین میں مطلوبہ گنجائش سے زیادہ لوگ سوار ہو چکے تھے بلکہ اس کی چھت پر بھی لوگ بیٹھے ہوئے تھے جن مسافروں کو ڈبوں میں ‏جگہ نہ ملی اور نہ ہی دروازوں میں تو وہ انجن کی طرف دوڑے اور ڈاریئور کے کیبن اور انجن کے پائیدان پر براجمان ہو گئے ، ٹرین کے اندر جن ‏لوگوں کو جگہ نہیں ملی وہ تمام لوگ ٹرین کے اندر گھسنے کی کوشش میں مصروف تھے ۔
انڈیا اور پاکستان دونوں اطراف سے توپوں کی بمباری ، فضا سے طیاروں کی شیلنگ کا خوف اور زمین سے طیاروں کو مار گرانے کے لئے شیلنگ ‏شروع ہو جانے کے ڈر سے لوگ سہمے ہوئے تھے اور بچے انجانے خوف میں مبتلا تھے۔ ‏
خوف و دہشت کی وجہ سے لوگ بھی خاموش ہو چکے تھے دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہے تھے کہ خدا کرے ریل گاڑی جتنی جلدی ہو اس مقام ‏سے کسی محفوظ مقام کی طرف نکل جائے اگر کسی کو دھکا لگا ہے یا کسی کاپاؤں کچلا گیا ہے تو کوئی کسی پر غصہ نہیں ہو رہا تھا کوئی کسی پر برہم نہیں ہو رہا تھا ‏ایک دوسرے کی کسی بھی بات کا بُرانہیں منا رہےتھے سب لوگ ایک ہی مقصد کے ساتھ اس ٹرین میں سوار ہورہے تھے ہر کوئی اس جنگ زدہ ‏علاقے سے دُور نکلنا چاہتا تھا لہذا ظاہری طور پر سب ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے ہم سب ایک ہیں ہم سب مسلمان ہیں اور جنگ کی تباہی کا سارا ‏الزام انڈیا کی جھولی میں وزنی گالیوں کے ساتھ ڈال رہے تھے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگ رہے تھے۔ ‏
رحیم الدین پلیٹ فارم پر اکبر کو کاندھے پر اُٹھائے ٹرین کی کھڑکیاں دیکھ رہا تھا آخر کار ایک پاس والی کھڑکی میں کئی سروں کے اُوپر سے ریاست ‏الدین نے بمشکل اپنا سر باہر نکال کر رحیم الدین کو آواز دی ۔
‏ رحیم میں یہاں ہوں ، اس کھڑکی میں ۔
رحیم نے پہلے تو ادھر اُدھر دیکھا پھر اس کھڑکی پر اس کی نظر پڑی جس میں سے آواز آئی تھی اور پھر جواب دیا۔
ریاست بھائی میں یہاں ہوں، آ رہا ہوں اور جلدی سے اس کھڑکی کے قریب چلا گیا ۔
رحیم پہلے مجھے اکبر الدین کو پکڑا دے ، جلدی کر ۔
‏ کہیں ٹرین چل نہ پڑے ،
‏ اور سروں کے اُوپر سے اپنے دونوں ہاتھ کھڑکی میں سے باہر نکال کر اکبر کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیا اور کھڑکی میں سے اندر کی طرف کھینچنے لگا ۔‏
اس کھینچا تانی میں اکبر الدین نے اپنی کمر میں درد محسوس کرتے ہو ئے ایک زور دار چیخ ماری ، ‏
چیخ کا نکلنا تھا کہ کھڑکی میں سے باہر نکلے ہوئے سر ایک ایک کر کے اندر کی طرف چلے گئے اس طرح ریاست الدین نے اکبر کو اندر کر لیا اس موقع ‏سے رحیم نے بھی فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے کھڑکی پر چڑھ کر اپنی لمبی ٹانگیں کھڑکی کے اندر کیں اور پھر اپنا پورا جسم گول شکل میں سمیٹ کر ٹرین ‏کے اندر کی طرف گرا دیا اس طرح وہ نیچے جھکے ہوئے اور کچھ بیٹھے ہوئے آدمیوں کے اُوپر جا کر گرا ، اس حرکت سے اسے تو بالکل چوٹ نہ لگی مگر ‏جن پر وہ گرا تھا وہ غصَہ سے لال پیلے ہو رہے تھے ایک عمر رسیدہ شخص نے کراہتے ہوئے اپنا سر پکڑ لیا اور اپنی پگڑی جو ایک دوسرے آدمی کے ‏کندھے پر جا گری تھی اس کے کندھوں سے اُٹھا کر اپنے سر پر دوبارہ اچھی طرح جمائی اور اپنا دایئں ہاتھ کا مُکا اپنے سر سے اُوپر لے جا کر لہراتے ‏ہوئے چند گالیاں اونچی آواز میں انڈیا کے خلاف سنائیں اور رحیم الدین کو مارنے کے لیے اپنی جگہ سے اُٹھنے کی کوشش کی مگر زیادہ لوگوں اور جگہ کی ‏کمی کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر سکا اس صورت ِحال کو دیکھتے ہوئے ایک پاس کھڑےشخص نے بچ بچاؤ کرا تے ہوئے وقت کی نزاکت اور مشکل گھڑی کا ‏احساس دلاتے ہوئے کہنا شروع کیا کہ مسلمانو!‏
یہ وقت جہاد کا ہے آپس میں معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑے اور بحث کا نہیں ہے ، ہم سب مسلمان ہیں ہماری جنگ کافروں سے ہے اس لیے یہ وقت ‏عالم ِ اسلام کا متحد ہونے کا ہے ،
اس مختصر جذبا تی تقریر کے بعد سب لوگ خاموش ہو گئے اور بزرگ بھی اپنی ٹانگ کو سہلاتا ہوا خاموشی سے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا ، رحیم الدین ‏بھی اپنی جگہ پر ریاست کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور اکبر کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا بیٹا ٹھیک ہو۔‏
جی میں ٹھیک ہوں۔
ریاست نے اکبر کی طرف شفقت بھرے انداز میں دیکھتے ہوئے دوبارہ اس سے پوچھا بیٹا آپ ٹھیک ہیں ابھی کمر میں درد تو نہیں ہو رہا ہے زیادہ ‏چوٹ تو نہیں لگی۔
‏ نہیں نہیں بابا حضور میں بالکل ٹھیک ہوں ۔
رحیم الدین نے ریاست سے پوچھا کیا ہم سب لوگ گاڑی میں سوار ہو چکے ہیں۔
جی بھیاَ حضور میں نے پہلے سب کو دروازے سے گاڑی میں چڑھا دیا تھا میں اور اکبر آخری تھے ہم دونوں بھی اب گاڑی کے اندر ہیں اور پھر زہرہ نگاہ ‏اور نفیسہ بیگم کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ وہ ابھی تک دروازے کے پاس ہی ہجوم میں پھنسی ہوئی ہیں وہ دیکھو باقی سب لوگ وہ ہیں مجھے نظر آ رہے ‏ہیں۔ ‏
ریاست نے ایک بار آنکھوں کو جھپک کر دیکھا تو اسے زہرہ نگاہ اور نفیسہ بیگم نظر آ گئیں جو نظریں جھکائے کچھ اور خواتین کے ساتھ چپ چاپ ‏کھڑی تھیں کیونکہ تل دھرنے کی ریل گاڑی میں جگہ نہیں تھی اس لئے اردگرد مرد بھی کھڑے تھے۔
خُدا خُدا کر کے آدھے گھنٹے بعدگاڑی رینگنا شروع ہوئی ایک با رپھر شور بلند ہوا یہ شور اپنوں کو پکارنے کا شور تھا جو گاڑی سے باہر تھے وہ اندر والوں کو ‏پکار رہے تھے کہ میں گاڑی میں سوار ہو رہا ہوں لیکن مجھے دروازے میں پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں مل رہی اور جو اندر تھے وہ باہر والوں کو گاڑی میں ‏سوار ہونے کی ہدایات دے رہے تھے اسی چیخ و پکار کے شور میں گاڑی اسٹشنب سے با ہر آ گئی اور ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔‏
‏ صرف ریل گاڑی کے انجن اور ڈبوں کے نیچے لوہے کی پٹری اور لوہے کے پہیوں کی پٹری کے ساتھ رگڑ کھانے کی آواز اور کھڑکیوں کی کھڑکھڑ اور ‏گاڑی کی تیز رفتار دوڑنے کی آواز کانوں میں گونج رہی تھی۔
‏ رات کے اندھیرے میں جب بھی انڈین طیاروں کا حملہ ہوتا تو تیز سائرن کی آواز گونجتی اور ریل گاڑی رُک جاتی اور اس کی تمام روشنیاں گُل کر ‏دی جاتیں اور لوگ بھی خاموشی اختیار کر لیتے ۔
اسی طرح صبح ہو گئی ٹرین ہر چھوٹے بڑے اسٹیشن پر رُکتی اور جس اسٹیشن پر بھی گاڑی کھڑی ہوتی وہاں کے مقامی لوگ نان چنے، گندم کی روٹی اور ‏سبزی اور دالیں پکا کر مسافروں کو پیش کرتے کچھ لوگ پینے کا صاف پانی کے علاوہ دودھ اور شربت اور چائے بھی پیش بھی کرتے اور اللہ اکبر اور ‏پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتےکہ ہمارے مسلمان بھائی جنگ سے متاثرہ علاقوں سے بھاگ کر آ رہے ہیں وہ مصیبت میں ہیں گھروں سے بے گھر ‏ہوئے ہیں ہمارا فرض ہے اُن کی مدد کرنا ۔
کوئی ایسا فرد نہیں تھا جو انسانیت کے ناطے سے ریل گاڑی میں سوار جنگ زدہ علاقوں سے بھاگ کر آنے والوں کی مدد اور ان سے ہمدردی نہ کر رہا ہو ‏بلکہ اس جنگ کو سب کفر اور اسلام کی جنگ کہہ رہے تھے اور اسلام کو خطرہ میں دیکھ رہے تھے ۔
بعض شہروں میں تو باقاعدہ طور پر خیر مسلموں کو انڈین جاسوس قرار دے کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بےدردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا ۔
سیالکوٹ سے ٹرین سولہ گھنٹے کے سفر کے بعد جب لائل پور پہنچی تو ریاست الدین کے بڑے بیٹے ظفر الدین نے اپنے بابا حضور کی طرف دیکھتے ‏ہوئے کہا بابا حضور آگے جانے کی بجائے یہاں پر ہی اتر جاتے ہیں ، یہاں پر شمیم کے والدین کا گھر ہے ان کے پاس کچھ دن کے لئے ٹھہر جاتے ہیں ‏اور جب جنگ ختم ہو جائے گی واپس اپنے گھر لوٹ جائیں گے۔
ٹھیک ہے ریاست الدین نے باقاعدہ طور پر اجازت فرما دی کیونکہ سوچنے کا وقت ہی نہیں تھا۔
پھر تمام افراد لائل پور کے اسٹیشن پر اُتر گئے ۔
اور نظریہ بچت کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا کہ پیدل بھائی ظفر الدین کے سسرال جایا جائے اور دوسری بات یہ تھی کہ آس پاس کوئی تانگہ یا اور کوئی ‏سواری بھی نظر نہیں آ رہی تھی تقریباً آدھا گھنٹہ مختلف سڑکوں اور گلیوں میں سے پیدل سفر کرنے کے بعد قافلہ اس محلے میں پہنچ گیا جہاں پر ظفر ‏الدین کے سسرال کا گھر تھا اور جہاں جنگ ختم ہونے تک انہوں نے ٹھہرنا تھا ۔‏

٭٭٭
‏ یہ محلہ بھی تین گلیوں پر مشتمل مسیحی اور مسلم آبادی پر مشتمل تھا اس محلے کو بنانے کا مقصد بھی انگریز حکومت کا سیالکوٹ کے محلے سے مختلف نہیں ‏تھا۔
‏ جب اس شہر کی بنیاد ایک انگریز جس کا نام سر جمیس لائل تھا ، نے برطانیہ کے جھنڈے یونین جیک کی طرز پر رکھی تو اس نقشے کے منصوبے میں تین ‏گلیوں پر مشتمل یہ چھوٹا سا محلہ بھی شامل تھا کیونکہ شہر کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے مزدورں کی ضرورت ہوتی تھی اور اونچی ذات کے لوگ ان ‏لوگوں کو اپنے ساتھ رکھنے کے قائل نہیں تھے اور اپنی رہائش گاہ سے دور بھی نہیں رکھ سکتے تھے اس محلے کی تینوں گلیاں کشادہ اور پختہ ہونے کے ‏علاوہ صاف ستھری تھیں تارکول سے بنی ہوئی تینوں گلیوں کا مغربی اور مشرقی حصَہ مرکزی دو بڑی اور کشادہ سڑکوں سے ملا ہوا تھا یہ کشادہ سڑکیں ‏شہر کے مرکز میں جا کر مل جاتی تھیں۔
تیسری گلی کے شروع میں ایک سینما گھر بھی تعمیر کیا گیا تھا جو شہر کے لوگوں کے علاوہ اس بستی کے مکینوں کے لیے بھی تفریح کا ایک واحد ذریعہ تھا ‏ان گلیوں کے تمام گھروں کی پشت دوسری گلی کے گھر وں کی پشت سے جوڑی ہوئی تھیں یہاں بھی سیالکوٹ کی طرح اُونچی ذات اور شیڈول کاسٹ ‏کے علاوہ سبھی ذاتوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ تقریباً دو صدیوں سے آباد تھے یہ سب آپس میں میل ملاپ اور ایک برادری کے طور ‏پر رہتے تھے آپس میں شادی بیاہ بھی کرتے تھے اور ہر مشکل گھڑی میں آپس کے لڑائی جھگڑے بھول کر ایک دوسرے کا خیال اور مدد بھی کرتے ‏تھے ان لوگوں کے رنگ ڈھنگ اور رسم و رواج دوسرے لوگوں کی طرح تھے جسمانی خوبصورتی بھی دوسری بستیوں میں رہنے والوں سے کم نہیں ‏تھی ایک چیز جو سب کو متحد اور یکجا رکھے ہوئے تھی وہ مذہب تھی مختلف مذاہب کو خیرباد کہہ کر مسیحیت کے دائرے میں دو صدیاں پہلے شامل ‏ہونے والے یہ لوگ مذہب کی ہر رسم کو پورا کرنا اپنا فرض ِ اولین سمجھتے تھے اور اپنے ہر دکھ سکھ میں اپنے علاقے کے راہب یا پادری کو شریک کرنا ‏ضروری خیال کرتے تھے تینوں گلیوں کے درمیان والی گلی میں دو عدد گرجا گھر تھے ایک کاتھولک اور دوسرا پروٹسٹینٹ فرقے کا تھا ہر گرجا گھر میں ‏ایک عدد سکول بھی تھا جن میں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ تعلیم حاصل کرتے تھے ۔
۔۔۔۔۔

٭٭٭
چھوٹا سا قافلہ سینما کے آگے سے گذر رہا تھا تو شہاب دین نے بڑے فلمی انداز میں کہا ،
بھیاَ حضور ہم تو یہاں ہر روز فلم دیکھا کریں گے واہ یہ تو کمال کی جگہ ہے اس کے ساتھ ہی اکبر الدین کو اپنے کندھوں سے نیچے اُتار کر اس کے ‏کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے کہا ۔
میرا بیٹا بھی ایک دن فلمی ہیرو بنے گا کیوں میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا ۔
اکبر الدین کو کچھ سمجھ نہیں آئی مگر اس نے رحیم الدین کی بات کے جواب میں صرف سر کو اُوپر نیچے کی طرف ہلا دیا ۔
ریاست الدین نے ظفر سے پوچھا کون سی گلی ہے جس میں ہمیں جانا ہے۔
اَبا حضور یہ پہلی گلی اور وہ تیسری گلی چھوڑ کر درمیان والی گلی کے درمیانی حصہ میں میرے سسرال والوں کا گھر ہے۔
جب یہ قافلہ گھر کے بالکل قریب پہنچا تو ظفر نے ریاست کو کہا لو اَبا حضور ہم پہنچ گئے ہیں ۔
سرخ رنگ کی اینٹوں سے بنے گھر کے سامنے دو عدد چارپائیوں پر چار آدمی اور ایک خاتون بیٹھی ہوئی تھی جو آپس میں باتیں کر رہے تھے اور حقَہ کے ‏باری باری کش لگا رہے تھے ۔
شمیم کے والد آرتھر پٹیل نے ہمیں سب سے پہلے اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تو پاس ہی بیٹھی ہوئی اپنی بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا شریفاں ‏اُدھر دیکھ یہ تو اپنی بیٹی شمیم لگتی ہے ۔
شریفاں نے ایک دم اس طرف دیکھا تو اس کے منہ سے فوراً نکلا ۔
شمیم کے ابا ! یہ تو واقعی شمیم اور اس کے سسرال والے ہیں اور چارپائی سے اُتر کر قافلے کی طرف تیز تیز قدم اُٹھاتی ہوئی گئی اور سب کو گلے ملتی ‏ہوئی سوالوں کی بوچھاڑ بھی کر دی ۔
کسی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کس سے سوال پوچھا رہی ہے اور کون اس کا جواب دے ، یوں کسی نے بھی جواب دینے کی لگاتار کوئی کوشش نہیں ‏کی ، اس دوران آرتھر پٹیل آگے بڑھا اور سب سے ملنے کے بعد قافلے کے تمام افراد کو گھر کے اندر چلنے کے لیے کہا ۔
چلو چلو گھر کے اندر چلتے ہیں وہاں پر سب باتیں ہوں گی اور اپنی بیٹی شمیم کی طرف چلا گیا اور اس کے ہاتھ سے سامان کی چھوٹی گٹھڑی کی طرف دیکھ ‏کر کہا ، لا بیٹی یہ گٹھڑی مجھے دے دو۔
شمیم تم بہت تھک گئی ہو ، چلو اندر چلو ،
نہیں بابا حضورمیں بالکل ٹھیک ہوں دوسرے لوگ تھک چکے ہیں ۔
شمیم کے ابا نے کچھ چھت پر چارپیاں اور کچھ صحن میں لگوا دیں اور سب سے باری باری کہا کہ منہ ہاتھ دھو لیں اتنی دیر میں کھانا تیار کرواتا ہوں۔
سب لوگ ایک کمرے میں جمع ہو گئے تھے شام کے کھانے کا وقت ہو چکا تھا سب لوگ کمرے میں بیٹھےجنگ کے انجانے خوف سے سہمے ہوئے ‏تھےرحیم الدین اور ریاست الدین درمیان میں چارپائی پر بیٹھے جنگ کا احوال اور سفر کی کہانی سُنا رہے تھے
‏ اکبر اپنے بابا حضور رحیم الدین کی گود میں بیٹھا ہوا تھا اورسلیمان اپنے نانا آرتھر پٹیل کی گود میں تھا حقَے کی ٹوپی گائے کے خشک گوبر کے دہکتے ‏اُپلوں سے بھری ہوئی تھی حقَہ کی نالی باری باری کبھی رحیم الدین ، کبھی آرتھر پٹیل اور کبھی ریاست الدین کے پاس آ جاتی ، اس با ر جب حقَہ کے ‏کش لینے کی باری ریاست کے پاس آئی تو اس نے کش لگانے سے پہلے آرتھرپٹیل سے پوچھا ،
بھائی آرتھر پٹیل اس حقہ میں آپ کس برانڈ کا تمباکو استعمال کرتے ہیں اس میں ہلکی سی خوشبُو کے ساتھ مٹھاس بھی ہے ہمارے ہاں تو بغیر خوشبُو ‏اور مٹھاس کے تمباکو ملتا ہے جو بہت تیز بھی اور کڑوا تمباکو ہوتا ہے، سنا ہے کہ وہ تمباکو بیوپاری خود جا کر جموں کشمیر سے لاتے ہیں مہنگا تو ہوتا ہے ‏مگر ہوتا عمدہ کوالٹی کا ہے مگر یہ تمباکو جو میں پی رہا ہوں اُس سے بھی اعلی ہے۔ ‏
یہ تمباکو یہاں کی لائل پور زرعی یونیورسٹی میں تجرباتی طور پر کاشت کیا جاتا ہے جو پورے پاکستان میں مشہور ہے اور اعلی کوالٹی میں شمار کیا جاتا ہے ‏آرتھر پٹیل نے فخر یہ انداز میں جواب دیا ۔
شہاب نے ریاست سے حقَہ کی نالی اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا یہ تو بہت ہی عمدہ تمباکو ہے اور جلدی جلدی دو تین کش لگانے کے بعد دھواں اُوپر کی ‏طرف اُچھال دیا جو چھت سے ٹکرا کر پورے کمرے میں پھیل گیا ۔
اسی دوران آنگن میں سے ایک نسوانی آواز آئی سب لوگ باہر آنگن میں تشریف لے آیئں ۔
کھانا تیار ہے ۔
آنگن میں سرخ اینٹوں سے بنائے گئے فرش پر شریفاں بی بی کے ساتھ ان کی پڑوسن ایک بڑے دیگچے میں آلو گوشت کا سالن اور تنور پر پکائی ہوئی ‏روٹیاں لیے بیٹھی ہوئی تھی ۔
‏ بڑے دیگچے اور گندم کی روٹیوں کے پاس شریفاں بی بی اور انکی پڑوسن دو عدد پالتو کتوں کو کھانے کی تمام اشیا سے دور رکھنے کی کوشش کر رہی تھیں ۔
کھانے پر ہمارے انتظار کے دوران پڑوسن بڑے راز دارانہ انداز میں ہمارے بارے میں شریفاں بی بی سے ہمارے بارے میں سوالات بھی پوچھ ‏رہی تھی جس کے جواب بڑے فخر کے ساتھ شریفاں بی بی دے رہی تھی ۔
یہ ہمارے دُور کے رشتہ دار تھوڑے ہیں میری بیٹی شمیم کا سسرال ہے شمیم اپنے گھر میں بہت خوش ہے کیوں نہ ہو شاہی خاندان کی بہو ہے۔
کیا انڈیا نے ان کے قلعہ پر قبضہ کر لیا ہے اس لئے یہ لوگ جان بچا کر بھاگ آئے ہیں۔
نہیں ایسا نہیں ہے یہ انڈیا اور پاکستان کی جنگ ہے۔
پڑوسن نے اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی اپنے ہونٹوں کے کنارے پر رکھتے ہوئے پوچھا تو کیا یہ محلات انڈیا اور پاکستان کی جنگ کی وجہ سے ‏چھوڑ آئے ہیں۔
‏ ہائے میں مر جاواں انڈین فوج کو ترس نہیں آیا کہ شاہی خاندان کو بھی نہیں بخشا انھیں بھی گھر سے بے گھر کر دیا ہے۔
شریفاں نے پڑوسن کو سمجھانے کے انداز میں کہا ۔
جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہوتا ہے یہ محاورہ تم نے کبھی نہیں سنا۔
‏ میں نے سنا تھا بہن شریفاں مگر ہائے ہائے جنگ ہو یا محبت ایسا تھوڑا کرتے ہیں کہ بندوق کے زور پر دوسرے کے گھر پر قبضہ کر لیتے ہیں یا پھر معصوم ‏اور بے قصور لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے یہ کہاں کا اصول ہے میں تو ایسے کام پہ لعنت بھیجتی ہوں میں تو کبھی ایسا نہ کروں۔
تم ٹھیک کہتی ہو شریفاں بی بی نے سالن کے دیگچے میں کف گیر چلاتے ہوئے کہا مگر تمہیں معلوم ہے کہ یہ جنگ صرف آج کے پاکستانی اور انڈین ‏لوگوں کے درمیان نہیں ہے تم نے ساتھ والے محلے کی مسجد کے لاوڈسیپکر پر کل مولوی صاحب کا واعظ نہیں سنا تھا جو کہہ رہے تھے یہ جنگ اسلام ‏اور کفر کے درمیان جنگ ہے یہ مقبوضہ کشمیر کے لئے جنگ نہیں ہے یہ ہندو قوم سے اپنے گھر پر سے ناجائز قبضہ چھڑانے کے لئے عالم اسلام کی ‏جنگ ہے۔
پڑوسن نے روٹیوں پر سے مکھیاں اڑاتے ہوئے پھر کہا کب تک لڑیں گے جب تھک جائیں گے اور اسلحہ ختم ہو جائے گا تو صلح کر لیں گے ۔
میرا بھی یہی خیال ہے بہن سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا آخر وہ بھی انسان ہیں اور ہم بھی انسان ہیں اور ایک بار پھر بلند آواز سے کہا کھانا تیار ہے ٹھنڈا ‏ہو جائے گا سب لوگ آجاو۔
‏ سب لوگوں کو شریفاں بی بی پلیٹوں میں سالن ڈال کر دے رہی تھی اور پڑوسن دو دو روٹیاں ہاتھ میں تھما رہی تھی اور ہم سب فر ش پر ہی بیٹھ کر ‏جلدی جلدی کھا رہے تھے ۔
کھانے کے بعد سب لوگ ایک ہی کمرے میں سیمنٹ کے فرش پر بچھائے گئے گدوں پر سو گئے۔‏
ہمیں لائل پور میں آئے ہوئے ایک ماہ ہو چکا تھا جنگ ختم ہو چکی تھی سوائے ریاست الدین اور اس کے بیوی بچوں کے علاوہ تمام لوگ واپس اپنے ‏شہر اپنے گھر واپس جا چکے تھے ریاست الدین اوررحیم الدین کو ایک مقامی کپڑا بنانے والی مل میں مزدوری کا کام مل چکا تھا اکبر الدین کو گلی میں ‏موجود مشن کے پرائمری سکول میں داخل کروا دیا گیا تھا اور اس طرح ان کے لئے اپنے گھر واپس جانے کے تمام دروازے آہستہ آہستہ وقت کے ‏ساتھ ایک ایک کر کے بند ہونے لگے اور یوں زندگی کے معمولات واپس آنے شروع ہوگئے ۔
۔۔۔۔۔
بارہواں باب:‏

شہاب الدین بولتے بولتے رک گیا اور پھر اس نےایک لمبا سانس لیا ہلکا سا کھانستے ہوئے اپنے خالی گلاس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ارے ‏بھائی کوئی میرے خالی گلاس کو پانی سے بھر دے گا۔ میرا گلا خشک ہو رہا ہے شائد میں بہت زیادہ بول رہا ہوں اس لئے میری زبان تھک گئی ہے۔
امینہ کماری جلدی سے اپنی کرسی سے اُٹھی اور پانی سے بھرا ایک جگ لے کر شہاب الدین کی طرف چلی گئی اسی اثناً میں نرمل سنگھ نے یہ محسوس ‏کرتے ہوئے کہ کچھ بچے اپنی کرسیوں پر بیٹھے اُونگھ رہے تھے اوربالکل چھوٹے بچے تو باقاعدہ طور پر اپنی اپنی ماں کی گود میں سو چکے تھے اور سب ‏بڑے لوگ بھی رات زیادہ ہو جانے کی وجہ سے تھکاوٹ کا شکار نظر آ رہے تھے۔
‏ نرمل سنگھ اپنی جگہ پر کھڑا ہو کر سب سے مخاطب ہوا۔
حضرات میں دیکھ رہا ہوں کہ کچھ بچے سو چکے ہیں کچھ اُونگھ رہے ہیں کیونکہ رات کافی گذر جانے کی وجہ سے تمام لوگ تھک چکے ہیں کھانا بھی بہت ‏زیادہ مزےدار تھا میں نے بھی معمول سے زیادہ ہی کھا لیا تھا مجھ پر بھی غنودگی کا غلبہ ہو رہا ہے تو اس لئے آج بھی میری عاجزانہ درخواست ہے کہ ‏آج پھر اس داستان کو یہاں پر روک دیا جائے ۔
شہاب الدین نے پانی سے بھرے گلاس کو منہ سے لگایا اور دو بڑے بڑے گھونٹ پانی کے اپنے حلق سے نیچے اُتار کر بولا اگر آپ لوگ متفق ہیں تو ‏مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ورنہ میرے پاس آپ حضرات کو سنانے کے لئے حقیقی داستان کے علاوہ بہت کچھ ہے اور مجھ میں بھی اتنا دم خم ہے کہ ‏تمام رات بول سکتا ہوں میں بالکل ٹھیک ہوں مگر جیسے آپ لوگ چاہتے ہیں۔
مولوی نظام دین نے بھی اپنی جگہ پر کھڑے ہوتے ہوئے کہا کہ اگلے ہفتہ کی شام کے لئے کچھ بچا لیتے ہیں تاکہ ہفتہ کی ہر شام کو کچھ نہ کچھ سننے کے ‏لئے ہمارے پاس ہونا چاہیے اس لئے اگلے ہفتہ کو آپ سب کو میرے گھر پر شام کے کھانے کی دعوت ہے وہاں پر کہانی کا بقیہ حصہ سنیں گے ۔
شہاب الدین نے ہاتھ اُوپر اُٹھاتے ہوئے بات کرنے کی اجازت طلب کی، اور کہا۔
حضرات مجھے یاد آیا کل صبح چھ بجے کی فلائٹ سے میرے چھوٹے بھائی رحیم الدین کا بیٹا اپنے ایک دوست کے ساتھ پاکستان سے تشریف لا رہے ہیں ‏اس لیے مجھے بھی گھر جا کر دو تین گھنٹے کے لیے سو جانا چاہیے ورنہ میں وقت پر ایئر پورٹ نہیں پہنچ سکوں گا اگر میں دیر سے ائیر پورٹ پہنچا تو مجھے ‏میرے بھائی رحیم الدین کی ڈانٹ سننی پڑے گی۔
میرے گھر پر دعوت میں ان دونوں نوجوانوں کو بھی ضرور لائیے گا مولوی نظام دین نے قدرے بلند آواز میں کہا ۔‏
اگر مجھے اجازت دیں تو میں آپ کے ساتھ ائیر پورٹ بھی ان کو خوش آمدید کہنے آ سکتا ہوں آپ کی مدد بھی ہو جائے گی اور میں ان کو خوش آمدید ‏بھی کمیونٹی کی طرف سے کہہ دوں گا ۔
‏ پھر مولوی نظام دین نے شہاب الدین کی طرف پیار بھری نگاہوں سے دیکھا ۔
جی یہ تو بہت ہی بہتر ہو گا اگر آپ میرے ساتھ ائیر پورٹ ان کو خوش آمدید کہنے جائیں گے اور میں اگلے ہفتہ شام کے کھانے پر ان دونوں کو ضرور ‏لے کر آوں گا بہت شکریہ ۔
اسی دوران کرن جب دوڑتی ہوئی شہاب الدین کے آگے سے گذری تو ڈیوڈ سیلم بھٹی نے اسے روکنے کی کوشش کی اور تھوڑے تیز لہجے میں کرن ‏سے کہا۔
بس کرو کرن اب گھر جانے کا وقت ہے رُک جاؤ ۔
مگر کرن یہ کہتے ہوئے آگے نکل گئی ابھی ایک منٹ ڈیڈی ، میں آتی ہوں ۔
کرن کے پیچھے راہول بھی دوڑتا ہوا ان سب کے آگے سے گذر کر لان کے اندھیر ے میں غائب ہوگیا۔
نرمل سنگھ تیزی سے اس کے پیچھے لپکا اور پھر کچھ لمحوں کے بعد دونوں باپ بیٹا اورکرن دوسرے لوگوں کے پاس آ کر رک گئے کرن اپنے باپ کا ‏ہاتھ تھامے ہوئے راہول سے باتیں کرتی ہوئی مسکرا رہی تھی۔
سب لوگ اگلے ہفتہ کی دعوت قبول کرتے ہوئے اور ایک دوسرے کو جلد جلد( بُونا نُوتے) یعنی شب بخیر کہتے ہوئے گھروں کو لوٹ گئے ۔
۔۔۔۔۔

٭٭٭
اگلے دن الصبح شہاب الدین اور مولوی نظام دین میلان کے مرکزی ائیر پورٹ مل پینسا پر یورپ میں پہلی بار آنے والے مہمانوں کو خوش آمدید ‏کہنے کے لیے کھڑے تھے فلائٹ لینڈ کر چکی تھی مسافر لاونج میں آنے شروع ہو چکے تھے کچھ منٹ انتظار کرنے کے بعد شہاب الدین نے دونوں ‏نوجوانو کو پاسپورٹ کنٹرول گیٹ سے گذر کر اور پھر اپنا اپنا سامان وصول کر نے کے بعد باہر کے مرکزی دروازے کی طرف آ تے ہوئے دیکھ لیا ۔ ‏
اکبر الدین اور کرسٹوفر گِل پہیوں والے چھوٹا اٹیچی کیس ایک ہاتھ سے فرش پر چلاتے ہوئے اور ایک ایک ہینڈ بیگ کندھوں پر لٹکائے نہایت پُر ‏اعتماد انداز میں چلتے ہوئے مرکزی دروازے کی طرف آ رہے تھے ۔
ان کے بالکل قریب پہنچ کر پیچھے سے شہاب الدین نے ان کو آواز دی وہ رُکے اور پیچھے مڑ کر دیکھا اور پھر خوشی کے ساتھ شہاب الدین اور مولوی ‏نظام دین کی طرف تقریباً دوڑتے ہوئے آئے اور ان کے گلے سے لگ کر خوشی و مسرت کا اظہار کرنے لگے ۔
‏ وہ دونوں بہت خوش تھے کہ آخر کار یورپ آنے کا خواب پورا ہو گیا ہے اور شہاب الدین اور مولوی نظام دین اس لیے خوش تھے کہ امیگریشن کا ‏عملہ اتنا جدید ٹیکنالوجی اورچیگنگ کے جدید ساز و سامان سے لیس ہونے کے باوجود ان دونوں نوجوانوں کے جعلی کاغذات اور ویزا کو جعلی ثابت ‏کرنے میں ناکام رہا ہے ۔
میں نے کہا تھا نا کہ میرا آدمی پیسے زیادہ لیتا ہے مگر وہ ایسا پّکا کام کرتا ہے کہ کوئی مائی کا لال اس کی بنائی ہوئی دو نمبر دستاویز پکڑ نہیں سکتا مولوی نظام ‏دین نے شہاب الدین کے ہاتھ پر پُر جوش انداز میں اپنا ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
‏ واقعی سچ ہے آپ کو مبارک ہو ، آپ کا ایک اور مشن مکمل ہوا ہے شہاب الدین میں مہمانوں کی طرف فخریہ اندازمیں دیکھتے ہوئے کہا۔
‏ مولوی نظام دین نے اپنے دائیں ہاتھ کو اوپر کی طرف کرتے ہوئے کہا یہ اس کا کرم ہے کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے اس میں میرا کوئی کمال نہیں ‏ہے اگر اللہ تعالی پر مکمل ایمان ہو تو وہ آپ کے ہر کام میں ساتھ دیتا ہے۔
شہاب الدین نے جواب دیتے ہوئے کہا مجھے آپ پر مکمل بھروسہ تھا میں نے اپنے بھائی کو بھی صاف بتا دیا تھا کہ ایجنٹ رقم جتنی مانگے اور جس ‏طریقے سے وہ رقم وصول کرنا چاہے اسے ادا کر دیں کیونکہ ہمیں اس پر مکمل اعتماد ہے وہ فراڈ ہم سے نہیں کرے گا ۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی کرسٹوفر گِل نے سفرکی تمام رُوداد بیان کرنا شروع کر دی انکل جب ہم پاکستان ائیرپورٹ پر پہنچے تو ہمارے ایجنٹ نے ہمیں ایک ‏دوسرے آدمی کے حوالے کر دیا جس نے ہمیں کنٹرول کے ہر مرحلے سے باآسانی گذار کر مسافر لاونج تک چھوڑدیا ۔
مگر ہمیں خدا حافظ کہنے سے پہلے اس نے ہمیں ایک ٹیلی فون نمبر دیا کہ اگر کسی بھی قسم کی کوئی مشکل پیش آئے تو فوراً اس نمبر پر فون کرنا ۔
مگر کمال کی بات ہے ۔
کہ تقریباً آدھا گھنٹہ تک ہم پُر سکون انداز میں ہوائی جہاز میں بیٹھنے کے اعلان کا انتظار کرتے رہے اس دوران کسی نے ہماری طرف دیکھا بھی نہیں، ‏ابھی تک ہوائی جہاز میں سوار ہونے کا اعلان بھی نہیں ہوا تھا ہم دونوں بہت پر سکون تھے کہ یہاں تک سب چیزیں بخیریت طے ہو گئی ہیں ۔
کراچی ائیر پورٹ پر بہت زیادہ لوگوں کا رش تھا زیادہ مسافرحج کرنے کے واسطے سفر پر جا رہے تھے اور ان کی تعداد سے زیادہ ان کو خدا حافظ کہنے ‏والے رشتہ دار اور دوست احباب کا رش تھا حج پر جانے والے سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے تھے جبکہ ان کو خدا حافظ کہنے کے لئے آنے والے لوگ بہت ‏زیادہ شور مچا رہے تھے حج پر جانے والے زیادہ تر بزرگ افراد تھے جن میں سے زیادہ تر اَن پڑھ تھے جو اپنے ملک سے باہر جانے سے پہلے دئیے گئے ‏فارم اُٹھائے کسی پڑھے لکھے شخص کی تلاش میں اِدھر اُدھر پھر رہے تھے تاکہ فارم پُر کروا سکیں ان میں سے کچھ دستخط کرنا جانتے تھے اور زیادہ ‏لوگ صرف انگوٹھا لگا کر کام چلا رہے تھے ۔
‏ مولوی نظام دین نے کرسٹوفر کی بات کو بیچ میں ہی کاٹتے ہوئے کہا اچھا یہ بتائیں اس بڑے ائیر پورٹ پر اٹلین امیگریشن پولیس کا برتاؤ آپ کے ‏ساتھ کیسا تھا ؟ نظام دین نے اپنی سفید و سیاہ داڑھی پر اپنا دایاں ہاتھ پھربتے ہوئے پوچھا۔
‏ اس سے پہلے کہ کرسٹوفر گِل جواب دیتا اکبر نے ایک لمبی سانس لیتے ہوئے کہا پہلے پاکستان کی امیگریشن کا پورا حال تو سُن لیں ۔
شہاب الدین نے کار کا دایئں جانب والااشارہ آٹو گرِل یعنی ہائی وے پر واقع ریسٹورنٹ کے اندر داخل ہونے کے لیے آن کیا اور بے چینی سے ‏کندھوں کو جنبش دے کر کہا ۔
ابھی ایک گھنٹے کا سفر باقی ہے کافی کا ایک کپ پی لیتے ہیں پھر آگے چلتے ہیں ، پاکستان میں چائے اور یہاں پر کافی جسم کو تھکنے نہیں دیتی اور آنکھوں پر ‏نیند حاوی نہیں ہوتی اور ذہن بیدار رہتا ہے اور دونوں نوجوانو کو ناشتہ بھی کروا دیں۔
سلیمان اور کرسٹوفر کا یورپ میں پہلاناشتہ تھا اور وہ بھی ہائی وے پر بنے آٹو گرل یعنی ریسٹورنٹ پر۔
سلیمان نے اٹلین بوراوش کو آدھا توڑتے ہوئے زبان پر رکھا تو وہ چبانے سے پہلے ہی منہ میں گھل مل گیا اس نے دوسرا حصہ بھی منہ میں رکھا وہ بھی ‏منہ میں پگھل گیا ۔
یہ تو بڑے مزے کے ہیں میں تو ایک اور کھاوں گا ۔
کرسٹوفر نے کیپوچینو کا کپ اٹھایا تو دودھ کی سفید جھاگ پر چاکلیٹ کے پوڈر سے بنایا ہوا دل اس کو بہت اچھا لگا اس نے پیالہ ہونٹوں کو لگا کر چسکی ‏بھری تو چہرے پر ایسے تاثرات دئیے جیسے کیپوچینو کا ذائقہ اسے پسند نہیں آیا ۔
مولوی نظام دین نے فورا پوچھا۔
‏ کیا ہوا ، ایسے منہ کیوں بنا رہے ہو کیا کیپوچینو کا مزا نہیں آیا۔
جی یہ تو صرف دودھ کی جھاگ ہے۔
بیٹا دودھ کی اس جھاگ کے نیچے اٹلین کافی ہے اسی کو کیپوچینو کہتے ہیں جس کا ذائقہ کافی کی تمام اقسام سے دودھ اور چینی کی وجہ سے کڑواہٹ کی ‏بجائے زیادہ میٹھا ہوتا ہے اس میں تھوڑی سی چینی اور ملا لو اور بوراوش کے ساتھ چھوٹے چھوٹے گھونٹ لیتے جاو ، تو مزہ دوبالا ہو جائے گا ۔
جی جی ایسا بھی کر کے دیکھ لیتا ہوں اور براوُن شوگر کا چھوٹا پیکٹ اٹھا کر اسے پہلے بڑے غور سے دیکھا اور پھر ایک کونے کی طرف سے کاغذ کو پھاڑ کر ‏چینی کپ میں انڈیل دی۔
‏ شہاب الدین نے کرسٹوفر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا برصغیر سے آنے والے لوگ زیادہ تر کیپوچینو ہی پسند کرتے ہیں۔ ‏
دراصل برصغیر پاک و ہند میں پراٹھے کے ساتھ چائے اور لسی کا ناشتے میں ہونا بہت ضروری ہوتا ہے اس ذائقہ کے ہم لوگ عادی ہو چکے ہوتے ‏ہیں لہذا یہاں آ کر کافی کو عادت میں شامل کرنا پڑتا ہے جو شروع میں بہت مشکل لگتا ہے مگر آہستہ آہستہ یہ بھی زندگی کا حصہ بن جاتا ہےلیکن ‏میرے بچو فکر نہ کریں گھر پر آپ کو دیسی گھی اور مرچ مسالحہ والا ہی کھانا ملے گا ۔
میری ایک بات ہمیشہ اپنے ذہن میں بٹھا لیں اگر آپ نے مستقل اٹلی میں رہنا ہے تو یہاں کے کھانوں کے علاوہ یہاں کے اچھے رسم و رواج کو بھی ‏اپنانا پڑے گا۔
‏ پہلا جو کام آپ نے کرنا ہے وہ یہاں کی مقامی بولی کو سیکھنا ہے تو پھر ہی یہاں کے معاشرے میں آپ گھل مل سکیں گے ورنہ آپ کا اس معاشرے ‏میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنے میں مشکل ہو جائے گا ۔
اگر آپ ایک اجنبی معاشرے میں رہنا چاہتے ہیں تو اس معاشرے میں رہنے والے مقامی افراد کے رہن سہن کے مطابق آپ کو ڈھالنا پڑے گا ‏کیونکہ مقامی افراد کے ساتھ آپ کا میل ملاپ بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہےوہ ایک مشہور کہاوت ہے نا جیسا دیس ویسا بھیس۔ ‏
مولوی نظام دین نے اس کہاوت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا اس کہاوت کا مطلب ہے کہ یہاں پر رائج قوانین کی پاپندی آپ کی اہم ذمہ داری ہے ‏لیکن یہاں کی ثقافت کی پیروی کرنا آپ پر لازم نہیں ہے ۔ کیونکہ نیکی تو نیکی ہی ہے اور گناہ بھی گناہ ہی ہے اس میں نہ تو وقت کا کوئی داخل ہے اور نہ ‏ہی یہ دیکھا جاتا ہے کہ آپ کس جگہ پر کس کے ساتھ گناہ یا نیکی کر رہے ہیں۔
‏ یہ کہتے ہوئے مولوی نظام دین نے اپنی کلائی پر باندھی گھڑی کی طرف دیکھا اور کہا اب ہمیں چلنا چائیے ورنہ بہت دیر ہو جائے گی دوپہر کے کھانے ‏پر ہمیں گھر پر ہونا چائیے کیونکہ ایک لمبے اور تھکا دینے والے سفر کے بعد بدن کو آرام کی ضرورت ہوتی ہے دوسری وجہ یہ ہے آپ جس شہر سے ‏آئے ہیں وہاں پر گرمی کا موسم تھا اور یہاں پر آج کل سردی کے موسم کا راج ہے آپ کو کچھ وقت تو لگے گا موسمی تبدیلی میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ ‏کرنے میں اور سب سے اہم بات یہ ہے ذہن کو بھی تھوڑے سکون کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے گھر کی طرف روانہ ہونا چاہیے۔‏
ناشتے سے فارغ ہو کر شہاب الدین نے گاڑی آہستہ آہستہ آٹو گرِل سے باہر نکالی اور دوبارہ ہائی وئے پر لے آیا اور ایک سو بیس کلو میٹر کی رفتار سے ‏فیٹ پانڈا پانچ سو ،اٹلین برانڈ کار کو دوڑانا شروع کیا تو اس نے اکبر کی طرف گردن موڑتے ہوئے کہا تو ہاں بیٹا آپ کچھ کہہ رہے تھے ۔
اکبر نے کار کی پچھلی سیٹ پر سے تھوڑی اونچی آواز میں کہنا شروع کیا جب جہاز میں بورڈنگ کے لیے پینتالیس منٹ رہ گئے تو اچانک ایئر پورٹ پر ‏موجود عملے میں سے ایک افسر اور ایک پولیس والا ہمارے پاس آ کر رُک گیا اور اپنا تعارف کرائے بغیر ہم سے یوں مخاطب ہوا ، آپ میں سے ‏کرسٹوفر کون ہے ؟
جی میں ہوں ، کرسٹوفر نے کھڑا ہو کر جواب دیا۔
اور آپ اکبر الدین ہیں آفیسر نے اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا
جی میں ہی اکبر ہوں ۔
آپ دونوں ہی میرے ساتھ کنٹرول روم تک آیئں گے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ گھبرائیں نہیں ہم آپ کو گرفتار کرنے نہیں آئے صرف آپ سے ‏چند سوالات پوچھنے ہیں ، اگر آپ نے جوابات ٹھیک دیئے تو آپ جہاز پر سوار ہو سکتے ہیں اگر جواب درست نہ ہوئے تو آپ یورپ نہیں جا سکتے۔
‏ انکل جی یہ سنتے ہی میرے تو پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور میں چکرا کر رہ گیا ہم سمجھ رہے تھے کہ ہاتھی نکل گیا ہے صرف اس کی دم رہ گئی ہے اور ‏یہ نامراد کہاں سے عین وقت پر آ ٹپکے ہیں ۔
کرسٹوفر نے اکبر کی بات کاٹتے ہوئے کہا ۔
میری تو جان ہی نکل گئی تھی کہ ساری محنت پر پانی پھر جائے گا اور ہماری محنت کے ساتھ جمع پونچی بھی گئی اب ہم محلے میں بھی منہ دکھانے کے قابل ‏نہیں رہیں گے، کتنے فخر کے ساتھ گلی میں جمع ہم سب رشتہ داروں کو خدا حافظ کہہ کر آئے تھے ، ایئر پورٹ پر عزیز و اقارب اور دوستوں کو گلے ‏ملتے ہوئے جذباتی ہونے کا تمام منظر اس کی آنکھوں کے سامنے سے ایک سیکنڈ میں سے گذر گیا اور تو اور ابھی تو وہ سب لوگ ہمارے جہاز کے ‏اُڑنے کا ائیر پورٹ سے باہر انتظار کر رہے ہوں گے اور خاص طور پر اسے اپنی ماں کی محبت سے پُر آنکھیں یاد آ گیئں جو پانی سے لبریز تھیں مگر ان ‏میں اُمیدوں کے ساتھ خوابوں کا ایک خوبصورت محل بھی تھا ۔
ایئر پورٹ آفیسراور پولیس والا ہمیں ایک چھوٹے سے دفتر میں لےگئے اور ایک چھوٹے لکڑی کے بینچ پر بیٹھنے کو کہا پھر ہم سے سوالات کچھ یوں ‏شروع کیے ۔
تے تُسی جناب پہلی واری یورپ جا رے او ۔
جی جناب ہم پہلی بار یورپ جا رہے ہیں اکبر نے پُر اعتماد لہجے میں جواب دیا ۔
آفیسر نے دونوں سے پاسپورٹ اور ٹکٹ لے لئے اور پولیس مین کی طرف دیکھا ۔
تو جناب آپ واپس نہ آنے کے لیے جا رہے ہیں پولیس کی وردی میں ملبوس آدمی نے دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے دونوں آنکھوں کی بُھویں اوپر کو ‏کرتے ہوئے کہا ۔
نہیں سرجی ہم سیاحت کے لئے جا رہے ہیں ۔
کیونکہ سرجی میری منگیتر اپنے والدین کے ہمراہ وہاں رہتی ہے اس کو ملنے بھی جا رہا ہوں اُنہوں نے مجھے سپانسر کیا ہے وہی میرا سارا خرچا برداشت ‏کریں گے اکبر الدین نے گھبرائے بغیر جواب دیا ۔
افسر نے فوراً اس کی بات کو پکڑتے ہوئے کہا لو جی بات ہی ختم ہو گئی اب تو میں پکا پکا سمجھ گیا ہوں کہ آپ وہاں مستقل رہنے کے لیے جا رہے ہیں۔
یہ کیا کہہ رہے ہیں سر جی ہم پاکستانی ہیں ہم پاکستانی کبھی جھوٹ نہیں بولتے ہم قسم کھا کر کہہ رہے ہیں ہم واپس آئیں گے اور پاکستان میں ہی رہیں ‏گے آپ کیا بات کر رہے ہیں ہم تو بس سیر کے لیے جا رہے ہیں۔
‏ میں نے سنا اور پڑھا بھی ہے اٹلی ایک قدیم ملک ہے وہاں پر بہت ساری تاریخی جگہیں ہیں جو ہم دیکھنے کے لیے جانا چاہتے ہیں سر جی آپ کی بڑی ‏مہربانی ہو گی جہاز میں بورڈنگ کا وقت ہو چلا ہے ہمیں دیر ہو رہی ہے کہیں فلائٹ چُھوٹ نہ جائے میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں ہمیں کیوں ‏آپ نے یہاں پر روک لیا ہے جبکہ ہمارے سارے کاغذات آپ کے ہاتھ میں ہیں اور یہ باکل درست ہیں کرسٹوفر نے دونوں ہاتھ جوڑ کر آفیسر کی ‏منت سماجت شروع کر دی۔
افسر نے دونوں پاسپورٹ ، ایئر ٹکٹ اور شناختی کارڈز کو اُلٹ پلٹ کر دیکھتے ہوئے کہا کیا یہ بالکل ٹھیک ہیں ، اصلی ہیں، قسم کھا کر کہہ رہے ہیں آپ ، ‏جعلی تو نہیں ہیں اور پھر ایک دم مسکراتے ہوئے بات کو بدل دیا ۔ ‏
‏ اچھا مجھے یہ بتائیں یہ دستاویزات واقعی بالکل درست ہیں۔ ‏
جی جی آپ جس طرح چاہیں تصدیق کر لیں یہ بالکل اصلی ہیں ۔ ‏
‏ آفیسر نے پولیس مین کی طرف دیکھا اور پھر ہم دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے ہوئے کہنا شروع کیا ۔ دیکھو گھبرانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے جس ‏ایجنٹ کے آپ آدمی ہیں وہ تو ہمارا اپنا ہے ہمارا دوست ہے لہذا آپ گھبرائیں نہیں ، ہم یہاں پر آپ کی مدد کے لیے موجود ہیں آپ کو تکلیف دینے پر ‏معذرت چاہتا ہوں اتنی بڑی رقم خرچ کرنے کے بعد آپ لوگ اپنی زندگی سنورانے یورپ میں جا رہے ہیں میری دعا ہے کہ کامیابی آپ کے قدم ‏چومے مگر آپ نے ہماری کوئی خدمت نہیں کی ہے اور ہم نے بھی آپ کی کوئی خدمت نہیں کی میرا مطلب ہے چائے لیں گے یا ٹھنڈا لیں گے ‏کیونکہ پھر دوبارہ ملاقات ہو نہ ہو یہ تو ہمارا فرض ہے۔
اکبر نے گھبرائے ہوئے انداز میں کہا جناب چائے پانی پھر کسی وقت سہی اب آپ ہمیں اجازت دیں ہوائی جہاز پر سوار ہونے کا وقت ہو گیا ہے۔‏
‏ دیکھیں ہماری فلائٹ والے ہوائی جہاز پر سوار ہونے کا اعلان بھی ہو رہا ہے برائے مہربانی ہمیں جانے دیں خدا آپ کا بھلا کرے کرسٹوفر نے بینچ پر ‏سے اٹھتے ہوئے کہا ۔
‏ آفیسر نے پاسپورٹ میز پر رکھتے ہوئے کہا لیکن جانے سے پہلے کچھ نہ کچھ تو ہمارا حق بھی بنتا ہے ایک بار آپ لوگ یورپ پہنچ گئے تو پھر آپ چند ‏سالوں میں ہی امیر ہو جائیں گے میرا خیال ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے ہمارا حصَہ تو ہمیں دے دیں اور جائیں ہوائی جہاز پر سوار ہو جائیں کیونکہ ‏ہوائی جہاز پر بورڈ ہونے کا اعلان بھی ہو رہا ہے جلدی کریں صرف دو سو ڈالر ہی دے دیں ہم زیادہ نہیں مانگ رہے کیونکہ آپ کا ایجنٹ ہمارا بہت ‏پرانا دوست ہے اس سے کبھی بھی پیسے کے لین دین پر جھگڑا نہیں ہو ا بہت اچھا آدمی ہے۔
اکبر الدین نے کرسٹوفر کی طرف دیکھا اور آنکھوں کے اشارے سے پوچھا کہ کیا کریں ۔
کرسٹوفر نے افسر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا سر جی اس سے کم نہیں ہو سکتے پہلے ہی ہمارا بہت خرچا ہو چکا ہے ہم نے بہت بڑی رقم ادھار لے کر اپنے ‏ایجنٹ کو دی ہے۔
بھئی یہ کیا بات کر رہے ہیں آپ، یہ تو رسم ہے ہمارا حصہ تو ہمیں دینا ہی پڑے گا ۔میں نے عرض کیا ہے کچھ سالوں میں ہی آپ سارا قرضہ بھی ادا ‏کر دیں گے اور اپنے علاقے کے امیر اشخاص میں بھی آپ کا شمار ہونا شروع ہو جائے گا ۔
اکبر پہلے ہی بہت گھبرا گیا تھا آفیسر سے کہا سر ہمارے پاس بہت کم پیسے ہیں یورپ پہنچ کر بھی ہمیں پیسوں کی ضرورت ہے۔
‏ آپ نے ابھی پہلے بتایا ہے کہ آپ کے رشتہ دار پہلے سے ادھر رہتے ہیں تو پھر آپ کو پیسوں کی کیا ضرورت ہے پولیس والے نے نہایت ادب کے ‏ساتھ کہا ۔
‏ آفیسر نے میز پر پڑے کاغذات دوبارہ اٹھاتے ہوئے کہا دیکھیں آپ ہمارے بچوں کی طرح ہیں میں آپ سے جھوٹ نہیں بول رہا یہ کام پانچ سو ڈالر ‏کا ہے کیونکہ یہ چھوٹی سی رقم ہم سات لوگوں میں تقسیم ہونی ہے وہ تو آپ کے ایجنٹ سے ہمارے بہت پرانے تعلقات ہیں اور میرا قریبی دوست ‏بھی ہے اس لیے پہلے ہی تین سو ڈالر میں نے بھی کم کر دیئے ہیں یعنی رعایت کرنے کے بعد آپ سے صرف دو سو ڈالر مانگے ہیں اب آپ پر منحصر ‏ہے دیر کریں گےتو پرواز نکل بھی سکتی ہےاگر آپ کے پاس نہیں ہیں تو آپ کے رشتہ دار ابھی انتظار گاہ میں موجود ہیں ان سے لے کر دے دیں ۔ ‏
‏ جلدی کر یں ورنہ پرواز آپ کے بغیر روانہ ہو جائے گی اور آپ یورپ جانے سے رہ جائیں گے۔
کرسٹوفر نے سوچا پیسے دے کر ان سے جان چھڑائی جائے ورنہ کسی اور مشکل میں ہی نہ پھنسا دیں اور اکبر سے مخاطب ہو کر کہا میں سو ڈالر تمہیں ‏دے رہا ہوں ایک سو ڈالر اپنی طرف سے ڈال کے سر جی کو دے دو تاکہ ہوائی جہاز پر سوار ہو سکیں۔
آفیسر نے دو سو ڈالر فورا اپنی جیب میں رکھتے ہوئے پاسپورٹ اور ٹکٹ ان کے حوالے کرتے ہوئے کہا جلدی سے بورڈنگ گیٹ پر جائیں میرے ‏خیال میں آپ آخری مسافر ہیں جو جہاز پر سوار ہوں گے خدا حافظ اور سفر بخیر۔ اور پولیس مین کو کہا ، یہ ہمارے خاص مہمان ہیں ان کو بورڈنگ ‏گیٹ تک چھوڑ کر آؤ اور پھر مجھے اطلاع کرو۔
اکبر نے پاسپورٹ اور دوسری سفری دستاویزات اپنے بیگ کی جیب میں ڈال کر اس کی زیپ بند کرتے ہوئے ایک لمبا سانس لیا اور بورڈنگ گیٹ ‏کی طرف تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے چل پڑے۔
۔۔۔۔۔

٭٭٭
‏ اکبر نے کار کی پچھلی نشست سے تھوڑا سا اپنےآپ کو آگے کی طرف کرتے ہوئے کہا اس طرح انکل شہاب ہم نے اس آفیسر کودو سو ڈالر دے کر ‏جان چھڑائی مجھے یہ ڈر تھا کہ اگر پرواز ہمارے بغیر اُڑ گئی اور ہم پاکستان میں رہ گئے تو پھر جو ہماری اور ہمارے خاندانوں کی بے عزتی ہو گی وہ میری ‏برداشت سے باہر تھی اور سارے خواب چکنا چور ہو جائیں گے وہ بھی میں برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
دراصل میں سوچا کرتا تھا ایک ایسے معاشرے کی زندگی سے میں ہمیشہ کے لئے دور چلا جاؤں جہاں مذہب ، مسلک ، عقیدہ اور ذات پات یا رنگ و ‏نسل کی بنا پر ایک دوسرے سے نفرت کی جاتی ہے جہاں غریب اور امیر کے درمیان بہت زیادہ فاصلے ہوں جہاں پر عورت کو مرد کی جوتی خیال کیا ‏جاتا ہو ۔
دراصل میں اس معاشرے میں زندہ رہنا چاہتا ہوں جہاں انسان کے درمیان کسی قسم کا فرق نہ ہو ، جہاں زندگی میں تمام افراد کے لئے ترقی کے ‏مواقع یکساں ہوں جہاں زندگی کی قدر ہو جہاں غریب کو بھی امیر کے برابر حقوق حاصل ہوں۔ ‏
مولوی نظام دین نے تالی بجاتے ہوئے کہا واہ بھی واہ تم تو تقریر بھی بہت اچھے انداز میں کر لیتے ہو یورپ اور ہمارے ملک میں انسان کی عزت و ‏تکریم کا بے پناہ فرق ہے اب میں آپ کو بتاتا ہوں یہاں کا خاکروب اور وہاں کے خاکروب میں زمین و آسمان کا فرق ہے کیونکہ یہاں کے خاکروب ‏کو ایک معاشرے کا فرد ہوتے ہوئے وہی حقوق حاصل ہیں جو وہاں کے ایک اونچے گریڈ کے آفسر کو حاصل ہیں زندگی کی بنیادی سہولتیں روٹی، کپڑا ‏اور مکان کے علاوہ اس کو صحت کی بنیادی سہولیات ایک بیوروکریٹ یا سیاست دان اور امیر کے برابر حاصل ہیں۔
‏ اکبر الدین نے مولوی نظام دین کی بات کاٹتے ہوئے کہا لہذا میں نے سوچا کہ ساری عمر خوف، مذہبی تعصب اور غربت کی بد ترین زندگی میں رہنے ‏کی بجائے بہتر ہے کہ میں اٹلی کے کسی ہوٹل میں برتن دھو نے کا کام کر لوں یا پھر کسی گھر میں صفائی کا کام کر لوں یا کسی اولڈ ہاؤس میں بوڑھوں کی ‏خدمت کرتے ہوئے زندگی گذار دوں معاشرے میں بطور انسان عزت تو ہو گی جینے کا حق تو مجھے حاصل ہو گا ۔ ‏
مولوی نظام دین نے ایک اور سوال ان دونوں سے کیا اپنے ملک کی امیگریشن پولیس کا حال تو آپ نے بتا دیا ہے اب یہ بتائیں میلان کی امیگریشن ‏پولیس کا آپ کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ تھا کیونکہ میں نے سنا ہے وہ پاکستانیوں پر بڑی گہری نظر رکھتے ہیں کیونکہ آج کل یورپ میں جب بھی کوئی ‏دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے تو اس کا کہیں نہ کہیں سے رستہ ہمارے ملک سے جا ملتا ہے۔
وہ بھی سُن لیں کرسٹوفر نے پانی کی چھوٹی بوتل کو منہ کے ساتھ لگا کر تین چار گھونٹ پانی کے حلق سے نیچے اُتار کر کہا ۔
جب جہاز میں اعلان ہوا کہ ہم میلان اٹلی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اُترنے والے ہیں تو میں خوشی کے مارے پاگل ہو رہا تھا پھر اچانک مجھے ‏خیال آیا کہ ہاتھی تو نکل گیا ہے مگر اس کی دم ابھی اندر ہی ہے یہ سوچ کر کراچی ایئر پورٹ کا سارا منظر میری آنکھوں کے سامنے دوبارہ آ گیا مگر پھر ‏دل کو تسلی دی کہ انکل شہاب الدین کے کہنے کے مطابق یہ لوگ نہ تو رشوت طلب کرتے ہیں اور نہ ہی غیر ضروری کسی کو تنگ کرتے ہیں اپنے کام ‏سے کام رکھتے ہیں اور صحیح کو غلط نہیں کہتے اور غلط کو صحیح نہیں کہتے ایسے معاملات میں آدمی سے زیادہ اپنی کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور مشینوں پر بہت زیادہ ‏بھروسہ کرتے ہیں جو آجکل انسانوں سے زیادہ قابل اعتبار ہیں ۔
رن وے پر ہوائی جہاز کے اترنے کے بعد بھی جہاز کچھ دیر چلتا رہا ،جہاز جب ٹرمینل ون پر اپنی مخصوص جگہ پر آ کر بالکل رُک گیا اور جہاز کا انجن ‏بالکل بند ہو گیا تو مسافروں کو جہاز کے دروازوں کے ساتھ لگائی گئی چلتی پھرتی سرنگ کے ذریعے پا سپورٹ کنٹرول کے کاوئنٹر کے سامنے پہنچا دیا گیا ‏
ہم لوگ قطار میں کھڑے تھے میرا دل اتنے زور سے دھڑک رہا تھا کہ مجھے شک ہوا کہ میرے آگے اور پیچھے کھڑی دونوں نوجوان برطانوی لڑکیوں ‏نے بے ترتیب دھڑکن ضرور سُن لی ہو گی میں نے اطالوی زبان کا جو ایک لفظ سیکھا ہوا تھا دل ہی دل میں دھرایا یہ لفظ شکریہ تھا یعنی،گراسیے ، اور ‏لفظ ،بو ں جورنو، یعنی سلام ۔
‏ جونہی وہ لڑکی کھڑکی سے اپنی سفری دستاویز لے کر آگے چلی گئی تو میری باری آ گئی میں امیگریشن افسر کے سامنے کھڑا تھا میں نے اپنا پاسپورٹ اور ‏ٹکٹ افسر کی طرف بڑھاتے ہوئے ُ بوں جُورنو کہا اور پھر ساتھ ہی گڈ مارننگ بھی کہہ دیا کہ ہو سکتا ہے میرے منہ سے بوں جُورنو کا تلفظ صحیح ادا نہ ہو ‏ا ہو اس لیے گڈ مارننگ بھی کہہ دیا افسر کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے دونوں زبانوں میں سلام کا جواب دیا اور ایک نظر ‏میری طرف غور سے دیکھا اور پھر کاوئنٹر پر جلتی ایک خاص دودھیا رنگ کی لائٹ کے نیچے میرا پاسپورٹ کیا اور پھر اس پر اٹلی میں داخل ہونے کی ‏مہرلگا کر پاسپورٹ میرے حوالے کرتے ہوئے ایک بار پھر مسکرایا اور خُدا حافظ کہا ۔
‏ میں کھڑکی سے آگے کی طرف آ گیا تب میرے پیچھے کھڑی لڑکی نے میری جگہ لے لی جو میری طرف دیکھ کر مسکرائی اورپھر افسر کی جانب متوجہ ہو ‏گئی میں تیزی کے ساتھ آگے بڑھ گیا اور تھوڑی دُور جا کر رک گیا اور اکبر کا انتظار کرنے لگا وہ بھی یکساں طریقہ ِعمل سے سے بآسانی گذر کر جب ‏میرے پاس آیا تو پھرہم دونوں اپنے سامان کا انتظار کرنے لگے جس جگہ پر ہمارا سامان آنا تھا بہت سے مسافر جمع تھے کچھ دیر بعد ایک دائرہ کی شکل ‏میں گھومنے والی راہداری کی لائٹز آن ہو گئیں اور مختلف رنگوں کے چھوٹے بڑے بیگ اور اٹیچی گیس اس چلتی رہداری پر بے سدھ پڑے ہمارے ‏سامنے سے گذرنے لگے میری نظریں سیاہ رنگ کے دو اٹیچی ڈھونڈ رہی تھیں جن کے ہینڈلز پر میری ماں نے سفید رنگ کے ربن باندھ دئیے تھے ‏جن کو باندھتے وقت میری ماں نے مجھے کہا تھا کہ یہ ربن میں مامتا کی محبت بھرے جذبات کے ساتھ تمہاری سلامتی کے لئے دعائیں مانگ کر باندھ ‏رہی ہوں آخر کار کچھ منٹ کے بعد ہم دونوں نے اپنے اٹیچی کیس دیکھ لئے اور جونہی وہ ہمارے سامنے سے گزرنے لگے ہم نے اپنی طرف کھینچ لیے ‏اور جگہ جگہ لگے مسافروں کی رہنمائی کے بورڈز کو دیکھتے ہوئے مسافر لاونج سے باہر آ گئے اور پھر آپ سے ملاقات ہو گئی خُدا کا لاکھ شُکر ہے ہم اپنی ‏منزل پر پہنچ گئے ہیں اور آپ سب کا بے حد شکریہ کہ آپ ہمارےاستقبال اور رہنمائی کے لئے یہاں پر موجود ہیں۔
۔۔۔۔۔

تیراہواں باب:‏

نور جہاں بُھورے رنگ کے چمڑے سے بنے صوفے پر نیم دراز تھی یہ صوفہ تین آدمیوں کے بیٹھنے کی گنجائش والا تھا آج اس کا بخار اُتر چکا تھا مگر وہ ‏اپنے آپ کو بخار، زکام اور کھانسی کے اثر سے ابھی تک باہر نہیں نکال پائی تھی وہ اپنے نرم و نازک بدن میں ابھی تک کمزوری محسوس کر رہی تھی وہ ‏صوفے پر دو عدد تکیے رکھ کر ان کے سہارے صوفے کے بازو پر اپنی گردن جمائے نیم دراز تھی اس کی گردن اس طرح اور زیادہ لمبی اور صراحی کی ‏مانند خوبصورت لگ رہی تھی اور سیاہ گھنے اور لمبے بال گردن کے پیچھے سے ہوتے ہوئے اس کے سینے اور پیٹ پر پھیلے ہوئے تھے ۔
یوسف نے کمرے میں داخل ہوتے ہی نور جہاں کی طرف دیکھا اور پوچھا ۔
میری ملکہ عالیہ اب کیسا محسوس کر رہی ہو ۔
میں آج بہت بہترمحسوس کررہی ہوں میرے بابا بہت اچھے باپ، شوہر اور بہت ہی عمدہ انسان ہیں میرا بہت خیال رکھتے ہیں اور میری ماما ماریا گمریتی ‏تو ابھی ابھی میرے پاس سے ہو کر گئی ہیں صرف یہ پوچھنے کے واسطے کہ مجھے کسی چیز کی ضرورت تو نہیں اور میں کیسا محسوس کر رہی ہوں۔
‏ کل شام سے مجھے بخار دوبارہ تو نہیں ہوا ہے اور ڈاکٹر نے بھی چلنے پھرنے اور گھر کے کام کاج کی اجازت دے دی ہے آپ سب آج کی دعوت کی ‏تیاری میں مصروف ہیں اتنے سارے لوگوں کے لئے کھانا تیار کرنے میں مصروف ہیں ، میں بھی آپ کی مدد کا ہاتھ بٹانے کے لئے تیار ہوں۔
‏ لیکن آپ کہاں چلے گئے تھے نور جہاں نے یوسف سے پوچھا ۔
میں اپنی پیاری سی ساس کی باروچی خانے میں کھانا تیار کرنے میں مدد کر رہا تھا یوسف نے اپنے گلے میں لٹکائے ہوئے ایپرن سے ہاتھ صاف کرتے ‏ہوئے جواب دیا ۔
اگر میری طبعیت ناساز نہ ہوتی تو میں بھی ضرور ان کی مدد کرتی، لیکن اب میں بالکل ٹھیک ہوں نور جہاں نے صوفے پر پہلو بدلتے ہوئے کہا میرا ‏دل چاہ رہا ہے کہ میں اب کام میں آپ کا ہاتھ بٹاؤں یعنی میں آپ لوگوں کی مدد کرنا چاہتی ہوں اور اپنے ہاتھوں سے چکن بریانی بنانا چاہتی ہوں۔
اسی دوران مولوی نظام دین اندر داخل ہوئے اور سیدھے اپنی بیٹی نور جہاں کے پاس جا کر رک گئے اور اس کے ماتھے پر اپنا ہاتھ رکھ کر یہ محسوس ‏کرنے کی کوشش کرنے لگے کہ اسے بخار ہے یا نہیں ہے اور کچھ لمحے ماتھے سے پورے بدن کی حرارت کا اندازہ لگانے کی کوشش کی اور بالاآخر ‏فیصلہ دیا کہ اب بخار نہیں ہے مگر بیٹی تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ آرام کرو اور کسی بھی کام سے پرہیز کرو ،
جی بابا جی میں ایسا ہی کر رہی ہوں کیونکہ اگر میں کچھ کام کرنا بھی چاہوں تو مجھے کوئی کرنے ہی نہیں دے گا سب یہی کہتے ہیں تم آرام کرو ، بابا آپ ‏کہاں گئے ہوئے تھے میں کب سے آپ کا انتظار کر رہی تھی میں اکیلی بہت بور ہو رہی تھی ۔
بیٹی میں اپنے کمرے میں نماز ادا کر رہا تھا یونہی نماز سے فارغ ہوا تو تمہاری ماں نے مارکیٹ بھیج دیا کیونکہ کچھ سامان کل ہم بھول گئے تھے وہ خرید کر ‏لانا تھا ۔ ‏
جس دیسی مارکیٹ میں گیا تھا وہاں سے تازہ ٹماٹر،پیاز، ادرک کے علاوہ ہرے پیاز، ہرا دھنیا اور تازہ ہری مرچ بھی لایا ہوںمولوی نظام دین نے اپنا ‏داہیں ہاتھ نیچے کرتے ہوئے کہا کیونکہ وہ اُنگلیوں پر یہ تمام اشیاء گِن رہا تھا۔ ‏
یوسف نے منہ کو تھوڑا سا گول شکل دیتے ہوئے اور ہوا کو باہر کی طرف پھنکتے ہو ئے (سی سی) ہاں ہاں کی آواز نکالی اور کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ ‏آج کھانے اور شہاب صاحب کی کہانی کچھ زیادہ ہی مزےدار یعنی مسالحہ دار ہو گی ۔
مولوی نظام دین نے نہایت شفقت بھرے انداز میں جواب دیا ہاں یوسف بیٹا یہ تمام اشیاء برصغیر میں پکوڑے، سموسے اور دہی بڑے کے علاوہ ‏مختلف پکوانوں میں ڈالی جاتی ہیں ان کے بغیر تمام دیسی کھانے بےکار اور فضول ہیں۔
بابا آپ جانتے بھی ہیں کہ مجھے آجکل ذاتی معالج نے یہ تمام اشیا کھانے سے منع کیا ہے اور آپ ہی تو کہتے ہیں کہ احتیاط اور پرہیز کالسٹرول ، بلڈپریشر ‏اور شوگر کا بہترین علاج ہے۔
بالکل درست ہےمولوی نظام دین نے نور جہاں کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھرتے ہوئے کہا اور جو باروچی خانے کی انچارج تمہاری ماں ہے نا اُسے ‏مجھ سے زیادہ تمہارے بارے میں معلوم ہے وہ تمہارے لیے علیحدہ سے کھانا تیار کر رہی ہے یہ تو کمیونٹی کے لوگوں کےلیے ڈشزس ہیں کیونکہ اس ‏بار ہماری باری دو ماہ کے بعد آئی ہے لہذا چٹ پٹے مسالحے دار کھانے ہی تیار کیے جا رہے ہیں تاکہ ہند و پاک کے شاندار روایتی کھانوں کی یاد تازہ ہو ‏جائے۔
میں نے تو اطالوی اسپگتی اور پاستا بھی باروچی خانے میں دیکھا ہے اس کے علاوہ ناپولی کا پیزا بھی ماما تیار کر رہی تھی یوسف نے لقمہ دیا ۔
بس ٹھیک ہے میں اب مطمنت ہوں نور جہاں نے ایک لمبی سانس لے کر کہا اور صوفے پر اُٹھ کر بیٹھ گئی۔‏
مولوی نظام دین اور یوسف دونوں ایک ساتھ باروچی خانے کی طرف چلے گئے۔باروچی خانے میں ماریا گمریتی اپنے کام میں اتنی مگن تھی کہ اسے ‏معلوم ہی نہیں ہوا دو افراد باروچی خانے میں داخل ہوئے ہیں۔ ‏
مولوی نظام دین نے دبے پاؤں اپنی لاڈلی اٹلین بیگم ماریا گمریتی کے قریب کر کہا۔
‏ میرے لائق کوئی اور کام ہے تو مجھے حکم کریں بندہ ناچیز ہر وقت حاضر ہے اور یہ کہتے ہوئے اس کے سنہرے لمبے بالوں کو ہاتھ میں لے کر پیار سے ‏سہلانے لگا۔
دیکھو یوسف ہماری اصل محبت تو ہمارے سامنے کھڑی ہےجس کو ہم دل و وجان سے پیار کرتے ہیں پہلی نظر میں ان سے پیار ہوا اور بیاہ ہوا جس کا ‏ثبوت ہماری بیٹی ہماری شہزادی نور جہاں ہے جوتم نے اب اپنے دل کی ملکہ بنا لی ہے۔
ماریا گمریتی نے لازانیا کی ڈش اوون میں سے نکال کر لکڑی کے چھوٹے میز پر دوسری ڈشیزز کے ساتھ رکھتے ہوئے فوراً جواب دیا۔
‏ اور دوسری محبت جو پاکستان میں ہے اس کو آپ مجھ سے کم پیار کرتے ہیں جس کے لیے اب بھی آپ سال میں دو بار پاکستان جاتے ہیں اس کے ساتھ ‏دوسری نظر میں پیار ہوا تھا جس سے آپ نے چار بچے پیدا کیے حالانکہ وہ آپ کی پسند نہیں ہے وہ آپ کے ماموں نے شادی کے واسطے آپ کے لئے ‏منتخب کی تھی وہ انہوں نے آپ کے لیے پسند کی اور آپ نے تو اس کی تصویر تک نہ دیکھی اور شادی کے لئے ہاں کر دی۔
مولوی نظام دین نے کچھ شرماتے ہوئے کہا ماریا وہ تو ہمارا مذہب چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے اس لیے میں نے ہاں کر دی تھی یہ تو میں نے ایک ‏مذہبی رسم نبھائی تھی اور بزرگوں سے وفاداری کی تھی ورنہ یہ بات تو سچ ہے کہ ایک ہی بیوی سے محبت نبھائی جا سکتی ہےجس کو دل و دماغ اور روح کی ‏گہرائی کے ساتھ پیار کیا جاتا ہے اور ماریا کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر سہلانے لگا اور پھر بوسہ دیا ۔ماریا نے فوراً کہا کچھ تو شرم کریں بوڑھے ‏ہو گئے ہیں مگر عادتیں ابھی تک نوجوانوں والی ہیں کچھ تو خیال کریں ہمارا داماد پاس کھڑا ہے اور اس کے سامنے ہی وہ اس سے آگے کوئی لفظ نہ بول ‏سکی اور یوسف کی طرف دیکھا۔مولوی نظام دین نے یوسف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
‏ یہ نوجوان تو ہم سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گیا ہے ۔
یہ ہم سے زیادہ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں یہ ویسے ہی مشہور ہو چکا ہے کہ آج کا دور یورپ میں انتہائی مصروف دور ہے محبت کرنے کے لیے ‏ان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے مگر میں کہتا ہوں یہ محبت کا زمانہ ہی تو ہے اور اس میں سب کچھ جائز ہے۔
یوسف نے بھی آخر کار ان دونوں کی گفتگو میں اپنے علم کے مطابق حصہ لینے شروع کیا ۔
دیکھیں بھئ میں تو اس بات کا قائل نہیں ہوں جو کچھ آپ لوگ کہہ رہے ہیں۔ ‏
محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے میرے نزدیک محبت جائز اور ناجائز میں تمیز رکھتی ہے دوست اور دشمنی میں ‏فرق کو جانتی ہے لیکن دوسری طرف جنگ جائز اور ناجائز کی تمیز کھو دیتی ہے ۔
محبت قربانی کا نام ہے اور جنگ اپنے دشمن یا سامنے کھڑے مخالف کو ہر جائز اور ناجائز حربے کے ساتھ زیر کرنے کا نام ہے ۔
‏ جنگ ذہنی و جسمانی اوراپنے قوت بازو کے مطابق اپنی خرد کو استعمال کرتے ہوئے اپنے لفظوں یا گولہ بارود کے ساتھ مخالف کو تباہ کرنے یا لوہے کی ‏تلوار کے ساتھ ذبح کرنے کا نام ہے اور پھر اپنے فعل کو درست ثابت کرنے کے لیےاپنی زبان پر لگے انسانی لہو کو دھولینے کا نام ہے اور آخر میں ‏لوہے کی تلوار پرسے دشمن کے لگے لہو کومحبت جیسے اُجلے اورنرم لفظوں کے ساتھ صاف کر لینے کی کوشش کا نام ہے ۔
مولوی نظام دین بھی سنجیدہ ہو گیا دیکھو بیٹا جی یہ سب اپنی بقا کے لیے انسان کرتا ہے اپنی انا اور غرور کے ساتھ ساتھ اپنی نسل کو بچانے کے لیے ‏دوسروں کو قربان کرتا ہے لیکن جو اپنی طاقت کمزور کے خلاف استعمال کرتا ہے وہ اپنی ذات کو ایک گھن چکر میں ڈال لیتا ہے۔
‏ میں نے جو کچھ علماءکرام سے سُنا ہے وہ یہ ہے ۔
‏ خدا کی راہ میں ہر کام جائز ہے مذہب پر عمل کرو جو کچھ مقَدس کتب میں لکھا ہے وہ بالکل درست ہے جو لکھا ہے اس پر عمل کرو تو سب کچھ ٹھیک ‏ہے اگر اس پر عمل نہیں کرتے تو آپ کو اس دینا میں جینے کا کوئی حق نہیں ہے۔
‏ میں تو مذہب کی توہین برداشت نہیں کر سکتا ہوں میں اس مذہب کا ماننے والا ہوں کہ جس میں صبر وتحمل کی گنجائش باقی نہیں رہتی جہاں پر ہماری ‏مقدَس کتاب اور اس سے وابستہ کسی بھی چیز کی توہین ہو ۔
مقدس کتب تو صدیاں پہلے زمین پر اتری تھیں اس قدیم زمانے میں انسان ترقی میں بہت پیچھے تھا اب وقت بدل گیا ہے انسان ترقی کی منازل تیزی ‏کے ساتھ طے کر رہا ہے تو کیا مقدس کتب اور مذہب اورقدیم ثقافت ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں یوسف نے مولوی نظام دین سے سوال پوچھا۔‏
نظام دین نے سنجیدگی کے ساتھ یوسف کی طرف دیکھا اور کہا اللہ تعالی نے جب سوچا کہ ایک نئی مخلوق کو زمین پر پیدا کیا جائے تو اس نے فرشتوں ‏کے سامنے اس کا اظہار کیا اور فرمایا میں زمین پر اپنا خلیفہ پیدا کرنے لگا ہوں تو فرشتوں نے بھی سوچا ایسا کیوں ہے جبکہ ہم اس کی تسبیح و تقدیس ‏کرنے کے لئے موجود ہیں تو نائب کی کیا ضرورت ہے پھر انہوں نے سوچا ، ہو سکتا ہے زمین کے نظام و انصرام کے لئے انسان کو بنایا جا رہا ہے اور اس ‏مخلوق میں سے کچھ ان میں فساد برپا کرنے والے بھی ہوں گے اور کچھ نیکی اور انصاف پھیلانے والے بھی ہوں گے یعنی انسان کو اختیار اور ارادہ کی ‏آزادی کے ساتھ پیدا کیا بس یہاں سے انسان میں خرابی کا بھی آغاز ہوا ۔
مگر خدا نے آزادی اور اختیار کی حد بندی بھی مقرر کی اور انسان کی اصلاح کے لئے مقدس کتب بھی نازل فرما دیں جس میں انسان کی اصلاح و ‏تربیت کو واضح طور پر بیان بھی کر دیا ۔
‏ یوسف نےمولوی نظام دین کی بات کو ٹوکتے ہوئے کہااگر اسلام ایک فلاحی ریاست اور ایماندار خلافت کا تصور پیش کرتا ہے تو اس پر عمل کیوں ‏نہیں کیا جا رہا ۔
‏ ارسطو جیسا مفکر بھی ایک ایسی ریاست کا تصور پیش کرتا ہے جہاں انصاف اور امن کا راج ہو تو پھر آجکل پاکستان اور چند اور اسلامی ممالک میں ‏مذہب کے نام پر قانون شکنی کی حوصلہ افزائی کیوں کی جا رہی ہے مذہب یا اس سے مطلقہ اشیاء کی اگر کوئی بے حرمتی کرتا ہے تو انتہا پسند لوگ بجائے ‏عدالت سے رجوع کرنے کے خود ہی سڑکوں گلیوں میں بے دردی سے کیوں اس انسان کو قتل کر دیتے ہیں اور ملزم پر جرم ثابت کیے بغیر ہی ملزم کو ‏سزا دیتے ہیں ایسے میں جج اور عدالتوں کے نظام کو درہم برہم کیا جاتا ہے ذاتی جھگڑوں میں ملوث لوگ اور خاص طور پر غیر مسلم اس کی بھینٹ چڑھ ‏جاتے ہیں اور دوسری طرف اشرافیہ اس قانون سے بالا تر ہیں ۔
مذہب اور سیاست کے ساتھ تہذیب و ثقافت اور رسم و رواج کو ایک جگہ جمع کرنے سے افراتفری پھیلتی ہے اکثریت اپنے آپ کو افضل سمجھتے ‏ہوئے دوسرے مذاہب کے افراد کو کیڑے مکوڑے سمجھنے لگتے ہیں اور ان سے کیڑے مکوڑوں جیسا سلوک شروع کر دیتے ہیں شدت پسندی ‏ریاست کےقانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مقولے پر بلا روک ٹوک عمل کرتی ہے اور عدالت یا تو تماشا دیکھتی رہ ‏جاتی ہے یا پھر طاقت ور کی طرف دار ہو جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔

٭٭٭
ماریا گمریتی نے کھانے پکانے کا سارا کام ختم کر لیا تھا لہذا اس نے ان دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا میرے بہت ہی قابل احترام دانشورو ۔
مہمانوں کے آنے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی ہے آپ دونوں کے ذمے یہ کام ہو گا کہ پلاسٹک کی کراکری میز پر ترتیب سے لگا کرپانی ،جُوس اور سرخ ‏اور سفید مے کے علاوہ اسکاچ وہسکی بھی سجا کر رکھیں اور ہاں کیک کے ساتھ شمپین کی بوتل رکھنا نہ بھُولنا اور دائیں طرف دوسرے میز پر کھانے کی ‏تمام ڈشزز ترتیب کے ساتھ رکھنی ہیں اگر کسی بات کی سمجھ نہ آئے تو میں ادھر ہی ہوں مجھ سے پوچھ لینا ۔ ‏
اب میں منہ ہاتھ دھونے کے لیے جا رہی ہوں کیونکہ آج زیادہ وقت باروچی خانے میں رہنے کی وجہ سے میرے کپڑوں اور بالوں میں سے ایشین ‏کھانوں کے مسالوں کی تیز خوشبو آنی شروع ہو چکی ہے میں بس آدھے گھنٹے میں واپس آ رہی ہوں ۔
‏ یوسف نے دو عدد پکوڑے اپنے ہاتھ میں پکڑتے ہوئے مولوی نظام دین سے دوبارہ کہنا شروع کیا۔ مجھے ابھی تک یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ محبت کہاں ‏سے شروع ہوتی ہے اور کیا یہ اپنا اختتام بھی رکھتی ہے کیا یہ واقعی ایک جذبہ ہے اگر یہ جذبہ ہے تو انسانوں پر اس کی حکومت کیوں نہیں ہے یہ جذبہ ‏انسان کے قابو میں کیوں نہیں ہے ۔
‏ جب اشجار مٹی کے اندر اپنے قدم جما کر فلک کی طرف اوپر کو اٹھتے ہیں ان پر پھول نکلتے ہیں اور پھل پک جاتے ہیں چلتی ہوا کے ساتھ موسم ان پر ‏حکم چلاتے ہیں تو اشجار پھر بھی بغاوت نہیں کرتے اپنی جگہ پر مٹی میں کھڑے رہتے ہیں میں یہ سوچتا ہوں اپنی پیدائش سے لے کر اپنی موت تک ‏انسان خُدا کے قابو میں کیوں نہیں آتا ہے۔
انسان کیوں کائنات کی مٹی سے نکلنے والے تمام وسائل پر اکیلا قابض ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ طاقت ور اپنے سے کمزور پر کیوں غالب رہنا چاہتا ‏ہے ۔
ایک آدمی کیوں یہ سوچتا ہے کہ زمین پر موجود ہر جاندار صرف اسی کے ساتھ محبت کرے ہر انسان کی خواہش ہے کہ وہ کائنات پر امیر ترین ہو اور ‏جو اس کی تابعداری کرے وہ زندہ رہنے کا حق رکھ سکتا ہے باقی لوگوں کو خاک میں ملانے کی کوشش میں وہ خود خاک ہو جاتا ہے ایسا کیوں ہے۔
‏ اگر خُدا کو سب کا خالق و مالک کہا جاتا ہے تو سب انسان اس نے برابر کیوں نہیں بنائے ہیں وہ سب کو ایک جیسا پیار کیوں نہیں کرتا ہے اگر ایسا نہیں ‏ہے تو پھر تمام انسانوں کی حفاظت کی ذمہ داری کسی اور کی بھی ہے ۔
کیا ایک انسان کے پیار میں دوسرے انسان کی سلامتی کی فکر ختم ہو جاتی ہے اور اپنے سے کمزور کی حفاظت کی ذمہ داری سے دست بردار ہونا پڑتا ‏ہے کیا ہر چیز طاقت ور انسان کی ہے اور زمینی وسائل پر قابض صرف اسی کا حق ہوتا ہے جس کے پاس دولت اور اختیار ہے وہ تمام وسائل پر قابض ‏ہے اور کمزور اور بے کس مخلوق کو گھاس کی مانند اپنے پیروں تلے روندنے کا حق ایک طاقت ور کو کیوں دیا گیا ہے کیا ایک طاقت ور مخلوق کی قسمت ‏بنانے والے سے زمینی مخلوق کی قسمت چوری کر لیتا ہے یا کائنات تخلیق کرنے والے نے خود کو تما شائی کے طور پر آسمانوں میں کہیں چھپا لیا ہے اور ‏تماشائی کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے کہ غریب اور بے کس انسان اپنے سے طاقت ور کے ہاتھ سے اپنی لئے اچھی قسمت کو چھین بھی سکتا ہے یا نہیں۔‏
مولوی نظام دین نے پوری بات سننے کے بعد اس کا جواب دینے کی بجائے یوسف سے کہا ہمیں مرکزی دروازے کی طرف چلے جانا چاہیے تاکہ ‏مہمانوں کو خوش آمدید کہہ سکیں ورنہ ماریا کو بُرا لگے گا وہ دونوں جب کھانے کمرے میں پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کچھ مہمان پہلے سے ہی ‏تشریف فرما تھے مولوی نظام دین نے آگے بڑھتے ہوئے پاسٹر ڈیوڈ سلیم بھٹی سےمصافحہ کرتے ہوئے معذرت کی اور پھر پروفیسر نرمل سنگھ سے ‏حال احوال پوچھنے کے بعد سوال کیا کہ راہول کہاں ہے۔
ابھی تو میرے پاس بیٹھا ہوا تھا نرمل سنگھ نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا اور پھر ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔
وہ دائیں طرف کرن کے ساتھ کونے والی میز کے پاس کرسی پر بیٹھا ہوا ہے ۔‏
‏ کرن اور راہول نے سب کو اپنی طرف متوجہ محسوس کیا تو وہ دونوں جلدی سے مولوی نظام دین کے پاس آ گئے ۔
‏ راہول نے نظام دین کے پیر چھُوتے ہوئے کہا ۔
‏ ست سری اکال انکل جی ‏
جیتے رہو بیٹا، وعلیکم السلام ‏
آ گے بڑھ کر کرن نے بھی کہا بونا سیرا آ تُوتی ( سب کو میری طرف سے شام کا سلام )۔
مولوی نظام دین اور یوسف نے آگے بڑھ کر سلام کا جواب دیا ۔
‏ دعائیں وصول کرنے کے بعد وہ دونوں دوبارہ واپس کونے میں چلے گئے۔
‏ آہستہ آہستہ تمام لوگ آنا شروع ہو گئے اور ایک وقت ایسا آیا کہ سب لوگ اس میز کے گرد جمع ہو گئے جس میز پر کھانا ترتیب سے لگایا گیا تھا ۔
‏ حسب معمول کھانے کے آغازسے پہلے اس پر دعائیں کی گئیں اور سب لوگوں نے کھانا شروع کر دیا تمام لوگ کھانے میں مگن تھے۔
مگر نرمل سنگھ اور شہاب الدین ابھی تک ایک چھوٹےمیز جو الگ رکھا گیا تھا کے پاس اپنی کرسیوں پر بیٹھے اُس دنیا کی باتوں میں مصروف تھے جس ‏دنیا کا ہر دوسرا شخص اسے چھوڑ کر یورپ آنا چاہتا تھا ۔
‏ نرمل سنگھ اور شہاب الدین اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ ہجرت کیوں کی جاتی ہے ؟۔
‏ ہم لوگ اپنے گھر میں میرا مطلب ہے اپنے ملک میں کسی قسم کے جسمانی یا ذہنی تشدد کا شکار تو نہیں تھے پھر بھی ہم نے ملک چھوڑ دیا اور یہاں ‏یورپ کی خوشحال زندگی میں گُم ہو چکے ہیں ہجرت تو وہاں سے کی جاتی ہے جہاں کی زمین انسانوں کا ساتھ اس طرح چھوڑ دے کہ زمین اناج پیدا ‏کرنا بند کر دے یعنی قحط سالی ہو ،قدرت بادلوں کو کسی اور دیس لے جائے پانی کو اپنی کوکھ میں چھپا لے اور اس علاقے کے جانداروں کو پانی نہ دے ‏ہریالی پر اپنی بددعا کا بھیانک سیایہ ڈال دے چرند و پرند بھی انسانی آبادیوں اور جنگلوں کوچھوڑ کر کہیں اور خوراک کی تلاش میں نکل جائیں شہاب ‏الدین بول رہا تھا اور نرمل سنگھ بڑے انہماک سے سُن رہا تھا۔
ہماری پہچان کیا ہے ؟ ۔
کیا میں برصغیر کی اس نسل میں سے ہوں جو بادشاہ کا عہدہ چھوڑ کر جنگلوں میں ساری عمر اپنی روح کے لئے شانتی تلاش کرنے نکل جاتے تھے۔ ‏
‏ وہ لوگ کہاں گئے ہیں جو بہتے دریاوں کے سنگ گیت گایا کرتے تھے جو پُھولوں سے رنگ چرا کر خوبصورت حسیناوں کے سیاہ گھنے بالوں میں سجا دیا ‏کرتے تھے وہ ندی کنارے چاند کے پورے ہونے کا انتظار کرتے اور چاند پر چرخہ چلاتی بُڑھیا سے خود کلامی کرتے اور خُدا کے ساتھ مکالمہ کرنے ‏کے لیے اسے تلاش کرنے کی خاطر سنگلاخ پہاڑوں کی چھان پھٹک کرنے کے بعد کسی گھنے اور بوڑھے درخت کی چھاؤں میں اس عہد کے ساتھ بیٹھ ‏جاتے کہ اب تو اسے پا ہی لیں گے یا پھر کسی بوڑھے شجر کی دیو ہیکل جڑوں پر آلتی پالتی مارے بیٹھے بیٹھےاس کے پاس فلک پر چلے جاتے تھے اور اس ‏کا عرفان پانے کی خاطر ہڈیاں کے ڈھانچے کی صورت میں تبدیل ہو جاتے تھے وہ اس کی لگن کو دل و دماغ میں اس طرح سما لیتے کہ جان چلی جاتی ‏اور ایک مثال اپنی آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑ جاتے ۔ ‏
مگر نرمل سنگھ اب ہمارا تشخص کیا ہے ؟۔
‏ ہم یہاں پر گُمُ شدہ لوگ ہیں جن کی اب اپنی کوئی شناخت نہیں رہی ہم لسانی طور پر ایک گُمشدہ زمانے کی پیچیدہ سی ایک کڑی بن کر رہ گئے ہیں ہماری ‏زبان بدل گئی تہذیب و ثقافت بدل گئی زمین بدل گئی کھانے کے طور طریقے بدل گئے ہماری عادات میں نئی عادتیں شامل ہو گئی ہیں اور بہت ساری ‏اشیاء یہاں پر دستیاب ہونے کے باوجود ہم نے کھانا چھوڑ دی ہیں حتی کہ اپنے روایتی لباس کو خیر باد کہہ دیا ہے ہم یہاں کے سرد و گرم اور پھولوں ‏کے موسموں کے عادی ہو چکے ہیں یہاں کی زبان و ادب اور تہذیب و ثقافت ہمارے خون میں شامل ہو چکی ہے ہمارے بدن یہاں کی مٹی میں دفن ‏ہوں گے اور ایک وقت آئے گا کہ ہمارے جسموں پر پڑی مٹی پر پھول اُگیں گے اور وہ پھول محبت کرنے والے ایک دوسرے کو پیش کیا کریں گے ‏کوئی ہماری آنے والی نسلوں کو ہمارے آباو اجداد کے نام سے نہیں پہچانے گا وہ ہماری زبان و ثقافت کو گم شدہ قدیم انسانوں کی گم شدہ انسانی کڑی ‏کے طور پر کسی میوزیم میں قید کر دیں گے۔
نرمل سنگھ نے حسب معمول بولنے سے پہلے گلے کو صاف کرنے کی مخصوص آواز نکالی اور کہنا شروع کیا میں یہاں پر اب بھی کبھی کبھار نسل پرستی ‏کا شکار ہوتا ہوں اس کے ساتھ ہی کئی بار مجھے تعصب کی وجہ سے خود کو گھر میں نظر بند رہنا پڑا ہے جس نے مجھے اکثر اپنے آپ کو ایک غیر ترقی یافتہ ‏نسل سے تعلق ہونے کا احساس دلایا ہے مگر کیا انسان پہلے بھی ایسا ہی تھا اس میں ان ممالک اور ان میں رہنے والی انسانی نسلوں کا کیا قصور ہے۔
میں بتاتا ہوں شہاب الدین نے کہا ، ان کا قصور یہ ہے کہ وہ ان مذہبی راہنماوں کے قبضہ میں ہیں جو ان کو اپنے پنچوں میں ابھی تک دبوچ کر رکھنا ‏چاہتے ہیں وہ کائنات کے پراسرار وجود کا سراغ لگانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے وہ ماضی کی بھُول بھلیوں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں چاہتے بلکہ وہ ‏ایسے راستے تلاش کرنے والوں کو اپنی راہ کا بہت بڑا پتھر سمجھتے ہیں شہاب الدین نے ایک ہی سانس میں تمام فقرے کہہ دئیے اور جب اس کا سانس ‏بند ہونے لگا تو ایک لمحے کے لیے رُکا اور ہوا کو اپنے پھپھڑوں میں پوری طرح سے بھر لیا اور پھر دوبارہ کہنا شروع کیا۔
جب تک نیکی اور گناہ کے کچھ ایسے تصورات جو آج کی جدید دنیا کی ترقی کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے ہم ان کو خیر باد نہیں کہتے ہم اس دنیا کی بہت ‏سی سمجھ نہ آنے والی باتوں میں الجھے رہیں گے ۔
ارسطو کا ایک شاگرد فیڈرس ایک بار ارسطو سے مکالمہ کے دوران کہتا ہے کہ ماضی نے ہمیں بہت سی زریں روایات و اقدار سونپی ہیں ہمیں چاہیے ‏کہ ان کی قدر کریں تو ارسطو نے اس کو جواب دیتے ہوئے کہا تھا ۔
‏ ماضی کی تمام روایات زریں نہیں ہوتیں ان روایات کے کچھ اجزا ایسے بھی ہوتے ہیں جن پر نظر ثانی کی ضرورت ہوتی ہے اور ان روایات میں سے ‏بہت سی موجودہ عہد کے لئے ابھی تک ادھوری اور نامکمل ہیں جن کی تکمیل کرنا بہت ضروری ہے۔
‏ میں کہتا ہوں جب تک غیر ضروری روایات اپنے فرسودہ خیالات کے ساتھ مشرقی اقوام پر غالب رہیں گی مغرب تیزی کے ساتھ مشرق کو جدید ‏ترقی کے معاملہ میں پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھتا رہے گا اس طرح پس ماندہ ممالک مغرب سےترقی کی دوڑ میں آگے نہیں نکل سکیں گے ہمیں مقَدس ‏کتب کو دوبارہ پڑھ کر ان میں لکھے ایک ایک لفظ پر غور کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے ایک وسیع نظر اور اُجلے من کے علاوہ ہر قسم کے ‏تعصب سے پاک دل و دماغ کی ضرورت ہے۔
‏ یوسف نے نرمل سنگھ کی تائید کرتے ہوئے کہا۔
‏ میں بھی یہی کہنے والا تھا ہم موجودہ دور کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال سکتے ہیں کائنات کے اوراق پلٹ کر دیکھیں جہاں ان گنت اسرار و رموز ‏کائنات بنانے والے نے رکھ چھوڑے ہیں تاکہ تلاش کا سفر جاری و ساری رہے اور انسان اپنے لئے نئی اشیاء ڈھونڈتا رہے اور زمین وآسمان میں ‏پنہاں اسرار سے پردہ اٹھاتا رہے اور یوں تا قیامت کاروبار ِ زندگی رواں دواں رہےاور انسان گُم شدہ اسرار میں سےاپنی ہستی کو پانے کی جستجو میں ‏مگن رہے ۔
نرمل سنگھ نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کے ناخنوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا مجھے کیوں بنایا گیا ہے؟ میرے وجود کا مقصد کیا ہے ؟،میں کیوں سوچتا ہوں ‏؟،
‏ میں کون ہوں تم کون ہو ؟۔ ‏
کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جائیں گے یہ نہ میں جانتاہوں نہ تم جانتے ہو بس آگے چلتے رہنا ہی اصول زندگی ہے اپنی نسل کو قائم رکھنا ہے انسان کو ‏اس کائنات سے کبھی بھی معدوم نہیں ہونا چاہئے ۔
میں اپنی مخالف جنس کے پاس صرف اس لیے جاتا ہوں کہ انسانی نسل کی بقا اس میں ہے میں خوراک کی تلاش میں اس لیے دربدر ہوتا ہوں کہ ‏میں زندہ رہ سکوں مگر کس کے لیے ، اگر روئے زمین پر سے حیات ختم ہو جائے گی تو کیا ہو گا اس کائنات کی کہکشاں میں لاتعداد سیارے اور ستارے ‏ہیں کیا ان پر اس کا کوئی اثر پڑے گا میں اکثر سوچتا ہوں کائنات کیا ہے یہ صرف مٹی ہے یا اس سے بھی عمدہ کوئی چیز ابھی تک اس میں پنہاں ہے ۔‏
‏ وہ بولتا جا رہا تھا کہ اس اثناً میں راہول ان کے قریب آیا اور کچھ دیر اپنے باپ کی باتیں سُنتا رہا پھر بولا مجھے ماما جی نے یہ کہہ کر بھیجا ہے کہ آپ کھانا کھا ‏لیں نہیں تو آج گھر واپسی پر کچھ بھی نہیں ملے گا، یا پھر آپکو گھر جا کر کھانا خود بنانا پڑے گا اس لئے بہتر ہے پہلے پیٹ پوچا ورنہ آج کی رات کہیں آپکو ‏بھوکا ہی نہ سونا پڑے ۔
ٹھیک ہے بیٹا جی اپنی ماما جی سے کہو میں فوراً آپ کے حکم کی تعمیل کرتا ہوں۔
‏ اور پھر تینوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور اپنا اپنا وہسکی والا گلاس اپنے ہاتھوں میں لے کر کھانے کی مختلف ڈشوں سے سجی میز کی طرف ‏چل پڑے جہاں پر سب لوگ کھانے میں مصروف تھے ایسے لگ رہا تھا جیسے لوگ جدید روبوٹ کی طرح خود کار طریقہ سے کھانا میں مصروف ہیں ‏اور اپنے بچوں کو بھی زبردستی کھلا رہے ہیں یوں لگ رہا تھا جیسے کل سے مذہبی روایت کے مطابق روزے شروع ہو رہے ہیں اور کھانا نایاب ہونے ‏والا ہے۔
ایک ماں اپنے بیٹے سے یہ کہہ رہی تھی بریانی بھی کھاؤ ورنہ کل سے کھیلوں والے چاند پارک میں جانا تمہارا بند کر دوں گی ، اس طرح کی شرائط پر بچے ‏بھی کھا رہے تھے ایسا لگ رہا تھا کہ شہر میں کل سے دعوت اور کھانے پر پابندی لگ جائے گی یا یوں محسوس ہو رہا تھا کہ یہ تمام لوگ ایک عرصہ کے ‏بعداس طرح کا عمدہ کھانا کھا رہے ہیں ہر شخص کھانا جلدی ختم کرنے کے موڈ میں تھا اور ہرشخص چاہتا تھا کہ جتنی زیادہ مقدار میں کھا سکتا ہےوہ کھا ‏کر پیٹ کو اچھی طرح سے بھر لے سب لوگ تیزی کے ساتھ اپنے ہاتھوں کو حرکت دے رہے تھے اس کے ساتھ ساتھ اپنا منہ بھی بجلی سے چلنے ‏والی مشین کی طرح چلا رہے تھے۔
امینہ کماری نے نرمل سنگھ کو دیکھتے ہی ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف متوجہ کیا اور کہا کہ ادھر ہی چلے آئیں میں نے آپ کے لیے جگہ روک رکھی ‏ہوئی ہے۔
یہ ایک چھوٹا ہال نما کمرہ تھا جس میں پچاس سے زیادہ لوگ کھانے اور مذہبی و ثقافتی تقریبات کے لیے سما سکتے تھے آج مولوی نظام دین اور یوسف ‏نے چھوٹی میزیں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر ایک لمبی شکل کی میز بنا لی تھی جس کے دونوں اطراف کرسیوں پر بیٹھ کر لوگ بڑی آسانی کے ‏ساتھ کھانے میں مصروف تھے یوسف اپنی بیگم نور جہاں کے ساتھ والی کرسی پر براجمان ہو گیا اور نرمل سنگھ اپنی دھرم پتنی امینہ کماری کی ساتھ والی ‏خالی کرسی پر بیٹھ گیا ان کے ساتھ مولوی نظام دین اور ماریا گمریتی اور اس سے آگے والی کرسیوں پر بیٹھے پاسٹر ڈیوڈسلیم اپنی بیگم کے ساتھ کھانے ‏میں مصروف تھے۔
نرمل سنگھ نے گلاس منہ سے لگایا اور وہسکی کا آخری گھونٹ حلق سے نیچے اُتارنے کے بعد اپنے دائیں جانب نظرکی تو وہاں پر سامنے کی کرسیوں پر ‏بیٹھے ان دونوں نوجوانو کو بھی دیکھ لیا جو اس کے لئے اجنبی تھے اس نے فوراً سوالیہ نگاہوں سے پہلے مولوی نظام دین کی طرف دیکھا اور پھر شہاب ‏الدین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ یہ دونوں وہی نوجوان ہیں جن کو آپ پچھلے ہفتہ میلان ائیر پورٹ پر پروٹوکول دینے کے لیے گئے ‏تھے۔
جی جی پروفیسر صاحب اور اپنا گلاس منہ سے لگا کرشہاب الدین نے بھی آخری گھونٹ اسکاچ کا حلق سے نیچے اُتارتے ہوئے کہا کھانے کے بعد آپ ‏کی تفصیلی ملاقات ان نوجونوں سےکرواتے ہیں اور اپنی خالی پلیٹ اُٹھا کر اس میز کی طرف چلا گیا جہاں کھانا ترتیب سے چُنا گیا تھا ۔
جب شہاب الدین واپس اپنی جگہ پر آ کر بیٹھ گیا تو امینہ کماری نے پروفیسر نرمل سنگھ سے مخاطب ہو کر کہا ۔
اے جی آپ خود پلیٹ میں کھانا ڈال کر لائیں گے یا میں آپ کے لئے لے کر آؤں۔
‏ پروفیسر نرمل سنگھ نے بڑے ادب کے ساتھ کھڑے ہو کر اور تھوڑا سا امینہ کماری کی طرف جھک کر جواب دیا حضور اقدس بہت شکریہ ، میں خود ‏لے کر آ سکتا ہوں ابھی تو میں جوان ہوں اور اُٹھ کر کھانا لینے چلا گیا ۔
وہ ابھی تک کافی مضبوط شخص تھا تین پیک وہسکی کے پینے کے باوجود وہ بالکل صحیح چل رہا تھا نہ بہکی باتیں اور نہ ہی قدموں میں لڑکھڑاہٹ تھی یوں ‏محسوس ہوتا تھا کہ اس نے وہسکی کی بجائے انگور کے جُوس کے پیک لگائے ہوں ۔ ‏
‏ شہاب الدین کھانا ختم کرتے ہی دونوں نوجوانو کے ساتھ سیدھا اس جگہ پر آ گیا جہاں پر صوفے رکھے ہوئے تھے اور کچھ لوگ وہاں پر بیٹھ کر پہلے ہی ‏بات چیت میں مصروف تھے۔
‏ شہاب الدین کیمونٹی کے افراد کا تعارف کراتے ہوئے دونوں نوجوانو کو بتا رہا تھا اٹلی کے اس خوشحال اور پُرسکون چھوٹے سے شہر میں ہم ہمیشہ ایک ‏دوسرے کی مدد کرنے کو تیار رہتے ہیں اور خاص طور پر گرمی کے موسم میں اس طرح کے اجتماع ہم ایک ماہ میں دو سے تین مرتبہ ضرور کر لیتے ہیں ‏اور اگر موسم یعنی دھوپ ہو تو ایک ماہ میں چار بار بھی ہم لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اور ہر بار کھانے کے علاوہ گپ شپ بھی چلتی ہے دنیا جہاں کے ‏موضوعات پر تبادلہ خیال ہوتا ہے اور کبھی کبھار ہلکا پھلکا مشاعرہ اور گیت سنگیت کا پروگرام بھی ہم کرتے ہیں۔
‏ سارے لوگ خود کو پردیسی بھی سمجھتے ہیں اور خود کو یہاں کے مستقل رہائشی بھی کہتے ہیں اور اپنی مادری زبانوں کے علاوہ اردو ، پنجابی، ہندی ، اطالوی ‏اور انگریزی زبان میں بات چیت کی کوشش کرتے ہیں۔
‏ ابھی وہ ان کو کیمونٹی کے اندر رواج پانے والی کچھ معلومات دے رہا تھا کہ امینہ کماری ایک ٹرے میں وہسکی کی بوتل اور کچھ جُوسسز کےساتھ پانی اور ‏برف کی ڈلیوں سے بھرے ہوئے ٹرے اٹھائے نرمل سنگھ کے ساتھ آ گئی اور ایک چھوٹے میز پر یہ سب کچھ رکھنے کے بعد دوسری طرف آرام کے ‏ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی ۔ ‏
شہاب الدین نے نرمل سنگھ خاندان کا مختصر تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے پروفیسر ہیں شہر کے میڈیکل کالج میں پڑھاتے ہیں یہ دانشور اور ‏شاعر و ادیب بھی ہیں دونوں نوجوان ہر بات بڑے دھیان سے سُن رہے تھے۔
شہاب نے پھر کہا کہ ہماری کمیونٹی میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی ہیں جو مختلف پیشوں سے تعلق رکھتے ہیں مگر ان سب افراد ‏میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ سب لوگ ایک ہی علاقے کی تہذیب و ثقافت سے تعلق رکھتے ہیں اور اردو ، ہندی ، پنجابی ، انگریزی اور ‏اطالوی زبان کو بطور ذریعہ اظہار اور رابطہ استعمال کرتے ہیں اور سب سے عمدہ صفت ان میں یہ ہے ایک طرح کے کھانے ، لباس اور رسم ورواج کو ‏قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور پسند کرتے ہیں۔
مولوی نظام دین نے دونوں نوجوانو کے کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اور جب غصہ میں ہوں اور زبانی کلامی لڑائی چل رہی ہو تو چاہے سامنے والا ‏مقامی اٹلین ہی کیوں نہ ہو گالیاں اپنی مادری زبان میں ہی دیتے ہیں اور خود ہی زور سے ہنسنے لگا قریب کھڑے کچھ لوگوں نے اس کے ہنسنے میں ساتھ ‏دینے کی کوشش کی ۔
یوسف جو ابھی تک خاموشی سے سب کو سُن رہا تھا شہاب الدین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا مگر بولنے سے پہلے اس نے اپنا داہنا ہاتھ سینے پر ‏رکھا اور خالی پلیٹ میز پر رکھ دی۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم باقی دنیا سے نفرت کرتے ہیں دراصل دنیا کے نظام کی ترتیب اور بناوٹ ہی کچھ اس طرح کی ہے کہ جوجہا ں پیدا ‏ہوتا ہے وہی اس کا آبائی اورپہلا گھر کہلاتا ہے میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں پیدا ہونے والے بچے کے پاس انتخاب کی کوئی گنجائش نہیں ‏ہوتی کہ وہ کسی بھی چیز کو اپنی پسند اور مرضی کے مطابق منتخب کر سکے وہ مکمل طور پر اپنے ماں باپ کی مرضی کا پاپند ہوتا ہے جس مذہب میں جنم لیا ‏اسی مذہب کے عقائد اور مذہبی رسم ورواج اس کے پیدا ہونےپر اس معاشرے میں ادا کی جاتی ہیں اور وہی اس کا دین و ایمان بھی ہوتا ہے جو اس ‏کے ماں باپ کا ہوتا ہے۔
‏ اگر وہ کسی غریب کے گھر پیدا ہوا تو وہ بھی غریب ہوا اگر امیر کے گھرپیدا ہوا تو وہ امیر ٹھہرا۔ دراصل ہوتا یہ ہے کہ قطار میں کھڑی ہر روح کی جس ‏وقت اس دنیا میں آنے کی باری آتی ہے اس کے حصَہ میں وہی ماں باپ ، گھر اور جائیداد ، امیری و غربت، شہرت اور رسوائی ، مذہب اورمعاشرہ ‏آتے ہیں جو کچھ اس معاشرے میں موجود ہوتا ہے اور جہاں وہ رہتے ہیں اس میں اس کا بھی حصَہ ہوتا ہے یہی ہماری اس دنیا کے اصول و ضوابط ‏میں شامل ہے۔ ‏
جب بچہ بڑا ہو جاتا ہے تو اس کو اپنا دھرم اور اپنی جائے پیدائش یعنی شہر اور ملک بدلنے کے لیے بہت جتن کرنے پڑتے ہیں اس کو ہزار بارسوچنا ‏پڑتا ہے نئی جگہ پر نئے رشتے بنانے پڑتے ہیں اور پرانے رشتوں کو خیر باد کہنا پڑتا ہے نئے دوست ڈھونڈنے کے لیے جتن کرنے ہوتے ہیں نئے ‏تعلقات اور رشتے استوار کرنے ہوتے ہیں تاکہ ایک اجنبی ماحول اور لوگوں میں جگہ بنائی جا سکے وہاں کی رسم و رواج میں اپنی شمولیت کا ثبوت دے ‏کر ، وہاں کی زبان اور ثقافت کا لبادہ پہن کر زندگی کے ایک ہی رفتار سے بہتے دھارے میں شامل ہو کر زندہ رہنے کا ڈھنگ سیکھنا پڑتا ہے اسی کو ہم ‏مقدر یا قسمت بھی کہتے ہیں اور ہم اسی پر اکتفا کر رہے ہیں ۔
میری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا کہ ایسا کیوں ہے جبکہ ہم لوگ کہتے ہیں کہ بچہ آزاد پیدا ہوتا ہے مگرسب سے پہلے ہم اسے ماں باپ کے مذہب کا پاپند ‏کرتے ہیں اس کے کان میں اذان دے کر یا گرجا گھر میں بپتسمہ دے کر،اور پھر اسے ایک نام دے کراس کو شناخت دینے کی کوشش کرتے ہیں اور ‏اس کے بعد اس کو مذہب کالبادہ اوڑھ دیتے ہیں ۔
اس پر مستزاد یہ کہ اٹھارہ سال تک اسے اپنی مرضی سے کسی کام کی اجازت نہیں ہوتی وہ ماں باپ پر منحصر ہوتا ہے کہ اسے کیا کھاناہے اور کیا لباس ‏زیب تن کرنا ہے کس عقیدہ پر قائم رہنا ہے۔
‏ شہاب الدین نے یوسف کی بات بڑے دھیان سے سننے کے دوران اپنے خالی گلاس میں اسکاچ وہسکی ڈالنی شروع کی اور دونوں لڑکوں کی طرف ‏دیکھتے ہوئے کہا آپ نے تو ابھی تک وہسکی اور مے پینی شروع نہیں کی ہو گی ، کیا پاکستان میں شراب آجکل دستیاب نہیں ہے وہاں پر مذہب شراب ‏پینے کی اجازت نہیں دیتا ہے مگر لوگ چوری چھپے پی لیتے ہیں میرے خیال میں تو یورپ کے سرد موسم میں اس کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ‏
‏ اکبر الدین نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا جی پاکستان میں پابندی کے باوجود بھی شراب عام ملتی ہے لیکن وہاں لوگ زیادہ تر شراب پر پابندی کی وجہ ‏سے شراب نہیں پیتی کیونکہ وہاں کا موسم بہت گرم ہوتا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ وہاں شراب مہنگی بہت ملتی ہے اس کے برعکس یورپ میں ‏شراب پر کوئی پابندی نہیں ہے اور لوگوں کی اکثریت شراب نوشی کرتی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ شراب اور مے کے دام عام دوسری اشیا کی ‏طرح ہیں جو ہر شہری کی پہنچ میں ہیں۔ ‏
کرسٹوفر نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا جناب میں نے فلائٹ کے دوارن جہاز میں وہسکی پینے کا تجربہ کر لیا ہے اتنی بھی بُری چیز نہیں ہے بس ‏کچھ لوگوں نے نہ جانے اس کو اتنا بُرا بنا کرکیوں پیش کیا ہے میں نے تو یہاں تک پڑھا ہے کہ دنیا کے تقریبا تمام عظیم شعرا بھی اس کا استعمال کرتے ‏تھے اور بعض تو نشے کے عادی تھے اور نشہ کرنے کے باوجود انہوں نے ادب میں شہکار تخلیق کیے۔ ‏
میں نے اردو ادب کا کالج کی لائبریری میں موجود کتب کے علاوہ گھر میں بھی بہت ساری کتب کا مطالعہ کیا ہے میں نے گھر میں سٹور روم کے ایک ‏کونے میں چھوٹی سی لائبریری بنائی ہوئی تھی جہاں اکثر میں شاعری کا مطالعہ کرتا تھا اب دیکھیں ساغر صدیقی بہت عمدہ شعر کہنے والا ، غربت کا مارا ‏شاعر اپنے پالتو کتے کے ساتھ فٹ پاتھ پر سویا کرتا تھا اور آنے جانے والے سے چونی ( پچیس پیسے کا سکہ) مانگ کر اس چونی سے چرس خرید کر ‏سگریٹ میں بھر کر پیتا تھا ایک صبح اسی فٹ پاتھ پر اسے مردہ پایا گیا اور اسی جگہ ایک سال بعد اس کا پالتو کتا بھی مردہ پایا گیا میرے خیال میں وہ اردو ‏شاعری میں بہت بڑا شاعر تھا۔
‏ وہ کہتے ہیں۔ ‏
میں تلخی حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا
دنیائے حادثات ہے اک دردناک گیت
دنیائے حادثات سے گھبرا کے پی گیا

اصغر دیوانہ جو بہت دیر سے خاموشی کے ساتھ سب کو دیکھ اور سُن رہا تھا اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا واہ واہ کیا اعلی خیال پر مبنی اشعار ہیں سب ‏لوگ بلا تعصب داد دے رہے تھے ۔
اصغر دیوانے نے بے چینی سے کہا اس بات پر مجھے بھی یاد آیا ۔
وہ ہمارے فیض احمد فیض صاحب مجھے بہت پسند ہیں ان کو پڑھو گے تو ان کی شاعری میں بھی آپ کو شراب کا بہت ذکر ملے گا وہ اس لئے تھا کہ وہ ‏سگریٹ اور شراب کے عادی تھے۔
گل کھلے ہیں نہ ان سے ملے نہ مے پی ہے ‏
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے ‏
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے ‏‎
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے ‏‎

اور پھر دیکھیں غالب نے یہ شعر کہا تھا۔
کہاں مے خانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ‎
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے‎
‎ ‎۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں ‏‎
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن ‏‎
‎ ‎۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوسف جو اسی لمحے کا انتظار کر رہا تھا کہ کب اس کی باری آئے اس نے چند لمحوں کا وقفہ دیکھ کر اپنے علم کی دھاک بٹھانے کے لئے اپنا دائیں ہاتھ سر ‏سے اوپر بلند کرتے ہوئے اجازت چاہی اور بلند آواز میں کہا میری طرف بھی دھیان دیں حضرات ۔
حضرات شاعری اور اس کے تخلیق کرنے والے شعرا ءکے بارے میں بھی کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں اگر آپ سب کی اجازت ہو ۔
میں نےژاں پال سارتر، جان کیٹس،ایڈگر ایلن پو،ولیم فاکنر، سموئیل ٹیلرکولرج ، کے علاوہ اردو زبان کے شعراء میں سے غالب ،علامہ اقبال، اور ‏فیض کا نسلی، مذہبی اور نظریاتی تعصب کے بغیرمطالعہ کیا ہے میں جس وقت جان کیٹس کی سرگذشت اور شاعری کا مطالعہ کر رہا تھا تو یہ جان کر بہت ‏دکھ ہوا کہ جان کیٹس صرف چھبیس سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو گیا تھا فوت ہونے سے پہلے وہ اتنا مقبول نہیں تھا اس کی وجہ اس کا کلام ‏عام قاری تک نہیں پہنچا تھا اس کے مرنے کے بعد جب عام لوگوں نے اس کا کلام پڑھا اور تنقید نگاروں نے اس کی شاعری کی جانچ پڑتال کی تو وہ ‏ایک رومانوی شاعر کے طور پر سامنے آیا اور پھر وہ انیسویں صدی کے آخر میں عظیم رومانوی شعرا ءکی صف میں شامل ہو گیا تھا پھر جب وہ ایک ‏مہلک بیماری کا شکار ہونے کے بعد علاج کی غرض سے اٹلی کے شہر روم میں پہنچا اور اپنے مرنے سے پہلے اس نے ایک درخواست کی کہ میری قبر پر ‏میرا نام نہ لکھا جائے بلکہ صرف یہ الفاظ لکھے جائیں کہ یہ وہ شخص ہے جس کا نام پانی پر لکھا گیا تھا۔
‏ پہلے میں سوچتا رہا کہ وہ ایک امیر شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نرم و نازک اور ناز و نخرے کی عادی شخصیت ہو گی مگر یہ بھید بھی مجھ پر کھلا ،وہ ‏افیون کا عادی تھا اور محبت کی دنیا میں رہنے والا ایک عظیم رومانوی شاعر تھا ۔ ‏
‏ تو میں کہہ رہا تھا کہ اسے پڑھنے کے بعد میں اس کی زندگی اور شاعری سے اتنا متاثر ہوا کہ میں نے بھی شاعری کرنے کی کوشش شروع کر دی اور ‏لفظوں سے پیار کرنا شروع کیا ان کو ترتیب سے لکھنے کی کوشش کی مگر جس دوست کو بھی میں اپنے شعر سناتا کوئی اسے تک بندی کہتا کوئی سن کر ‏مسکراتا اور میرا مذاق اڑاتا ۔
بہت سے لوگ خود شاعرنہ ہونے کے باوجود میرے اشعار کو علم عروض کے میزان پر رکھ کر تولنے کی کوشش کرتے اور کچھ دوستوں نے تو حد ہی ‏کر دی وہ کسی بڑے شاعر کی غزل یا گیت کی لے پر میرے مصرعے گنگنانے کی کوشش کرتے جب اس دھن یا لے پر پوری طرح سے فٹ نہ ہوتے ‏تو کہتے جناب یوسف صاحب شعر بے وزن ہے اس کی تو کوئی بحر ہی نہیں ہے اس میں تو خیال ہی نہیں ہے اس میں خیال اور تخیل کو اپ نبھا نہیں ‏سکے ہیں حالانکہ بڑے شاعر کی غزل یا گیت کی بحر میرے اشعار سے فرق ہوتی تھی یوں ہر کوئی اپنے آپ کو شاعری کا نقاد سمجھتے ہوئے میرے اشعار ‏میں سے نقائص ڈھونڈنا اپنا فرض اولین سمجھ لیتا تھا اور کچھ نے تو حوصلہ افزائی کی بجائے مشورہ دیا کہ شاعری کرنے کی بجائے دفتر میں اوور ٹائم کام ‏کیا کرو ،اس سے مالی فائدہ ہو گا شاعری تو وقت اور سوچ کا ضائع ہے مگر میں الفاظ سے بغل گیر ہوتا رہا انھیں قطار میں بٹھانا سکھاتا رہا اور ان سے پیار ‏کرتا رہا اس کے لئے میں نے بئیر پینی شروع کر دی اور پھر آہستہ آہستہ وہسکی بھی اب پیتا ہوں اور شعروں سے پیار بھی کرتا ہوں اور اب الفاظ کو ‏خیال کی لڑی میں بھی پرونا سیکھ گیا ہوں مگر جان کیٹس کی طرح نہیں بن سکا ۔ ‏
‏ حالانکہ جب سے انسان نے اس زمین پر جنم لیا ہے بے شمار ایجادات کیں جن میں شراب بھی شامل ہے اور اس کے استعمال کے اصول بھی واضح ‏کیے ہیں بلکہ آج کےجدید دور میں انسانی بیماریوں کی تشخصی کرنے والی دوائی میں بھی اس کا استعمال ایک عام سے بات ہے۔‏
اصغر دیوانہ نے یوسف کی بات کے درمیان میں ہی کہا اپنا کوئی شعر عطا کیجیے۔
یوسف نے یہ کہتے ہوئے جی ضرور کیوں نہیں میں اپنی غزل کے دو عدد اشعار آپ سب کی سماعتوں کی نذر کرتا ہوں، عرض کیا ہے۔
مرے دکھ کی ملی دوا مے کدے میں‎
آ اک جام تُو بھی لگا مے کدے میں‎
مری عاقبت اچھی ہے سن لے زاہد‎
زیادہ نہ باتیں سنا مے کدے میں‎
‎ ‎٭٭٭
دیکھو پاپا یہ جو راہول ہے نا میرے ساتھ کام نہیں کروا رہا ہے کرن نے گفتگو میں حائل ہوتے ہوئے پاسٹر ڈیوڈ سلیم کے پاس آ کر کہا۔
بیٹا کرن تم کیا کام کر رہی تھی جو راہول تمہارے ساتھ نہیں کروا رہا تھا پاسٹر ڈیوڈ سلیم نے اپنی بیٹی کا ماتھا چومتے ہوئے کہا۔
پاپا ہمارے ذمہ یہ کام ہے کہ کھانے کمرے سے تمام گندے برتن جمع کر کے باروچی خانے میں لے جا کر دھونے کے لئے رکھنے ہیں مگر راہول کہتا ‏ہے کہ میں نے اپنے حصَہ کے برتن اُٹھا کر باروچی خانے میں رکھ دیئے ہیں اب میں تمہارے حصَہ کا کام نہیں کروں گا یہ کیا بات ہوئی ہم دونوں ‏دوست ہیں ایک سکول میں پڑھتے ہیں ایک ہی جماعت میں ہیں پھر یہ کیوں میری مدد نہیں کرتا اسے آپ کہیں کہ وہ میرے حصَہ کا کام بھی کرے۔
ابھی کرن یہ کہہ ہی رہی تھی کہ اکبر اپنی جگہ پر سے کھڑا ہو گیا اور بولا کرن میں تمہارے بڑے بھائی کی طرح ہوں مجھے بتاو کیا کرنا ہے ہم تمہاری ‏مدد کریں گے اور وہ کرسٹوفر کو لے کر راہول اور کرن کے ساتھ کھانے کمرے کی طرف چلے گئے۔
شہاب نے گلاس میں سے ایک گھونٹ وہسکی کا حلق میں اتارنے کے بعد کہنا شروع کیا آج کے دن میری کہانی سنانے کا ناغہ ہے اس لیے آج عام ‏گفتگو ہو گی ، اور اپنے گلاس میں اسکاچ وہسکی پھر سے بھرنے لگا ااور پاس بیٹھے ہوئے دوستوں سے پوچھا۔
‏ ویسے آپ سب کی رائے کیا ہے ان دونوں لڑکوں کے بارے میں کہ انہوں نے اتنی جلدی اپنے ماں باپ اور دوست احباب کو خیر باد کہہ دیا اور ‏اتنی دُور چلے آئے ہیں اب نہ جانے کب ان کے کاغذات اس ملک میں مستقل رہنے کے لیے مکمل ہوں گے۔ اگر تو ان کی فرضی کہانی جس میں وہ ‏اپنے اوپر ہونے والے تشدد کا ذکر کریں گے اور اسے مختلف ثبوت کے ساتھ پیش کریں گے یعنی اگر ان کے کیس میں جان ہوئی تو ان کا مقدمہ آگے ‏بڑھے گا۔
‏ مولوی نظام دین نے حسب معمول نہایت عالمانہ انداز میں کہا اگر یہ جھوٹ اس انداز سے لکھیں اور بولیں گے کہ وہ یہاں کی عدالت کو سچ لگا تو ان ‏کی تمام زندگی یہاں پر بسر ہو جائے گی اگر یہ اپنے جھوٹے مقدمے کو سچ ثابت کرنے میں کامیاب رہے تو ان کے ماں باپ اور رشتے داروں کے ‏خوشحالی کے سارے خواب ضرور پورے ہو جائیں گے۔
لیکن مجھے یقین نہیں ہے کہ ان نوجوانو کی اپنی ذاتی اُمنگیں اور خواہشات پوری بھی ہوں گی یا ان کا اس اجنبی معاشرے میں دم گھٹ جائے گا یا پھر ‏اُنھیں اپنے پیاروں کے لیے اپنی ذاتی اُمنگیں اور خواہشات کی قربانی دینی پڑے گی۔
‏ مگر شہاب الدین نے شیشہ کا گلاس اپنے دونوں ہاتھوں میں اس انداز سے دبایا جیسے اسے ابھی زور لگا کر توڑ دے گا اور کچھ زیادہ ہی دھیمے لہجے میں ‏سب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔
‏ او میرے بھائیو اگر وہ اس عمر میں گھر سے بے گھر نہ ہوتے تو کیا آخری عمر میں گھر سے نکلتے جب جسمانی طور پر کمزور ہو چکے ہوتےآپ سب کو ‏معلوم ہے آپ کا تجربہ ہے کہ یہاں پر کام کی عادت ڈالنی پڑتی ہے یہاں پر خون جما دینے والی سردی میں، کسی ضروری کام کے بغیر گلیوں میں بے ‏کار چکر نہیں لگائے جاتے ، کام کریں گے تو ٹیکس ادا ہو گا پھر یہاں کی حکومت آپ کو سہولیات بھی دیتی ہے کتنی دیر وہ ریڈ کراس کے صاف ‏ستھرے اور خوشبو دار بستر پر اکیلے سوئیں گے اور کب تک مفت کی روٹیاں توڑئیں گے ابھی سے پیسہ کمائیں گے تو گھر والوں کو سکھ چین دیں گے۔
شہاب الدین نے پھر کہا کہ ان کے حق میں یہ بہت اچھا ہوا ہے کہ مڈل ایسٹ کے کسی ملک میں نہیں گئے ورنہ ساری عمر وہاں پر کولہے کے بیل کی ‏مانند کام کرتے مگر اس ملک کی شہریت حاصل نہیں کر سکتے تھے نہ جائیداد خرید سکتے تھے اور نہ ہی کسی مقامی لڑکی سے بیاہ کر سکتے تھے ۔‏
‏ وہ کیوں جناب عالی ! یہ کیا بات ہوئی اگرچہ وہ بھی مسلم ممالک ہیں تو ایک مسلم کو مسلم لڑکی سے شادی کی اجازت ضرور ہونی چاہیئے جب یورپین ‏ممالک سے غیر مسلم دلہن بنا کر لا سکتے ہیں تو مڈل ایسٹ سے بھی دلہن لے کر جانے کی اجازت ہونی چاہیئے کم از کم مسلم ممالک کے ساتھ تو یہ معاہدہ ‏ہوہی سکتا ہے یہ کیسا قانون اور کہاں کا انصاف ہے۔‏
مولوی نظام دین نے اپنا جوس کا خالی گلاس میز پر رکھتے ہوئے کہا ہو سکتا ہے یہ ان کا نسلی امتیاز کا رویہ ہو اور پھر ہر ملک اور علاقے کا آئین اس کی ‏اجازت نہیں دیتا کہ ہر غیر ملکی دوسرے ملک جا کر جب چاہے جائیداد خرید سکتا ہے اور نہ ہی وہاں کی مقامی لڑکی سے محبت کی شادی یا پھر والدین کی ‏طے کردہ شرائط کے مطابق شادی کر سکتا ہے اور نہ ہی جائیداد کی خرید و فروخت یا اس طرح کا کاروبار کر سکتا ہے ۔ میں اسی لیے سعودی عرب سے ‏یورپ کے اس قدیم ملک اٹلی آ گیا تھا کہ ایک نئی زندگی کی شروعات کروں میں نے محنت کی میں نے یہاں پر شادی اپنی پسند کی لڑکی سے کی۔‏
‏ دراصل جب ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا تو یہ پہلی ملاقات کی محبت تھی اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ مجھے اُس وقت اس ملک میں رہنے کے لئے ‏دستاویز کی ضرورت تھی ، بلکہ میں آزاد اکیلا رہنا پسند نہیں کرتا تھا میں کسی کی محبت میں گرفتار ہو کر عمر قید ہونا چاہتا تھا ۔
‏ لہذا میں اب ایک خوشحال اور پرسکون زندگی بسر کر رہا ہوں میں اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ نہایت خوش و خرم ہوں میرا اپنا ذاتی گھر ہے جس میں ‏آپ سب آج جمع ہیں مولوی نظام دین نے پہلو بدلتے ہوئے ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ دیا ۔
‏ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ نظام دین نے اپنی زندگی کی روداد اس طرح مختصر الفاظ میں سنائی ہو۔ تقریباً ہر محفل میں اسے یہ سچی کہانی سنانی پڑتی تھی ‏کبھی کبھی تو لوگ اس سے استفسار کر کے پوچھتے کہ آپ اس مقام پر کیسے پہنچے ہیں اور ہر جگہ پر وہ فخر کے ساتھ یہ کہانی سناتا ۔
وہ اپنی بیٹی اور بیگم کا تعارف کرانے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتا تھا اب وہ اپنے ذہن سے جہاد جیسے لفظ کے ساتھ وابستہ سارے لڑائی ‏جھگڑے اور قتل و غارت کے علاوہ فرقہ واریت اور مذہبی تعصب اور مذہب کی بنیاد پر قتل و غارت جیسی چیزیں اپنے ذہن سے باہر پھینک چکا تھا ۔
اب وہ صرف محبت اور امن و انصاف کا پرچار کرتا تھا وہ انسانی فلاح وہ بہبود کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ جس مسجد میں ‏امام مسجد تھا وہاں شعیہ ، سُنی ، حنفی اور وہابی بھی ایک جگہ پر ایک دوسرے کے آگے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تھے اب وہ خطبہ میں زور خطابت ‏پر زیادہ دھیان نہیں دیتا تھا بلکہ موضوع اور الفاظ کے چناؤ پر توجہ مرکوز کرتا تھا اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ بہت ساری کتب کا مطالعہ کرتا تھا ۔
وہ وٹیکن کی طرز پر غیر سیاسی اور غیر فرقہ کے خطبہ اور عبادت کا نظام چاہتا تھا تاکہ مذہب اور سیاست میں کچھ فاصلہ رکھا جائے پورے دنیا میں ‏ایک جگہ سے جمعہ کی نماز کا خطبہ اور ہدایات جاری ہوں جیسے اٹلی کے ہر گرجہ گھر میں اتوار کی عبادت کا تیار شدہ پمفلٹ وٹیکن سٹی سے جاری ہوتا ‏ہے جو بائبل کے مطابق منتخب کیا جاتا ہے اور اس پر پوری دنیا میں عمل ہوتا ہے اس کے مطابق ہی ہولی ماس میں اس میں درج موضوعات پر ہی ‏راہب خطبہ دیتے ہیں ۔ ‏
پاسٹر سلیم جو زیادہ کھانے کے بعد غنودگی کی کیفیت میں تھا مگر تمام گفتگو سُن رہا تھا اور اپنے دماغ میں کچھ سوچ بھی رہا تھا ایک دم پہلو بدل کر بولا ۔
میرے بھائی بائبل میں لکھا ہے کہ جس کسی شہر میں تم داخل ہو اور اگر اس شہر کے لوگ تمہیں قبول نہ کریں تو اس شہر کے چوکوں پر جا کر کہو کہ ‏ہم اس شہر کی گرد کو بھی جو تمہارا شہر سے ہمارے پاؤں پر پڑی ہے شہر کے دروازے پر جھاڑ دیتے ہیں ۔ ‏
یہ جو ہجرت ہے اس کا عمل انسان کے زمین پر وجود میں آنے کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا نبیوں اور پیغمبروں نے ہجرت کی ،کبھی اپنے لوگوں کی ‏طرف سے اذیت ملنے کی وجہ سے اور کبھی اپنے مخالفین کے سبب اور کبھی حاکم وقت کی وجہ سے کہ حاکم کو یہ خطرہ لاحق ہوگیا کہ اس نبی یا پیغمبر کی ‏عوام میں اتنی مقبولیت ہے کہ اس نے اپنی بادشاہت یا اپنی حکومت کے لیے اسکو خطرہ سمجھتے ہوئے ملک سے زبردستی جلاوطن کر دیا یا پھر خود ہی نبی ‏یا پیغمبر کو اپنے حالات سے مجبور ہو کر دوسرے دیس میں جا کر پناہ لینی پڑی ۔
آپ نے شائد کبھی غور کیا ہو کہ پرندے بھی ہجرت کا دکھ برداشت کرتے ہیں حیوان بھی اس صورت حال کا شکار ہوتے ہیں آج کا انسان اپنی جان ‏کو خطرہ ہونے کی وجہ سے ہجرت کر رہا ہے کچھ ممالک میں جنگ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی اور کئی ممالک میں مذہبی اور نسلی تعصب اور دہشت ‏گردی اپنے عروج پر ہے بہت سے ممالک میں ابھی تک خوراک اور صاف پانی کی کمی ہے بہت سے غیر ترقی یافتہ ممالک میں لوگ غربت اور ‏ناانصافیوں کی وجہ سے ہجرت پر مجبور ہو رہے ہیں۔
چوہدری امین جو بہت دیر سے خاموش بیٹھا ایک سگریٹ کے بعد دوسرا سگریٹ سلگا رہا تھا اور کھانے کے بعد لیمن چینو کا چھوٹا سا گلاس انگوٹھے اور ‏دو انگلیوں کے درمیان تھامے بڑی بے چینی کے ساتھ گفتگو سن رہا تھا ایسا لگتا تھا کہ وہ بار بار کچھ کہنا چاہتا ہے لیکن اسے موقع نہیں مل رہا تھا اس نے ‏پاسٹرسلیم ڈیوڈ کی بات کے درمیان ہی کہنا شروع کر دیا جناب میری بات بھی سن لیں ہو سکتا ہے آپ کو میری بات سے اختلاف ہو مگر برائے مہربانی ‏مجھے بولنے کا حق ضرور دیں۔
کیوں نہیں ضرور ضرور جناب آپ اپنی رائے دیں نرمل سنگھ نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا ۔
جناب میں کہنا چاہتا تھا کہ یورپ میں لوگ مذہب کو بھول چکے ہیں انھیں خدا یاد نہیں ہے برائی بڑھ گئی ہے اور نیکی کو کہیں رکھ کر بھول چکے ہیں ‏میں نے دیکھا ہے لوگ گرجہ گھروں میں کم جاتے ہیں اور میلوں ٹھیلوں پر زیادہ تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔ ‏
پاسٹر سلیم ڈیوڈ نے دوبارہ کہنا شروع کیا جناب یورپ میں لوگ دکھاوے کے لئے مذہبی نہیں ہیں صرف گرجہ گھر میں جمع ہو کر نعرہ بازی کے قائل ‏نہیں ہیں وہ عمل کرتے ہیں آج وہ انسان سے نفرت نہیں کرتے ہیں بلکہ مذہب کو بنیاد بنا کر انسان کو پیار کرتے ہیں انسان کو قتل نہیں کرتے بائبل ‏میں لکھا ہے۔‏
کیونکہ میں بھوکا تھا اور تم نے مجھے کھانے کو دیا میں پیاسا تھا اور تم نے مجھے پینے کو دیا میں پردیسی تھا اور تم نے میری خاطرداری کی، ننگا تھا اور تم نے ‏مجھے کپڑے پہنائے، بیمار تھا اور تم نے میری عیادت کی ، میری تیمار داری کی ، میں قید میں تھا اور تم مجھے حوصلہ دینے میرے پاس آئے۔
جناب آپ خود اس کے گواہ ہیں جب آپ اس ملک میں آئے تھے تو کیا لے کر آئے تھے اور آج آپ لوگوں کے پاس زندگی کی ہر سہولت موجود ‏ہے ان سفید فام لوگوں نے آپ کی ہر طرح سے مدد کی اس لئے آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ لوگ مذہب سے دور ہوگئے ہیں یہ ہو سکتا ہے گرجہ گھر ‏کی عمارت سے دور ہو گئے ہوں مگر انسانیت کے بہت زیادہ قریب ہو گئے ہیں اس کے گواہ میں بھی اور آپ سب لوگ ہیں۔
‏ میں تو یہ جانتا ہوں کہ یہاں کے اخلاقی اور سرکاری قوانین کے مطابق یہ تو ظاہر ہے مفلس و نادار اور خاص طور پر کچلے ہوئے لوگوں کی طرف ‏داری کرنی چاہیے مگر ان کچلے ہوئے اور بے کس لوگوں کو بھی احسان مند ہونا چاہیے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جس تھالی میں کھائیں اس میں چھید ‏نہیں کرنا چاہیے مگر یہاں پر گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔
یوسف نے جب یہ محسوس کیا کہ بحث کہیں تلخی میں نہ بدل جائے گفتگو کا رخ بدلنے کے لئے اس نے اپنے گلاس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو مالٹے ‏کے جُوس سے بھرا ہوا تھا یہاں کے مالٹے اٹلی کے قدیم اور روائتی علاقے سسلی سے آتے ہیں اگرچہ سپین اور اسرائیل سے بھی بہت میٹھے اور سرخ ‏و بُھورے گودے والے مالٹے ہر مارکیٹ میں دستیاب ہیں مگر میں سسلی کے باغوں سے آئے ہوئے مالٹوں کا جُوس زیادہ پسند کرتا ہوں۔‏
‏ یہ یورپ بھی اسرار و رموز کا منبع ہے کمال کا اس پر رنگ روپ چڑھا ہوا ہے یہ کہتے ہوئے اس نے ایک ہی سانس میں گلاس خالی کردیا اور جُوس کا ڈبہ ‏اُٹھا کر جُوس دوبارہ گلاس میں انڈیلنا شروع کیا۔‏
واہ کیا خوب بات کی ہے ۔
جناب یورپ تو ایک ایسی جگہ ہے جس میں رنگوں کی بارات پر بارات آئی ہوئی ہے جس میں سے ہم لوگ اپنا اپنا حصَہ چُرانے کے لیے آ گئے ہیں ‏اصغر دیوانہ نے اسکاچ وہسکی کا ایک لمبا گھونٹ لیتے ہوئے کہا اور عادت سے مجبور ہو کر ایک شعر سنا دیا ، آپ سب کی نذر اپنی غزل کا مطلع عرض ‏کرتا ہوں ،
‏ میں اپنی سوچ کو رد کرتا رہتا ہوں‎
میں ایسے کام بے حد کرتا رہتا ہوں‎
تری مخلوق میں سے اے خدا میں کیوں‎
الگ سب نیک اور بد کرتا رہتا ہوں‎
میں ہردن دھوپ میں دیوارسےلگ کر‎
برابر سائے کے قد کرتا رہتا ہوں‎

یوسف نے داد دیتے ہوئے کہا ،کیا خوب کہا ہے جناب واہ واہ بہت عمدہ ہے۔
‏ شعر پر داد کے یہ فقرےکہنے کے بعد اپنا موضوع دوبارہ شروع کر دیا یورپ میں قدیم ورثہ کی حفاظت کے لیے تحقیق کے نئے طریقے اختیار کےم ‏جاتے ہیں یہاں کا آرٹ بے مثال ہے اور آرٹسٹ کی حوصلہ افزائی کا کوئی ثانی نہیں ہے جس کی بنیاد مذہب کی قید سے آزادی ہے تہذیب و ثقافت کا ‏انوکھا ملاپ یہاں پر ہوتا ہے بلا امتیاز رنگ و نسل یہاں ہرشخص آزاد ہے دنیا کے ہر کونے سے لوگ یہاں آ کر آباد ہو رہے ہیں مقامی لوگوں میں ‏انضحام کر رہے ہیں اور وقت کے دھارے میں ہم آھنگی کے ساتھ زندگی کے تما م رنگوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ‏
یہاں پر انسان کی قدر میں نے دیکھی ہے میں نے دیکھا ہے کہ پہلا کام کسی حادثہ میں زخمی انسان کو ہر قیمت پر ہر طریقے سے بچانے کی کوشش کرنا ‏ہے اس میں وہ یہ نہیں دیکھتے کہ مقامی ہے یا غیر ملکی ہے وہ غیر قانونی اس ملک میں آیا ہے یا قانونی طور پر رہ رہا ہے تخریب کار ہے یا انتہا پسند ہے ‏کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے مزدور ہے یا افسر ہے اس سے اُنھیں کوئی سرو کار نہیں ہے دنیا کے کسی بھی خطہ سے ہجرت کر کے آنے والوں کو ‏اپنے گھروں میں پناہ دے رہے ہیں بلا امتیاز رنگ و نسل اور مذہب ہر انسان کو قبول کر رہے ہیں اگر گھروں میں جگہ نہیں ہے تو گرجا گھروں سے ‏ملحق رہائش گاہوں میں اُنھیں روٹی کپڑا اور رہائش کی سہولت فراہم کرتے ہیں اگر وہاں بھی جگہ پُر ہو چکی ہے تو گرجا گھروں کے دروازے ہجرت ‏کر کے آنے والوں کے لیےکھول دیتےہیں۔
اصغر دیوانہ نے یوسف کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کیا بات ہے جناب یورپ کی کہ ہمیں کھلے دل ، کھلے ذہن اور کھلی بانہوں کے ساتھ خوش ‏آمدید کہتے ہیں اور میری تو سوچ ہی یہ ہے جہاں بھی گیا اسے اپنا ہی گھر سمجھتا ہوں مجھے لگتا ہی نہیں ہے کہ میں غیر لوگوں میں ہوں یہاں کی تہذیب ‏و ثقافت مختلف ہے زبان اور لوگوں کا رہن سہن مجھ سے فرق ہے مگر موسم تو سارے ایک جیسے ہیں محبت کے انداز ایک جیسے ہیں جذبے ایک جیسے ‏ہیں یہاں ایک دوسرے کو ایک جیسا انسان سمجھتے ہیں وہ ہمارے مشہور شاعر فیض احمد فیض نے کیا خوب کہا ہے ۔
ہر آدمی الگ سہی مگر لہو کا رنگ ایک ہے جُدا جُدا ہیں صورتیں مگر اُمنگ ایک ہے لہو کا رنگ ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ میں جس دیس میں پیدا ہوا وہاں کے لوگوں نے مجھے شک کی نگاہ سے دیکھا مجھے مذہب کی بنیاد پر پردیسی سمجھ کر میرے ‏خاندان سے صرف اور صرف مذہب کی بنا پر بدسلوکی کی اور میرے لیے ملک کے آئین میں امتیازی قوانین شامل کیے اور قائد اعظم کی تمام ‏ہدایات طاق پرسجا دیں تاکہ ان پر عمل نہ کیا جا سکے وہ سمجھتے ہیں کہ صرف اُن کا ہی اس ملک میں رہنے کا حق ہے باقی مذاہب کے افراد کو بھیڑ ‏بکریوں کی نظر سے دیکھا جا تا ہے اس پر میں ایک شعر عرض کرتا ہوں۔
سفر ِغم پہ مجھ کو ڈال کے خوش ہوا کوئی‎
کہ وہ مجھ کو بے گھر کرنا آسان سمجھا تھا‎

اب آپ فرمائیےکیا کہہ رہے تھے یوسف بھائی میں نے آپ کی بات کاٹ کر اپنی کہنی شروع کر دی اس سے کہیں آپ یہ مت سمجھ لینا کہ بلَی نے ‏آپ کا راستہ کاٹا ہے یہ لوگوں کا وہم ہے حالانکہ بلَی کو کیا معلوم ہے کہ وہ جس کے آگے سے گذری ہے وہ اچھا انسان ہے یا بُرا ، وہ اپنا راستہ ناپ رہی ‏ہوتی ہے اور انسان اپنا راستہ طے کر رہا ہوتا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے کی دل کی بات معلوم نہیں ہوتی کہ کون کیا سوچ رہا ہے کون اچھا سوچ ‏رہا ہے اور کون بُرا سوچ رہا ہے اس لیے یوسف بھائی یہ مت سوچنا کہ میں آپ کی سلامتی نہیں چاہتا میں تمہارا سچا دوست ہوں اور ہر دکھ سکھ میں ‏مجھے اپنے ساتھ پاؤ گے معذرت کے ساتھ اور اسکاچ کا ایک ہلکا سا گھونٹ لگایا ۔
‏ نہیں دیوانہ جی میں اس وقت یہ بات نہیں سوچ رہا تھا بلکہ میں تو ان لوگوں کی بات کر رہا تھا جو سوچتے ہیں اگر وہ نہیں سوچتے ہیں تو ان کا وجود کوئی ‏معانی نہیں رکھتا جس طرح ایک فرانسسی فلاسفر رینے ڈیکارٹ نے انسانی وجود کے فلسفہ کے بنیادی عنصر کی بات کی ہے لہذا اگر وہ سوچتا ہے تو وہ ہے ‏لیکن سوال یہ ہے کہ وہ اچھی سوچ کا مالک ہے یا پھر وہ اس طرح سوچتا ہے کہ جس پر عمل کرنے سے زمین پر بسنے والی مخلوق کو نقصان ہوتا ہے ۔‏
دیوانہ جی آپ کی محبت کا میں شکرگذار ہوں میں بھی آپ کے بارے کوئی بُری رائے نہیں رکھتا میں آپ سے پیار کرتا ہوں بلکہ میں تو خُدا کی تمام ‏مخلوق کو پیار کرتا ہوں اور آج تک میں نے کسی کا بُرا نہیں سوچا ہے بلکہ اپنے ستانے والوں سے بھی پیار ہی کیا ہے ۔
۔۔۔۔۔

‎ ‎٭٭٭
باروچی خانے کا تمام کام نمٹا کر جب نور جہاں اپنی ماں ماریا گمریتی کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی تو یوسف خاموش ہوگیا ان کے پیچھے ہی کرن اور ‏راہول بھی اندر آگئے اکبر اور کرسٹوفر بھی اندر آ کر صوفے پر بیٹھ چکے تھے کمرے میں کچھ دیر خاموشی چھائی رہی اس خاموشی کو نوُر جہاں نے ‏پروفیسر نرمل سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے توڑا ۔
سر آپ اتنے کم گُو تو نہیں ہیں پھر کیوں خاموش بیٹھے ہیں نرمل سنگھ نے اپنے دائیں طرف والے کان کے اُوپر پگڑی کے نیچے سے اپنے دائیں ہاتھ کی ‏ایک انگلی ڈال کر خارش کرتے ہوئے کہنا شروع کیا میں بڑے دھیان سے سب کچھ سُن رہا تھا۔‏
‏ میں فلسفہ ِ ہجرت کے متعلق سوچ رہا تھا سفر کیوں لازمی ہے ہجرت کیوں ایک انسان کرتا ہے کیا یہ زندگی کا اہم عنصر ہے کیا یہ ایک معاشرتی اور ‏سیاسی سوچ کا سوال ہے کہ کیوں یورپ مہاجرین اور تارکینِ وطن کی مہمان نوازی اس انداز میں کر رہا ہے ۔ ‏
موجودہ دور میں ہجرت بحیرہ ِ ِروم کے راستہ ہو رہی ہے یورپ کے علاوہ پوری دنیا کا لبرل وژن یہ ہے کہ مہاجرین کی مہمان نوازی کھلے دل سے ہونی ‏چاہیے یہ کسی بھی انداز میں مشروط نہیں ہونی چاہیے دوسری طرف روایتی مسائل سرحدوں پر موجود ہیں اور پھر کسی ملک کی شہریت جیسے اہم ‏سوالات اپنی جگہ پر اہمیت رکھتے ہیں سب سے اہم وہ قوانین ہیں جو ہر ملک کے معاشرے نے اپنی حدود میں اپنے لوگوں کے لئے وضع کیے ہوئے ‏ہیں ۔
ان سرحدوں نے زمین کو مختلف رنگوں اور نسلوں کے لوگوں کے درمیان بانٹ دیا ہوا ہے ان سرحدوں کا احترام و اہمیت اپنی جگہ پر موجود ہے ‏لیکن کیا آج بین الاقوامی قوانین کے مطابق سفری دستاویزات کے بغیر دوسرے ملک کی سرحد عبور کرنا جائز ہے جب ہم کہتے ہیں زمین و آسمان کا ‏خالق و مالک اس کائنات کی تخلیق کرنے والا خدا ہے تو پھر انسان کو تقسیم کرنے والا کون ہے۔ ‏
اور کیا اجنبی معاشرے میں انضمام کسی بھی طرح سے ممکن ہو سکتا ہے۔
‏ نرمل سنگھ نے ایک لمحہ کے لیے وقفہ لیا اور اس وقفہ میں اٹلین سگار کا ایک گہرا کش لگا کر دھواں چھت کی طرف اچھال دیا۔پھر اس نےمولوی ‏نظام دین کی طرف دیکھتے ہوئے دوبارہ کہنا شروع کیا ۔ ‏
ہال میں بیٹھے ہوئےتمام لوگ اس کے چہرے کی طرف خاموشی کے ساتھ دیکھتے ہوئے اسے بڑے غور سے سُن رہے تھے۔
‏ نرمل سنگھ نے دوبارہ کہنا شروع کیا ، تو میں کہہ رہا تھا کہ میرے باپ نے جب ہجرت کی تھی تو اس کو ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ اٹلی تک پہنچنے میں لگا ‏تھا اس نے ہندوستان سے جب سفر کا آغاز کیا تو اس کے پاس نہ تو بہت بڑی رقم تھی اور نہ ہی ذرائع ابلاغ کی جدید سہولت تھی کبھی پیدل ، کبھی بس ‏اور کبھی سمندر میں سفر کیا وہ خطرناک جنگلوں کے پُر خطر راستوں پر بھُوکے پیاسے کئی کئی دن مارے مارے پھرتے رہے کبھی سرحدی پولیس نے ‏پکڑ لیا اور کبھی انسانی اسمگلروں کے ہاتھ لگ گئے کبھی ہمدرد اور نیک دل مچھیروں سے مدد لی اور کبھی صرف گھاس اور درختوں کے پتے کھا کر پیٹ ‏کی آگ بجھائی ہر قسم کی مشکل اور تکلیف کے امتحان سے وہ گذر کر یہاں تک پہنچے تھے صرف اور صرف اپنے بچوں کو خوشحالی کی زمین پر لانے ‏کےلیے اور اس نے اپنے رشتہ داروں کو امن و سکون کا یہ راستہ دکھانے کے لیے اپنی زندگی داؤ پر لگائی کہ ہماری آنے والی نسلیں غربت سے نکل ‏کر سکھ چین کا سانس لیں۔
نرمل سنگھ کا چہرہ ایک دم اداس ہو گیا میرا باپو اب اس دنیا میں نہیں ہے وہ بھگوان کے پاس چلے گئے ہیں مگر اپنے مشن میں وہ کامیاب ترین شخص ‏تھے آپ کے سامنے میں اور میرا خاندان ہے ہمارے بچے ہیں انڈیا میں ہمارے سارے رشتہ دار غربت سے نکل چکے ہیں ہم سب خوشحال اور ‏آسودہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔
مگر میری سوچ آج بھی امرتسر کے اس غیر ترقی یافتہ بازار کی ٹوٹی پُھوٹی اور غیر ہموار سڑک پر نیو برانڈ قمیتی کار کی مانند ہچکولے کھاتی سفر کر رہی ‏ہے جس میں ہماری مٹی کے برتنوں کی دکان تھی جس پر میرا دادا کا دادا اپنی فنی مہارت سے مٹی سے برتن بنایا کرتے تھے پھر میرے باپ کی باری ‏آئی ایک دن جب مجھے برتن بنانے اور فروخت کرنے کا فن سکھانے کے لیے میری عدم دلچسپی کی بنا پر میرے باپ نے میری ہلکی سی پٹائی کی تو اس ‏دن سے میں نے ارادہ کر لیا کہ میں یہ کام نہیں کروں گا میں لکڑیوں اور بھینسوں کے خشک گوبر سے آگ جلا کر برتن بنانے کی بجائے انسانوں کے ‏کُل پرزے درست کرنے کا جدید طرز پر کام کروں گا میں ڈاکٹر بنوں گا اور اپنے شہر اور گاؤں کے غریب اور نادار لوگوں کا علاج کروں گا لہذا میں ‏نے اس دن سے یہ ارادہ کر لیا میں ترقی یافتہ یورپ کے کسی ملک میں جاؤں گا۔ ‏
‏ یہ سب کچھ سوچتے ہوئے اور منصوبہ بندی کے ساتھ میں نے بھی ایک دن کولمبس کی طرح سفر شروع کیا اور سفر کرتے کرتے اٹلی دریافت کر لیا ‏یہاں پر میں نے تہذیب و ثقافت کے بے شمار ذخائر کھنڈرات کی شکل میں محفوظ دیکھے ، یہاں جدید اور کلاسک علوم کے ماہر دفن ہیں وہ نہایت ذہین ‏اور با اخلاق انسان تھے جنہوں نے انسانی فلاح و بہبود میں اپنا حصہ ڈالا اور اپنی عقل و دانش سے اس دینا کو سائنس کی ترقی کے راستے پر ڈال کر ہمیشہ ‏کے لیے اپنا نام اور کام تاریخ میں محفوظ کر کے عام لوگوں میں عام زندگی گذارتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
میں نے آج بھی ایلگری دانتے کو گاؤں گاؤں اور شہر شہر اپنے کلاسک ڈرامے ڈیوین کامیڈی کے ساتھ گھومتے ہوئے دیکھا ، میں نے اس کی محبوبہ کو ‏اس کی معاونت کرتے ہر گلی اور محلے میں دیکھا ، میں نے اس کے ہم عصر شاعر دوست ورجل کو بھی پڑھنے کی کوشش کی، جو دانتے کے ساتھ ‏اعراف کی سیر کرتا رہا مگر جنت اور دوزخ میں جانے سے گریز کیا۔ کیونکہ وہ زمین پر عام لوگوں میں رہنا چاہتا تھا ۔
میں جید عالم لیو نارڈو ونچی کے شہر فیرنزے گیا جس کا شاہکار مونا لیزا میں دیکھنا چاہتا تھا جس کی مشہور زمانہ تخلیق یسوع مسیح کی اپنے بارہ حواریوں کے ‏ساتھ آخری کھانا کی تصویر مجھے اپنی طرف کھینچ رہی تھی اور اس کے تراشے ہوئے وہ سارے نمونے جو آج کی جدید دنیا اپنی زندگی کو آسان بنانے ‏کے لئے استعمال کر رہی ہے۔
وٹیکن سٹی میں اتنا گھوما کہ ہر جگہ پر قدیم ماضی کی نشانیاں مشعلِ راہ کی مانند گھومتی زمین کے ساتھ پیوستہ تھیں جہاں سے مسیحیت کا احیا دو ہزار سال ‏پہلےہوا اور آج اس چھوٹی سی ریاست میں مذہب مٹی پر گھاس پھوس کی طرح اُگا ہوا ہے اشجار کی شاخوں پر بائبل کی آیات لٹکتی ہوئی ہوا سے ہل ‏رہی ہیں اور آندھی کے تیز شور میں راہبوں کا جلایا ہوا لُوبان کسی اور سمت اڑ گیا ہے اور ان کی قدیم زبان لاطینی اور عبرانی زبان میں پڑھے جانے ‏والے یسوع مسیح کے اقوال قدیم روم کے جدید ماحول کے کھنڈرات سے سنائی دیتے ہیں اور بائبل کا جدید حصہ انجیل مقدس دنیا میں ہر جگہ موجود ‏ہونے کے باوجود اپنا وجود ہوا میں تحلیل ہوتا ہوا محسوس کر رہا ہے لیکن صلیب پر اپنی جان اپنے خدا کے حوالے کرنے کے باوجود وہ مرا نہیں ہے ‏بلکہ کہہ رہا ہے کہ میں صلیب پر مرا نہیں ہوں میں کائنات میں ہر جگہ پر زندہ موجود ہوں میں سب کو دیکھ رہا ہوں مگر کوئی بھی میرا وجود صلیب پر ‏لٹکتا نہیں دیکھ سکتا۔
ابھی نرمل سنگھ کی بات ختم نہیں ہوئی تھی کہ راہول تیز تیز چلتا ہوا نرمل سنگھ کی گود میں آ کر بیٹھ گیا کچھ لمحوں کے بعد کرن بھی ان کے پاس آ کر ‏کھڑی ہو گئی یہ دیکھ کر نرمل سنگھ نے سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا میں آپ سب سے معذرت چاہتا ہوں اور راہول کے سر پر شفقت سے ہاتھ ‏پھریتے ہوئے کہا ،
کیا ہوا ہے بیٹا ، کیوں اتنے خفا دکھائی دے رہے ہو ، ‏
دیکھو پاپا ،اس نے کرن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، یہ مجھے کہتی ہے کہ راہول میں تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔
نرمل سنگھ نے راہول کوگود سے اُتارتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑا اور منہ پر ہلکی سی مسکراہٹ لاتے ہوئےاس کو ساتھ لے کر لان کی طرف چلا گیا اور ‏اس سے نہایت نرم اور شفیق لہجے میں کہا۔
بیٹا دیکھو ، کرن تم سے اس لیے شادی کرنے کے لیے کہہ رہی ہے کہ وہ تم سے محبت کرتی ہے اس میں کوئی بات ایسی نہیں ہے کہ تم بُرا مان جاؤ۔ ‏
مگر پاپا میں کیوں اس سے شادی کروں کیونکہ ابھی مجھے اس بندھن کے بارے میں پوری معلومات نہیں ہیں اور ہماری استانی نے ہمیں بتایا تھا کہ ‏ابھی آپ سب بچے ہیں شادی کرنےکی عمر اٹھارہ سال کے بعد کی ہوتی ہے جو میرے خیال میں دنیا کی ہر ریاست کے قانون کے مطابق ہے۔ ‏
نرمل سنگھ نے اس کے سر کے بالوں میں اپنی انگلیاں پھرعتے ہوئے کہا۔
بالکل درست ہے راہول نے جواب دیا۔
ابھی آپ اپنی پڑھائی مکمل کریں گے اس کے بعد کوئی اچھی سی ملازمت ڈھونڈو گے پھر اپنا گھر خریدو گے اور پھر ہم آپ کی دھوم دھام سے شادی ‏کریں گے ۔
دوسری طرف کرن کے ساتھ اس کے ماں باپ کی بھی یہی باتیں ہو رہی تھیں۔
پاسٹر ڈیود نے کرن کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس کا داہنا ہاتھ تھاما ہوا تھا اور اس کی بیگم جمیلہ بھٹی نے کرن کو گود میں بٹھایا ہوا تھا اور پاسٹر ڈیوڈ کرن ‏سے کہہ رہا تھا بیٹی یہ آپ کی شادی کی عمر نہیں ہے آپ ابھی بہت چھوٹی ہیں اور پھر ابھی تو آپ نے اپنی پڑھائی بھی مکمل نہیں کی ہے اور پھر ڈگری ‏حاصل کرنے کے بعد آپ کوئی اچھی سی ملازمت تلاش کریں گی اور پھر دھوم دھام سے ہم آپ کی شادی کریں گے اور بہت بڑی کھانے کی سب کو ‏دعوت دیں گے۔ ‏
جمیلہ بھٹی نے تھوڑا سنجیدگی سے کرن کو کہا دیکھو کرن آپ دونوں بہت اچھے دوست ہیں اور اگر آپ شادی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض ‏نہیں ہے مگر ابھی آپ دونوں عمر اور قانون کے مطابق شادی نہیں کر سکتے کیونکہ قدرت اور معاشرے کے قوانین کا تقاضا ہے۔ ‏
مگر پاپا وہ سلمٰہ کی شادی تو بارہ برس کی عمر میں ہی ہو چکی ہے۔
پاسٹر ڈیوڈ اس اچانک سوال پر چکرا گیا اور اپنا داہنا ہاتھ ماتھے پر رگڑتے ہوئے چند لمحے فرش کی طرف دیکھتا رہا، پھر نہایت احتیاط کے ساتھ کرن کی ‏طرف منہ پھیر کر بولا۔
بیٹی بات دراصل یہ ہے کہ ہر ملک اور مذہب میں ایسا نہیں ہے مثال کے طور پر اسلام میں شادی کی عمر کی کوئی قید نہیں ہے لیکن جس مذہب پر ہم ‏یقین رکھتے ہیں وہ اس کی اجازت نہیں دیتا ابھی آپ سات برس کی ہیں جب تک آپ سن بلوغت میں نہیں پہنچ جاتیں آپ کی شادی ممکن نہیں ہے ‏ہمارا مسیحی مذہب بھی یہی کہتا ہے اور جس ملک کے ہم شہری ہیں اس کے سول لاء نے بھی شادی کی عمر مقرر کی ہوئی ہے کہ ایک خاص عمر کے بعد ‏آپ شادی کر سکتے ہیں یعنی پوری دنیا کے تمام معاشروں کا بھی یہی اصول ہے یہی قانون قدرت بھی ہے۔
پاپا آپ سچ کہہ رہے ہیں نا، کرن نے پوچھا۔
پاپا کی جان میں نے کبھی آپ سے جھوٹ بولا ہے پاسٹر ڈیوڈ نے جواب دیا،دیکھو بیٹی ابھی تمہاری عمر نہیں ہے ان باتوں کے سوچنے کی، ابھی تم اپنی ‏پڑھائی پر توجہ دو اور کھیلو کُودو۔
میں جانتی ہوں کہ میرے پاپا دنیا میں سب سے اچھے اور سچے پاپا ہیں جو کبھی میرے ساتھ جھوٹ نہیں بولتے کرن نے یہ کہتے ہوئے پاسٹرسلیم ڈیوڈ ‏کی گال پر زور کا بوسہ دیتے ہوئے کہا میں ابھی جا کر راہول کو یہ ساری باتیں بتاؤں گی اور گود میں سے اٹھ کر ہال سے باہر جانے کے لئے اٹھی تو ڈیوڈ ‏نے بڑے نرم لہجے میں کہا، نہیں بیٹی اس وقت نہیں کیونکہ راہول کے پاپا ہال سے باہر اسے یہی باتیں بتا رہے ہیں ابھی ان کو جا کر ڈسٹرب نہیں کرنا ‏یہ کہتے ہوئے پاسٹر ڈیوڈ نے کرن کو زور سے گلے لگا لیا اور کمرے میں موجود لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ایک بار پھر معذرت چاہتا ہوں آخر یہ ‏بچے ہماری زندگی کا اہم ترین حصہ ہیں اور اس دنیا کے اور اس خوبصورت معاشرے کا مستقبل ہیں اور ان کو کسی بھی حال میں نظر انداز نہیں کیا جا ‏سکتا اور ہاں میں کہہ رہا تھا اس نے سب کی طرف دیکھتے ہوئے دوبارہ کہنا شروع کیا ۔
۔۔۔۔۔

چودہواں باب:‏

سب لوگ اس چھوٹے ہال نما کمرے میں جمع ہو چکے تھے حتی کہ مولوی نظام دین کا خاندان بھی باروچی خانے کا تمام کام ختم کرنے کے بعد صوفے ‏پر براجمان ہو چکے تھے۔
پاسٹر ڈیوڈ سلیم نےاپنی آواز بلند کرتے ہوئے کہنا شروع کیا ۔
خواتین و حضرات آج محترم شہاب الدین کی جگہ پر میری کہانی آپ لوگ سنیں گے ہاں تو میں کہہ رہا تھا سب لوگ سن رہے ہیں، کیا میری آواز اتنی ‏بلند ہے کہ تما م لوگوں تک پہنچ رہی ہے مجھے سب سن سکتے ہیں ۔
پیچھے سے آواز آئی جی جی جناب ہم تک آپ کی آواز بڑی صاف اور اچھی طرح سے آ رہی ہے آپ بولتے جاہیں ہم آپ کی کہانی سننے کے لئے تیار ‏ہیں یہاں پر ہر شخص ہمہ تن گوش ہے۔ ‏
تو دوستو لیبیا کے ساحل سے کشتی کو گہرے سمندر میں چلتے ہوئے ابھی دو گھنٹے ہی ہوئے تھے کہ ایک خاتون جو مذہبی لباس میں ملبوس تھی اور برقعہ ‏پہنے ہوئے تھی لیکن چہرہ ،ہاتھ اور پاؤں سے برقعہ اٹھایا ہوا تھا سیاہ رنگت اور گھنگھریالے سیاہ بالوں سے وہ افریقن معلوم ہوتی تھی۔ انگریزی اور ‏فرنچ بہت روانی سے بولتی تھی وہ دو گھنٹے میں تین بار نماز ادا کر چکی تھی اور جب بھی نماز کی نیت کرتی یوں سماں باندھ دیتی کہ ہر مسلم اور غیر مسلم ‏اس کے زیر عتاب آ جاتا اردگرد تمام لوگوں کو ہدایات جاری کرنا شروع کر دیتی مجھے پانی کی بوتل دینا وضو کرنے میں دیر ہو رہی ہے میرا مصلیٰ تو بچھا ‏دینا آپ ادھر کھڑے کیا کر رہے ہیں تھوڑا دور ہٹ جائیں میں نے نماز ادا کرنی ہے ارے کوئی کعبہ کی سمت ہی بتا دے قبلہ اول کس طرف ہے ‏دیکھو کیا بے حس لوگ ہیں نماز کی ادائیگی میں مدد نہیں کرتے بھائی ذرا فرش تو صاف کر دینا لوگوں نےکتنی گندگی پھیلا دی ہے ۔
وہ مرد حضرات سے شکایت کرتی میں نے نماز ادا کرنی ہے اور آپ ہیں کہ مجھے جائے نماز بچھانے کے لئے جگہ ہی نہیں دے رہے ارے کوئی ہے جو ‏میری مدد ہی کر دے پھر اس نے دو عدد مرد حضرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا آپ میری طرف مسلسل کیوں دیکھ رہے ہیں میں نے نماز ‏ادا کرنی ہے اور آپ مجھے دیکھتے جا رہے ہیں آپ اپنا چہرہ دوسری طرف کر لیں اس نے دونوں ایشیائی نوجوانو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جو اس ‏کو بڑے غور سے دیکھ رہے تھے آپ کو میری بات سمجھ میں نہیں آئی۔
‏ ایک نوجوان کو واقعی کچھ بھی سمجھ میں نہیں آیا اور سر کھجاتے ہوئے خاتون سے کہا ‏What happen Madam‏ اور اپنا چہرہ دوسری طرف پھیر ‏کر سمندر کی خطرناک اور سرکش موجوں کی طرف دیکھنے لگا۔ ‏
پاسڑ ڈیودسلیم جو پاس ہی کھڑا تھا وہ نہ تو نقاہت کی وجہ سے بول ہی سکا اور نہ ہی اس کی کوئی مدد کر سکا ،۔
وہ تین دن سے معمولی کھانے کی وجہ سے بہت کمزور اور لاغر دکھائی دے رہا تھا ان تین دنوں میں وہ انتظار کرتے رہے کیونکہ ان کا ایجنٹ ان سب کو ‏یہی کہتا رہا آپ تیار رہیں کسی وقت بھی روانگی ہو جائے گی۔
‏ وہ لیبیا کے ایک مضافاتی علاقے میں دوسرے دو سو لوگوں کے ساتھ ایک چھوٹی سی پرانی عمارت میں بند تھا کچھ لوگ مستقبل کی فکر میں مسلسل ‏جاگتے رہنے کی وجہ سے بہت زیادہ تھک چکے تھے کچھ لوگ تو اپنی جگہ پر بیٹھ کر ہی سونے کی کوشش کرتے۔‏
ان تین دنوں میں انھیں جو کھانا دیا گیا وہ پچیس لوگوں کے لئے بھی ناکافی تھا دن میں ایک بار کھانا چار آدمی لے کر آتے جو جدید اسلحہ سے مسلح ‏ہوتے وہ کھانا رکھ کر چلے جاتے تو لوگ کھانے پر جانوروں کی طرح ٹوٹ پڑتے یوں ایک پل میں کھانے کا کوئی نام و نشان نہ رہتا زیادہ لوگوں کو ‏کھانے کا ایک نوالہ بھی نہ ملتا مگر خوابوں کی سرزمین کی اُمید میں اور خوشحالی کے سنہرے دنوں کی آس میں لوگ خاموشی سے سب کچھ برداشت کر ‏رہے تھے اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے تھے ۔
آج آخر کار وہ دن آن پہنچا تھا اور وہ ایک بڑی کشتی پر سوار ہو کر اپنی نامعلوم منزل کی جانب رواں دواں تھے اس کشتی پر گنجائش سے بہت زیادہ ‏لوگ سوار کر ا دئیے گئے تھے ۔
پاسٹر ڈیوڈ سلیم تھکن اورمسلسل جاگتے رہنے کی وجہ سے سر میں درد محسوس کر رہا تھا وہ کشتی کی ریلینگ کو پوری طاقت کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھوں ‏کے ساتھ مضبوطی سے تھامے ہوئے تھا لیکن اس کی عرشہ پر لوہے کی ریلینگ کے پائپ پر ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگی اور پھر چند ہی لمحوں ‏میں وہ کشتی کے عرشہ پرلکڑی کے تختوں سے بنائے گئے بے ترتیب اور گندے فرش پر گر گیا،پاس ہی کھڑے اس کے ایک ہم وطن نوجوان نے ‏اسے سنبھالنے کی کوشش کی مگر بے سود، آخر اس نے ڈیوڈ کو چھوڑ دیا اور اٹھ کر کھڑا ہو گیاابھی وہ کھڑا ہوا ہی تھا کہ ایک اونچی لہر نے کشتی کو ہوا ‏میں کئی فٹ اونچا اچھال دیا کشتی میں ایک بے ہنگام شور برپا ہو گیا اور لوگوں میں ہل چل مچ گئی لوگ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے سب ایک ‏دوسرے پر گر رہے تھے اور بہت سے لوگ اپنی اپنی زبان میں اپنے بچاو کے لئے خدا سے دعائیں مانگ رہے تھے۔
نماز پڑھنے کی کوشش میں مصروف اس عورت نے اپنے ساتھی کی طرف دیکھتے ہوئے پاسٹر ڈیوڈ سلیم کے بارے میں کہا کہ لو یہ بھی مر گیا ہے چلو ‏اسے بھی سمندر کے پانی میں پھینک دیتے ہیں کیونکہ کشتی میں پہلے ہی جگہ کم ہے ہمیں جگہ کی ضرورت ہے اور پینے کا پانی اور خوراک بھی بہت کم رہ ‏گئی ہے اس لاش کو بھی سمندر میں پھینک دینے سے کشتی کا کچھ تو بوجھ ہلکا ہو گا۔ ‏
‏ وہ نوجوان ایک روبوٹ کی مانند اس عورت کے حکم کی تکمیل کرنے کے لئے ڈیوڈ سلیم کے اوپر جھک گیا اور ڈیوڈ کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں ‏میں لے کر اسے اوپر کی طرف اٹھانے کی کوشش کرنے لگا مگر بے سود، آخر کار وہ اسے بیٹھنے کی پوزیشن پر لے آیا مگر اس کو مکمل اوپر اٹھانا اس کے ‏بس میں نہیں تھا لہذا اس نے اس کے ہاتھ چھوڑ دئیے اور ڈیوڈ سلیم فرش پر دوبارہ گر گیا ۔
تم نے ماں کا دودھ نہیں پیا، تم سے مرا ہوا ایک شخص نہیں اٹھایا جا رہا، میں غیر مرد کو ہاتھ نہیں لگ سکتی ورنہ میں تجھے اٹھا کر دکھاتی۔‏
کوشش تو کر رہا ہوں اس نے گہری نظروں سے عورت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
یہ کیا ہے اس نوجوان نے ڈیوڈ کے گلے میں سونے کی صلیب کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
رک جاؤ اسے ہاتھ مت لگانا ،عورت نے تقریباً چیختے ہوئے کہا اور ساتھ ہی دو تین گالیاں بھی اس کو اپنی زبان میں دیتی ہوئی کہا مجھے میرے محلے کی ‏مسجد کے مولوی نے بتایا تھا کہ جب کوئی مصیبت آئے تو پھر کیا کرنا چائیے۔
ڈیوڈ پر جھکتے ہوئے اس عورت نے نہایت احتیاط کے ساتھ اس کے گلے سے لاکٹ اتارا اور اس میں سے سونے سے بنی ہوئی صلیب نکال کر سمندر ‏میں اچھال دی اور باقی سونے کی زنجیر اپنے گلے میں ڈالتی ہوئی بولی۔
اب اسے اٹھاؤ اور سمندر کی لہروں کے حوالے کر دو۔
دو آدمیوں نے ایک نے کندھوں کی طرف سے اور دوسرے نے ٹانگوں کی طرف سے لاش کو اٹھایا اسی لمحہ اس عورت نے بھی اپنے دونوں ہاتھوں ‏سے لاش کی پیٹھ کے نیچے ہاتھ لاتے ہوئے سہارا دیا اور ان تینوں نے بھیڑ میں سے راستہ بناتے ہوئے عرشے کی ریلنگ سے لاش کو اوپر اٹھایا اور ‏انہوں نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ایک دو تین کہتے ہوئے اسے سمندر کی موجوں کے حوالے کر دیا اور خود تیزی کے ساتھ عرشے کی سیڑھیوں ‏سے اترتے ہوئے کشتی کے نچلے حصہ میں چلے گئے۔
‏ اس کام میں وہ اتنے مگن تھے کہ انھیں معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ اٹلین کوسٹ گارڈ کی دو بڑی کشتیاں ان کو بچانے کے لئے ان کی کشتی کے بالکل ‏قریب آ چکی ہے اور بیمار اور بچوں کو باری باری دونوں کشتیوں پر منتقل کر رہے ہیں۔
ڈیوڈسلیم کی لاش جب سمندرکے ٹھنڈے اور نمکین پانی میں گری اور پھر اس کا سانس رکنے لگا اور سمندر کا نمکین پانی اس کے منہ کے راستے ‏معدے میں داخل ہوا تو اس کی چھٹی حس نے کام کرنا شروع کر دیا کہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ ہوا ہے پھر اسے محسوس ہوا کہ وہ پانی میں ہے اور ‏نیچے کی طرف جا رہا ہے یوں وہ پانی میں ہی بے ہوشی کی حالت سے نکل کر مکمل ہوش میں آ گیا اسے محسوس ہوا کہ وہ موت کے بالکل قریب ہے اس ‏نے سوچا مرنے سے پہلے ایک بار جینے کی کوشش ضرور کی جائے پھر اس نے تیزی کے ساتھ ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دئیے اس نے محسوس کیا کہ ‏وہ پانی کی اوپر والی سطح کی طرف جا رہا ہے اس نے خدا کو یاد کیا اور جودعائیں اسے یاد تھیں وہ دل میں پڑھنی شروع کردیں وہ تیزی کے ساتھ دعا کر رہا ‏تھا اور تیزی کے ساتھ پانی کی سطح کی طرف اوپر جا رہا تھا اور کچھ ہی لمحوں میں وہ پانی کی سطح کے اوپر آ گیا۔‏
‏ ایک کوسٹ گارڈز نے جب دیکھا کہ ایک آدمی کو پانی میں پھینک دیا گیا ہے تو سب کی توجہ اس جانب ہو گئی ۔
‏ فوراً ہی لائف ٹیوب کے ذریعے اسے اوپر کھینچ کر طبی امداد دی گئی اس کے پیٹ سے نمکین پانی باہر نکالا گیا اور مصنوعی سانس کے ذریعے اس کی ‏سانس کو دوبارہ نارمل کیا گیا ۔
‏ جب اس کی سانس بحال ہو گئی تو وہ حیرانگی کے سمندر سے باہر آنے کی کوشش کرنے لگا مگر ابھی تک اسے یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس کے ساتھ ‏کیا ہوا تھا اور کیا ہو رہا ہے۔
‏ اسی دوران اسے دوبارہ یوں محسوس ہونے لگا کہ وہ پھر سے ٹھنڈے نمکین پانی میں گرا ہوا ہے اور بھوک کی وجہ سے بولنے کی صلاحیت کھو چکا ہے یہ ‏سوچتے ہوئے وہ ایک بار پھر بے ہوش ہو گیا۔
ساحل پر کافی تعداد میں کھڑی ایمولینس میں سے ایک تیز ہارن بجاتی ہوئی اسٹریجر پر پڑے ہوئے ڈیوڈ سلیم کے پاس آ کر رکی ،ایمولینس میں سے ‏تیزی کے ساتھ سرخ، سلور اور پیلے رنگ کی وردی میں ملبوس تین رضاکار دو عدد نوجوان لڑکیاں اور ایک مرد بڑی تیزی کے ساتھ ایمولینس سے ‏باہر آئے اور پہلے سے ہی اسٹریجر پر پڑے ڈیوڈ سلیم کو بڑی احتیاط کے ساتھ ایمولینس میں رکھا، اور فوری طبی امداد کے لئے قریبی ہسپتال کی طرف ‏تیزی کے ساتھ روانہ ہو گئے۔
۔۔۔۔۔

پندرہواں باب:‏

ڈیوڈ سلیم کی جب آنکھ کھلی تو اس نے اپنی دائیں طرف ایک اطالوی نرس کو دیکھا جو اس کا ہاتھ اپنے گورے اور نرم و نازک ہاتھوں میں تھامے نبض ‏کو کنٹرول کر رہی تھی اس نے ڈیوڈ کی جانب ایک دل موہ لینے والی مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہا۔
میرے دوست اب تم خطرے سے باہر ہو۔
میں کہاں ہوں، ڈیوڈ نے بڑی کمزور آواز میں نرس سے پوچھا۔
تم اٹلی میں ہو،یہ اٹلی کا جزیرہ لیمپو دوضا ہ ہے مارٹینا نے بڑے نرم اور پیار بھرے انداز میں اپنے گلابی ہونٹوں کو اس طرح سکیڑا کہ ان کی شکل اس ‏طرح بن گئی جیسے بوسہ دینے کو تیار ہے اور پھر ہلکا سا مسکراتے ہوئے اپنے پیچھے کی طرف گھوم کر اس نے بلند فشار خون معلوم کرنے والی چھوٹی سی ‏مشین اپنے دائیں ہاتھ سے دیوار کے ساتھ پڑے ہوئے چھوٹے سے میز پر سے اٹھائی اور ڈیوڈ سلیم کی دایئں بازو پر سے قمیض کے کف کا بٹن کھول کر ‏آستین اوپر چڑھانے کے بعد اس کے خون کا دباو بڑے انہماک کے ساتھ نوٹ کرنے لگی۔
پرفیکٹ ہے بالکل ٹھیک ہے مگر آ پ کو آرام کی ضرورت ہے اپنے بستر پر لیٹے رہیں مارٹینا نے حسب معمول مسکراتے ہوئے کہا میں ساتھ والے ‏کمرے میں ایک افریقن خاتون کے پاس ہوں آپ کے پاس جناب دلبر زئی ہیں یہ آپ کا ہر طرح سے خیال رکھیں گے اور دوسرے کمرے کی ‏طرف چلی گئی جہاں پر ایک افریقن نوجوان عورت درد زہ ہونے کی وجہ سے کراہ رہی تھی کچھ دیر بعد اس عورت کا کراہنا باقاعدہ تیز درد ناک ‏چیخوں میں بدل گیا ۔
پھر کچھ منٹ بعد درد بھری آوازیں آنا بند ہو گئیں تو نومولود بچے کی رونے کی آواز آنا شروع ہو گئی اور کچھ دیر بعد سب کچھ معمول کے مطابق ہو گیا ‏۔
دلبر زئی نے آگے بڑھ کر ڈیوڈ سلیم کی ٹانگوں پر پڑے کمبل کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اس کی گردن تک کر دیا تاکہ گرمائش کے ساتھ وہ سو جائے ‏اور خود آرا‎ ‎م کے ساتھ کرسی پر پیچھے کی طرف ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
‏ مشہور ہے کہ برصغیر کے رہنے والے افراد کہاں خاموش اور چین سے بیٹھنے والے ہوتے ہیں ان کی کسی اجنبی کے ساتھ جب پہلی ملاقات ہو اور وہ ‏بھی کسی اجنبی جگہ پر ، خاص طور پر ریل گاڑی میں، بس سٹاپ پر بس کے انتظار میں یا ہسپتال میں اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے ہوئے یا اپنے کسی ‏عزیز کی تیمارداری کے لئے آئے ہوئے وہ وقت گزاری کے لئے کوئی کتاب یا رسالے کے مطالعہ کی بجائے یا پھر خاموشی سے سوچ بچار کر نے کی ‏بجائے یا سیاسی و معاشی یا کسی ادبی اور موجودہ حالات پر گفتگو کرنے کی بجائے وہ اپنے ہم سفر یا اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کی ذاتی زندگی کے حوالے ‏سے باتیں کرنے اور اسے مکمل جاننے کے لئے سوال و جواب پوچھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
‏ جب دلبر زئی نے یہ دیکھا کہ ڈیوڈ کو نیند نہیں آ رہی ہے اور وہ بھی بے چین اور مضطرب نظر آ رہا ہے اور معلوم کرنا چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا ‏واقعہ ہوا ہے وہ کیوں اس حال میں ہے وہ سمندر میں کیسےگرا اور کن لوگوں نے اسے باہر نکال کر اس چھوٹے سے عارضی ہسپتال میں پہنچا یا۔
آخر دلبر زئی کے صبر کا دامن لبریز ہو گیا اور آرام دہ کرسی پر پہلو بدلتے ہوئے سوال کر ہی دیا۔
بھائی میرےکیا آپ جاگ رہے ہیں۔
جی میں کیسے سو سکتا ہوں۔
کیا بات ہے آپ کو صحت کا کوئی اور مسلہگ تو نہیں ہے۔‏
نہیں اب میں بہت بہتر محسوس کر رہا ہوں۔
بس تھوڑی تھکاوٹ ابھی باقی ہے صرف مجھے نیند نہیں آ رہی ہے۔
کیوں نیند نہیں آ رہی ہے کیا وجہ ہے۔
‏ میں اپنے وطن میں اپنے بچوں اور بیوی کے بارے میں سوچ رہا ہوں کیونکہ کافی دنوں سے ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہو سکا نہ جانے وہ کیا سوچ ‏رہے ہوں گے میرے بارے میں۔
میری جب سے شادی ہوئی ہے میں پہلی بار گھر سے اتنے دن دور رہا ہوں۔
یقینا وہ تمہاری صحت و سلامتی کے ساتھ تمہاری کامیابی کے لئے دعائیں مانگ رہے ہوں گےلیکن فکر کی کوئی بات نہیں ہے اب تم اپنی منزل پرپہنچ ‏چکے ہو تم مشکلات کے تنگ دروازے میں سے گذر کر ترقی اور خوشحالی کی زمین میں داخل ہو چکے ہو۔
‏ دلبر زئی نے ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ دیا اور ٹوٹی پھوٹی اردو میں انگریزی کو ملاتے ہوئے سوال کیا۔
آپ پاکستان کے کس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں؟۔
میں پنجاب کا رہنے والا ہوں میرے شہر کا نام لاہور ہے میرے آباو اجداد صدیوں سے اسی شہر کے رہنے والے تھے اور پہلے وہ ہندو مذہب سے ‏تعلق رکھتے تھے اور اب کوئی چار نسلوں سے ہم مسیحی مذہب کے پیرو کار ہیں اور پاکستان میں ایک بڑی مذہبی اقلیت کے طور پر اپنی شناخت رکھتے ‏ہیں مگر پاکستان کے آئین میں ۔۔۔۔۔ وہ فقرہ مکمل نہیں کر سکا تھا کہ دلبر زئی نے ایک اور سوال کر دیا
کیا آپ کے باپ دادا برصغیر کے کسی اور علاقے سے ہجرت کر کے لاہور آئے تھے یا ۔
پاسٹر ڈیوڈ سلیم نے دلبر زئی کا سوال مکمل ہونے سے پہلے ہی جواب دینا شروع کر دیا۔ ‏
نہیں جناب ہم تو صدیوں سے اسی علاقے میں آباد ہیں ہم کسی اور ملک سے ہجرت کر کے یہاں پر نہیں آئے ہیں ہم جدی پشتی یہاں کے رہنے والے ‏ہیں ۔
دلبر زئی نے پھر سوال کیا۔
اگر آپ ہزاروں سالوں سے نسل در نسل اس علاقے کے رہنے والے ہیں تو پھر آپ اقلیت کیسے ہوئے؟۔ ‏
ڈیوڈ نے چارپائی پر دونوں کہنیوں کو تکیہ کے اوپر رکھتے ہوئے ان کے سہارے سیدھا بیٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک لمبا سانس لیا ، پھر ہوا کو منہ ‏کے راستے باہر چھوڑتے ہوئے کہا۔
‏ دلبر زئی بھائی یہ میری بھی سمجھ سے باہر ہے کہ ہم اپنے ہی گھر میں پرائے کیسے ہو گئے یہ قدرت کی ہمارے ساتھ ستم ظریفی ہے آپ تصور کریں کہ ‏ایک انسان اپنے ہی گھر میں اقلیت کے طور پر رہ رہا ہے میرے لئے بھی یہ ایک حیرت کی بات ہےآپ کیا سوچتے ہیں؟۔
‏ دلبر زئی نے جواب دینے کی بجائے ایک اور سوال کر دیا آپ کے کتنے بچے ہیں؟۔ ‏
ایک بیٹا دو سال اور ایک بیٹی چار سال کی ہے۔‏
‏ بیوی ایک پرایئویٹ سکول میں استانی ہے اور میں اسی شہر کے ایک گرجا گھر میں پاسٹر تھا میرے والدین بہت بوڑھے ہیں بہن بھائی کوئی نہیں ہے ‏ہاں میری بیوی کے بہن بھائی اور والدین مذہبی تعصب کی وجہ سے کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
اچھا تو آپ پاسٹر ہیں یہ کیا ہوتا ہےکس قسم کا کام کرتے ہیں کیا اس کا تعلق سائنس سے ہوتا ہے میرا مطلب ہے سائنس ، مذہب یا پھر ہنر مندی ‏کے کس شعبہ سے ہے پھر دلبر زئی نے اپنے بچپن کی کہانی سنانی شروع کر دی ۔
مجھے سائنس سے بڑی دلچسپی تھی پچپن میں مجھے یاد ہے ایک بار میں نے لکڑی کی گدھا گاڑی کا کھلونا بنایا تھا ۔
‏ ہمارے پہاڑی گاؤں میں ہم کل بارہ بچے تھے جن میں سات لڑکیاں بھی شامل تھیں ہم پورا ایک ہفتہ اس گاڑی کے ساتھ کھیلتے رہے اور پھر وہ ٹوٹ ‏گئی۔
‏ ابھی دلبر پچپن کی اس کہانی یعنی یاد کا باقی حصہ بھی سنانا چاہتا تھا کہ مارٹینا کی آواز آئی دلبر زئی برائے مہربانی مجھے اس برتن میں پانی لا دو۔ ‏
اچھا بھائی باقی باتیں پھر کسی اور وقت ہوں گی میری ضرورت پڑی تو مجھے آواز دے دینا اور تیزی کے ساتھ دوسرے کمرے کی طرف چلا گیا۔
‏ دلبر زئی اس کو کمرے سے باہر جاتے دیکھتا رہا اور پھر اسے کمرے میں تنہا ہونے کا احساس ہونے لگا وہ کروٹ بدل کر سونے کی کوشش کرنے لگا مگر ‏نیند اس سے کوسوں دور تھی وہ اس دوری کو کم کرنے کے لئے اپنے خاندان کے متعلق سوچنے لگا سب سے پہلے اس کی بوڑھی ماں کا کھانستا ہوا چہرہ ‏اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا پھر اس نے دیکھا کہ اس کا بوڑھا باپ کس طرح اس کی ماں کو سہارا دے کر چارپائی پر بٹھانے کی کوشش کر رہا ‏ہے پھر اس نے اپنے بیوی بچوں کو دیکھا جو اپنی ماں کے ساتھ کسی انجانے خوف کی وجہ سے چمٹے ہوئے تھے اور پوچھا رہے تھے۔
ڈیڈی جی کہاں ہیں اتنے دنوں سے وہ گھر نہیں آئے کہاں گئے ہیں ؟۔
‏ وہ یہ سب کچھ سوچتا ہوا اپنے خاندان کے خیالوں میں گم تھا اور اسے معلوم ہی نہیں ہوا کہ وہ کب نیند کی آغوش میں چلا گیا ہے۔‏
۔۔۔۔۔

سولہواں باب:‏

پاسٹرڈیوڈ سلیم بڑے انہماک سے دلبر زئی کی باتیں سن رہا تھا جو جیتے جاگتے کرداروں کی شکل میں اس کی آنکھوں کے سامنے سے گذر رہے تھے یہ ‏سارے کردار ایک حقیقی کہانی کا روپ دھار کر آہستہ آہستہ اس کے سامنے آ رہے تھے دلبرزئی اسے اپنی آپ بیتی ایسے سنا رہا تھا جس طرح ایک ‏استاد کتاب اپنے گھٹنوں پر رکھے ایک ایک صفحہ الٹ کر ہر لائن پر انگلی رکھے پڑھتا جا رہا ہو اور وہ اس کے سامنے بستر پر بیٹھا ٹانگوں پر تکیہ رکھے اس ‏پر اپنی کہنیا ں ٹکائے ، اپنے دونوں ہاتھوں کی ہتھلیوں میں اپنے چہرے تھامے ہوئے ایک معصوم بچے کی مانند بڑے انہماک سے کہانی سن رہا تھے ۔
وہ کہانی کی صورت میں زندگی کی کتاب پڑھتا جا رہا تھا وہ بتا رہا تھا کہ وہ گھر سے اس اردہ کے ساتھ نکلا تھا کہ ایک دن خوشحالی کی زمین ڈھونڈ لوں گا ان ‏سبز و بھُورے رنگ کی پہاڑیوں پر سے اتر کر سات سمندر پار کرتے ہی غربت و افلاس کی زندگی کے جال میں سے باہر نکل آئے گا اس کے لئے اس ‏کے پاس ایک ہی حل تھا اور وہ تھا ہجرت ، جو اس کے لیے آسان تو نہیں تھی مگر مشکل بھی نہیں تھی اس کے لئے اس نے سب سے پہلے اپنی نوبیاہتا ‏بیوی گُل داوُدی کو اپنا ہم خیال بنایا اور پھر اپنے چاچا زاد بھائی کو اپنی آبائی زمین پر سے ہجرت پر قائل کیا ۔
‏ یوں مجھے اپنے باپ دادا کی وارثت اور اپنی جنم بھومی کو خیر باد کہنا پڑا تاکہ میں ایک نئی اور ترقی یافتہ دنیا دریافت کر سکوں ۔ہم نے ہجرت کے اس ‏سفر میں کیا کھویا اور کیا پایا ابھی تک یہ پوری طرح سے میں جان نہیں پایا ہوں کیا اصل میں ہم وہ گم شدہ لوگ ہیں جو منزل کی تلاش میں کسی اور دنیا ‏میں گم ہو چکے ہیں کیا واقعی کچھ پانے کی خواہش میں ٹیڑھی میڑھی راہوں میں راہ گم کردہ ہم گمشدہ لوگ ہیں۔
اس سفر میں ہم نے ایک چھوٹی پہاڑی کے دامن میں مٹی گارے سے جوڑ کر بے ڈھنگے پتھروں سے بنائے ایک بڑے کمرے پر مشتمل گھر کو کھویا ‏ہے اور آج میری آنے والی نسل کی غربت و افلاس سے جان چھوٹ گئی ہے اور میں دو سو سال پہلے کی زندگی سے نکل کر جدید اور آرام دہ زندگی میں ‏داخل ہو گیا ہوں۔
۔۔۔۔۔

‏ ٭٭٭
‏ کھانے کے کمرے میں سب لوگ خاموشی سے ڈیوڈ سلیم کی آپ بیتی سننے میں مگن تھے تمام لوگوں کی محویت کے حصار کو توڑنے کے لئے یوسف اور ‏نور جہاں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور ہاں میں دونوں نے سر کو جنبش دی اس وقت یوسف اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور سب کی طرف دیکھتے ‏ہوئے کہا دس منٹ کا وقفہ یہاں پر لیتے ہیں سب حضرات کے لیے چائے، کافی، جوس بسکٹ کے علاوہ وہسکی اور سرخ اور سفید انگوروں کی مے میز پر ‏موجود ہے باتھ روم دوبارہ صاف کر دئے گئے ہیں آپ سب لوگ تازہ دم ہو کر واپس تشریف لائیں سب لوگ خاموشی کے ساتھ اپنی اپنی جگہ سے ‏اٹھے اور ادھر ادھر چلے گئے۔
دس منٹ کے وقفہ کے بعد تمام لوگ دوبارہ کھانے کمرے کے ہال میں واپس آ گئے سب لوگ اور بچے بھی اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے ۔
‏ سیب کےجوس سے بھرا ہوا گلاس اپنے آگے پڑی میز پر رکھتے ہوئے دلبر زئی نے کہنا شروع کیا۔‏
‏ افغانستان کی حدود میں ہم دو دن سے پیدل چل رہے تھے منزل پاکستان کا قبائلی علاقہ تھا، جہاں سے ہمارے خوابوں کا سلسہ شروع ہونا تھا جن کی ‏تلاش میں ہم گھر سے نکلے تھے اچانک گل داودی نے دلبر زئی کو آواز دی۔
دلبر نے مڑ کر گل داودی کی طرف مڑ کر دیکھا ۔
کیا بات ہے؟۔
دلبر مجھ سے اور نہیں چلا جا رہا ، میں گرنے لگی ہوں میرا سر بھی چکرا رہا ہے ۔
ہمت سے کام لو بس کچھ اور چلنا ہے۔
میں پاس ہی ہوں تمہارے ساتھ ساتھ چل رہا ہوں بس تھوڑا اور صبر کر لو ، ہمت کرو دلبر نے گُل داودی کا بازو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا اور اسے ‏سہارا دینے کی کوشش کرنے لگا۔
دلبر مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا میری ٹانگیں میرا ساتھ نہیں دے رہیں اور اگلے ہی لمحے دلبر کے بازؤں میں جھول گئی۔
اس کا چچا زاد بھائی اور اس کی بیوی پلوشہ بھی گُل داودی کو اس حالت میں دیکھ کر پریشان ہو گئے جلدی سے چھاگل کا سارا پانی اس کے منہ پر انڈیل دیا ‏اور اس کی ٹانگوں اور پیروں کی مالش شروع کر دی کچھ دیر بعد گُل داودی نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھول کر دلبر کو ہولے سے پکارا۔
دلبر ، دلبر زئی کہاں ہو؟ ۔
میں یہاں ہوں ، دیکھو میں یہاں ہوں۔
دلبر ہم کہاں ہیں کیا ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے ہیں۔
ہاں ہاں ہم پہنچ گئے ہیں وہ دیکھو سامنے سفید و سبز پرچم نظر آ رہا ہے اور کچھ سپاہی بھی نظر آ رہے ہیں مگر تم ٹھیک ہو ، چل سکتی ہو، میں تمہیں اپنی ‏بیٹھ پر اٹھا لیتا ہوں۔
نہیں نہیں میں چل سکتی ہوں اب میں ٹھیک ہوں۔
چاروں افراد کا قافلہ جب باڈر لائن پر پہنچا تو بارڈر کی کچی سڑک پر کوئی سپاہی اور نہ ہی کو ئی مسافر نظر آ رہا تھا جب وہ ٹوٹے پھوٹے بڑے گیٹ کو پار ‏کر کے سرحد کی دوسری جانب جانے لگے تو ان کو کچھ آدمیوں کے ہنسنے کی آوازیں سنائی دیں انہوں نے اپنے دائیں جانب دیکھا تو ایک بوسیدہ سیمنٹ ‏ریت سے بنے کمرے میں چار پاکستانی سپاہی تاش کے پتے کھیل رہے تھے وہاں سے ہی کبھی کبھی ان کے قہقہے بھی بلند ہو رہے تھے ۔
ایک سپاہی جو کھڑکی کی جانب منہ کیے بیٹھا ہوا باہر کی طرف دیکھ رہا تھا اس نے انھیں دیکھ لیا اور اونچی آواز میں پوچھا ۔
کون ہو بھائی اور کہاں جا رہے ہو؟۔
‏ دلبر زئی نے اونچی آواز میں اردو اور پشتو زبانوں میں جواب دیا ہم کابل کے مضافات سے آئے ہیں اور پاکستان جا رہے ہیں۔
‏ اچھا ٹھیک ہے ٹھیک ہے جاؤ جاو مگر پہلے یہ بتاؤ کسی کے پاس سگریٹ ہیں ۔
جی جی دلبر زئی نے ڈرتے ڈرتے جواب میں کہا اور افغانی برانڈ سگریٹ کی دو ڈبیا ں اس پولیس والے کی طرف اچھالتے ہوئے کہا۔
یہ لیجیے جناب،
ایک سپاہی نے ان دونوں پیکٹوں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں کیچ کرتے ہوئے کہا ۔
اب جلدی جلدی یہاں سے دفعہ ہو جائیں ورنہ واپس افغانستان واپسی کا مارچ کروا دوں گا۔‏
دلبر نے شیٹل کاک برقعہ میں اپنی بیوی کی طرف دیکھا اس نے برقعہ کے باریک کپڑے کا حصہ جو گُل داودی کے منہ کے آگے تھا کی طرف غور سے ‏دیکھا جو موسم سرد ہونے کے باوجود آنے والے پسینہ کی وجہ سے گیلا ہو جانے کی وجہ سے اس کے گالوں ، ناک اور ہونٹوں کے ساتھ چپکا ہوا تھا اور ‏بدن تھر تھر کانپ رہا تھا یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اس کے کانپتے ہونٹ کچھ بولنے یا یوں کہہ لیں کچھ پڑھنے کی صورت میں مسلسل تیزی کے ساتھ ‏ہل رہے تھے ۔
دلبر زئی برقعے کے اندر سے نہ تو اس کا پورا چہرہ دیکھ سکا اور نہ ہی یہ جان سکا کہ وہ اس وقت کیا سوچ رہی ہے اور نہ یہ دیکھ سکا کہ اس کا سرخ و سفید ‏رنگ زرد ہو چکا تھا اس کے ذہن میں انجانا خوف تھا اور سوچوں کا ایک سیلاب اس کو گھیرے ہوئے تھا۔
پھر اس نے اپنے دوسرے دونوں ساتھیوں کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی مادری زبان پشتو میں اس سپاہی سے کہا۔‏
جی جناب ہم جا رہے ہیں آپ کا بہت شکریہ
‏ اور یوں وہ چار لوگوں کا قافلہ جن میں دو خواتین اور دو مرد تھے بڑے آرام سے چلتے ہوئے پاکستان کی حدود کی طرف تیزی سے قدم اٹھاتے ہوئے ‏چلنے لگے۔
ابھی وہ دس میٹر بھی آگے نہیں گئے تھے کہ پیچھے سے اس سپاہی نے دوبارہ انھیں آ واز دی، رک جائیں، رک جاو ۔
وہ چاروں ہی جہاں تھے وہاں پر ہی رک گئے۔
سپاہی نے سگریٹ کی دونوں ڈبیاں اپنے ساتھی سپاہی کے ہاتھ سے لیں اور اپنی کرسی سے جلدی سے اٹھ کر ان کی طرف چل پڑا، پاس جا کر کھڑا ہو ‏گیا اور کہا۔
تو جناب آپ اتنا سستا سگریٹ پیتے ہیں، کون کون سگریٹ پیتا ہے آپ میں سے، اور دلبر کی بیوی کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اور اس کی طرف اشارہ ‏کرتے ہوئے کہا یہ کون ہے اور دلبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ آپ کی کیا لگتی ہے۔
دلبر تلملا گیا کیونکہ گل داودی کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے وہ پہلے ہی کافی پریشان تھا اس نے غصہ سےدونوں ہاتھوں کی مٹھیاں کو زور سے بند ‏کرتے ہوئے نرم لہجے میں جواب دیا ۔
جناب عالی یہ میری بیوی ہے اور زمیں کی طرف دیکھنے لگا۔
اچھا تو یہ تمہاری بیوی ہے تو یہ کالے برقعے والی کون ہے سپاہی نے دوسری خاتون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
پھر دلبر نے اس سپاہی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
یہ میرے بھائی کی بیوی ہے۔
‏ کیا یہ تمہارا سگا بھائی ہے؟۔
نہیں جناب میرے تایا کا بیٹا ہے اور ہمارے دستور کے مطابق یہ سگے ہی ہوتے ہیں اب ہم جا سکتے ہیں ابھی ایک دن کا سفر باقی ہے دلبر نے یہ کہتے ‏ہوئے سپاہی کے لباس پر سے نظریں ہٹا کر اپنے کزن کی طرف دیکھا اور پاکستان کی طرف چلنا شروع کر دیا باقی تینوں نے بھی دلبر کے پیچھے ایک ‏قطار کی شکل میں چلنا شروع کر دیا۔
سپاہی نے دلبر کی دی ہوئی سگریٹ کی ڈبی کھولی اس میں سے ایک سگریٹ نکالا اور اپنے ہونٹوں میں دبانے سے پہلے ایک بار پھر ان کو رکنے کے لئے ‏کہا جب وہ پھر رک گئے تو اونچی آواز میں کہا۔
‏ ارے مجھے ماچس تو دیتے جاو، سگریٹ کیسے سلگاوں گا۔
‏ دلبر نے سپاہی کی طرف دیکھے بغیر جیب میں سے ماچس نکالی اور تیزی سے سپاہی کی طرف منہ موڑا اور اس کی طرف اچھال دی اور انتظار کیے بغیر ‏کہ سپاہی نے ماچس کیچ کر لی ہے یا نہیں آگے کی طرف چلنا شروع کر دیا ۔
سپاہی نے سگریٹ سلگایا اور گہرا کش لگاتے ہوئے واپس اپنے ساتھیوں کی طرف چلنے لگا مگر ان کے قریب پہنچ کر اپنے دائیں ہاتھ کی طرف گھوم گیا ‏جہاں پر چار چھوٹے ڈنڈے ایک مربع میٹر شکل میں مٹی میں گاڑ کر جھاڑیوں سے ان کو چاروں طرف سے ڈھانپ دیا گیا تھا اس کے اوپر کوئی چھت ‏نہیں تھی یہ ان کی رفع حاجت کے لئے بنائی ہوئی جگہ تھی۔ ‏
‏ ۔۔۔۔۔ ‏

‏ ٭٭٭
انگور اڈہ کی بے ترتیب سرحد، پاکستان کا قبائلی علاقہ جنوبی دزیرستان، ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف سناٹا،انگور اڈہ جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا ‏سے تقریبا 35 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔
اس سرحدی مقام کے دونوں جانب برمل اور احمد زئی وزیر قبائل آباد ہیں۔
انگور اڈہ اور اس کے ساتھ علاقہ پر افغان حکومت اپنی دعویداری کرتی ہے۔
‏ اس وقت دو ہزار چار سو تیس کلو میٹرز پر مشتمل بین اقوامی سرحد پر صرف چند کنٹرول کرنے والی چوکیاں تھیں اور دونوں اطراف چند سپاہی جو ‏امیگریشن کے محکمے سے تعلق رکھتے تھے اتنی طویل کنٹرول لائن پر جو اٹھارہ سوتریانوے میں ایک انگریز ڈپلومیٹ اور برطانوی انڈین سول سرونٹ ‏سر مورتی میر ڈیورند نے اس وقت کے امیرعبدلراحمان خان کے ساتھ ترتیب دی تھی، اس ڈیورنڈ لائن پر نہ تو پاسپورٹ کنٹرول ہوتا تھا اور نہ ہی ‏کوئی ویزا کا سسٹم تھا دونوں ممالک کے لوگ آزدانہ آتے جاتے تھے کوئی پاپندی نہیں تھی افغانی ہزاروں کی تعداد میں کام کی تلاش میں سرحد عبور ‏کر کے پاکستان میں داخل ہوتے تھےاور پاکستان میں انہوں نے چھوٹے اور کم آمدن والے سارے کام سنبھال رکھے تھے۔
جب سوویت یونین نے کابل پر قبضہ جما لیا تو چالیس لاکھ سے زیادہ افغانی پاکستان میں سیاسی پناہ کے لئے داخل ہو گئے تھے اور ان میں سے بہت سے ‏اب تو یہاں کے ہی ہو کر رہ گئے ہیں جو اب پاکستانی کی حیثیت سے زندگی گذار رہے ہیں اور پاکستانی تہذیب و ثقافت میں گم ہو گئے ہیں۔
تمہارے ماں باپ تو اُدھر ہی ہیں تمہارے بعد وہ کیسے رہتے ہیں پاسٹر ڈیوڈ نے دلبر زئی سے کہا اور پوچھا کہ آپ کے پاس سگریٹ ہیں تو ایک مجھے ‏عنایت کریں کافی دنوں سے کش نہیں لگایا آج مجھے بہت زیادہ طلب ہو رہی ہے۔
برائے مہربانی ایک سگریٹ عنائت کر دیں۔
جی میرے پاس اطالوی برنڈ سگریٹ ہیں۔
‏ مگر مجھے پورا یقین نہیں ہے کہ ہم اس کمرے میں سگریٹ کے کش لگا سکتے ہیں کہ نہیں۔‏
ٹھہرو میں ایک منٹ میں اس کی تصدیق کر لیتا ہوں اور دوبارہ کمرے سے باہر نکل گیا اور دو منٹ بعد ہی واپس آ گیا۔
‏ ہم اس کمرے میں صرف ہم دو ہی ہیں اور دونوں ہی سگریٹ کے عادی ہیں لہذا مجھے کہا گیا ہے کہ آپ سگریٹ پی سکتے ہیں دلبر نے ہاتھ میں پکڑی ڈبیا ‏کو کھولتے ہوئے کہا اور ڈبیا میں سے ایک سگریٹ دوسرے سگریٹوں سے تھوڑا آگے نکال کر اس کی طرف بڑھتے ہوئے کہا ۔
لیجیے جناب یہ اٹلی کا مشہور برانڈ ہے مہنگا تو نہیں ہے تاہم اس کا مزہ مجھے بہت پسند ہے اور دھواں میں سے آنے والی ہلکی ہلکی خوشبو طبیعت کو بھلی ‏لگتی ہے۔
ڈیوڈ سلیم نے سگریٹ اپنے ہونٹوں میں دبایا ہی تھا کہ دلبر اپنی جگہ سے اٹھا اور لائٹر جلا کر اس کو سگریٹ سلگانے میں مدد دی۔
پاسٹر ڈیوڈ سلیم نے ایک لمبا کش لگایا اور دھواں کمرے کی سفید چھت کی طرف اچھال دیا اور پھر ایک لمبا سانس لیتے ہوئے کہا، میں نے آپ سے ‏ماں باپ کے بارے پوچھا تھا۔
ارے ہاں میں بھول گیا تھا ۔
میرے بابا جانی مجھے بتایا کرتے تھے کہ جب ان کی شادی ہوئی تو وہ ابھی سولہ برس کے تھے اور میری ماں کی عمر چودہ برس تھی شادی کے دو برس بعد ‏میری پیدائش ہوئی۔
‏ میں ابھی چار برس کا تھا کہ ایک دن میرے دادا بڑے خوش دوسرے گاؤں سے واپس گھر آئے اور میرے بابا جانی ظائر احمد کو یہ خبر سنائی ظائر احمد ‏آج میں نے تیرا نام مجاہدین میں بھرتی کے واسطے لگوا دیا ہے پاکستان سے چار عدد فوجی اس گاؤں میں مجاہدین کی بھرتی کے لئے آئے ہوئے تھے وہ ‏بھرتی ہونے والے نوجوانو کو ایک ماہ کی تنخواہ بھی ایڈوانس میں دے رہے تھے۔
وہ بتا رہے تھے کہ روسی فوجوں نے ہمارے کچھ علاقوں پر نا جائز قبضہ کیا ہوا ہے بس اس کو واپس لینے کے لئے محاذ جنگ پر جانا ہے اس جنگ میں ‏امریکہ بھی ہمیں مالی اور اسلحہ کی مدد فراہم کر رہا ہے اس لئے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے دنیا کی ایک سپر طاقت ہمارے ساتھ ہے ۔
‏ میں نے سوچا چلو اسی بہانے کچھ رقم ملے گی اورپھر تیری نوکری بھی پکی ہے کیونکہ وہ بتا رہے تھے کہ اس کام کے لیے امریکن مالی امداد کے علاوہ ‏جدید اسلحہ اور دوسرا سامان بھی ہر نوجوان کو مہیا کرتے ہیں ۔
اور ہاں ٹھیک آج سے دس دن کے بعد وہ ایک ٹریننگ کیمپ کا بھی انتظام کر رہے ہیں ۔
محاذ جنگ پر جانے سے پہلے یہ بہت ضروری ہوتا ہے آخر تجھے جدید اسلحہ کا استعمال بھی تو آنا چاہیے یہ جو ہمارے پاس دیسی ساخت کی بندوق ہے یہ ‏وہاں کسی کام کی نہیں ہو گی یہ کہہ کر میرے دادا گھر کے باہرخچر پر معمول سے زیادہ لادا ہوا سامان اتارنے لگے۔
‏ میری ماں جو کمرے کو دو حصوں میں بانٹنے والے ہاتھ سے بنے ہوئے پردے کے پار یہ سب کچھ سن رہی تھی پردہ ہٹا کر میری طرف لپکی اور مجھے سینے ‏سے لگا کر رونے لگی۔‏
‏ میر ے باپ نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
دیکھو گُل داوُدی مجھے اور آپ کو کچھ نہیں ہو گا بابا نے اچھا فیصلہ لیا ہے کہ اس طر ح ہمارے دن بدلنے والے ہیں کیونکہ مجھے پُوست کی کاشت کرنا ‏پسند نہیں ہے اس میں بہت محنت کرنی پڑتی ہے اور اکثر پانی اور کھاد نہ ہونے کی وجہ سے ساری فصل خراب ہو جاتی ہے اور آمدنی نہ ہونے کے ‏برابر ہے اور پھر میں کونسا کسی اور کام کے لیے جا رہا ہوں اپنے وطن کی سر زمین کی حفاظت کی خاطر لڑنے جا رہا ہوں اوپر سے آئے دن پُوست کی ‏کاشت پر پولیس بھی ہمیں بہت تنگ کرتی ہے اس کے علاوہ پوری دنیا ہم پر دباو ڈالتی ہے کہ ہم پوست کی کاشت نہ کیا کریں ۔
‏ دوسری طرف ہمارے وطن کی سر زمین پر روسیوں نے ناجائز قبضہ کر لیا ہے اپنی آزادی کی جنگ کے لیے جا رہا ہوں اور تنخواہ بھی ملے گی جو ہمارے ‏حالات بدل دے گی میں تمہیں اور دلبر کو کابل شہر لے کر جاؤں گا اچھے کپڑے، تیرے لئے سونے کے گنگن اور دلبر کے لیے خوبصورت کپڑے ‏اور دادا جانی کا علاج اور پھر بابا جانی کو آرام کی ضرورت ہے۔
اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ انھیں کام نہیں کرنے دوں گا۔
‏ میرا باپ بولتا جا رہا تھا اور میری ماں کے آنسو تھے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے اور پھر ایک دم میری ماں نے سفید چادر جس سے سر اور چہرہ ‏اس نے ڈھانپ رکھا تھااپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے پکڑتے ہوئے سر کی پچھلی طرف پھینک دی اور اپنی شہادت کی انگلی سے سرخ و سفید ‏گالوں پر سے آنسو صاف کرتے ہوئے بابا جانی کی طرف ایسی نظروں سے دیکھا جن میں امید کے ستارے جھلملا رہے تھے جن میں بے شمار سوال ‏تھے جو پیار کے اتھاہ گہرے سمندر کی سطح پر تنکوں کی مانند تیر رہے تھے اور میرے بابا جانی کو میرے سامنے پہلی بار ان کے نام سے پکارتے ‏ہوئےروہانسی آواز میں کہا ۔
ظاہراحمد زئی دیکھو میں نے پہلے ہی تمہاری خاظر بہت زیادہ دکھ سہے ہیں مگر میں خوش ہوں کہ تم میرے ساتھ ہو اور اب میں تمہارے بغیر خود کو ‏اور دلبر کو کیسے سنبھال پاؤں گی کیسے اپنی اور دلبر کی حفاظت کر سکوں گی۔
ظاہراحمد زئی جو اس وقت سے مجھے اور کبھی میری ماں کو خاموشی سے دیکھ رہا تھا بولا۔
دیکھو گُل داؤدی میں بھی نہیں چاہتا کہ آپ سب کو چھوڑ کر کسی اور کی سجائی ہوئی جنگ کے میدان میں کود جاؤں میں جانتا ہوں یہ میرے لوگوں کی ‏جنگ کے علاوہ کچھ اور ممالک کے مفادات کی جنگ بھی ہے اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اس جنگ کا کوئی مقصد یا مستقبل نہیں ہے ہم سب کو امن و صلح ‏کی طرف ہی لوٹ کر آنا پڑے گا ۔
تو پھر کیوں جا رہے ہو ؟
‏ میں آپ سب کے بہتر مستقبل کے لیے جا رہا ہوں دنیا کے ساتھ ہمارے گاؤں کے لوگ بھی ہمیں پیچھے چھوڑ کر ترقی کے میدان میں آگے نکل گئے ‏ہیں مجھے یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا تمہارے لئے گُل داوُدی ، اپنے اور تمہارے دلبر کے لئے ،مجھے خوشی سے جانے دو۔
ہمارا کیا مستقبل ہے کس نے دیکھا ہے سوائے خدا کے۔
‏ مجھے معلوم ہے مگر اس امید سے جدائی برداشت کروں گا کہ ہمارا مستقبل بہتر ہو جائے گا ۔
اور پھر میری ماں کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر بوسہ دیا ۔
باہر سے میرے دادا نے مجھے آواز دی۔
دلبر باہر تو آ کر دیکھ میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں۔
‏ میری ماں نے مجھے بڑی نرمی کے ساتھ گود میں سے اتارا اور میرا بوسہ لیتے ہوئے کہا جاؤ بیٹا تمہارا دادا تمہیں بلا رہا ہے میں بھی تحفے کی امید میں ‏جلدی سے باہر دادا کے پاس چلا گیا میں نے دروازے سے باہر قدم رکھنے سے پہلے مڑ کر دیکھا تو میری ماں میرے بابا جانی کے کندھے سے سر لگائے ‏ہولے ہولے سسکیاں بھر کر رو رہی تھی۔ ‏
دادا میرے لیے پلاسٹک کا بنا ہوا نیلے رنگ کا گلاس لائے تھے جس کو دیکھ کر میں بہت خوش ہوا تھا اور گلاس لے کر واپس گھر میں جانے لگا تو مجھے ‏روک کر دادا نے ایک عدد پلاسٹک کا چمچہ بھی دیا اسی طرح دادا جی نے مجھے دو گھنٹے سے زیادہ اپنے پاس مختلف بہانوں سے روکے رکھا۔
پھر میں نے دیکھا کہ بابا جانی گھر سے باہر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے اور سر پہ پکڑی درست کرتے باہر آ رہے تھے ان کے پیچھے ہی میں نے اپنی ماں کو ‏بھی دیکھا جو ہمیشہ کی طرح سر اور منہ چادر سے ڈھانپے دروازے پر آ کر کھڑی ہو گئی اور ہم سب کو کبھی دیکھتی اور کبھی ہمارے پیچھے سر سبز پہاڑیوں ‏کو درد سے لبریز ہلکی سے مسکراہٹ کے ساتھ دیکھتی۔
میں گلاس اور چمچہ لے کر ماں کی طرف دوڑا اور کہا دیکھو ماں دادا جی میرے لیے کیا لائے ہیں اور پھر ہم دونوں دروازے کی دہلیز پر بیٹھ کر بابا جانی اور ‏دادا جانی کو شام تک کام میں مصروف دیکھتے رہے۔

۔۔۔۔۔

سترہواں باب:‏
آج صبح گُل داوُدی معمول سے ایک گھنٹہ پہلے جاگ گئی تھی بلکہ وہ رات بھر نیند اور سوچوں کے گرداب میں پھنسی ہوئی تیز لہروں سے لڑتی رہی ۔
‏ اسے جب بھی جاگ آتی وہ سوچتی ، محبت کیا ہے اور کیوں کسی سے ہوتی ہے کب اور کہاں اور کیسے یہ ہوتی ہے وہ یہ تو نہیں جانتی تھی مگر اسے معلوم ‏تھا یہ کیا ہے وہ جانتی تھی کہ محبت جس سے کی جاتی ہے اس کے سامنے ہتھیار ڈالے جاتے ہیں اس کی ہر ادا اور کام کو پسند کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ‏یعنی محبت ہارنے کا دوسرا نام ہےیہ ایک ایسا جذبہ ہے جو بے ساختہ ہے وہ یہ سوچتی ہوئی اپنے بستر سے اٹھی اور اس نے دلبر اور اس کے دادا کو ‏سوتے ہوئے ایک نظر دیکھا اور منہ اندھیرے ہی پانی کا مشکیزہ چشمہ سے بھر کر لانے کے لئے چلی گئی۔
جب وہ پانی سے بھرے ہوئے مشکیزے کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی تو پھر بھی ان دونوں کو سوتے ہوئے پایا۔
اس نے دروازہ آہستہ سے کھولا تو دروازے کے کھلنے کی آواز سے دلبر کے دادا کی آنکھ کھل گئی مگر یہ دیکھتے ہوئے کہ گُل داوُدی ہے دوبارہ آنکھیں ‏موُندھ لیں۔
‏ اس نے پانی سے بھرا ہوا مشکیزہ اُتارتے ہوئے دلبر کو آواز دی صبح ہو گئی ہے اٹھ جاو بیٹا دلبر ۔
‏ ابھی بہت سے کام باقی ہیں جو تمہارے بابا جانی کے جہادی تربیت ختم کرنے کے بعد گھر واپس لوٹنے کی خوشی میں کرنے ہیں۔ اور ایک بار بھر دلبر ‏سے کہا اٹھ جاؤ دلبر بیٹا اور مشکیزہ نیچے زمین پر رکھ دیا ۔یہ پانی سے بھرا ہوا چوتھا مشکیزہ تھا جو وہ اپنے گھر سے ایک کلو میٹر دور چھوٹی سی پہاڑی کے ‏دامن میں واقعہ قدرتی میٹھے پانی کے چشمہ سے بھر کر لائی تھی۔

‏ ٭ ٭٭
دلبر کے دادا نے آج صبح پہلا کام یہ کیا اپنی پانچ بھیڑوں میں سے ایک کو منتخب کر کے ذبح کر لیا تھا اور اب وہ اس کا گوشت صاف کر نے کے بعد ‏خشک لکڑیوں کو ایک جگہ جمع کر رہا تھا تاکہ پوری بھیڑ کو آگ پر بھُون کر شام کو ظاہر احمد زئی کے ساتھ بیٹھ کر تمام دوست احباب کے ساتھ مل کر ‏کھائیں گے ۔
‏ کیونکہ اردگرد سے ظاہراحمد زئی کے دوست اور دلبر کے دادا کے دوست اور رشتہ دار بھی آ رہے تھے اور گُل داوُدی کے ماں باپ اور دو بھائی بھی آ ‏رہے تھے یوں ایک اچھی خاصی بڑی ضیافت کا اہتمام ہو گیا تھا۔
گُل داودی نے اب تھورا اونچی آواز میں دلبر کو پکارا جو دادا جانی کے قریب ہی اپنی ٹوٹی ہوئی چھوٹی سی لکڑی کی موٹر کار کے ساتھ کھیلنے میں مگن تھا۔ ‏
دلبر اب کھیل کود بند کرو اور غسل کے لیے تیار ہو جاو شام تک تمہارے بابا اپنی پندرہ دن کی فوجی تربیت ختم کر کے آنے والے ہیں ابھی میں نے ‏خود بھی نہا دھو کر تیار ہونا ہے ابھی شام کی دعوت کے لئے بہت سی چیزیں بھی تیار کرنا ہے۔ ‏
دلبر کے دادا نے باہر سے آواز لگائی بہو گندم کا آٹا گوندھ کر خمیر لگا دینا اور ہاں مئی کا آٹا بھی گوندھ کر رکھ دینا ۔
گُل داودی نے دلبر کو بازو سے پکڑتے ہوئے تھوڑی اونچی آواز میں جواب دیا۔
جی میں نے پہلے سے ہی تیار کر کے رکھ دیا ہے اور اب دلبر کو غسل کروانے لگی ہوں ۔
نئے کپڑے جو سفید شلوار قمیض اور سفید ہی پگڑی پر مشتمل تھا اسے پہنا کر ہدائت کی کہ یہ اب گندے نہیں ہونے چاہیے دلبر بے رخی سے جواب ‏میں یہ کہتے ہوئے باہر نکل گیا ۔
جی ہاں جی مجھے معلوم ہے بابا جانی آ رہے ہیں میں اب گھاس اور مٹی پر نہیں کھیلوں گا ۔
اور دادا کے قریب جا کر ایک خشک صنوبر کے تنے کے اوپر جا کر بیٹھ گیا اور اپنے دادا کو کام میں مصروف ایسے دیکھنے لگا جیسے وہ اس کے کام کی نگرانی ‏کر رہا ہو۔
۔۔۔۔۔

‎ ‎٭٭٭
صنوبر اور چیٹر کے اونچے اور گھنے درختوں پر سے شور سے جب پرندے اڑنے لگے اور چند کوّے جو صبح سے ہی گھر کی پتھریلی دیواروں پر براجمان ‏تھے اور کبھی کبھار جہاں پر بھیڑ کا خون اور چیھٹڑوں پڑے تھے ان کے قریب جاتے مگر گھر کے چار عدد پالتو کتے انھیں زمین پر دیکھتے تو بھُونک ‏بھونک کر آسمان سر پر اٹھا لیتے اور کبھی ان کی طرف تیزی کے ساتھ دوڑتے ہوئے جاتے جیسے ان کے پَر نوچ لیں گے مگر ہر بار ناکامی کے بعد واپس ‏اپنی جگہ پر پلٹ آتے اور تمام کوئے دوبارہ گھر کی پتھریلی منڈیر اور کچھ لکڑی کی چھت پر اڑ کر بیٹھ جاتے اور گائیں گائیں کرتے۔
‏ کام میں بہت زیادہ مگن کے باوجود انھیں گاڑی کے انجن کے شور اور فائرنگ کی آواز آنی شروع ہوئی اور یہ آوازیں قریب آتی جا رہی تھی۔
گُل داودی گھر سے باہر نکل کر کھلے آسمان تلے آ گئی ۔
دلبر کا دادا بھی کام چھوڑ کر مغرب کی طرف سے گاڑیوں کے قریب آتے شور کو اپنے ایک ہاتھ کو پیالی کی شکل بناکر اور اسے کان کے پیچھے لگائے ‏نہایت غور سے سنتے ہوئے گھر کے بڑے گیٹ کی طرف آہستہ آہستہ چلنے لگا۔
‏ یہ دیکھتے ہوئے دلبر بھی اپنی جگہ سے اٹھا اور ان کے پیچھے خستہ حال لکڑی کے گیٹ کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا چند منٹ کے انتظار کے بعد انھیں دو ‏فوجی گاڑیاں گھر کی طرف آتی نظر آنا شروع ہو گئیں۔
دلبر نے تقریبا چیختے ہوئے کہا دادا جان ، بابا جانی آ رہے ہیں ۔
دادا نے بے چین و بے قرار گُل دوادی کی طرف دیکھے بغیر اسے کہا۔
بہو گھر کے اندر چلی جاو، ظائر احمد کے ساتھ نامحرم مرد بھی ہیں۔
جی میں جاتی ہوں اور آنکھوں میں خوشی کے آنسو لئے اندر چلی گئی اور دروازے میں پردے کے پیچھے کھڑی ہو کر قافلے کا انتظار کرنے لگی۔
اس نے دیکھا کہ دو فوجی گاڑیاں گیٹ کے سامنے آ کر رکیں ان میں سے ایک پر سے چھ لوگ پاکستان آرمی کی وردی میں تھے اور دوسری فوجی گاڑی ‏پر چھ لوگ مقامی لباس میں تھے جن میں ظائر احمدزئی بھی شامل تھا ہر ایک کے پاس ایم سولہ اے ون رائفل تھی جو ان کےکندھوں پر لٹک رہی ‏تھیں اور کمر کے گرد چمڑے کی پیٹی میں چون ٹائپ سیمی آٹومیٹک پستول تھے جو چین کی فیکٹریوں میں تیار کیے گئے تھے کمر میں دوسری طرف ایک ‏خوبصورت اور چمکتا ہوا خنجر بھی تھا جو میڈ ان پاکستان تھا اور گاڑیوں پر پاک امریکہ دوستی کا نشان بنا ہوا تھا ۔
سب کے چہروں پر بظاہر ایک دلفریب ہلکی سی مسکراہٹ تھی مگر اس مسکراہٹ کے پیچھے ایک سوچ بھی جاگ رہی تھی جو افسردہ کر دینے والی اور ‏پریشان کن تھی اس سوچ کے پیچھے بہت سارے خیالات چھپے ہوئے تھے جو کسی کو نظر نہیں آ رہے تھے ۔‏
ان کی بہادری اور ہمت اسی میں پنہاں تھی کہ سینے میں چھپے ہوئے خاندانی دکھ کسی کو معلوم نہ ہوں وہ خاموشی کے ساتھ اپنے سارے دکھ درد دل ‏کے کسی کونے میں دفن کر کے مسکرانے کا فن پندرہ دن کے تربیتی کیمپ میں سیکھ چکے تھے۔
ظائر احمد زئی کے دوست نے اس کے کان میں کچھ کہا تو ظائر احمد زئی نے اپنے کپیٹن کے کان کے پاس اپنا منہ کر کے ہولے سے کچھ کہا کیپٹن نے ہاں ‏میں سر ہلایا ۔
ظائر احمد جیپ میں کھڑا ہو گیا اور رائفل کندے سے اتار کر اور اس کی نالی آسمان کی طرف کر کے چند فائر کیے اس کی تقلید میں دوسرے نوجوانو ‏نے بھی ہوا میں فائر کیے، یوں پورے گاؤں کو معلوم ہو گیا کہ قافلہ پہنچ گیا ہے۔
٭٭٭
کمرے کے وسط میں ایران سے سمگل شدہ ایک رنگین اور خوبصورت قالین جو ہاتھ سے بنا ہوا تھا بچھا دیا گیا تھا اس پر سب لو گ دائرے کی شکل میں ‏بیٹھے ہوئے تھے درمیان میں کھانے کا سامان پڑا ہوا تھا ظائر احمدزئی اور اس کے پانچ دوست بھی اس کے دائیں بائیں بیٹھے تھے ۔
وہ خود کو ایک ہیرو سمجھ رہا تھا جو محاذ جنگ پر جانے سے پہلے اس ذہنی کشمکش میں ہے کہ ابھی وہ جنگ جیت جائے گا اور وہ تالیوں کی گونج میں شہر کی ‏سڑکوں پر مارچ کرے گا یا پھر مخالف سپاہی کی گولی کا نشانہ بن جائے گا اور گاؤں کی مسجد سے اسے چارپائی پر سفید چادر میں لپیٹ کر قبرستان کی طرف ‏لے کر لوگ جا رہے ہوں گے اور قبر میں اتارنے سے پہلے سب لوگ اپنی نم زدہ آنکھوں سے اس کے چہرے کا طواف کر رہے ہوں گے۔
وہ اس وقت چونکا جب دلبر اس کی گود میں آ کر بیٹھ گیا اور کان میں کچھ کہنے کے بعد اس پردے کی طرف دیکھنے کو کہا جس کے پیچھے اس کی ماں اپنی ‏سہیلیوں کے ساتھ چھپ کر ان سب کو دیکھ دیکھ کر کبھی خوش ہوتی اور کبھی اداس ہو رہی تھیں۔
گُل داؤدی کی سہیلی نے اپنے خاوند کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا دیکھو ! کیا ایسا لگتا ہے یہ سب جہاد پر جا رہے ہیں یا پھر یہ اپنی انمول محبت کی ‏اونچی پہاڑی کو سر کرنے جا رہے ہیں۔
‏ اور پھر خود ہی کہا نہیں ایسا نہیں ہے میں تمہیں حقیقت بتاتی ہوں یہ لوگ تشدد اور محبت سے ہاتھ ملانے جا رہے ہیں یہ سن کر ساری سہیلیاں منہ پر ‏ہاتھ رکھ کر ہنسنے کی کوشش کرنے لگیں۔
ظائر احمد زئی نے پردے کی طرف دیکھا تو اسے گُل داودی کے ساتھ گُل مکئی بھی نظر آئی جس کے چہرے پر سے نقاب سرکا ہوا تھا۔
کچھ لمحے وہ ان دونوں کی خوبصورتی کا ایک دوسری سے موزانہ کرتا رہا پھر اسے گُل داودی ہی سب سے خوبصورت اور بہادر عورت لگی۔
‏ اس نے اپنی کہنی اپنے پچپن کے دوست گلاب خان کی کمر میں ہلکی سی چبھوئی اور اس طرف اشارہ کیا جہاں تمام عورتیں اور لڑکیاں بیٹھی ہوئی تھیں ‏جن میں نُو بیاہتا دلہن گُل مگئی بھی تھی جس کی دو ہفتہ پہلے ہی ظائر احمد زئی کے دوست گلاب خان سے شادی ہوئی تھی۔
‏ وہ تمام اس کمرے میں جگہ کی کمی کی وجہ سے ایک دوسری کے ساتھ جڑی ہوئی بیٹھی تھیں وہ اس ترتیب کے ساتھ ایک جیسے انداز میں یوں بیٹھی ‏ہوئی تھیں کہ جیسے ایک گتے کے بڑے ڈبہ میں پلاسٹک کی گڑیوں کو رنگ برنگے کپڑے پہنا کر پیک کر دیا ہو اور ان سب کو کسی بڑے شہر کے مشہور ‏سٹوروں پر فروخت کے لئے تیار کیا گیا ہے۔
اسی اثنا میں پاک فوج کے کپیٹن نے کھڑے ہو کر سب کو سلام عرض کہا اس کے جواب میں کچھ لوگوں نے صرف وعلیکم سلام کہا اور کچھ برزگوں ‏نے وعلیکم سلام کہنے کے ساتھ ہی کچھ قرآنی آیتوں کو اونچی آوازمیں پڑھنا شروع کر دیا ۔
کیپٹن نے ان کو قرآنی آئیتوں کو ختم کرنے کا پورا موقع دیا اور بڑے نرم اور پیار بھرے لہجے میں کہنا شروع کیا آپ سب بزرگوں اور قبیلے کے تمام ‏عہدہداران کا مشکور ہوں کہ حکومت پاکستان کی درخواست پر آپ نے ہر وقت اور خاص طور پر مشکل وقت میں جہاد میں حصہ لیا اور فتح میں اہم ‏کردار ادا کیا ہے اور کرتے رہیں گے آج ہمارے درمیان اس قوم کے چھ نوجوان اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے واسطے تیار ہو چکے ہیں ان کی تربیت ‏ختم ہو چکی ہے آج سے یہ کافروں کے ساتھ یعنی ملک روس کے ساتھ جاری جنگ میں اپنا حصہ ادا کرنے جا رہے ہیں مجھے یقین ہے یہ میدان میں سے ‏سُرخرو واپس اپنے گھروں کو لوٹیں گے کپیٹن نے ایک ساتھ قالین پر بیٹھے ہوئے چھ نوجوانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔
‏ پوری قوم کو آپ پر فخر ہے اللہ نہ کرے اگر آپ دشمن کی گولی کا شکار ہو گئے تو آپ شہید اور اگر دشمن کو مار کر واپس آئے تو آپ غازی ہیں۔
وہاں پر موجود تمام لوگوں نے تالیاں بجائیں۔
‏ کپیٹن نے پھر کہا ہم آپ کی ہر طرح سے مالی مددکریں گے اور آپ کے بزرگوں کی اجازت کے بغیر آپ کے کسی علاقے یا گاؤں میں کوئی سکول ‏نہیں کھولیں گے سڑک آپ کہیں گے تو بنے گی جب تک آپ اجازت نہیں گے دیں ہم کچھ نہیں کریں گے ہم آپ کی ہر خواہش کا احترام کریں ‏گے پاکستان کا کوئی قانون اس علاقے میں لاگو نہیں کریں گے ہم آپ کے جرگہ میں کوئی مداخلت نہیں کریں گے مگر ہماری بھی آپ سے ایک ‏درخواست ہے ہم آپ کی ہر طرح سے حمایت اور تعاون چاہتے ہیں۔
آخر میں آج کی پر تکلف دعوت کا شکریہ اور ان چھ نوجوانو کو جہاد میں شمولیت پر مبارکباد دیتے ہوئے خوش آمدید کہتے ہیں۔
پھر گاؤں کے مولوی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان سے درخواست کی کہ اب آپ جہاد کے فضائل پر روشنی ڈالیں اور اس ملک اور دنیا میں ‏امن و سلامتی کے لئے دعا فرمائیں۔
مولوی صاحب کا تعلق شمالی پنجاب سے تھا اورپاک فوج کی طرف سے اس علاقے میں نامزد کردہ امام مسجد بھی تھا۔ مولوی صاحب کی نامزدگی کا ‏سبب یہ تھا کہ ظائر احمد زئی کے گاؤں کے اردگرد سات گاؤں مسجد اور مولوی صاحب سے صدیوں سے محروم تھے لہذا حکومت نے اس نیک کام ‏میں ان قبائل کی پہلی بار مدد یہ کی تھی کہ ہر گاؤں میں سرکاری خرچ پر مسجد بنوائی گئی اور سرکار کی طرف سے مولوی تعنیات کیے گئے تھے۔‏
‏ اس گاؤں میں یہ پہلا پڑھا لکھا مولوی تھا جس کا نام مولانا فضل کریم جھنگوی تھا جو سرکاری ملازم رکھا گیا تھا اصل میں یہ سارے سرکاری ملازم فوجی ‏ہی تھے جن کو تنخواہ سرکاری خزانے سے ادا کی جاتی تھی۔
مولانا صاحب اس علاقے کی تمام مساجد کے انچارج بھی تھے اس نے ہر گاؤں میں سے ایک ایک آدمی اپنے مددگار کے طور پر منتخب کر رکھا تھا جو ‏گاؤں والوں نے متفق طور پر چنا تھا اور اس گروپ کو مسجد کمیٹی کا نام دیا گیا تھا۔
مولوی صاحب کھڑے ہوئے اور سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہنا شروع کیا ۔
میرے ہم وطن بھائیو آج مجھے بہت خوشی ہے آج اس دعوت میں شامل ہو کر ۔
آج ہم سب یہاں پر ایک نہایت اہم اسلامی فریضے ادا کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں ہمارے وطن کے رکھوالے بھی یہاں پر موجود ہیں جن کی مدد ‏اور خدمت کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں ہیں اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔
کپیٹن مجاہد حسین نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھا اور مولوی صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ایک منٹ مولوی صاحب میری آپ ‏سے گذارش ہے کہ اپنا خطاب مختصر کریں اور خاص طور پر صرف جہاد کے فضائل پر روشنی ڈالیں ورنہ رات زیادہ ہو گئی تو رات کے اندھیرے ‏میں ہمارا واپسی کا سفر اور زیادہ مشکل ہو جائے گا۔ ‏
جی حضور میرے محترم برادر ، میں ایسا ہی کروں گا ، مجھے اس بات کا احساس ہے اور اپنے مخصوص انداز میں کہنا شروع کیا ۔
سورہ النساء کی 74 آیت میں اللہ تعالی فرماتے ہیں۔
جو مسلمان (گھروں میں ) بیٹھ رہتے (اور لڑنے سے جی چراتے) ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے اورجو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مال اورجان سے لڑتے ‏ہیں وہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے ۔ مال اورجان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے درجے میں فضیلت بخشی ہے اور (گو) نیک ‏وعدہ سب سے ہے لیکن اجر عظیم کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر کہیں فضیلت بخشی ہے اور رحمت میں اللہ تعالیٰ ‏بڑ ا بخشنے والا اور مہربان ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ‏
اورجو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ کرے پھر شہید ہوجائے یا غلبہ پائے ہم عنقریب اس کو بڑا ثواب دیں گے۔ ‏
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔
جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑگئے اوراللہ تعالیٰ کی راہ میں مال اور جان سے جہاد کرتے رہے اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے درجے بہت بڑے ہیں ‏اور وہی مراد کو پہنچنے والے ہیں ان کا پروردگا ران کو اپنی رحمت کی اور خوشنودی کی اور بہشتوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کے لئے نعمت ہائے ‏جاویدانی ہیں (اور وہ )ان میں ابد الآباد رہیں گے ۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑا صلہ (تیار) ہے
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔
بے شک اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں اوران کے مالوں کو اس قیمت پر کہ ان کے لئے جنت ہے خرید لیا ہے وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے راستے ‏میں لڑتے ہیں پھر قتل کرتے ہیں اورقتل کئے جاتے ہیں(یہ )اللہ تعالیٰ کے ذمہ سچا وعدہ ہے تورایت اور انجیل اورقرآن میں اور اللہ تعالیٰ سے ‏زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا کون ہے؟ پھر تم خوشیاں مناؤ اس معاملے (خرید وفروخت) پر جو تم نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہے اور یہ بڑی کامیابی ‏ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
اے اہل ایمان ! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مددکرے گا اور تم کو ثابت قدم رکھے گا۔
کیپٹن نے ایک بار پھر مولوی صاحب کی طرف دیکھا ۔
‏ مولوی صاحب سمجھ گئے اب وقت ہے میں اپنا خطاب ختم کر دوں اور اپنا خطاب ختم کرتے ہوئے کہنے لگے۔
‏ میں بس اتنا ہی کہنا چاہتا تھا اللہ تعالی آپ سب کا حامی وناصر ہو اور کامیابی اور کامرانی آپ کے قدم چومے۔ اور آپ جلد اپنے خاندان میں لوٹ ‏آئیں۔
‏ اب میں قبیلے کے سردار کی خدمت میں گذارش کرتا ہوں کہ ہمارے جہادی نوجوانو کے گلے میں تازہ پھولوں کے ہار پہنائیں اور ان کو دعائیں ‏دیں۔
حکمت زئی( ظائر احمد کا باپ ) اپنی پگڑی کو ایک ہاتھ سے سنبھالتے ہوئے کھڑا ہو گیا اور قریب ہی پڑی ٹوکری میں سے ایک ایک ہار اٹھا کر نوجوانو ‏کے گلے میں ڈالے اور ان کو محبت سے اپنے گلے لگایا ۔
‏ اور پھر نہایت دھیمے مگر پرجوش انداز میں کہنا شروع کیا میرے ہم وطنو! میں ایک چیز آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ہمارے بزرگوں کی زمین ہے یہ ‏ہمارا علاقہ ہے ہم نسل در نسل یہاں رہ رہے ہیں ہم اس کی حفاظت کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے ہم اپنے بچوں کو محاذ جنگ پر ‏بھیجتے رہیں گے اور اگر ضرورت پڑی تو ہم خود بھی محاذ جنگ پر جائیں گے اپنی جانیں قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے اور اپنی زمین کی ‏حفاظت کریں گے آپ سب کا شکریہ۔ ‏
‏ اپنی جگہ پر واپس بیٹھتے ہوئے وہ اپنے آنسو نہ روک سکا اور اپنی پگڑی کے سینے پر لٹکتے پلو سے اپنے آنسوؤں کو صاف کرنے کی کوشش کرنے لگا ۔ ‏
‏ کیپٹن نے ایک بار پھر سارے گاؤں کا شکریہ ادا کیا اور فخریہ انداز میں نئے جہادیوں کو مبارک باد دیتے ہوئے باری باری گلے سے لگایا ۔‏
‏ حکمت زئی دوبارہ اپنی جگہ پر کھڑا ہو کر کہنے لگا میرے بھائیو ۔
اب کھانے کا وقت ہو گیاہے کھانا بالکل تیار ہے آپ سب لوگ گھر کے لان میں کھانا نوش کرنے کے واسطے جا سکتے ہیں اور اگر کسی نے کیپٹن سے ‏کوئی خاص بات کرنی ہے تو کھانے کے دوران کر سکتا ہے آپ سب کو میرے گھر کھانے کی دعوت پر تشریف لانے کا شکریہ۔
۔۔۔۔۔

٭٭٭
سب لوگ کھانے میں مگن تھے چھ کے چھ جہادی نوجوانو کو قبیلے کی چند بزرگ خواتین نے اپنے گھیرے میں لیا ہوا تھا اور مشورے دے رہی تھیں۔
‏ وہ سب مل کر نوجوانو کو لڑائی کے انوکھے گُر بتا رہی تھیں ۔‏
بیٹا دشمن سے ایسے لڑائی کرنا ، بالکل ایسے کرنا ، جیسے میں کہتی ہوں اور اگر وہ تمہاری بات نہ مانے تو اسے یوں کہنا وہ تمہارے سامنے ہتھیار ڈال دے ‏گا اور ہاں اپنی بندوق ہمیشہ کاندھے پر رکھنا کہیں رکھ کر بھول نہ جانا بلکہ اس کے ساتھ سونا اور کے ساتھ ہی جاگنا اور ہاں اپنی صحت کا خاص خیال ‏رکھنا ہے کھانا وقت پر کھا لیا کرنا۔
‏ وہ سب کی باتوں کا مسکرا کر ہاں میں جواب دے رہے تھے ۔
ظائر احمد زئی ان خواتین کے جھرمٹ سے نکلنے کی کوشش میں تھا مگر قبیلے کی بزرگ خواتین کی ہدایات اور دعائیں تھیں کہ ختم ہونے میں ہی نہیں ‏آ رہی تھیں وہ اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا کہ برآمدے میں اسے گُل مکئی نظر آئی جو اس کی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔‏
گُل مکئی نے جب دیکھا کہ ظائر احمد زئی نے اسے دیکھ لیا ہے تو اسے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔
‏ اب تو اس کی بے چینی اور بڑھ گئی اس کے ذہن میں ایک معقول بہانہ آیا اور ہاتھ اوپر کرتے ہوئے شہادت کی انگلی سب کو دکھائی اور خواتین کا ‏گھیرا توڑتے ہوئے باہر نکل گیا اور سیدھا برآمدے کی طرف بڑھا مگر اس کی نانی اماں نے اسے بازو سے پکڑ کر کہا اس طرف نہیں وہ تو اس طرف ‏ہے۔
‏ نانی اماں آپ نے ہدایات اور دعائیں اتنی دے دی ہیں کہ بہت کچھ بھول گیا ہوں۔
تمہاری ابھی تک وہی عادتیں ہیں اپنے آپ کو کچھ تو بدلو، زمانہ بدل گیا ہے دنیا بہت زیادہ ترقی کر چکی ہے مگر تم ابھی تک جس جگہ پر کھڑے تھے ‏وہیں کے وہیں کھڑے ہو،لوگ چاند پر پہنچ گئے ہیں اور تمہیں گھر کی ٹوائلٹ کا راستہ بھول گیا ہے حالانکہ یہاں پر ہی پیدا ہوئے ہو ، جوان ہوئے ‏اور اب تو تمہاری شادی بھی ہو گئی اور ایک بیٹے کے باپ بھی بن گئے ہو مگر حرکتیں وہی بچوں جیسی ، خدا تم پر رحم کرے۔
اچھا نانی جی، اس نے اپنا ہاتھ نانی کے کمزور ہاتھ سے چھڑاتے ہوئے کہا ۔
‏ میں اپنے آپ کو بدل لوں گااسی لئے تو جہاد کے لئے جا رہا ہوں تاکہ خود کو بدل لوں اور اپنے گھر بار کو بھی بدل دوں فی الحال ابھی تو مجھے مہمانوں میں ‏جانے دیں اور ہاتھ چھڑا کر برآمدے کی طرف بڑھ گیا جہاں گُل مگئی اس کا انتظار کر رہی تھی اور اِدھر اُدھر دیکھے بغیر اس کا نرم و نازک ہاتھ پکڑ کر ‏کہنے لگا اتنے لوگوں کے سامنے مجھےکیوں بلایا ہے۔
میں نے کب بلایا ہے مجھے تو کہا گیا ہے ۔
تو پھر یہ کیاہے۔
‏ مجھے تو حکم دیا گیا تھا آپ کو بلا کر لاوں ۔
وہ کون ہے جس نے تجھے حکم دیا ہے ۔
گُل مگئی نے برآمدے میں کمرے کی کھلی کھڑکی کی طرف اشارہ کیا جہاں پردے کے پیچھے گُل داؤدی کھڑی تھی اور اس کا انتظار کر رہی تھی۔
‏ ظائر احمد زئی نے بہت کوشش کی کہ دیکھے وہاں کون ہے لیکن دو تین با ردیکھنے کی کوشش کے باوجود بھی وہ وہاں کسی کو بھی نہ دیکھ سکا اچھا تو یہ بات ‏ہے میں ابھی تجھے ٹھیک کرتا ہوں ۔
‏ لیکن ابھی مہمان کھانا نوش فرما رہے ہیں اور میں نے ابھی کھانے کا ایک نوالہ نہیں لیا اور اور۔۔۔۔
‏ اسے احساس ہوا کہ اس نے گُل مگئی کا ہاتھ ابھی تک نہیں چھوڑا تھا جلدی سے اس کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے اس نے برآمدے کی ‏طرف مڑنے کی کوشش کی ۔ پہلے سارے مہانوں کو کھانا کھا لینے دے اور مہمانوں کو رخصت کر لینے دے پھر تیری اچھی طرح سے خبر لیتا ہوں۔
‏ وہ جلدی سے گُل مکئی کا ہاتھ چھوڑ کر واپس ممانوں کے پاس جانے کے لئے قدم اٹھا ہی رہا تھا کہ گُل مکئی نے اس بار اس کا ہاتھ پوری طاقت کے ساتھ ‏تھام لیا اور کہا۔
کہاں جا رہے ہو جانم تمہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ محبت کیا بلا ہوتی ہے اور ایکدم اس کے آگے کی طرف آ گئی اور دونوں ہاتھ اس کے سینے پر رکھتے ‏ہوئے کہا۔
اتنے دنوں کے بعد فوجی تربیت سے واپس آئے ہو، تو ایسی بے رخی تمہیں زیب نہیں دیتی، اور دوبارہ کھڑکی کی طرف اشارا کرتے ہوئے کہا ۔
وہ دیکھو تمہاری محبت تمہارا انتظار کر رہی ہے۔
ظائر احمد زئی نے ایک دم اپنے جسم کے اندر بجلی کا کرنٹ محسوس کیا اسے یوں لگا کہ جیسے ایک تیز چمکتی آسمانی بجلی کا شعلہ اس کی روح کی گہریوں میں ‏اترتا جا رہا ہے وہ کھڑکی کی جانب دیکھتا ہی رہ گیا اور اس کی سوچ کا سمندر اپنے کناروں کی حدود سے باہر کی جانب بہنے لگا۔
لیکن اس بار بھی اسے کھڑکی میں کچھ نظر نہیں آیا۔
‏ وہ دوبارہ سوچنے لگا کہ گُل مئین ہی محبت کے قابل تھی یا گُل داودی۔‏
‏ اس نے زیر لب کئی فقرے کہہ دئیے مثال کے طور پر ۔
گُل مکئی خدا نے تمہیں اتنا خوبصورت بنایا ہے کہ صرف تجھ سے ہی محبت کی جا سکتی ہے میں تم سے محبت کرتا ہوں خدا نے تم کو صرف میرے لئے ‏ہی بنایا ہے۔
لیکن محبت کا انتظار کرنا پڑتا ہے جب محبت پاس ہو تو اس سے محبت کرنی چاہیے اس کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے محبت کے لئے کوئی مخصوص وقت ‏درکار نہیں ہے۔
‏ وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ گُل مکیح نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔‏
کہاں کھو گئے ہیں جلدی فارغ ہو کر واپس آئیں کوئی آپ کا انتظار کر رہا ہے۔
ظائر احمد زئی نے کھڑکی کی طرف ایک بار پھردیکھا اس بار بھی اسے وہاں پر کوئی دکھائی نہیں دیا اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا اس نے بے چینی سے اپنا ‏ہاتھ بڑی آہستگی کے ساتھ اس کے ہاتھ سے علیحدہ کیا اور کھڑکی کی طرف بڑھ گیا ۔
قریب پہنچا تو گُل داودی کی پردے کے پیچھے سے آواز آئی میں نے کھانا اپنے ہاتھوں سے تمہارے لئے سجایا ہے آج میں تمہارے بغیر کھانا نہیں ‏کھاؤں گی میں تمہارے ساتھ کھانا نوش کروں گی لیکن میں تمہیں اجازت دیتی ہوں تمام مہمانوں کی رخصتی تک، اس کے بعد ہر لمحہ تمہارا میرا ہو ‏گا۔
ظائر احمد زئی ایک دم کسی اور کے سحر سے باہر نکل آیا اور بڑے ادب سے کہا ۔
‏ جی بالکل ٹھیک ہے میں کھانا تمہارے ساتھ ہی کھاؤں گا اور یہ کہتے ہوئے ،
میں ابھی آتا ہوں،مہمانوں کی طرف چل پڑا،‏
گُل مئیی جو ابھی تک پاس ہی کھڑی تھی نے سرگوشی کے انداز میں کہا جلدی آ جانا ورنہ گُل داؤدی کے ساتھ میں تمہارے حصہ کا کھانا کھا لوں گی اور ‏کمرے کی طرف چلی گئی۔
مہمانوں کے پاس واپس جاتے ہوئے اس نے دلبر کو اپنے دادا کی گود میں بیٹھے دیکھا تو ایک لمحے کے لئے وہ رکا اور جلدی سے دلبر کی دونوں بغلوں ‏میں اپنے دونوں ہاتھ ڈال کر اسے اوپر اٹھایا اور اس کا منہ چوم کر واپس دادا کی گود میں بٹھا دیا اور جلدی سے جہاد پر اس کے ساتھ جانے والے پانچ ‏ساتھیوں کے پاس چلا گیا جو کسی بات پر کھل کر ہنس رہے تھے ۔‏
ابھی وہ ان کے پاس جا کر کھڑا ہوا ہی تھا کہ کپیٹن بھی ان کے پاس پہنچ گیا سب خاموش ہوگئے۔
کپیٹن نے انھیں کہا کہ آپ کو دو دن بعد ہیڈ کوارٹر میں حاضر ہونا ہے وہاں سے محاذ پر جانے کے لئے مزید ہدایات آپکو ملیں گی۔
‏ سب نے ایک ساتھ کپیٹن کو سلیوٹ کیا اور جواب میں کہا یس سر۔
تو اب ہمیں اجازت دیں دو دن بعد ملاقات ہوگی اور گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
وہ سب انھیں جاتے ہوئے دیکھتے رہے اور پھر اپنی باتوں میں مشغول ہوگئے۔
‏ باقی سب لوگ بھی ایک دوسرے کو باری باری خدا حافظ کہتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے لگے آخری مہمان کو خدا حافظ کہنے کے بعد اور اسے ‏رخصت کرنے کے بعد حکمت زئی نے لکڑی کا بڑا گیٹ بند کیا اور اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے ظائراحمد زئی کو کہا ۔
میں بہت تھک گیا ہوں سونے لگا ہوں صبح ملاقات ہو گی۔
جی بہت اچھا ظائراحمد زئی نے جواب دیا اور اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔‏
کمرے کا دروازہ کھلا تھا اور گُل دوادی دروازے میں اس کا انتظار کر رہی تھی اس نے گُل داؤدی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور کہا۔
تم ابھی تک میرے لئے جاگ رہی ہو،
گُل داؤدی نے اپنی آواز کو بہت آہستہ رکھتے ہوئے جواب دیا۔
آہستہ بولو ہمارا بیٹا دلبر ابھی ابھی سویا ہے کہیں وہ جاگ نہ جائے۔
ظائر احمد زئی نے اپنی پگڑی اتاری اور بڑی احتیاط سے دیوار میں لگی لکڑی کی کونٹی پر اسے لٹکا دیا اور پھر گُل داودی نے اسے روایتی لباس اتارنے ‏میں مدد دی اور کھانے کی ٹرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگی آج تم طویل سفر کی وجہ سے کافی تھکے ہوئے لگ رہے ہو۔
‏ ظائراحمد زئی نے کوئی جواب نہیں دیا ۔
گُل داؤدی نے پھر کہا تم تھک گئے ہو پہلے کھانا کھا لو پھر ہم برآمدے میں بیٹھ کر معمول کے مطابق تاروں کو گننے کی کوشش کریں گے اور چاند کے ‏سفر کرنے کی رفتار پر باتیں کریں گے اور جن راستوں پر چلتا ہوا وہ صبح کے اُجالے میں کہیں کھو جاتا ہے وہ جگہ کھوجنے کی آج بھی ہم دونوں کوشش ‏کریں گے۔
اس کا مطلب ہے گُل داؤدی تم نے آج مجھ سے پہلے کھانا کھا لیا ہے ۔
کیا یہ کبھی ممکن ہو سکتا ہے ۔
آج کی رات میں تم سے پہلے کھانا کھا لوں جبکہ تم جہاد پر جا رہے ہو ۔
وقت اتنی تیزی سے گزر رہا تھا کہ انھیں معلوم ہی نہیں ہوا کہ صبح ہو گئی ہے۔
‏ ظائر اس وقت گُل دؤادی کے سحر سے باہر نکلا جب اس کے باپ نے اسے آواز دی کہ دعوت میں استعمال ہونے والے سامان کو سمیٹنے میں میری مدد ‏کر دے۔
وہ جلدی جلدی بستر سے نکلا اور بڑی آہستگی کے ساتھ کمبل کو گُل داؤدی کے اوپر کرتے ہوئے اس کی گردن تک کر دیا اور پھر دلبر کی چارپائی کے ‏قریب جا کر اس کے سرخ و سفید مسکراتے چہرے کی طرف چند لمحے دیکھنے کے بعد مسکرا دیا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
وہ کچھ دیر سر سبز و شاداب پہاڑی سلسلہ کو دیکھتا رہا اور تازہ اور خنک ہوا کو اپنے پھپھڑموں میں جذب کرتا رہا مشرق سے سورج اپنی پوری آب ‏وتاب کے ساتھ ابھر رہا تھا پرندے اِدھر سے اُدھر اڑتے پھر رہے تھے ان میں سے کچھ پرندے صحن میں اتر کر رات کی دعوت میں کھانے کی اشیا ‏کے کہیں کہیں گرے ہوئے ٹکڑے کھانے میں مصروف تھے۔
کتنی خوبصورت صبح ہے اس نے سوچا اور زیر لب کہا لیکن یہ صبح گُل داؤدی سے زیادہ خوبصورت ہے دلبر سے زیادہ معصوم اور پیاری ہے۔
‏ پھر اس نے ایکدم سوچا کہ محاذ پر نہ جانے کس طرح کی صبح ہوا کرے گی وہاں کی ہوا کی خوشبو کیسی ہو ا کرے گی وہاں کے لوگ کیسے ہوں گے ہمارا ‏دشمن جس سے جنگ کرنے جا رہا ہوں وہ بھی میرے ہی جیسے ہو گا میری ہی جیسی صورت حال سے دوچار ہو کر لڑنے آیا ہو گا ہو سکتا ہے وہ میری ‏طرح اپنی مرضی اور خوشی سے میدان جنگ میں نہیں آیا ہو گا ہو سکتا ہے اس نے بھی اپنے پیاروں کے لئے اپنی جان کو خطرے میں ڈالا ہو گا یا پھر ‏وہ اس دنیا میں اکیلا ہو گا اس کا کوئی دلبر نہ ہو گا اور اس سے محبت کرنے والی گُل داوُدی بھی اس کے پاس نہ ہو گی یہ سوچتے ہوئے اس نے ایک لمبا ‏سانس اندر کی طرف کھینچا اور اپنے والد کی طرف چل پڑا۔ ‏
حکمت زئی نے ظائر کو اپنی جانب آتے دیکھ کر کام چھوڑ دیا اور چائے کا پیالہ ہاتھ میں لے کر پاس پڑے لکڑی کے خستہ حال بینچ پر بیٹھ کر چائے کے ‏تیزی سے دو گھونٹ لیے۔
کل تمہاری الوادعی تقریب میں تمام رشتہ داروں اور دوست احباب کے علاوہ فوج کے نمائندوں کو بھی خوش دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا ہے ۔
میں بھی بہت خوش ہوں بابا جانی۔
میں دلبر کو بتا رہا تھا کہ دیکھو تمہارا باپ ظائر احمد کتنا خوش قسمت ہے۔
‏ مگر دلبر نے مجھے ایک سوال پوچھا تھا جس کا جواب میرے پاس نہیں تھا کہ دادا جانی کل جب بابا جانی مجھے گود میں اٹھا کر پیار کر رہے تھے تو ان کی ‏آنکھوں میں آنسو تھے ایسا کیوں تھا؟ ۔
‏ ظائراحمد میں اسے کیا جواب دیتا کہ جب میں تیرے جہاد پر جانے کے بارے میں سوچتا ہوں تو میں خود بھی جذباتی ہو جاتا ہوں اور آپ سب کے ‏سامنے آنسوؤں کو قابو کر لیتا ہوں مگر جب میں تنہا ہوتا ہوں تو آنسوؤں سے لڑنا میرے لئے نہایت مشکل ہوتا ہے میں جی بھر کر روتا ہوں ۔
جی بابا جانی میری بھی یہی حالت ہے ۔
مگر بیٹا ایک بات میری دھیان سے سنو اور اس پر عمل بھی کرنا ہے ۔
جی بابا جانی جیسے آپ کہیں گے میں ویسے ہی کروں گا میں وعدہ کرتا ہوں۔
تمہیں معلوم ہے جہاد کا مطلب کیا ہے ؟۔
جی بابا جانی ٹریننگ کے دوارن مولوی صاحب دن میں ایک بار اپنے واعظ میں اس کے بارے ضرور بتاتے تھے مگر مجھے مکمل یاد نہیں ہے بس مجھے یہ ‏یاد رہ گیا ہے کہ میدان جنگ میں جو سامنے ہے اسے بلارنگ ونسل اور مذہب بس اللہ کی راہ میں قتل کرنا ہے اور ان کے مال واسباب پر قبضہ کرنا ‏ہے اور پھر باہمی رضا مندی کے ساتھ آپس میں برابر بانٹ لینا ہے۔
بالکل درست کہا ہے ظائر احمد تم نے، لیکن جہاد کی اصل حقیقت میں تمہیں بتاتا ہوں اور چائے کی پیالی گھاس کے اوپر رکھتے ہوئے کہنا شروع کیا ۔
روایتی مقدس جہاد اور موجودہ جنگ میں ایک واضح فرق ہے قدیم زمانے میں جو مقدس جنگیں اللہ کے نام پر لڑی جاتی تھیں اور جانوں کا نذرانہ ‏پیش کیا جاتا تھا ان میں شامل مجائدین کا کوئی مقرر کردہ معاوضہ نہیں ہوتا تھا مگر پھر بھی وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے تھے۔‏
ظائراحمد نے لکڑی کے بینچ نما درخت کے تنے پر بیٹھتے ہوئے سوال کیا تو پھر بابا جانی مجاہدین اپنا اور اپنے خاندان کا کیسے پیٹ پالتے تھے۔
حکمت زئی نے گھاس پر سے پیالی اٹھائی اور اس میں سے آخری گھونٹ ختم کرتے ہوئے پیالی کو دوبارہ واپس گھاس پر رکھا اور کہا۔
یہی فرق میں تمہیں بتانے لگا ہوں پہلی بات کہ اگر ایک مجاہد نے جنگ نہیں جیتی اور گردن کٹوا لی تو اس کے لئے اور اس کے خاندان کے لئے ‏سب کچھ ختم ہو گیا یعنی زمین پر اس کی زندگی کا سفر یہیں پر ختم ہو گیا اور وہ شہید کہلایا اور اس نے زر، زن ،زمین اور جینے کا حق یعنی جان سب کچھ کھو ‏کر جنت کی عیش و عشرت حاصل کی اور اگر جنگ جیت لی تو غازی کہلایا اور پھر ہارنے والوں نے جو کچھ کھویا اپنے پیچھے چھوڑا وہ سب کچھ آپ نے پا ‏لیا،یعنی آپ کی ملکیت ہو گیا۔
بابا جانی مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی۔
میں سمجھاتا ہوں کہتے ہوئے وہ اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا اور ظائر احمد کی طرف منہ کر کے اس سے یوں مخاطب ہوا۔ ‏
روایتی جہاد میں کیونکہ مجاہد کی کوئی تنخواہ نہیں ہوتی تھی لہذا فاتح فوج کو یہ بلاامتیاز حق حاصل ہوتا تھا کہ وہ شکست خوردہ عوام کی لڑکیوں کی بطور ‏انعام وحشیانہ انداز میں عصمت دری کر سکتے تھے ان کی مال و دولت پر قبضہ کرنے کے بعد آپس میں تقسیم کر سکتے تھے ۔
‏ شکست خوردہ قوم کی بے گناہ اور معصوم عورتوں کو اپنی لونڈی بنا کر اپنے ساتھ لے کر جا سکتے تھے یا ان کی طرف سے منعقدہ بازار حُسن میں نیلامی کر ‏سکتے تھے اس کے پیچھے یہ مقصد ہوتا تھا کہ مجاہدین فوج کو چھوڑ نہ جائیں اور زر، زن اور زمین کے لالچ میں جیتنے کے جوش و جذبہ کے ساتھ لڑائی فتح ‏کے لئے لڑیں۔
ظائراحمد نے حکمت زئی کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا بابا جانی تو پھر میں زیادہ جوش سے لڑائی میں حصہ لوں گا اور فتح کے بعد بہت سا قیمتی سامان لوٹ کر ‏لاؤں گا اور ہم اس علاقے کے امیرترین خاندان ہو جائیں گے ۔
‎ظائر احمد میں تمہیں یہی بات سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ وسائل اور نظریات میں سے صرف ایک کی نہیں دونوں کی آجکل اہمیت ہے اور جو ‏اصلی مجاہد ہیں ان کی نظر جدید ٹیکنا لوجی پر بھی ہے کیونکہ تنخواہ کا ان کو کوئی مسلہ نہیں ہے اس لئے لوٹ مار، عصمت دری کی طرف توجہ کم ہو گئی ‏ہے۔
ا س لئے میری تمہیں یہ خاص نصیت ہے کہ نہ تو تمہیں لوٹ مار میں حصہ لینا ہے اور نہ ہی ہارنے والی قوم کی کسی عورت کو مال غینمت کے طور پر ‏گھر لانا ہے تم نے صرف اللہ کے لئے مقدس جنگ لڑنی ہے ہماری زمین پر جن کافروں نے قبضہ کر رکھا ہے اس کو آزاد کروانا ہے جو زمیں ہمیں ‏ورثہ میں صدیوں سے ملی ہے اس پر حکومت کرنے کا حق بھی صرف ہمارا ہے۔ ‏
‏ اسلامی تعلیمات کے مطابق جہاد اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ عوام الناس کو فرداً فرداً، جتھوں، یا تنظیمیوں کی صورت میں جہاد ‏کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے اس لئے اپنے کپیٹن کی فرمانرداری تم پر فرض ہے ایک اور نہایت اہم بات یہ ہے جہاد بالقتال کے لئے کچھ ‏بنیادی شرائط کو پورا کرنا ضروری ہے، جن کے بغیر جہاد انسانیت کے لیے محض فتنہ و فساد کا باعث بنتا ہے، جس کی اسلام ہرگز اجازت نہیں ‏دیتا۔

جہاد کی بنیادی شرائط میں یہ تمام باتیں اہمیت رکھتی ہیں ان پر عمل کرنا تمہارا فرض ہے۔
ظائر احمد نے بے چینی سے پہلو بدلا اور کہا ، نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ۔
میں گُل داؤدی سے پیار کرتا ہوں میں کسی دوسری عورت کا سوچ بھی نہیں سکتا، وہ تو میرے بنا مر جائے گی اور پھر دلبر کو میں ناراض نہیں کرنا چاہتا ‏۔
اور اپنے باباجانی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ میں تو صرف آپ کی خوشحالی کے لئے جنگ پر جا رہا ہوں آپ کو زندگی کی وہ سہولیا ت فراہم کرنا چاہتا ‏ہوں جن سے آپ سب محروم ہیں میں تو گاؤں کے ان افراد کے برابر اپنے اس چھوٹے سے خاندان کو لانا چاہتا ہوں جن سے ہم تعلیم و تربیت اور ‏زندگی کی جدید سہولیا ت میں غربت کی وجہ سےبہت پیچھے رہ گئے ہیں میں اپنی زمین اور اپنے لوگوں کے لئے اس مقدس جنگ میں شریک ہو رہا ‏ہوں وہ جذبات کی رو میں بہتا ہوا بہت کچھ کہتا جا رہا تھا اور پھر اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے وہ اس دوران اپنے بابا جانی سے لپٹ گیا اور دیر ‏تک روتا رہا اور بابا جانی اسے تسلی دیتا رہا اور خاص خاص باتیں بھی بتاتا رہا ۔ اور پھر ایک لمحہ ایسا بھی آیا کہ حکمت زئی بھی اپنے جذبات کو قابو میں نہ ‏رکھ سکا اپنے آنسوؤں کو جو سرخ و سفید گالوں سے پھسلتے ہوئے لمبی داڑھی میں گم ہو رہے تھے ان آنسوؤں کو صاف کرنے کی کوشش کرتے ‏ہوئے حکمت زئی نے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔
تم اصلی مجاہد ہو، مجھے تم پر فخر ہے تم ہر آزمائش میں پورے اترو گے مجھے پورا یقین ہے کہ تم غازی بن کر واپس گھر آؤ گے۔‏
‏ یہ کہتے ہوئے وہ اپنی بوڑھی انگلیوں سے اپنے آنسو صاف کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
مجھے آج بھی دسمبر کی وہ سرد ترین رات یاد ہے جب سُرخ افواج کابل میں اتار دی گئیں تھیں اور کیمونسٹ نظام کو ہم پر نافذ کرنے کی کوشش تیز کر ‏دی گئی تھی۔
‏ وہ تو شکر ہے کہ امریکہ، پاکستان اور سعودی عرب کو خیال آ گیا کہ ‏‎ ‎ان کے ذاتی اور بہت سارے مشترکہ مفادات کا کیا ہو گا لہذا وہ مل کر ہماری مدد کو ‏آ گئے کہ روس کسی طریقے سے افغانستان سے نکل جائے اسی لئے امریکہ نے ہر طرح سے عسکری اور مالی مدد دی ۔
میں نے یہ بھی سنا تھا کہ امریکہ کے کہنے پر روس کے خلاف لڑنے کے لئے اسرائیل کے جرنیل بھی پاکستان آئے اور انہوں نے بھی روس کے ‏خلاف ہونے والی جنگ میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔
میرے خیال میں اب تو روسی ریچھ بہت زیادہ زخمی ہو چکا ہے اور تھک گیا ہے اسے ہمارے اور اپنے حال پر رحم کرنا ہو گا اور ہمارا ملک افغانستان کو ‏چھوڑ کر واپس اپنے گھر چلے جا نا چائیے یہ کہتے ہوئے وہ لان میں بکھری اشیا کو جمع کرنے میں مصروف ہو گیا۔‏
ابھی دونوں نے صفائی کا کام ختم کیا ہی تھا اور بینچ نما صنوبر کے تنے پر بیٹھنے والے ہی تھے کہ دلبر کمرے سے نکلا اور سیدھا باپ کی طرف آیا اور گود ‏میں بیٹھتے ہوئے کہا بابا جانی آپ مجھے اور ماں کو سوتے میں اکیلے چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے۔
میں تو ادھر ہی تھا تمہارے دادا کے پاس ، کام میں ہاتھ بٹا رہا تھا میں نے کہاں جانا تھا میں دو دن تک کہیں نہیں جاؤں گا تمہارے ہی ساتھ رہوں گا۔ ‏
‏ گُل داؤدی نے ایک تھالی میں آم ، نیموں اور ہری مرچ کا اچار رکھا ، دوسری پلیٹ میں گندم کے آٹے کے گھی سے بنائے ہوئے پراٹھے رکھے اور ‏ایک بڑی رکابی میں رات کا بچا ہوا بھیڑ کے گوشت کا قورمہ ڈالا اور کھڑکی میں سے باہر کی طرف دیکھا ۔
وہ تینوں اسے لکڑی کے پرانے خستہ بینچ پر بیٹھے آپس میں باتیں کرتے نظر آئے۔‏
‏ ناشتہ تیار ہے۔
‏ اندر آ جائیں گُل داؤدی نے کھڑکی میں سے سر باہر نکال کر اونچی آواز میں کہا۔
ہم آ رہے ہیں بہو، حکمت زئی نے جواب دیا اور تینوں ہی ایک ساتھ گھر کے اندر چلے گئے۔
۔۔۔۔۔

اٹھارہواں باب:‏

امریکن فوجی ٹرک اسی(80) یا نوے (90)کی رفتار سے سیاہ رنگ کی کول تار سے بنی سڑک پر رواں دواں تھا اس بڑے فوجی ٹرک میں میرے ‏ساتھ آٹھ لوگ اور تھے جن میں سے ہم چھ نئے بھرتی ہونے والے مجاہد تھے اور دو تجربہ کا پرانے جہادی تھے ہم سب افغانستان اور پاکستان کے ‏مضافات کے رہنے والے تھے ہم سب کی عمریں پچیس سے تیس برس کی عمر کے درمیان ہوں گی اور ہم سب ہی شادی شدہ تھے ۔
جب ہم جمرود میں داخل ہوئے تو ٹرک شہر سے باہر نکلتے ہی ایک کچے راستے کی طرف مڑ گیا اور تین کلو میٹر کے بعد ایک آبادی کی طرف آہستہ ‏رفتار سے بڑھنے لگا کچھ دیر چلنے کے بعد ایک نئی تعمیر شدہ عمارت جو ایک منزلہ تھی ،ٹرک اس کے سامنے جا کر رک گیا امریکن سارجنٹ جو ٹرک ‏کو چلا رہا تھا اس نے پیچھے ہماری طرف آ کر انگزیزی زبان میں کچھ کہا جو میری سمجھ میں نہیں آیا میں نے ساتھ بیٹھے ہوئے خلیل کی طرف دیکھا وہ ‏ٹوٹی پھوٹی انگریزی بول اور سمجھ لیتا تھا کیونکہ وہ پہلے بھی امریکن فوج کے ساتھ سالوں سے جاری جنگ میں حصہ لے چکا تھا اس نے مجھے پشتو میں کہا ‏کہ گاڑی میں ہی بیٹھے رہنا ہے یہ ہماری منزل نہیں ہے ہم یہاں زیادہ دیر نہیں رکیں گے۔
سارجنٹ اکیلا ہی ٹرک سے اتر کر عمارت کے اندر داخل ہوا اور چند منٹ کے بعد اس عمارت میں سے چھ لوگ ہمارے ٹرک کی طرف آئے ‏اورتین لوگ ہمارے ساتھ آ کر بیٹھ گئے اس طرح پیچھے بیٹھے ہوئے ہم بارہ لوگ ہو گئے اور سارجنٹ کے ساتھ جو آگے بیٹھا تھا کل ملا کر ہم اس ‏ٹرک پر سوار چودہ لوگ ہو گئے تھے ٹرک واپس کچا راستہ طے کرتا ہوا دوبارہ سیاہ تار کول کی سڑک پر آ گیا اور پہلے کی طرح اسی اور کبھی نوے کی ‏رفتار سے دوڑنے لگا۔
لنڈی کوتل کے شہر سے ابھی نکلے ہی تھے کہ مجھ پر نیند کا غلبہ آنے لگا اور میں اونگھنے لگا ابھی چند منٹ ہی نیند سے آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے تھے کہ ‏خلیل نے میری کمرمیں اپنی داہنی کہنی ہلکے سے مارتے ہوئے کہا ۔‏
ظائر احمد اٹھو تورخمُ بارڈر آ گیا ہے یہاں پر شائد ہمیں ٹرک سے اتر کر اپنے کاغذات چیک کروانے ہیں اور سامان کا کسٹم کروانا ہے۔
لیکن میرے پاس تو کسی بھی قسم کا کوئی شناختی کاغذ نہیں ہے ظائر نے جواب دیا۔
وہ تو میرے پاس بھی نہیں ہے اور نہ ہی کسی بھی قسم کی سفری دستاویز ۔
‏ اب کیا ہو گا خلیل ابھی یہ کہہ ہی رہا تھا کہ انگریز سارجنٹ جو ٹرک بھی چلا رہا تھا اپنی سیٹ سے اتر کر پیچھے آیا اور سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
آپ سب لوگ ٹھیک ہیں ، کیسے ہیں آپ لوگ ۔
اگر کسی کو واش روم میں جانا ہے تو وہ ابھی جا سکتا ہے کیونکہ ہم لوگ اب کابل جا کر رکیں گے راستہ میں کہیں بھی ہمیں رکنے کی اجازت نہیں ہے۔
میں نے خلیل سے پوچھا سارجنٹ کیا کہہ رہا ہے۔
وہ کہہ رہا ہے کسی کو رفع حاجت کی ضرورت ہے تو یہاں پر ٹوائلٹ جا سکتا ہے۔
سب نے ایک ہی جواب دیا یس سر اور سب سے پہلے خلیل نے ٹرک سے نیچے چھلانگ لگائی اور ڈبلیو سی کا سائن بورڈ جہاں لگا تھا اس کی طرف چل ‏پڑا ۔
میں نے بھی اور پھر تمام لوگوں نے ٹرک سے چھلانگ لگائی اور باتھ روم کے سامنے پہنچ کر قطار میں کھڑے ہو گئے ۔
میں نے اپنے پیچھے کھڑے نوجوان سے پوچھا۔
‏ یہاں سے کابل کتنا دور رہ گیا ہے ۔
اس نے اپنے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کوئی چار ساڑھے چار گھنٹے کا سفر ابھی باقی ہے رات ہونے سے پہلے ہم پہنچ جائیں گے۔
سارجنٹ نے اپنی بغل میں دبائی ہوئی فائل کو ہوا میں لہراتے ہوئے کہا او کے، اوکے ینگ مین صرف دس منٹ ہمارے پاس اور ہیں یہ کہتے ہوئے ‏وہ بارڈرپر بنی چھوٹی سی سیمنٹ ریت سے بنی ہوئی چوکی کی عمارت کے اندر چلا گیا ۔
کچھ منٹ بعد جب وہ باہر آیا تو اس کے ساتھ ایک اور امریکن سارجنٹ تھا جو اسے اور ہمیں خدا حافظ کہنے ٹرک تک آیا اور سارجنٹ کے ڈارئیونگ ‏سیٹ پر بیٹھتے ہی اس امریکن نے ہمیں الوداعی سیلوٹ کیا اور دوبارہ چوکی کی عمارت کے اندر چلا گیا۔
‏ ٹرک دوبارہ اپنی منزل کی طرف چل پڑا۔ٹرک میں کچھ لوگ خاموش بیٹھے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے اور کچھ اُونگھ رہے تھے۔
‏ ظائر احمد زئی کو اس ماحول سے اکتاہٹ محسوس ہونے لگی اس نے آنکھیں بند کر لیں اور زبردستی سونے کی کوشش کرنے لگا۔
‏ اس کے ساتھ ڈرائیونگ سیٹ کے بالکل پیچھے کی طرف بیٹھے ہوئے خلیل احمد اور اسکے آگے ساتھ بیٹھے ہوئے امیر معاویہ نے اپنے اپنے چھوٹے ‏بیگ کھولے اور اس میں سے کھانے کے ٹفن نکال کر اپنے گھٹنوں پر رکھے لئے اور جو لوگ جاگ رہے تھے وہ سب ان کی طرف دیکھ رہے تھے ‏دونوں نے ان سب کو باری باری کھانے کی دعوت دی۔
خلیل نے ظائر احمد کی کمر میں کہنی ہلکے سے ماری اور کہا کھانا کھاؤ گے۔
اُوں کیا ہے بھائی ۔ ظائر احمد نے آنکھیں کھولتے ہوئے اس کی طرف دیکھ کر جواب دیا ۔
نہیں مجھے ابھی بھوک نہیں ہے آپ بسم اللہ کریں میرےپاس کھانے کا اپنا ٹفن ہے مجھے جب بھوک محسوس ہوگی میں کھا لوں گا اور دوبارہ آنکھیں ‏بند کر کے سونے کی کوشش کرنے لگا مگر اسے نیند نہیں آ رہی تھی کیونکہ اسے اپنے گھر کی یاد آ رہی تھی وہ بہت کوشش کر رہا تھا کہ وہ کابل میں اپنی ‏رہائش یعنی سونے کی جگہ کا نقشہ بنائے کہ وہ کیسی ہو گی وہاں کھانا کون تیار کرے گا اور کیسا ہو گا میدان جنگ کیسا ہو گا اس فوجی بیرک کے بارے ‏سوچ رہا تھا جہاں وہ رات کو سویا کرے گا ،مگر وہ ان سب چیزوں کا کوئی خاص نقشہ اپنے ذہن میں نہیں بنا پا رہا تھا کیونکہ ان سب پر اس کے گھر او ر ‏خاندان کے بارے خیالات کا غلبہ ہو جاتا تھا۔
‏ اس کی سوچ گھوم پھر کر اس شام کی طرف مڑ جاتی جب وہ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ آخری ضیافت اُڑا رہا تھا اس کا تصور گھر میں کھیلتے ‏ہوئے دلبر سے ہوتا ہوابابا جانی اور پھر گُل داؤدی پر آ کر مرکوز ہو جاتا وہ ان سب کو چلتا پھرتا اور ان سے باتیں کرتا ہوا خود کو محسوس کررہا تھا وہ دیکھ ‏رہا تھا جب سب اس کو رخصت کر رہے تھے اور گُل داؤدی کس طرح اس کے ساتھ لپٹ گئی تھی اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور کیسے ‏ظائراحمد نے اپنی پگڑی کے ایک کونے سے اس کے سرخ و سفید گالوں پر سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں جلد واپس آ جاؤں گا تم فکر نہ ‏کرو، ظائر احمد سے برداشت نہ ہو سکا اور وہ بھی جذبات کی رو میں بہنے لگا اور بار بار گُل داؤدی کو یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ میں جلد واپس لوٹ ‏آؤں گا مگر گُل داؤدی کے آنسو رک نہیں رہے تھے وہ سسکیاں بھر رہی تھی اور ظائر احمد اسے تسلیاں دیتا جا رہا تھا ۔
اس وقت ساتھ بیٹھے ہوئے خلیل نے اس کی کمر میں زور سے کہنی ماری اور کہا ۔
تمہیں کیا ہو گیا ہے کیا بڑبڑا ئے جا رہے ہو ، ہوش کرو کیا کوئی ڈروانا خواب دیکھ رہے ہو کیوں اتنی ڈروانی آوازیں نکال رہے ہو، اور اس کے کندھے ‏پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔
گھر کی یاد آ رہی ہے ابھی تو گھر سے نکلے چند گھنٹے ہی ہوئے ہیں اور یہ حال ہے۔
ظائر احمد نے اداس لہجےمیں جواب دیا ، ہاں یار کچھ ایسا ہی ہے۔ ‏
گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کچھ دنوں کے بعد ہمارے ساتھ رہنے کے عادی ہو جاؤ گے۔
خلیل تم کہا ں کے رہنے والے ہو اور کیا تمہارا دوست امیر معاویہ بھی تمہارے علاقہ کا ہی رہنا والا ہے میں اگر غلط نہیں ہوں تو آپ دونوں پنجاب ‏کے رہنے والے پنجابی معلوم ہوتے ہو ظائر احمد نے سوال کیا اور جواب کا انتظار کرنے لگا۔
جی جناب ہم پنجابی ہیں اور جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ گاؤں سے ہمارا تعلق ہے ہم دونوں ایک محلے کے رہنے والے ہیں جہاں ہمارا جنم ہوا ہم اس ‏محلے کی گروانڈ میں اکھٹے کھیلے ہم نے پچپن وہاں پر گذارا لہذا ہم تو بچپن کے دوست ہیں۔ ‏
ظاہر نے اپنے آپ کو نیند سے دور رکھنے اور وقت گذارنے کے لئے سوچا کہ کیوں نا گفتگو کو جاری رکھا جائے اس نے ایک اور سوال کیا۔
کیا آپ نے پہلے بھی جہاد میں حصہ لیا ہے۔
ہم نے جہاد کشمیر میں حصہ لیا تھا جہاں میں نے انڈین فوج کے خلاف چھاپہ مار کاروائیوں میں حصہ لیا اور بہت سے انڈین فوجیوں کو موت کے گھاٹ ‏اتارا اور بہت سی عوامی جگہوں پر ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کیے اس کے علاوہ سرکاری عمارات کو بھی میں نے دھمکوں سے اڑایا تھا ۔ ‏
اس سے پہلے بھی ہم دونوں باجوڑ اور مہمند ایجنسی میں روس کے خلاف جہاد میں حصہ لے چکے ہیں خلیل نے جواب دیا۔
امیر معاویہ جو ابھی تک ان کی گفتگو سن رہا تھا ظائر احمد کو بڑے فخریہ انداز میں بتانا شروع کیا۔
‏ جناب میں باجوڑ میں ایک حملہ کے دوران زخمی بھی ہوا تھا اس نے اپنی دائیں ٹانگ اور کمر کا اوپر کا حصہ ننگا کرتے ہوئے اپنے مندمل زخموں کے ‏نشان ظائر احمد کو دکھاتے ہوئے کہا ، مجھے اور خلیل کو زخمی ہونے کے بعد چھٹی پر گھر بھیج دیا گیا تھا اور چار ماہ کے بعد ہمیں دوبارہ محاذ پر بلا لیا گیا ہے۔ ‏دیکھیں اب ہمیں کس محاذ پر بھیجا جاتا ہے ۔
خلیل نے امیر معاویہ کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا لیکن تنخواہ ہمیں باقاعدگی کے ساتھ ملتی رہی تھی جس میں سے کچھ حصہ ہمارے علاقے کی اسلامی ‏جہاد تنظیم اپنے جہادی فنڈ میں رکھ لیتی تھی پھر بھی ہمیں اچھی خاصی رقم مل جایا کرتی تھی۔‏
‎ظاہر نے پھر پوچھا کیا آپ کی شادی ہو چکی ہے اور بچے بھی ہیں۔
جی میری تین بیویاں ہیں اور سات عدد بچے ہیں جن میں چار بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں پہلی بیوی میں سے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے دوسری میں سے دو ‏بیٹیاں ہیں اور تیسری بیوی میں سے ایک بیٹی ہے اور ایک بیٹا ہےاب میں چاہتا ہوں کہ اسلامی رسم و رواج کے مطابق چوتھی شادی بھی کروں اس ‏میں سے دو بیٹے اور پیدا ہوں تو پھر میں مذہبی طور پر سنت پوری کر لوں گا ۔
ظاہر نے حیرانگی سے کے ساتھ خلیل سے پوچھا آپ تین بیویوں کے ساتھ کیسے رہ لیتے ہیں میرا مطلب ہے کیسےان کے ساتھ سوتے ہو اور بچوں کی ‏پرورش کیسے کرتے ہو گے۔
بس یوں سمجھ لو کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے اس کی دین ہے وہی ہم سب کا مالک اور داتا ہے خلیل نے کہتے ہوئے ٹرک کی چھت کی طرف ‏دیکھتے ہوئے ہاتھ کو اوپر اٹھا کر اشارہ کیا۔
امیر معاویہ نے اس کی حامی بھرتے ہوئے کہا بس جی یہ سب کچھ اس مالک اللہ تعالی کی طرف سے ہے ہمارے جو مقدر میں ہے اس کو کوئی نہیں ٹال ‏سکتا ہے ۔
ظائر احمد نے بھی سر کو اوپر نیچے کرتے ہوئے کہا جی بے شک بے شک اور ٹرک کی چھت کی طرف دیکھنے لگا۔
امیر معاویہ نے کہا میرے ماں باپ نے میری چھوٹی عمر میں ہی شادی کی تھی مگر ایک سال بعد بچے کو جنم دینے سے پہلے ہی بچہ اور وہ اللہ کو پیاری ہو ‏گئی بڑی خوبصورت تھی اور مجھ سے دس برس چھوٹی ہونے کے باوجود بہت عقل مند تھی ، اللہ تعالی انھیں جنت الفردوس میں جگہ عنائت کرے اور ‏اپنی حفاظت میں رکھے آمین۔
اپنے بارے میں بھی کچھ بتاو خلیل نے ظائر احمد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
میں زئی قبیلے سے ہوں میں شادی شدہ ہوں اور میرا ایک بیٹا ہے جہاد میں پہلی بار شرکت کر رہا ہوں کیونکہ میرے خاندان کی معاشی حالت بہت ‏خراب ہے ہمارے پاس جو کھیت ہیں وہاں سوائے پُوست کی فصل کے کچھ نہیں اُگاسکتے اور پوست کی فصل ہر سال فوج اور پولیٹکل ایجنٹ مل کر تباہ ‏کر جاتے ہیں یہ سب کچھ امریکہ سرکار اور یوروپ کی مدد سے کیا جاتا ہے لہذا میں نے رضاکارانہ طور پر اس لڑائی میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے ‏ورنہ میں اپنے چھوٹے سے خاندان کو کبھی بھی اکیلا چھوڑ کر نہ آتا ۔ ‏
‏ امیر معاویہ نے بات کو کاٹتے ہوئے کہا اللہ خیر کرے گا وہ جہاد کی جزا دے گا اس پر بھروسہ رکھو ہم غازی بن کر گھروں کو واپس جائیں گے اور اس ‏بار مجھے امید ہے بہت سا مال غنمیت بھی ہمارے حصہ میں آئے گا ۔
وہ کیسے ظائر احمد نے آنکھیں سکڑتے ہوئے پوچھا ۔
وہ ایسے کہ مجھے اس بار یقین ہے کہ فتح ہماری ہو گی اور لوٹ مار میں کافی سامان یعنی زن اور زر ہمارے ہاتھ لگے گا میں تو اس بار کوئی نیک سیرت اور ‏خوبصورت سی لڑکی کا اپنے لئے انتخاب کروں گا اور اس کے ساتھ شادی کرنے کے بعد اپنے شہر سے کہیں اور نہیں جاوں گا اور نہ ہی دوبارہ کسی اور ‏ملک جا کر جہاد میں شامل ہوں گا۔
‏ میں خلیل کی طرح نہیں ہوں کہ جب پچھلی بار یہ جہاد پر گیا تھا یہ فرنٹ لائن پر تھا اس نے کمال بہادری کے ساتھ دشمن کو بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا ‏اس گاؤں پر قبضہ کے بعد مال غنمیت میں اسے کافی سامان کے علاوہ دو لڑکیاں بھی ملی تھیں ایک کے ساتھ اس نے نکاح کر کے گھر میں رکھ لیا اور ‏دوسری کو جنوبی پنجاب میں ایک زمیندار کے ہاتھ فروخت کر دیا تھا ۔
ہم کہاں یعنی کس جگہ پہنچ گئے ہیں سامنے بیٹھے ہوئے ایک پنجابی نوجوان نے پوچھا۔
خلیل نے اپنی گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا میرے اندازے کے مطابق ہم لوگ کابل کے قریب ہیں کیونکہ ہمیں دو گھنٹے سے زیادہ سفر کرتے ‏ہوئے ہو گئے ہیں میں نے تُورخم کے بارڈر پر وقت نوٹ کیا تھا مجھے لگتا ہے کہ تقریبا آدھے گھنٹے کا سفر ابھی باقی ہے ‏
چلو شکر ہے ہم لوگ کابل کے قریب ہیں سفر خیر خیریت سے طے ہو گیا ہے آگے اس کی مرضی کیا ہونے والا ہے اس پنجابی نوجوان نے کہتے ہوئے ‏دوبارہ سونے کی کوشش کی۔
ٹرک میں ہم تین لوگ صرف جاگ رہے تھے اور باقی سب اُونگھ رہے تھے کچھ سونے کی کوشش کر رہے تھے اور کبھی کبھار کوئی کسی سے بات کر ‏لیتا ۔
اچانک ٹرک سنگلاخ پہاڑیوں میں ایک کچی سڑک کی طرف مڑ گیا اس ناہموار سڑک پر ٹرک چلتے ہوئے کافی ہچکولے کھا رہا تھا ٹوٹی پھوٹی سڑک پر ‏ٹرک کی رفتار بہت آہستہ تھی اور سڑک سے اڑنے والی گرد ٹرک کے اندر آ رہی تھی ان ہچکولوں اور گرد کی وجہ سے ٹرک پر سوار تمام جہادی مکمل ‏طور پر جاگ چکے تھے مگر ایک دوسرے سے بات کرنے سے کترا رہے تھے ہر ایک کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ کچھ سوچ رہا ہے کچھ نوجوانو کی آنکھیں کسی ‏انجانے خوف اور اندیشے کی وجہ سے معمول سے زیادہ پھیل چکی تھیں۔
ظاہر احمد زئی بھی یہ سوچ رہا تھا کہ اب کہیں نہ کہیں ہم رکنے والے ہیں جہاں پر ہمارا پڑاؤ ہو گا کیونکہ شام کے آثار نمایاں ہوتے جا رہے تھے کچی ‏سڑک کے دونوں اطراف میں پھیلا سنگلاخ پہاڑیوں کا ایک طویل سلسلہ تھا پہاڑیوں کے سائے لمبے ہوتے جارہے تھے اور کبھی کبھی کسی پہاڑی ‏کے جھروکے سے سُرخ ہوتا ہوا سورج چند لمحوں کے لئے جھلک دکھا کر غائب ہو جاتا۔
کوئی آدھے گھنٹے تک یہی صورت حال رہی پھر ٹرک ایک ڈھلوان کی طرف مڑ گیا اور کوئی پانچ منٹ بعد ایک ائیر بیس پر جا کر رک گیا ۔
جس عمارت کے سامنےٹرک نے اپنا سفر ختم کیا وہ ایک سیمنٹ ریت سے بنی ہوئی پختہ دو منزلہ عمارت تھی جو زیادہ پرانی دکھائی نہیں دیتی تھی اس ‏سے کوئی پانچ سو میٹر کے فاصلے پر ائیر پورٹ کی عمارت تھی اور اس کے ساتھ منسلک لمبا سیاہ رنگ کا رن وے تھا جو دور سے سنگلاخ پہاڑیوں کے ‏درمیان کالے رنگ کے کوبرا سانپ کی طرح نظر آ رہا تھا۔
ٹرک کا انجن بند ہوا سارجنٹ ڈرائیور چھلانگ لگا کر نیچے اترا اور ٹرک کے پیچھے آ کر ہم سے مخاطب ہوا وہ بہت خوش نظر آ رہا تھا۔
اوکے ینگ مین ہماری منزل آ گئی ہے آپ سب نیچے اتر سکتے ہیں میرا ساتھی کیپٹن ڈیرک آپ کو سونے کی جگہ اور کھانے کا کمرہ دکھائے گا آپ یہاں ‏پر اس وقت تک رہیں گے جب تک کہ محاذ جنگ پر جانے کا اوپر سے حکم نہیں آتا۔
اور ہاں اگر آپ کو کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو وہ مجھے بتا دے اگر کوئی مشکل ہو میرا مطلب ہے کسی کی طبیعت ٹھیک نہ ہو مجھ سے رابطہ کر لینا میں ‏ہر وقت آپ کی خدمت کے لئے تیار ہوں۔
اوکے سر سب نے بیک وقت ایک آواز میں جواب دیا اور سارجنٹ کو سلیوٹ کیا اور کیپٹن ڈئیرک کے پیچھے مارچ کرنے کے انداز میں چل پڑے۔
کیپٹن ڈئیرک نے بیس منٹ میں ہم سب کو باتھ روم سے لے کر ایمرجنسی الارم اور وہ پناہ گاہ بھی دکھا دی جس میں دشمن کے فضائی یا پھر زمینی حملے ‏کے وقت پناہ لینی ہے اور کیسے اس پر جوابی حملہ کرنا ہے آخر میں کیپٹن انھیں سونے کے لئے استعمال ہونے والے ہال نما کمرہ میں سے گزرتے ‏ہوئے بتارہا تھا کہ ہر چارپائی کے سرہانے کی طرف آپ کے نام لکھے ہوئے ہیں اپنا نام دیکھ کر وہی چارپائی اور اس کے ساتھ منسلک چھوٹی سی الماری ‏استعمال کریں اگر کسی کو مشکل پیش آئے تو میں یہاں پر ہی ہوں مجھ سے رابطہ کریں۔
اور یہ ہے میرے دوستو ہم سب کے کھانے کا کمرہ ، کیپٹن نے ایک بڑے ہال کا لوہے سے بنا ہوا دروازہ کھولتے ہوئے کہا ۔
‏ یہ ایک ہال کی شکل میں تھا جس میں ایک سو سے زیادہ لوگوں کے ایک وقت میں کھانے کا انتظام تھا جس میں ایک ہی ترتیب سے پلاسٹک کے میز اور ‏کرسیاں لگائی ہوئی تھیں ایک طرف باورچی خانے کی کھڑکی تھی اور کھڑکی کے ساتھ ہی ایک طرف بہت سارے ٹرے اکٹھے رکھے ہوئے تھے ‏جن میں کھانے کاسامان رکھنے کے لئے خانے بنے ہوئے تھے ہر سپاہی ایک بوتل پانی اور ٹرے اٹھا کر قطار میں کھلی کھڑکی کے آگے سے گزرتا تھا ‏اور وہاں پر ہر ڈش کے پیچھے کھڑا آدمی ان کی ٹرے کے خانوں میں کھانے کا مناسب حصہ ڈالتا جاتا اور وہ خالی کرسی پر ترتیب سے بیٹھ کر کھانا نوش ‏کرتے اور خالی ٹرے اس کی مخصوص جگہ پر رکھنے سے پہلے ٹرے میں بچا ہوا سامان مختلف بڑے ڈبوں میں ڈالتے جن کے اوپر لکھا تھا کاغذ، ٹین، ‏پلاسٹک اور شیشہ کی بوتلوں کے علاوہ بچا ہوا کھانا۔ ‏
کیپٹن نے ساری معلومات ختم کرتے ہوئے کہا کہ اب آپ کے پاس پندرہ منٹ ہیں اپنے بستر اور الماری چیک کریں اپنا سامان ترتیب سے رکھیں ‏اور پھر کھانے کے لئے آجائیں۔
‏ یہ ان کا روز کا معمول بن گیا صبح کا ناشتہ پھر ورزش دوپہر کا کھانا اور آرام ،پھر شام کے کھانے سے پہلے ورزش اور سونے سے پہلے کوئی انڈین یا پھر ہالی ‏وڈ کی فلم دیکھ کر سو جانا ، انھیں اس کیمپ سے باہر کی دنیا کے بارے کچھ معلوم نہیں تھا کہ جنگ کون جیت رہا ہے اور کون ہار رہا ہے دنیا میں کیا کیا ‏واقعات رونما ہو رہے ہیں وہ اس سے بے خبر اپنے اس بیس کیمپ کی دنیا میں مگن ہو گئے تھے۔‏

۔۔۔۔۔

انیسوہواں باب

آج بھی حسب معمول ظائراحمد زئی صبح اٹھا سب ساتھیوں کے ساتھ ناشتے سے فارغ ہو کر ورزش کی اور اپنے بستر کی طرف چل دیا تاکہ فوجی وردی ‏پہن کر ڈیوٹی شروع کر سکے ابھی وہ بیرک سے چند قدم ہی آگے بڑھا تھا کہ اچانک سارجنٹ اور کیپٹن اور تمام دوسرے ساتھیوں کو اپنے سامنے دیکھ ‏کر حیران ہوا کیونکہ ایسا پچھلے تین ما ہ میں پہلی بار ہوا تھا ۔ سب لوگ پہلے ہی باہر ایک قطار میں کھڑے تھے میں بھی ان کے ساتھ قطار میں کھڑا ہو ‏گیا سارجنٹ نے گڈ مارننگ کہتے ہو ئے کہنا شروع کیا۔
‏ ہم سب کے لئے ایک خوشخبری ہے کہ سوویت یونین نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے ہمارے ساتھ یعنی امریکہ ، پاکستان اور افغانستان ‏کےساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے مطابق وہ ایک سال کے اندر اندر اپنی فوجوں کو افغانستان سے روس میں واپس بلا لے گا اور یوں ‏لڑائی کے ساتھ ہی روسی تسلط بھی ختم ہو جائے گا ایک استعماری قوت واپس اپنے گھر چلی جائے گی مجھے امید ہے کہ آپ لوگ بھی جلد اپنے گھروں کو ‏لوٹ جائیں گے یہ ہماری بہت بڑی فتح ہے آپ سب کو مبارک ہو، اب آپ اپنی اپنی ڈیوٹی پر جا سکتے ہیں۔
‏ ڈیوٹی کی جگہ پر پہنچنے کے عرصہ کے دوارن میری خوشی دیدنی تھی میری ہر بات پر ہنسی چھوٹ رہی تھی مجھے گھر اپنے چھوٹے سے کنبے میں واپس ‏جانے کی بے انتہا خوشی ہو رہی تھی ۔
تمہارے دانت کیوں نکل رہے ہیں خلیل احمد نے عجیب طرح سے منہ بناتے ہوئے مجھ سے کہا۔‏
یار خوشی کی تو بات ہے واپس اپنے گھروں کو لوٹنے کا وقت آ گیا ہے میرے ہاتھوں نہ تو کوئی قتل ہوا ہے نہ ہی ہم نے کسی علاقے پر قبضہ کیا ہے اور نہ ‏ہی لوٹ مار کی ہے اور جلد ہی میں اپنے چھوٹے سے خاندان میں واپس لوٹ جاؤں گا مجھے اس سے زیادہ اور کیا خوشی ہو گی۔‏
امیر معاویہ جو اُن دونوں کے درمیان چل رہا تھا فورا بولا لو میرا خواب تو اُدھورا رہ گیا ہے میں چوتھی بیوی کے چکر میں تھا۔
‏ خلیل احمد نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا یار تُو تو چپ ہو جا ، ہمارا مستقبل ختم ہو رہا ہے ہمارا روز گار ختم ہو جائے گا کیا تجھے اب پنجاب میں کوئی کام ‏مل جائے گا کوئی ہنر والا کام تو ہم نہیں جانتے اور نہ ہی ہم میں سے کوئی تعلیم یافتہ ہے مجھے تو صرف جہاد کے علاوہ کسی اور کام کا تجربہ بھی نہیں ہے میں ‏تو ایک بار پھر بےروزگار ہو جاؤں گا۔
دوپہر کو کھانے پر ملیں گے پھر بات ہو گی۔
‏ ظاہر احمد زئی نے اپنی کلائی پر بندھی چین کی بنی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور یہ کہتے ہوئے اپنی ڈیوٹی کی جگہ کی طرف مڑ گیا اور وہ ‏دونوں باتیں کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
اپنی جگہ پر پہنچ کر اس نے چھوٹی سی کوٹھڑی کے اندر جھانک کر اچھی طرح سے جائزہ لیا اور پھر اپنی رائفل کو کندھے سے اتار کر کوٹھڑی کی دیوار ‏کے ساتھ ٹکایا ابھی اپنی ٹوپی کو سیدھا ہی کر رہا تھا کہ ایک لاک ہیڈ سی ایک سو تیس سپر ہرکولیس طیارہ رن وے پر اسے اترتا نظر آیا وہ ایک دم ہمیشہ ‏کی طرح رائفل کندھے پر لٹکا کر چوک و چوبند فوجی کی طرح سیدھا کھڑا ہو گیا اور جہاز کو دیکھنے لگا جب جہاز ائیر بیس کی عمارت کے سامنے مکمل طور ‏پر رک گیا تو ایک کار اور دو چھوٹے ٹرک اس طیارے اس کی طرف بڑھے۔ جہاز میں سے تین امریکن فوجی وردی میں جہاز سے ایک دوسرے کے ‏پیچھے اترے اور کار میں بیٹھ کر ائیر بیس سے منسلک ایک رہائش کی طرف چلے گئے اور کچھ سپاہی جہاز میں سے سامان اتار کر ٹرکوں میں لوڈ کرنے ‏لگے۔
وہ ان کو دیکھ رہا تھا مگر اس کا دماغ کچھ اور سوچ رہا تھا یہ کیسی جنگ ہے اکیلا ہی سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا ہے اور بغیر خون بہائے کابل ‏شہر پر قابض ہو گیا۔
‏ دراصل افغانیوں کے آپس کے جھگڑے اس حد تک پہنچ گئے تھے کہ اس وقت کی حکومت نے اپنی گرتی حکومت کو بچانے کے لئے سوویت یونین ‏کو اپنی فوج بھیجنے کی دعوت دی یوں اپنی فوج کے ساتھ روس نے کابل کو اپنی طویل میں لے لیا ۔
کیا روس اس وقت اتنا طاقتور تھا کہ وہ دس برس وہاں پر رکا رہا کابل میں اپنی من مانی کرتا رہا اس کو پوری دنیا مل کر بھی وہاں سے نکالنے کی کوشش ‏کرتی رہی مگر اس میں کامیاب نہیں ہوئی جب تک کہ اس کی اپنی گرتی ہوئی معاشایات نے اسے واپس اپنے گھر جانے پر مجبور نہیں کر دیا اور دنیا ‏سمجھ رہی ہے کہ اس نے شکست تسلیم کر لی ہے۔
پھر اس نے سوچا ایسا کیا ہے افغانستان میں کہ پوری دنیا نے اسے میدان جنگ بنا لیا ہے اور اسکو تہس نہس کر رہے ہیں چلو مان لیا کہ پاکستان اور ‏عرب ممالک اسلامی ملک ہونے کے ناطے سے اس کی مدد کو آئے ہو ں گے مگر یہ امریکہ اور روس کو اس میں کیا مالی یا اخلاقی فائدہ ہو سکتا ہے۔‏
‏ کیا زر، زن اور زمین کا چکر ہوسکتا ہے مگر یہاں پر کونسی ہیرے جوہرات اور سونے کی کانیں ہیں یا پھر عرب ممالک کی طرح تیل کے ذخائر ہیں جن ‏کی وجہ سے یہ زمین پر ُکشش ہے ہاں یہ بھی نہیں ہوسکتا یہ لوگ امیر معاویہ کی طرح دلہن کے چکر میں ہوں پھر یہ سوچ کر یہ خیال بھی اپنے ذہن ‏سے نکال دیا کیونکہ اس نے سنا تھا اسلام میں چار شادیوں کی اجازت ہے مگر غیر مسلم لوگوں کی اس میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے ان کی مذہبی روایت ‏کے مطابق زندگی میں ایک ہی شادی جائز ہے اور یہ بھی اس کو معلوم تھا کہ روس اور امریکہ میں بھی خوبصورت لڑکیوں کی کمی نہیں ہے۔
‏ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا اس نے سوچنا بند کیا اور جہاز کی طرف دیکھنا شروع کر دیا جو اب بالکل اکیلا دھوپ میں بے حس و حرکت کھڑا تھا ‏سب اپنا اپنا کام ختم کر کے جا چکے تھے۔‏
لیکن صرف وہ اب بھی بالکل تنہا اپنی رائفل اور کوٹھڑی کے ساتھ چھتری کے سائے میں کھڑا تھا اس نے جیب سے امریکن برانڈ سگریٹ کا پیکٹ ‏نکالا اور لائٹر سے سلگا کر ایک گہرا کش لگایا اور آدھا دھواں پھپھڑوں میں کھینچ لیا اور آدھا دھواں اپنا منہ آسمان کی طرف کرتے ہوئے ہونٹوں کو ‏گول شکل دے کر زور سے سانس کے ساتھ ہوا میں اچھال دیا۔
‏ سائے میں کھڑا ہونے کے باوجود اسے پیاس کا احساس ہوا کوٹھڑی میں پڑے ہوئے کولر سے اس نے ٹھنڈےپانی کا گلاس پیا اور کوٹھڑی میں پڑی ‏پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھ کر جہاز کی کھڑکیاں کو اپنی انگلیوں پر گنتی کرنا شروع کیا اس کے بعد حسب معمول اس نے اپنے اردگرد نظر آنے والے تمام ‏چھوٹے بڑے شجر شمار کیے اور آخر میں اشجار کے پیچھے تمام سنگلاخ چھوٹی بڑی پہاڑیوں کو گن کر اطمینان کرلیا کہ ہاں سب کچھ اپنی جگہ پر موجود ہے ‏اور جوں کا توں اپنی اپنی جگہ پر قائم ہے۔
حسب معمول دوپہر کے بارہ بج کر پانچ منٹ پر کوٹھڑی کے قریب سے گرزتے ہوئے خلیل احمد نے اسے آواز دی ۔
او بھائی ظائراحمد اگر زندہ ہو تو کھانے کا وقت ہو گیا ہے آ جاؤ کھانے کا وقفہ کر لو۔
ظائر احمد زئی آہستہ سے اٹھا اور اس کے ساتھ ڈائینگ ہال کی طرف چل پڑا وہ دونوں آج بھی حسب معمول سیاسی گفتگو کرتے ہوئے آگے جا رہے ‏تھے راستے میں امیر معاویہ بھی ان کے ساتھ ہو لیا ۔
ظائر احمد ان سے کہہ رہا تھا لو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ روزگار ختم ہونے والا ہے کیونکہ یہ امریکن تو گھر واپس نہیں جارہے ہماری تو نوکری ان کے ساتھ ‏ہے صرف روس اپنے گھر واپس جا رہا ہے پھر تُو کیسے کہہ رہا ہے کہ ہمارا روزگار ختم ہونے والا ہے۔ ‏
امیر معاویہ نے اس کی طرف منہ کیا اور کہا یار تمہارا دماغ بھی خالی ہے تجھے سجمھ نہیں آ رہی کہ میدان میں جب کوئی مد مقابل نہیں ہو گا تو تُوکس ‏کے ساتھ پنجہ آزمائی کرے گا اس لئے نوکری خطرے میں ہوئی نا۔
یہ سُن کر خلیل احمد نے بھی مناسب سمجھا کہ اس بحث میں کچھ اپنا حصہ بھی ڈال دے فورا بولا آپ دونوں کی عقل گھاس کھانے گئی ہوئی ہے سارا ‏دن دھوپ میں سنگلاخ پہاڑیاں اور تارکول سے بنے رن وے کو دیکھتے دیکھتے آپ کی عقل بھی تھوڑی سنگلاح ہوتی جا رہی ہے ‏
وہ کیسے جناب ظائر احمد زئی نے خلیل نے پوچھا۔
وہ ایسے جناب کہ افغانستان میں جن قبائل کی آپس میں دھڑے بندیاں اور دشمنیاں ہیں وہ روس کے جانے کے بعد ایک بار پھر سے کھل کر سامنے ‏آجائیں گی اور پھر سے وہ آپس میں لڑنا شروع ہو جائیں گے اور ان لوگوں کے درمیان کوئی تو ہونا چاہیے جو ان کی صلح صفائی کرانے کے چکر میں اور ‏مالی معاونت اور اسلحہ کی مدد کےساتھ لڑاتا رہے اور ان کو اپنی کمانڈ میں رکھے اوریہ جو افغانی قبائل ہیں ان میں عقل کی بجائے غیرت زیادہ ہے یہ ‏لوگ ہر کام جدید ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کی بجائے قدیم وجدیدغیرت کے نام پر کرتے ہیں اپنے سارے خاندانی اور قبائلی اور ملکی مسائل کا حل صرف ‏غیرت کے نام پر ہی کرتے ہیں اسی لئے تو یہ آپس میں بھی لڑتے رہتے ہیں اور دوسری ترقی یافتہ سپر طاقتیں ان کے بیچ میں صلح کرانے کے بہانے ‏ان کےمعاملات میں کود پڑتی ہیں اور پھر ایک عرصہ تک ان کے گھر مہمان کے طور پر رہتی ہیں ابھی وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ کھانے کا ہال آ گیا وہ تینوں ‏ایک ساتھ اندر داخل ہوئے۔
امیر معاویہ نے آہستہ سےخلیل کو کہا آج تو ہم سے پہلے بہت سارے لوگ ہیں یہ سب آپس میں گفتگو کر رہے تھے سب کا موضوع روس کی جنگ ‏کے میدان سے واپسی تھا اور اس کے ساتھ جڑے ہوئے روزگار بھی زیر بحث تھا۔
ظائر احمد زئی نے ایک طرف بیٹھے ہوئےاور تیزی سے کھانے میں مصروف سفید فام فوجیوں کو دیکھتے ہوئے کہا مجھے ایسے لگتا ہے افغانستان روسی ‏استعماریت سے نکل کر امریکہ اور یورپ کی استعماری تسلط میں آ جائے گا ۔
دوپہر کے کھانے سے فارغ ہوتے ہی ظائر احمد زئی سیدھا اپنی ڈیوٹی کی جگہ کی طرف چل پڑا وہ بے چین سا تھا وہ اس بے چینی کی وجہ جاننے کی ‏کوشش کر رہا تھا اور اس کے ساتھ وہ اپنے خاندان کے بارے میں بھی سوچ رہا تھا کیا ہونے والا ہے اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ ان ہی سوچوں میں ‏گم ڈیوٹی کی جگہ پر پہنچا ابھی اس نے رائفل کندھے سے اتار کر کوٹھڑی کی دیوار کے ساتھ لگائی تھی کہ اس کے کانوں میں ہیلی کوپٹر کی آواز آئی اس ‏کا ہاتھ ایک دم رائفل کی طرف بڑھا اس نے اسے دوبارہ کندھے پر اچھی طرح سے لٹکایا اور چوک وچوبند کھڑا ہیلی کاپٹر کی قریب آتی آواز کو غور ‏سے سننے کی کوشش کرنے لگا مشرق کی طرف سے ایک چھوٹی بھُورے رنگ کی پہاڑی کی اُوٹ سے ایک بلیک ہاک ہیلی کاپٹر اس کو نظر آیا جو ائیر ‏بیس کی عمارت کے سامنے پہلے سے کھڑے طیارے کے برابر میں آ کر زمین پر اتر گیا جس میں سے چار سفید فام فوجی نیچے اترے اور عمارت کے اندر ‏داخل ہو گئے۔
‏ اسے دور سے ان کے فوجی عہدے تو معلوم نہیں ہو سکے مگر اس کا اندازہ تھا کہ یہ چاروں ہی فوج میں اعلی عہدوں پر فائز لوگ لگتے تھے جب ہیلی ‏کاپٹر کا انجن بھی مکمل طور پر خاموش ہو گیا اور ائیر بیس پھر سے سائیں سائیں کرنے لگا تو زبردستی اس کی سوچ دوبارہ اپنے گھر کی طرف چلی گئی۔
اگلے دن انہیں بتایا گیا کہ دو دن بعد اپنے آپ اپنے گھروں کو چھٹی پر جائیں گے اور جب بھی ضرورت ہو گی انھیں دوبارہ بلا لیا جائے گا
‏ آج کا دن بھی ایک دوسرے کے ساتھ آنے والے وقت کے بارے میں گفتگو میں گذر گیا کچھ تو بہت خوش تھےکہ چلو جنگ کا موسم بیت گیا ہے ‏اور کچھ لوگ اپنے مستقبل کے بارے میں بہت زیادہ فکر مند تھے۔
ظائر زئی اب بھی اپنے خاندان کے بارے سوچ رہا تھا بہت سے جہادی یہ امید کر رہے تھے کہ وہ امریکہ اور نیٹو فورسز کے ساتھ دوسروں سے زیادہ ‏وفادار ہیں لہذا انھیں مستقل یہاں پر ہی رکھ لیا جائے گا یا پھر اپنے ساتھ امریکہ نہیں تو یورپ کا کوئی ملک لے جائے گا سب سے زیادہ فکر مند امیر ‏معاویہ دکھائی دے رہا تھا اس کے سار ے منصوبے فیل ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔
‏ خلیل نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا فکر نہ کرو میرے ایک قریبی رشتہ دار ہیں جو پاکستانی طالبان کی تنطیم میں ایک بڑے عہدے پر ‏فائز ہے میں ان سے بات کروں گا وہ ہمیں طالبان میں بھرتی کروا دے گا انشا اللہ ہم لوگ کبھی بھوکے نہیں رہیں گے اس نے پیدا کیا ہے تو روٹی ‏روزی بھی دے گا زندگی اور موت اسی کے ہاتھ میں ہے ہماری روزی بھی اسی کے ہاتھ میں ہے اللہ مالک ہے اس پر یقین رکھو۔
۔۔۔۔۔

بیسواں باب:‏

دلبر زئی نے اپنی کرسی کو دیوار کے قریب کرتے ہوئے گہرا سانس لیا اور اپنے دونوں پاؤں اٹھا کر قریبی چھوٹے اسٹول پر رکھتے ہوئے کہا یہ بھی ‏عجیب بات ہے کرسی پر بھی بیٹھا آدمی تھک جاتا ہے میری ٹانگیں ایسے ہو گئی تھی جیسے پتھر کی ہوں۔
پاسٹر ڈیوڈ نے بے چینی سے سوال کیا تو اس کے بعد کیا ہوا تمہارے بابا جانی نے فوج کی نوکری سے فارغ ہو کر کچھ کام کیا یا جوکچھ انگریز ی فوج کی ‏نوکری سے کمایا اسی پر گذرا کیا یا پھر سے پوست کی فصل کاشت کرنی شروع کر دی۔
بتاتا ہوں۔
کیا میں سگریٹ سلگا سکتا ہوں ؟۔
آپ کواس سے کوئی الرجی تو نہیں ہے معذرت چاہتا ہوں۔ دلبر نے جواب دیا
مجھے کوئی الرجی نہیں ہے اور نہ ہی آپ سے شکایت ہے میں تو کبھی چین اسموکر ہوتا تھا پھر اپنے باپ کے کہنے کے باوجود میں سگریٹ سے مکمل ‏کنارہ کشی تو نہیں کر سکا مگر پہلے سے اب بہت کم سگریٹ پیتا ہوں۔
یہ تو بہت اچھا کیا ہے آپ نے، میں نے کئی بار سگریٹ نہ پینے کا ارادہ کیا ہے مگر ایسا کر نہیں سکا اس کی وجہ مجھے معلوم نہیں ہے۔
ہاں تو میں کہہ ریا تھا میرے بابا جانی نے انگریز کی نوکری سے فارغ ہونے کے بعد پشاور کے قصہ خانی بازار میں ایک دکان کرایہ پر لی اور وہاں پر ہم ‏نے ایک چھوٹے سےدیسی ریسٹورنٹ کا آغاز کیا ۔
اس طرح ہماری زندگی معمول کی طرح گذرنے لگی خاص طور پر میری ماں بہت خوش تھی اس کے پاس اب سب کچھ تھا اور میرے دادا تو فخر ‏کرتے تھے وہ اپنی ضعیف زندگی کو نہایت آرام وسکون سے بسر کر رہے تھے پہلے دو سال تو ہمارے نہایت اچھے اور پُرسکون گزر گئے پھر ایک دم ‏دہشت گردی کا عفریت ہر جگہ گھومنے لگا شدت پسند مذہبی تنظیموں کا اثر و رسوخ بھی اس شہر میں بڑھتا جا رہا تھا ڈاڑھی رکھنے پر مجبور کیا جا رہا تھا اور ‏کا م چھوڑ کر پانچ وقت کی نماز نہ پڑھنے والوں کو سزائیں دی جا رہی تھی بدکاری کے مرتکب افراد کو سرعام کوڑوں کی سزا دی جاتی اور غداری کرنے ‏والوں کے سر قلم کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
‏ پہلے تو میرے باباجانی سے مہینہ میں ایک بار امریکہ کے خلاف جہاد کے نام پر چندہ وصول کیا جاتا رہا پھر ہفتہ وار کر دیا گیا ۔‏
اس سے بڑھ کر یہ ہوا بڑے شہروں میں خود کش بمبار جہادیوں کا طوفان آ گیا ان سب چیزوں کاسلسلہ سیلاب کی شکل اختیار کر گیا لوگ گھروں میں ‏مقید ہو کر رہ گئے خاص طور پر خواتین کے لئے پہلے سے زیادہ مشکل زندگی ہو گئی۔
‏ سکول دھماکوں سے اڑ ائے جانے لگے ہر طرح سے خواتین کی تعلیم کے معاملے میں حوصلہ شکنی کی جانے لگی مذہبی اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر ‏عبادت کرتے غیر مسلح معصوم لوگوں کو خودکش حملوں آواروں نے ہلاک کرنا شروع کر دیا اور مساجد میں نماز ادا کرتے ہوئےلوگوں کو نشانہ بنایا ‏جانے لگا۔
‏ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اب ان جابر لوگوں سے خدا کے علاوہ کوئی نہیں بچا سکتا وہ جب چاہتے جیسے چاہتے خود کش بم دھماکا کے ذریعے یا گولیوں سے ‏بھون دیتے۔
اقلیتی وزیر ہو یا مذہبی امور کا وزیر کوئی ان کی دسترس سے باہر نہیں تھا ہمارے دن اور رات خوف و دہشت میں گزرنے لگے ماں بھی ہر وقت ‏کمرے میں بند رہنے لگی دادا جانی بھی بڑھاپے کی وجہ سے اب کمزور ہوتے جا رہے تھے بابا جانی نے بھی باہر جانا بہت کم کر دیا تھا انھیں ڈر تھا کہ ‏انگریز سرکار کی فوج میں ملازمت کی وجہ سے مذہبی انتہا پسند وں کی وہ نظر میں ہیں اس لئے بازار اور منڈی سے سودا سلف لانے کی میری ڈیوٹی لگا دی ‏گئی تھی۔
مجھے یاد ہے ایک دن صبح ہم ریسٹورنٹ میں دوپہر کے کھانے کی تیاری میں مصروف تھے کچھ گاہک کھانے کا انتظار کر رہے تھے میں بابا جانی کی مدد ‏میں مصروف تھا ایسے میں دو عدد فورڈ سفید رنگ کی چیپیں دکان کے سامنے آ کر رک گئیں اس پر پندرہ کے قریب طالبان رشین کلاشنکوف ہوا میں ‏لہراتے ہوئے اُتر کر ہماری دکان کی طرف آئے ان میں سے ایک دکان کے اندر آیا اور باقی سب دکان کے باہر فٹ پاتھ پر کھڑے ہوگئے۔ میں ‏سہم کر کاونٹر کے پیچھے چُھپ گیا تاکہ وہ مجھے دیکھ نہ سکیں۔‏
‏ اس آدمی کے پاس کلاشنکوف تھی جس کا رخ بابا جانی کی طرف تھا لمبے بال جس میں کنگھی نہیں کی گئی تھی لمبی بے ترتیب بڑھی ہوئی داڑھی اور ‏داڑھی میں گم ہوتی ہوئی اس کی مونچھیں ، وہ ایک کالے رنگ کی کمبل نما چادر اوڑھے ہوئے تھا وہ بڑے حاکمانہ انداز میں بابا جانی کے پاس آ کر رک ‏گیا اور بولا سلام و علیکم ۔ ‏
‏ بابا جانی نے جواب میں واعلیکم سلام
کیا تم مسلمان ہو؟
جی جی میں مسلمان ہوں۔
کیا پانچ وقت کی نماز ادا کرتے ہو۔
جی نہیں میرے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا۔
اس کا مطلب ہے تم مسلمان نہیں ہو تم جھوٹ بول رہے ہو۔
نہیں جی میں قسم کھا کر کہتا ہوں میں مسلمان ہوں۔‏
تو پھر یہ بتاو کونسے مسلک سے تعلق رکھتے ہو۔
ظائر احمد زئی ایک لمحے کے لئے سوچ میں پڑ گیا اس کو واقعی نہیں معلوم تھا کہ وہ کونسے مسلک سے وابستہ ہے اسے صرف یہ معلوم تھا کہ وہ ایک ‏مسلمان گھر میں پیدا ہوا ہے اس لئے مسلمان ہے اور اس کا قبیلہ زئی ہے۔
کیا سوچ رہے ہو اس کا مطلب ہے تم مسلمان نہیں ہو تم نے داڑھی بھی نہیں رکھی ہوئی تمہیں تمہارے مسلک کا بھی نہیں معلوم ،تم نماز بھی ‏نہیں پڑھتے آخرت میں اللہ تعالی کو کیا جواب دو گے لہذا تمہیں سزا ضرور ملے گی۔
میں تمہیں ایک ہفتہ کا وقت دیتا ہوں اس دوران سب کچھ سیکھ لو ورنہ سڑک کے بیچ سر عام تمہیں کوڑوں کی سزا اور جرمانہ کیا جائے گا اس آدمی نے ‏بڑے نرم اور مؤدبانہ انداز میں کہا اور دکان سے باہر نکل کر سیدھا جیپ کی طرف گیا اس کے باقی ساتھی بھی اس کی تقلید کرتے ہوئے جیپ میں ‏سوارا ہو گئے اور وہاں سے روانہ ہو گئے۔
میں سہما ہوا کاونٹر کے پیچھے سے نکل کر بابا جانی کے ساتھ چمٹ گیا بابا جانی ابھی تک سکتہ کی حالت میں کھڑے ان کو جاتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور ‏میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے یہ سب کچھ اتنی تیزی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ دو منٹ کے عرصہ میں ہو گیا اس واقعہ کے تھوڑی دیر بعد ‏سب کچھ معمول کے مطابق ہو گیا لیکن اس واقعہ نے بابا جانی کو اندر سے توڑ پھوڑ دیا تھا۔
‏ میں نے محسوس کیا بابا جانی آج بہت کم بات کر رہے ہیں اور چہرہ پر بھی پریشانی کے آثار نمایاں تھے مگر اپنے وعدے کے مطابق جو انہوں نے اس ‏خوفناک آدمی سے کیا تھا اس بات کا کسی سے تذکرہ نہیں کر رہے تھے مجھے بھی اس کا پابند کیا اور مجھ سے وعدہ لیا کہ اس کا ذکر کسی سے نہیں کروں گا ‏میں بھی وعدے پر قائم رہا ۔
ہفتہ گذر گیا باباجانی نے بیماری کا بہانہ بنا کر کے دکان بند رکھی دو دن ہفتہ سے زائد گذر گئے کوئی بھی نہیں آیا یوں دو ہفتے گذر گئے اور پھر ایک ماہ سے ‏زیادہ دن ہو گئے کوئی دکان پر بابا جانی سے نماز روزہ یا مسلک اور لمبی داڑھی کے بارے تفتیش کرنے یا انہیں سزا دینے نہیں آیا مگر میرے باباجانی ‏بے چین رہنے لگے میں بھی ان کی حالت دیکھ کر پریشان ہو جاتا مگر میں یہ واقعہ بھی نہیں بھولا تھا اور دوسری چیز جس پر میں قائم رہا تھا وہ یہ تھی میں ‏نے ابھی تک اس واقعہ کا ذکر نہ ہی دادا جانی سے اور نہ ہی ماں سے کیا حالانکہ ماں نے بابا جانی سے کئی بار پوچھنے کی کوشش کی کیا بات ہے آج کل تم ‏کچھ ٹھیک نہیں لگتے پریشان رہتے ہو ۔
‏ مجھے بھی باتوں باتوں میں ماں نے پوچھنے کی کوشش کی مگر میں بھی ہر بار کوئی نیا بہانہ بنا کر بات کو ختم کر دیتا ، بابا جانی تو ہر بار یہ کہہ کر ٹال دیتے آج ‏میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور دادا حضور کے پوچھنے پر بھی یہی جواب دیتے ،میں چاہتا تھا ماں کو سب کچھ بتا دوں مگر بابا جانی سے کیا وعدہ نبھانا چاہتا ‏تھا لہذاکسی کو اس واقعہ کے بارے نہیں بتایا ۔ ‏
اب بابا جانی کی جگہ دادا جانی میرے ساتھ باہر ہر جگہ جاتے تھے حسب معمول آج صبح مجھے ماں نے تھوڑا جلدی جگا دیا اور ناشتہ دینے کے بعد دکان ‏کے لئے اشیا کی لسٹ میرے ہاتھ میں دے کر کہا کہ آج تم کو اکیلا پہلے سبزی منڈی اور پھر گوشت کی دکان پر جانا ہے میں نے حیران ہو کر پوچھا۔‏
‏ دادا جانی کہاں ہیں ۔
میری ماں نے میرا منہ چومتے ہوئے کہا بیٹا آج ان کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے انھیں بخار بھی ہے اور پھر تمہیں معلوم ہے کہ وہ بڑھاپے کی وجہ سے ‏کمزور بھی ہو چکے ہیں اس لئے میں نے ان کو باہر جانے سے منع کیا ہے وہ آرام کریں گے تو ٹھیک ہو جائیں گے۔
میں نے پٹ سن سے بنی بوری کندھے پر لٹکائی جس میں ہر روزبازار سے سامان لایا جاتا تھا اور اشیا کی لسٹ اور روپے ایک ساتھ جیب میں ڈالے اور ‏منڈی کی طرف چل پڑا۔ ‏
۔۔۔۔۔

٭٭٭
میں نے دادا جانی کی طرح ہر چیز کی جانچ پڑتال کر لینے کے بعد اور سارا حساب کتاب انگلیوں پر کر لینے کے بعد باقی رقم جو بچ گئی اس کو اچھی طرح ‏اشیا کی لسٹ میں لپٹ کر اپنی جیب میں ڈالا اور تمام سامان کو بوُری میں ترتیب کے ساتھ بند کرنے کے بعد بُوری کو اپنے کندھوں پر رکھا اور واپس گھر ‏کی طرف چل پڑا جو منڈی سے بیس منٹ کے فاصلے پر واقع تھی ابھی میں قصہ خانی بازار میں داخل ہونے کے لئے گلی کا موڑ مڑ رہا تھا وہاں سے گھر کا ‏ایک سو بیس میٹر کا فاصلہ رہ جاتا ہے۔
اچانک میں نے فائرنگ کی آواز سنی جو مسلسل تین چار منٹ جاری رہی اس کے بعد ایک زور دار دھماکے کی آواز سنی یہ آواز اتنی زور دار تھی کہ میں ‏نے اپنا توازن کھو دیا اور زمیں پر گر گیا بُوری لڑھک کر مجھ سے دور جا گری مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھا یہ کیا ہوا ہے میرے پیچھےجو چند لوگ آ رہے ‏تھے وہ دوڑتے ہوئے میرے اُوپر سے گذر کر بازار میں داخل ہو گئے میں نے ہمت کر کے اٹھنے کی کوشش کی مگر دائیں گھُٹنے میں شدید درد کی وجہ ‏سے زمین پر بیٹھ گیا میں نے دونوں ہاتھوں سے گھٹُنے کو پکڑااور ہلکی سی مالش کی تو درد بہت حد تک کم ہو گیا میں نے جلدی سے دائیں بائیں دیکھا گلی میں ‏کوئی بھی نہیں تھا اور ہر طرف خاموشی کا راج تھا مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا میں نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے اپنے دونوں کانوں کو رگڑا مگر ‏کچھ سنائی نہ دیا میں نے اپنے اردگرد دیکھا میرے دائیں جانب ہی بُوری پڑی تھی میں نے اسے پھر کندھوں پر رکھا اور گلی کا موڑ مڑ کر بازار میں ‏داخل ہو گیا ابھی میں نے اپنے گھر کی طرف گھوم کر چلنا شروع کر دیا ابھی گھر سے ایک سو میٹر دور تھا کہ ایک اور ہلکا سا دھماکا ہوا جس کی شدت پہلے ‏سے بہت کم تھی۔
چلتے چلتے میں نے اپنی نظر اٹھا کر سامنے دیکھا تو ایک ایسا دلخراش اور ناقابل یقیں منظر میری آنکھوں کے سامنے تھا پہلی بار میں نے ایسا منظر دیکھا ‏تھا میرے گھر اور دکان کے اردگرد گہرا دھواں تھا جو سفید اور کالے رنگ کا تھا اس دھواں میں مجھے کوئی شے نظر نہیں آ رہی تھی یہ دھواں کوئی ‏پچاس میٹر کے علاقہ میں پھیلا ہوا تھا میں نے دھواں کی اس دبیز چادر کے پار دیکھنے کی کوشش کی مگر کچھ بھی نہ دیکھ سکا البتہ دھواں سے پہلے کچھ ‏لوگ خون میں لت پت تار کول کی سیاہ سٹرک پر بے حس و حرکت پڑے مجھے نظرآئے ، میں ابھی یہ سوچ رہا تھا یہ سارا منظر کیا ہے چند لمحے میرا ‏ذہن ماوف ہو گیا میں ساکت کھڑا تھا ۔
پھر ایک دم سارے منظر میں جان پڑ گئی ہر چیز نے حرکت کرنی شروع کر دی لوگوں کی چیخ و پکار میرے کانوں میں پڑی میں نے دیکھا کچھ لوگ ادھر ‏ادھر دوڑ رہے تھے دھواں بھی تیزی سے آسمان کی طرف بلند ہوتا جا رہا تھا اور دھندلا سا منظر مجھے نظر آنے لگا اس منظر میں اپنا گھر اور دکان کو ‏تلاش کرنا شروع کیا جو ابھی تک دھواں کی لپیٹ میں ہونے کی وجہ سے پوری طرح صاف اور واضح نظر نہیں آ رہے تھے میرے ذہن میں چند ماہ ‏پہلے پیش آنے والا واقعہ گھوم گیا پھر طرح طرح کے خیالات مجھے بے چین کرنے لگے میرا سر چکرانے لگا لوگ بم دھماکے والی جگہ کی طرف دوڑ ‏رہے تھے میں ان لوگوں سے بچتا ہوا گھر کی طرف تیزی سے چلنے کی کوشش میں لڑکھڑا گیا اور گرتے گرتے بچا میں نے اپنے آپ کو سنبھالا ۔
میں نے سامان سے بھری ہوئی بوری سڑک کے کنارے رکھ دی اور اس کے پاس ہی بیٹھ گیا میں باروُد کے دھواں اور بُو کی وجہ سے اپنے سر میں ‏شدید درد اور تھکاوٹ محسوس کر رہا تھا لوگ میرے قریب سے دوڑتے ہوئےاس جگہ کی طرف جا رہے تھے جہاں بے شمار لوگ اپنی آخری ‏سانسیں گن رہے تھے بہت سے لوگ درد سے بلبلا رہے تھے چند لمحوں کے بعد مجھے کچھ ہوش نہ رہا میں سڑک کے کنارے بے ہوش ہو گیا ۔
یہ بتاتے ہوئے دلبر جذبات کی رو میں بہہ گیا اور ایک لمحے کے لئے رک گیا تاکہ اپنی بے ترتیب ہوتی ہوئی سانس کو قابو میں کر سکے اتنے میں نرس ‏مارٹینا اندر داخل ہوئی اور کہا ‏
دلبر تم ابھی تک گھر نہیں گئے ہو۔
نہیں میں ڈیوڈ سے اپنے دل کی باتیں کر رہا تھا دلبر نے اپنی آنکھوں کو صاف کرتے ہوئے کہا ‏
تم رو رہے ہو میں تمہیں ہر بار کہتی ہوں کہ رونے سے کچھ تبدیل نہیں ہو گا ۔
مارٹینا تم ان جذبات کو میری طرح محسوس نہیں کر سکتی۔
دلبر تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو میں بھی سینے میں دل رکھتی ہوں اس میں بھی جذبات کا ایک گہرا سمندر ہے جس میں کبھی کبھی منہ زور موجیں بھی اٹھتی ‏ہیں اگرچہ میں اس دنیا میں اکیلی تھی میں نے اپنے والدین کو کبھی نہیں دیکھا مجھے یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ وہ اس دنیا میں زندہ بھی ہیں یا آسمان پر ‏ہیں ‏
‏ مجھے اپنی جائے پیدائش کا بھی نہیں معلوم کہ میں اٹلی کے کس شہر میں پیدا ہوئی تھی ۔
‏ مجھے تو کیا کسی کو بھی معلوم نہیں ہےجب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے اس یتیم خانے کی انچارچ میری ماں اور وہاں کا باورچی میرا باپ تھا اور اس ‏میں رہنے والے دوسرے بچے میرے بہن بھائی تھے اور اب تک ہیں ۔
‏ جب سے میں نے بولنا اور چلنا سیکھا ہے تو مجھے یہ بتایا گیا ۔
ایک دن صبح تمہیں ہم نے یتیم خانے کے بڑے گیٹ کے آگے پڑا پایا تھا یوں خدا نے تمہیں ہمارے پاس بھیجا اور ہم تمہارے ماں باپ ہوئے اور ‏یہاں پر رہنے والے تمہارے بہن بھائی ہوئے اسی طرح ان کے ماں باپ بھی یہاں کے ملازمین ہی ہیں لیکن یہ بات بالکل سولہ آنے صحیح اور ‏درست ہے میرے یہ والدین دنیا میں سب سے اچھے اور خوبصورت ہیں انہوں نے بڑی خوشدلی اور محنت سے کے ساتھ اور بغیر کسی قسم کے لا لچ ‏کے مجھے پالا تعلیم دلوائی اور سب سے عمدہ کام یہ کیا کہ مجھے ایک غیر ملکی یعنی تمہارے ساتھ شادی کی اجازت دی وہ میرا اب بھی بہت خیال رکھتے ہیں ‏تم نے بھی مجھے اپنے دکھ سکھ کا ساتھی بنایا ، میں تمہارے ہر درد اور خوشی کو محسوس کرتی ہوں تمہاری ہر خوشی کو اپنے اندر سمونے کی کوشش کرتی ‏ہوں تمہارے دکھ بھی اب میں اپنے ہی سمجھتی اور محسوس کرتی ہوں۔
ڈیوڈ جو بڑے دھیان سے ان کی باتیں سن رہا تھا تھوڑا سے کھانستے ہوئے بولا تو جہاں تک میں آپ کی گفتگو سے سمجھا ہوں آپ دونوں کی شادی ہو ‏چکی ہے کیا میں ایک ذاتی سوال کر سکتا ہوں آ پ کے بچے بھی ہیں۔
دلبر زئی نے مارٹینا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا نہیں ابھی نہیں ہیں۔
ابھی ہمارے پاس اپنا گھر نہیں ہے ہم لوگ کرایہ کے مکان میں ہیں اور دوسری چیز یہ ہے ہمارے پاس مستقل کام نہیں ہے ابھی ہم رضاکارانہ طور ‏پرانسانی فلاح وبہبود کے کام ہی کرتے ہیں اس کام کے بدلے یہاں کی حکومت ہمیں جو معاوضہ دیتی ہے اس میں ہم دونوں کا گذارا ہو جاتا ہے مارٹینا ‏نے دلبر کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ ‏
ڈیوڈ نے فورا کہا ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے ہمارے معاشرے میں تو جب نئے شادی شدہ جوڑے کے ہاں ایک سال گذر جانے کے بعد بچہ پیدا نہیں ‏ہوتا تو لڑکی اور لڑکا کے ماں باپ فکر میں ڈوب جاتے ہیں اور ڈاکٹر یا پھر حکیم سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے رشتہ دار اور محلے داروں کو گفتگو کا ‏موضوع مل جاتا ہے اور شادی شدہ جوڑے کے دوست احباب کہنا شروع کر دیتے ہیں کب خوشخبری سنا رہے ہو۔
لوگ کیوں کسی کی ذاتی زندگی میں اس طرح دخل اندازی کرتے ہیں مارٹینا بھی دلبر زئی کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
یہ ہماری تہذیب و ثقافت کا حصہ بن چکا ہے دلبر زئی نے جواب دیا۔
اطالوی تاریخ میں بھی سو سال پہلے ایسے ہی تھا ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی کرنا معاشرے میں معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ ‏یہاں تک کہ خواتین اپنے سر کو سکارف سے ڈھانپتی تھیں یہ روایت اب تو صرف مذہبی عبادات تک محدود ہو کر رہ گئی ہے خواتین کو سیاسی اور ‏مذہبی انتخابات میں اپنے نمائندوں کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں تھا۔
بالکل درست ہے قومیں وقت کے ساتھ ہونے والی ترقی اور ماضی کی تاریخ سے سیکھتی ہے ڈیوڈ سلیم نے دلبر زئی سے ایک عدد سگریٹ کی ‏درخواست کرتے ہوئے کہا۔
‏ ہمارے ہاں وقت کے تیز رفتار پہیے کو الٹا گھمانے کی کوشش کی جا رہی ہے انگریز سے آزادی حاصل کرنے کے بعد تو ایک مذہبی گروپ نے پوری ‏عوام کو مذہبی طور پر اتنا جذباتی کر دیا ہوا ہے کہ اب تو لوگ جہاں پر مذہب کا حوالہ آتا ہے اتنے جذباتی ہو جاتے ہیں کہ اپنی سوچ کی لگام مذہب ‏کے ٹھیکے دار کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں وہ ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو اپنے قابو میں کر لیتا ہے اور اس طرح ان کو اپنی مرضی کے مطابق ‏استعمال کرتا ہے اور ان کی مذہب اور حب الوطنی کے نام پر برین واشنگ کر کےان کو قدیم دور میں واپس لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔
‏ یوں ہم جدید دنیا کی جدید ٹیکنالوجی اور انسانی ترقی کو پس پشت ڈال کر ذہنی طور پر قدیم رسم ورواج کے سمندر میں ڈوبتے جا رہے ہیں ۔
اس طرح وہ لوگ انسان سے نفرت کا پرچار کرتے ہیں وہ پوری دنیا میں جو اُن کے عقائد و رسومات کو قبول نہیں کرتے ان سب کو واجب القتل ‏ٹھہرتے ہیں ۔
دلبر زئی نے ڈیوڈ سلیم کو سگریٹ پیش کیا اور لائیٹر جلا کر سگریٹ سلگانے میں مدد دی ڈیوڈ سلیم نے ایک گہرا کش لگایا اور سگریٹ کا آدھا دھواں ‏پھپھڑزوں میں سانس کے ساتھ اتارتے ہوئے آدھا دھواں منہ اوپر کی طرف کرتے ہوئے ہوا میں اچھال دیا ۔
ایک لمحہ کے بعد دلبر زئی نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہنا شروع کیا ہمارے ہاں ایک مذہبی اکثریت اپنے ہاں رہنے والی اقلیت کو قدیم رواج ‏کے مطابق اپنے سے کم تر خیال کرتے ہوئے معاشرے میں ان سے امتیازی سلوک روا رکھتی ہے اور ایسے قوانین ان پر مسلط کرتی ہے جس کی وجہ ‏سے وہ ترقی نہ کرسکیں یعنی اپنا معیار زندگی ان کے برابر نہ کر سکیں اس کے علاوہ فرقہ وارایت کو اور زیادہ نمایاں کیا جاتا ہے۔
‏ ان امتیازی قوانین کے بدلے کچھ مراعات بھی دی جاتی ہیں تاکہ دنیا کے سامنے یہ دلائل بھی دئیے جا سکیں کہ اقلیتیں ہمارے ہاں محفوظ ہیں۔ ‏
دنیا پر وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں رہنے والے غیر مذاہب کے لوگوں کو مکمل جینے کا حق ہے اور وہ ہمارے نوکر بھی ہیں ہمارے ‏وفادار بھی ہیں انھیں اظہار رائے کی آزادی بھی نہیں ہے اور وہ ہمارے معاشرے کا حصہ بھی نہیں ہیں ۔
مارٹینا چند سالوں سے انسانی حقوق کی تنطیم سے وابستہ رہنے کی وجہ سے تاریخ کی طالبہ بھی تھی اور پھر آج کے جدید ٹیکنا لوجی کے ترقی یافتہ دور میں ‏انٹرنیٹ پر بہت ساری ایسی ویب سائٹز ہیں جہاں سے آپ دنیا کے کسی بھی موضوع کے بارے پوری معلومات حاصل کر سکتے ہیں یہاں تک بھی ‏ممکن ہے آپ گھر بیٹھے ہی کسی بھی ملک بلکہ اپنے گھر کا محلہ وقوع آسانی کے ساتھ دیکھ سکتے ہے لہذا اس ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ جانتی تھی ‏برصغیر میں مذہبی انتہا پسندی کی کیا صورت حا ل ہے تاہم وہ وہاں کے رہنے والے جن کی پیدائش اور جوانی وہاں پر بسر ہوئی اور جو ان تعصبات کا ‏شکار ہوئے جن کے دوست احباب اور رشتہ دار اس گمبھیر صورت حال کا شکار ہوئے وہ ان کی زبان سے ان کے حالات معلوم کرنا چاہتی تھی اس ‏لئے آج وہ کچھ زیادہ ہی یہ سب کچھ سنتے وقت بے چین اور مضطرب ہو رہی تھی اس کے ذہن میں بے شمار سوالات جمع تھے جو وہ پوچھنا چاہتی تھی ‏اس نے سگریٹ کا آخری کش لگاتے ہوئے ڈیوڈ سلیم کی طرف دیکھا اور پوچھا۔ ڈیوڈ جی آپ مجھے ایک سوال کا جواب دیں کیوں برصغیر کے سیاسی ‏،نظریاتی، نسلی اور مذہبی لوگ جب بھی اپنے ملک میں جان کا خطرہ محسوس کرتے ہیں تو یورپ میں ہزاروں کلو میٹرز کا سفر کرکے پناہ لینے آتے ہیں ‏وہ اپنے نزدیکی ممالک میں کیوں نہیں جاتے؟۔
میں آپ کو بتاتا ہوں اس نے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی زبان میں بولنا شروع کیا پاکستان کو چار ممالک کے بارڈرز لگتے ہیں افغانستان مسلم ملک ہے مگر ‏وہ ایک غریب ملک ہے ہمیشہ جنگ کی لیپٹ میں رہتا ہے اور کسی نہ کسی ملک کے زیر تسلط رہا ہے کبھی برطانیہ، کبھی پاکستان، کبھی امریکہ اور آجکل ‏امریکہ اور پاکستان دونوں کے زیر تسلط ہے وہاں میں کیوں جاؤں گا وہاں بھوک افلاس کے ساتھ کسی خود کش حملہ میں یا طالبان کی گولی کا نشانہ بن ‏جاؤں گا اس سے بہتر نہیں میں پاکستان میں ملاؤں کے ہاتھوں مارا جاؤں کم از کم اپنی زمین پر تو مروں گا جہاں مجھے دو گز زمین تو ملے گی دوسری طرف ‏بھارت ہے جو ہندو پاک کی تقسیم کے بعد سے آج بھی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں وہاں سیاسی پناہ نہیں مل سکتی ہندو انتہا پسندوں کے ‏ہاتھوں ذلت کی زندگی مل سکتی جو پاکستانی شدت پسندوں سے رتی بھر بھی فرق نہیں ہےہاں البتہ وہاں بھی ہندو مذہب سے منسلک افراد کو پناہ دینے ‏میں فوقیت دی جاتی ہے چین میں بھی سیاسی پناہ سے یا چینی لڑکی سے شادی کرنے سے زندگی میں کوئی بڑی معاشی یا پھر اخلاقی و مذہبی تبدیلی کا امکان ‏نہیں ہے ایران میں بھی مذہبی قوانین ایک جیسے ہیں وہاں پر شعیہ مسلک کے لوگوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے وہ بھی آج کل امریکہ کے صف اول ‏کے دشمنوں میں شامل ہے روس سے علیحدہ ہونے والی ریاستوں میں بھی انسانی صورت حال کوئی بہت بہتر نہیں ہے روس کو کسی بھی مذہب سے ‏کوئی سروکار نہیں ہے مڈل ایسٹ جو اسلام کا گڑھ ہے جہاں سے اسلام دنیا میں پھیلا اور پاکستان میں جب بھی اسلام کو کوئی خطرہ ہوتا ہے اس کی ‏نظریں عرب ممالک کی طرف ہوتی ہیں لیکن پہلی بات یہ ہے کہ مکہ اور مدینہ دونوں شہروں میں کوئی غیر مسلم داخل نہیں ہو سکتا وہاں پر تو سیاسی ‏پناہ کا کوئی تصور نہیں ہے نہ وہاں کی حکومت مقامی لڑکی سے شادی کی اجازت دیتی ہے نہ وہاں جائیداد خرید سکتے ہیں نہ وہ شہریت دیتے ہیں جب سے ‏غیر مسلم ممالک نے ان کی بنجر ریتلی زمینوں سے تیل دریافت کیا ہے وہ خود کوئی کام نہیں کرتے دوسرے مسلم اور غیر مسلم ممالک کے لوگ وہاں ‏پر جا کر ان کے لئے کام کرتے ہیں اور وہ تیل سے ہونے والی آمدنی سے پُر آسائش زندگی بسر کر رہے ہیں۔‏
ڈیوڈ سلیم نے ایک لمبی سرد آہ کھینچتے ہوئے کہا اس طرح صرف اور صرف یورپ ،امریکہ اور آسٹریلیا ہی ان کی امید کی آخری کرن ہیں جو پوری ‏دنیا سے ہجرت کر کے آنے والوں کو خوش آمدید کہتے ہیں چاہے وہ غیر قانونی یا قانونی طور پر وہاں داخل ہوں ہر مذہب اور رنگ و نسل کے افراد کو ‏وہ گھر ، خوراک اور کام بھی دیتے ہیں ان ممالک میں تمام غیر ملکی زندگی کی تمام بنیادی سہولیات کےحق دار ہوتے ہیں اس کے بدلے میں نہ وہ آپ ‏کو مذہب کی تبدیلی پر مجبور کرتے ہیں نہ وہ اپنی لڑکیوں سے شادی کرنے سے منع کرتے ہیں اور نہ ہی اپنا ذاتی کاروبار کرنے اور جائیداد کی خرید و ‏فروخت کرنے کے حق سے محروم کرتے ہیں جہاں پر تارکین وطن کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو مقامی افراد کو ملتے ہیں لہذا برصغیر، مڈل ایسٹ کے ‏غریب ممالک اور افریقہ کے لوگ اپنے اور اپنے رشتہ داروں کی خوشحال زندگی کے سنہرے خواب اپنی آنکھوں میں سجا کر اپنی زندگیوں کی پروا ‏کیے بغیر اور پُر خطر راستوں پر سفر کر کے یہاں پر پہنچتے ہیں تاکہ وہ اپنے سنہرے خوابوں کی تکمیل کر سکیں اپنی جمع پونچی دے کر جب وہ ایک بار ‏یہاں پہنچ جاتے ہیں تو پھر کچھ ہی عرصہ بعد ان کے ساتھ ان کے گھر والوں کی زندگیاں بھی خوشحالی کے نہ ختم ہونے والے سفر کی طرف گامزن ہو ‏جاتیں ہیں اور ایک بڑی تبدیلی ان کے رہن سہن میں شروع ہو جاتی ہے یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک دیکھی جا سکتی تھی ‏یہ سب کچھ کہتے ہوئے وہ جذباتی ہو رہا تھا اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر چکی تھیں یہاں پر وہ ایک لمحے کے لئے خاموش ہوا تاکہ اپنی تیز چلتی ‏سانسوں کو معمول کے مطابق کر سکے۔
اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے دلبر زئی اپنی کرسی سے اٹھا اور ڈیوڈ کےپاس آ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔
میں یہ سب کچھ سمجھتا ہوں آپ گھبرائیں نہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
ڈیوڈ سلیم کو یاد آیا کہ دلبر کی یہاں تک پہنچنے کی کہانی ابھی مکمل نہیں ہوئی اس کی باقی کہانی میں دلچسپی اس کی برقرار تھی لہذا ایک بار پھر تجسس کی وجہ ‏سے اس نے دلبر سے پوچھا جب دھماکے کے بعد آپ بےہوش ہو گئے تھے تو پھر کیا ہوا یہاں تک آپ کیسے پہنچ گئے۔
‏ دلبر واپس اپنی کرسی کی طرف مڑا اور مارٹینا کے قریب جا کر اسے بوسہ دیا اور پھر واپس اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہنا شروع کیا۔
‏ بے ہوش ہونے اور ہوش میں آنے کے عرصہ کے دوران مجھے کچھ معلوم نہیں میرے ساتھ کیا ہوا اور میرے گھر والوں کے ساتھ کیا ہوا،دھماکے ‏والی جگہ پر کیا کیا ہوا ۔
جب مجھے ہوش آیا تو میں ایک گھر میں ایک نرم و گداز بستر پر تھا اور میرے قریب میرے دادا کا ایک جاننے والا بیٹھا ہوا تھا جس نے مجھے بتایا۔‏
ہوا یوں کہ جب لوگ میرے اوپر سے گذرتے ہوئے خود کش دھماکے کی جگہ کی طرف دوڑے جا رہے تھے وہ بھی ان لوگوں میں شامل تھا اس ‏شخص نے میرے قریب سے گزرتے ہوئے مجھے پہچان لیا۔وہ واپس مڑا اور مجھے فورا کھینچ کر سڑک کے ایک طرف کر لیا اور ایک گدھے گاڑی ‏جس کا مالک معلوم نہیں کہاں تھا اس پر ڈال کر قریبی ہسپتال میں لے آیا میرے بازو اور ایک پاؤں میں معمولی خراشیں آئی تھیں۔
‏ ہسپتال میں مجھےمعمولی مرہم پٹی کے بعد فارغ کر دیا گیا وہ مجھے اپنے ساتھ گھر لے آیا اور اپنی دو بیٹیوں کے پاس چھوڑ کر خود قصہ خانی بازار میں ‏میرے ماں باپ اور دادا کا حال معلوم کرنے چلا گیا۔
اس نے وہاں جو مناظر دیکھے وہ اس نے چند دن تک مجھے بتانے سے گریز کیا پھر جب میری حالت سنبھل گئی تو اس نے مجھے وہ مناظر بتائے جو سُن کر ‏میں ایک بار پھر اپنے ہوش کھو بیٹھااور دنیا میں اپنے آپ کو اکیلا محسوس کرنے لگا مگر اس شخص اور اس کی دونوں بیٹیاں عائشہ اور خدیجہ نے میری ‏خاطر مدارت میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور ہر ممکن طریقہ سے مجھے خود کو تنہا ئی محسوس کرنے نہیں دی وہ ہر طرح سے میرا خیال رکھتے مجھے گھر سے ‏باہر بھی نہیں جانے دیتے تھے اس طرح میری حالت بہت حد تک سنبھل گئی تھی ایک دن میرے بڑھتے ہوئے اصرار پر اس نے بڑے اداس لہجے ‏میں مجھے سارا واقعہ سنانا شروع کیا۔ ‏
وہ دیکھ رہا تھا کہ تیس مربع میٹر کے علاقے میں جو چیز بھی تھی وہ جل کر راکھ ہو چکی تھی دلبر کا گھر اور ریستوران بھی اس میں شامل تھا۔
‏ وہ مجھے بتا رہا تھا ایدھی ویلفیر کی ایموںلنسوں کی نیلے رنگ کی تیز روشنیاں اس کے آگے پیچھے اور جسم کے اوپر سے گزر رہی تھیں اور کارکن سرخ ‏رنگ اور سلور رنگ کی اندھیرے میں چمکنے والی وردیوں میں ملبوس اِدھر اُدھر دوڑ رہے تھے ان وردیوں پر روشنی میں چمکنے والی پیلی اور چاندی ‏رنگ کی پٹیاں لگی ہوئی تھیں وہ سب تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے میں سے انسانی جسموں کے جلے ہوئے اور کٹے ہوئے ٹکڑے اکھٹے کر نے میں ‏مصروف تھے فضا میں جلے ہوئے انسانی گوشت کے جلنے کی بُوابھی تک چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔
‏ سب سے پہلے اس نے وہ جگہ ڈھونڈنے کی کوشش کی جو کبھی ظائر احمد زئی کا ریستوران ہوا کرتا تھا جو شام سے ہی روشن ہو جاتا تھا اور لوگوں کی ایک ‏بھیڑ وہاں پر کھانے کے لئے اور جدید میوزک سننے کے لئے جمع ہو جاتی تھی مگر اب وہ عمارت کہیں بھی نظر نہیں آئی وہ تین منزلہ عمارت اب ‏زمین بوس ہو چکی تھی اور اس کے اندر رہنے والے ستر سے زیادہ مکین بھی اس عالی شان عمارت کے ساتھ ملبے میں گھل مل گئے تھے اس نے اپنی ‏پگڑی سر سے اتار کر اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام لی اور زمیں پر غم سے نڈھال بیٹھ گیا ۔
وہ اس وقت چونک کر اٹھا جب ایک ایمولینس تیزی کے ساتھ اونچی آواز میں ہارن بجاتی ہوئی اس کے قریب سے گذری وہ اس کے ٹائر کی زد میں آ ‏کر کچلا جاتا اگر وہ تیزی کے ساتھ اُچھل کر پیچھے کی طرف گر نہ جاتا ۔
وہ دوبارہ اٹھا اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا اندازے کے ساتھ اپنے دوست کے ریستوران کی طرف چلنے لگا ایک جگہ پر وہ رک گیا مگر ہجوم کی وجہ ‏سے کچھ دیکھ نہیں پا رہا تھا اور شور اتنا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ان آوازوں میں ایمولینسوں کے سائرن کی آوازیں نمایاں تھیں ‏جن کے شور میں زخمیوں کی آہیں بالکل سنائی نہیں دے رہی تھیں اور مرنے والوں اور زخمیوں کے رشتہ داروں کی پکارنے کی آوازیں اس تیز اور ‏بھیانک شور کے نیچے دب چکی تھیں۔
‏ ہجوم کبھی اسے آگےکی طرف دھکیل دیتا اور کبھی پیچھے کی طرف پھینک دیتا وہ اپنے دائیں جانب جانے کی کوشش کرتا تو اسے بائیں جانب کی طرف ‏دھکیل دیا جاتا وہ اس ہجوم کے بیچ گم ُہو چکا تھا اس نے اپنے آپ کو اس بےلگام ہجوم کے حوالے کر دیا تھا ۔
ہجوم کے پیروں تلے کچلے جانے کے خوف سے اس نے زمین پر دوبارہ بیٹھنے کی طرف دھیان نہیں دیا اسی اثنا میں اس نے پولیس کی گاڑیوں کے ‏سائرن سنے پھر اس نے محسوس کیا کہ ہجوم اب دائیں بائیں اور آگے پیچھے جانے کی بجائے صرف ایک سمت کو جانا شروع ہو گیا کیونکہ پولیس نے ‏ہجوم پر لاٹھیاں برسانا شروع کر دی تھیں تاکہ دھماکے والی جگہ کو ہجوم سے خالی کروا کر امدادی کاروائی جاری رکھی جا سکے ہجوم سڑک پر گرے ‏ہوئے لوگوں کے اوپر سے گذر رہا تھا جو ایک بار گر تا ہجوم اس کو دوبارہ اٹھنے کا موقع نہ دیتا لوگ اپنے پیروں سے گرے ہوؤں کو کچلتے جا رہے تھے ‏آخرکار چند منٹ کے بعد ہجوم میں سے نکل کے لوگ اردگرد کی گلیوں میں گھسنے لگے کچھ سڑک کے دونوں کناروں کی طرف نکل گئے یوں ہجوم کم ‏ہونے لگا۔
‏ پولیس نے سڑک کو دونوں طرف سے آمد و رفت کے لئے بندکیااور سفید و سرخ پٹی لگا کر لوگوں کے یہاں تک آنے کی حد مقرر کر دی اور ہجوم کو ‏دھماکے والی جگہ سے دور کر دیا۔
‏ میرے دادا جانی کا دوست مجھے بتا رہا تھا کہ میں آگے جانا منع ہے کی حد بندی کے طور پر لگائی جانے والی پلاسٹک کی سرخ و سفید پٹی کے ساتھ کھڑا ہو ‏کر زخمی اور دھماکے سے مرنے والوں میں ظائر احمد زئی اس کی بیوی گلِ داؤدی اوراس کے باپ حکمت زئی کو پہچاننے کی کوشش کرنے لگا مگر وہ ‏کہیں بھی نظر نہیں آ رہے تھے میری نظریں اس طرف بھی گئی جہاں خود کش حملہ آور کے اعضا جمع کیے جا رہے تھے لیکن میں اس منظر کو مزید ‏دیکھنے کی ہمت نہیں کر سکا اور ایک وقت ایسا بھی آیا مجھے اپنی آنکھیں کچھ دیر کے لئے بند کر نا پڑی۔
‏ اسی دوران میرے کانوں میں ہیلی کاپٹر کی آواز پڑی جو قریب آتی جارہی تھی میں نے اسے دیکھنے کی خاطر آنکھیں کھول لیں جب وہ بازار کے اوپر ‏سے گذر رہا تھا تو میں نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھنے کی کوشش کی ہیلی کاپٹر اتنی تیزی کے ساتھ سر پر سے گذر گیا مجھے صرف اس کا سُرخ رنگ ‏یاد رہ گیا میری نظریں اس کو دور تک جاتے دیکھنے کی کوشش کرتی رہیں مگر وہ عمارتوں کے پیچھے گم ہو گیا تھا اور میری نظریں زمین پر واپس آنے کی ‏بجائے بجلی کی ٹوٹنے سے بچ جانے والی لوہے کی تاروں پر اٹک کر رہ گئی جہاں سرخ، سفید اور سبز دوپٹوں کے ساتھ گلابی رنگ کا ایک ٹیڈی بیئر بھی ‏لٹکتا دکھائی دے رہا تھا ۔
‏ ہیلی کاپٹر کی آواز بھی اب غائب ہو چکی تھی میری نظریں بھی آسمان سے دوبارہ زمین پر آ گئیں تھیں جہاں دلخراش منظر دوبارہ میرا منتظر تھا۔
تباہ شدہ ملبے کے نیچے انسانی لہو تھا ملبے کے اوپر بھی انسانی لہو اور اعضا بکھرے پڑے تھے زخمیوں کی چیخ و پکار اور زندہ لوگوں کا شور اتنا تھا کہ کان ‏پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی۔
آخرکار میں نے وہ جگہ ڈھونڈ لی جہاں کچھ دیر پہلے ریستوران تھا اب وہ بالکل زمین بوس ہو چکا تھا میں نے بے ساختہ دلبر زئی کے باپ کو آوازیں دیں ‏مگر کوئی جواب نہ آیا ریڈ کراس کا ایک کارکن میرے اس عمل سے میرے قریب آیا اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا صبر کریں بھائی صاحب ‏اللہ تعالی مرنے والوں کو جنت نصیب کرے۔
‏ دھماکے میں ہلاک ہونے والے تمام افراد قریبی ہسپتال پہنچا دئیے گئے ہیں یہاں پر اب کوئی نہیں ہے سب کے لئے دعا کرو۔
ان میں کوئی زندہ بھی ہے یا سب کے سب شہید ہو چکے ہیں میں نے کارکن سے پوچھا۔‏
نہایت دکھ اور افسوس ہے دھماکا اتنا شدید تھا کہ کوئی بھی زندہ نہیں بچا۔
میں نے ہمت سے کام لیتے ہوئے اس سے پوچھا مرنے والوں کی لاشیں کس ہسپتال پہنچائی گئی ہیں کیونکہ یہاں اردگرد تو مجھے کوئی لاش نظر نہیں آ ‏رہی۔
‏ تمام شہدا کی لاشیں پوسٹ مارٹم کے لئے قریبی ہسپتال میں پہنچا دی گئیں ہیں تاکہ ضروری کاروائی مکمل کی جا سکے اور سرکاری اندراج کیا جا سکے اس ‏ساری کاروائی کے بعد لاشیں ان کے ورثہ کے حوالے کر دی جائیں گی۔
میں وہاں سے سیدھا ہسپتال پہنچا وہاں پر بھی لوگوں کا بے چین ہجوم تھا جو بے ترتیب تھا مرنے والوں کے لواحقین مارے مارے اِدھر اُدھر آ جا رہے ‏تھے ہسپتال کے برآمدے میں کچھ لوگوں کو میں نے جمع دیکھا میں ان کے قریب گیا تو دیکھا کہ وہاں مرنے والے بدنصیبوں کے ناموں کی لسٹ ‏آویزاں کی گئی تھی میں جلدی سے لوگوں کو ہٹاتا ہوا لسٹ کے سامنے پہنچا اور لسٹ میں تینوں کے نام پڑھ لینے کے بعد میں سیدھا ہسپتال کے استقبالیہ ‏پر چلا گیا جہاں سے مجھے فارم اور دوسرے کچھ کاغذات بھی دئیے گئے اسکے ساتھ ہی ایک لفافہ بھی میرے حوالے کیا گیا جس میں مرنے والوں کے ‏شناختی کارڈز اور ریستوران سے متعلقہ کچھ جلے ہوئے کاغذات اور ظائر احمد زئی اور گل داؤدی کا نکاح نامہ بھی تھا اور کچھ تصاویر بھی تھیں ۔
اور کہا گیا کہ فارم کو پُر کریں اور مطلوبہ کاغذات کی نقول اور اصل ان کے ساتھ نتھی کر کے لائیں اور ان کا جو بھی اصل وارث ہے اس کے دستخط ‏کروا کر واپس آج ہی دفتر میں جمع کروا دیں تاکہ تدفین و تجہیز کا بندوبست جلد کیا جا سکے میں بوجھل قدموں کے ساتھ گھر واپس لوٹا تو میری دونوں ‏بیٹیاں مجھ سے لپٹ گئیں۔
‏ کچھ معلوم ہوا ، سب خیریت ہے خدیجہ نے سوال کیا۔
‏ دلبر کے ماں باپ خیریت سے ہیں ۔
وہ جس کے میں ابھی نام سے بھی واقف نہیں تھا میں انھیں صرف بابا جانی کے قریبی دوست کی حیثیت سے جانتا تھا اور انکل کہہ کر بلاتا تھا اپنی ‏دونوں بیٹیوں کے سوالوں کے جواب دینے کی بجائے سیدھا میرے پاس آیا اور میرے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
بیٹا وہ تینوں اب اس دنیا میں نہیں ہیں اور مجھے گلے سے لگاتے ہوئے کہا اب تم میرے بیٹے ہو اور میرے پاس ہی رہو گے۔میں سکتہ میں چلا گیا میں ‏ایک ہی طرف دیکھے جا رہا تھا میری یہ حالت دیکھ کر خدیجہ ایک گلاس میں پانی لے کر آئی اور عائشہ نے میرے بے سپاٹ چہرے پر اپنے چلو میں پانی ‏بھر کر میرے چہرے پر پھینکا ایسا اس نے دو بار کیا تو میں سکتہ کی حالت سے باہر آ گیا۔
‏ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ میری آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر اپنے تمام بند توڑ کر میرے گالوں سے بہتا ہوا میرے کپڑے بھگونے لگا وہ تینوں میری ‏ڈھارس بندھاتے رہے مجھے تسلی دیتے رہے اور ایک مظلوم اور بے کس اور یتیم لڑکے کی ہمدردی میں جو الفاظ ان کے ذہن میں تھے وہ مجھے سناتے ‏رہے مگر میرے آنسو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے کچھ دیر کے بعد سسکیاں لینے کے بعد میں نڈھال ہو گیا اور خاموش ہو گیا اور پھر میں نیند کی ‏آغوش میں چلا گیا ۔
‏ مجھے اس وقت نیند سے بیدار کیا گیا جب شام کے کھانے کا وقت ہوگیا دونوں بہنوں نے کھانا کمرے میں قالین کے اوپر بڑی ترتیب سے لگا دیا تھا اور ‏وہ میرے جاگنے کا انتظار کر رہے تھے میں جلدی سے اٹھا اور ان کے ساتھ کھانے میں شامل ہو گیا میرے ساتھ جو کچھ ہوا تھا وہ میرا ماضی ہوتا جا رہا ‏تھا اور میں ماضی سے سیکھ کر زندگی کو آگے بڑھانا چاہتا تھا۔
کچھ دنوں کے بعد انکل رحمت خان نے مجھے بتایا کہ ہمارے صوبہ سرحد کے گورنر نے اس دھماکے میں شہید اور زخمی ہونے والوں کے لئے مالی ‏امداد کا اعلان کیا ہے اسی ہفتہ کسی مخصوص جگہ پر ایک تقریب منعقد کی جائے گی جس میں شہدا کے ورثاء اور زخمی ہونے والوں کو مدعو کیا جائے گا ‏اور امدادی رقوم کے چیک متاثرین میں وہ تقسیم کریں گے تھوڑی دیر پہلے میں نے ریڈیو پاکستان پشاور کے خبر نامہ میں بھی سنا ہے سرحد گورنر نے ‏یہ بھی ا علان کیا ہے ہر شہید ہونے والے کے ورثاء کو پانچ پانچ لاکھ روپے اور زخمی ہونے والے کو ایک ایک لاکھ روپے دئیے جائیں گے۔
مجھے یہ عجیب سا لگا میرے منہ سے ایک دم یہ الفاظ نکلےکیا ہو گیا ہے زمانے کو، یہاں پر اب ایک زندگی کی قیمت صرف پانچ لاکھ ہو گئی ہے میری ‏طرف دیکھتے ہوئے خدیجہ نے بھی حیرت سے کہا آخر یہ لوگ اتنے پیسے کہاں سے لائیں گے کیا یہ گورنر ارب پتی ہے جو اتنی رقم بانٹ رہا ہے۔ ‏
نہیں بیٹا ایسے نہیں ہے وہ یہ رقم قومی خزانے سے ادا کریں گے۔
اگر خزانہ خالی ہو گیا تو ملک کیسے چلے گا ، خدیجہ نے کہا ۔
بیٹا وہ جو بھی خسارہ ہو گا وہ ہم غریب عوام سے وصول کر لیں گے۔
دلبر نے بھی ہمت کر کے انکل سے پوچھ لیا وہ کیسے یہ سب کچھ کریں گے۔
وہ اس طرح میرے بچو ہم حکومت کو جو ٹیکس ادا کرتے ہیں بجلی، پانی ، گیس، ٹیلی فون اور تمام سہولتوں کے بدلے میں حکومت اس میں اضافی چارچز ‏ڈال دے گی اور خسارہ پورا کر لے گی۔
۔۔۔۔۔

٭٭٭
مارٹینا نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دلبر سے کہا اب ہمیں چلنا چائیے پہلے ہی ہمیں پندرہ منٹ کی تاخیر ہو چکی ہے پہلی ‏بس نکل چکی ہے اب ہمیں پندرہ منٹ اور انتظار کرنا پڑے گا۔
میں معذرت چاہتا ہوں مجھے اس بات کا خیال ہی نہیں آیا کہ بس نکل جائے گی اب صرف دو منٹ میں ڈیوڈ کو پاکستان میں گزری زندگی کی آخری ‏بات بتانا چاہتا ہوں ۔
ٹھیک ہے میں انتظار کر لیتی ہوں ویسے بھی آج ہمیں اور کہیں نہیں جانا ہے ہم نے گھر سیدھا جانا ہے کھانا ہم نے ادھر ہی کھا لیا ہے گھر جا کر صرف ‏سونا ہے۔
تو جناب حکومت کی طرف سے دی گئی رقم انکل رحمت نے میرے نام سے بنک میں جمع کروائی اور مجھ پر پابندی لگا دی میں یہ رقم اٹھارہ سال کی عمر ‏کے بعد نکلوا سکتا ہوں اور اس کی پرورش کا ذمہ دار وہ ہے میں نے اپنی عمر کے اٹھارہ سال مکمل ہونے میں باقی چھ ماہ کرب ناک اور انجانی خوشی میں ‏گذار دئیے ۔
کیونکہ اس مدت کے دوران خدیجہ میرے بہت قریب آگئی تھی مجھے لگتا تھا کہ وہ مجھ سے بہت پیار کرنے لگی ہے مگر اس کا اظہار اس نے کبھی بھی ‏نہیں کیا تھامگر میں اس جگہ رہنا نہیں چاہتا تھا جہاں میرے والدین اور دادا جانی کو بغیر کسی دشمنی اور بغیر کسی وجہ سے بھیانک اور اذیت ناک موت ‏کی نذر کر دیا گیا تھا میں ہر وقت اپنے ادگرد خوف اور موت کو منڈلاتا دیکھتا رہتا تھا۔
‏ لہذا میں نے انکل سے درخواست کرتے ہوئے کہا مجھے اس ملک میں مزید نہیں رہنا ہے مجھے یہاں سے خوف آتا ہے کیونکہ مجھے ورثہ میں ملی بدلے ‏کی روایت پکار پکار کر کہتی ہے دشمنوں سے بدلہ لو مگر میں ایسا نہیں کر سکتا میں جینا چاہتا ہوں میں دنیا کو امن کا پیغام دینا چاہتا ہوں مجھے کسی اور جگہ ‏جانا ہے اگر میں یہاں سے کسی اور دیس نہ گیا تو مجھے محسوس ہوتا ہے میں یہاں پر مار دیا جاؤں گا یا پھر میں دشمنوں کو مارنا شروع کر دوں گا لیکن میں ‏ایسا نہیں کرنا چاہتا انکل رحمت مجھے بچا لو مجھے میرے وطن سے دور کسی اور دیس بھیج دیں۔
‏ اس بار جب میں نے ہاتھ جوڑ کر انکل رحمت خان سے درخواست کی کہ مجھے کسی اور دیس میں جا کر رہنا ہے۔
تو مجھے یوں محسوس ہوا اس بار وہ میری بات مان جائیں گے اور ایسا ہی ہوا۔
‏ انکل پہلے میری باتوں کو بڑے دھیان سے سنتے رہے اور پھر بغیر کوئی بات کیے آنکھوں کو بند کر کے کچھ لمحے سوچتے رہے اور پھر خدیجہ سے پینے کے ‏لئے پانی مانگا پانی کے چند گھونٹ حلق میں اتارنے کے بعد انہوں نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہنا شروع کیا ۔‏
بیٹا دلبر زئی تم اٹھارہ برس کے ہو چکے ہو اور اپنے لوگ تم کھو چکے ہو ، ہم تو ٹھہر ے بیگانے لوگ آج تک میں سمجھتا رہا تھا کہ اب میں تمہارا بزرگ ‏ہوں اور میں تمہارے مستقبل کا فیصلہ کروں گا میں نے جو سوچا تھا مجھے لگتا ہے اب وہ تمہارے اس فیصلے سے پورا نہیں ہو گا اس لئے میں تمہاری ‏رائے کا احترام کرتے ہوئے تمہاری خواہش کو پوری کرنے کی کوشش کروں گا ۔
‏ جس دن سے یہ باتیں ہوئی تھیں اس دن کے بعد سے خدیجہ کچھ کھوئی کھوئی سی رہنے لگی تاہم اس میں ایک تبدیلی ضرور آ گئی تھی وہ پہلے سے زیادہ ‏میرے قریب رہنے کی کوشش کرتی میرے سارے کام خود کرتی مگر میرے ساتھ بات وہ بہت ہی کم کرتی تھی۔
‏ اس طرح کچھ مہینے اور گذر گئے میں اٹھارہ برس اور چھ ماہ کا ہو گیا خدیجہ سترہ برس کی ہو گئی ایک دن شام کو انکل جب گھر لوٹے تو انہوں نے مجھے ‏ایک بہت اچھی خبر سنائی ۔
‏ وہ بڑے راز دارانہ انداز میں مجھے بتا رہے تھے ایک انسانی سمگلر سے ان کی بات طے ہو گئی ہے وہ بارہ لاکھ روپے کے عوض مجھے یورپ کے کسی بھی ‏ملک پہنچا دے گا کسی بھی دن وہ مجھے گروپ کے ساتھ روانہ کر دے گا یہ میرے لئے انتہائی خوشی کی خبر تھی مگر خدیجہ یہ خبر سن کر اور بھی چپ اور ‏اداس رہنے لگی ایک دن اسے اکیلے دیکھ کر میں نے اس سے سوال کیا ۔
کیا تم میرے لئے خوش نہیں ہو ،دیکھو میں یورپ میں جا رہا ہوں جہاں ہر نوجوان جانے کا خواب دیکھتا ہے تاکہ اس گھٹن زدہ پر تشدد ماحول سے دور ‏چلا جائے ۔
جی آپ کی خوشی پر میری ہر خوشی قربان ہے میں بہت خوش ہوں مگر وہاں آپ اکیلے کیسے رہیں گے لیکن مجھے یقین ہے آپ میں حوصلہ ہے اپنوں کو ‏کھونے کا اور اپنے پا لینے کے بعد دوبارہ ان کو کھو دینے کا، تو آپ جہاں چاہیں جا سکتے ہیں یہ کہتے ہوئے خدیجہ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔‏
‏ دیکھو میں تمہیں لینے واپس آؤں گا یہ کہتے ہوئے میں نے پہلی بار اپنے دل کے کسی کونے میں خدیجہ کے لئے ہمدردی محسوس کی اور اس کے اپنا ‏ہونے کا مجھے احساس ہوا ۔
مگر بڑے سانحہ کے بعدبہت کچھ بدل رہا تھا بہت کچھ بدل چکا تھا اور بہت کچھ بدلنے والا تھا راستہ منتخب ہو چکا تھا جس پر سفر شروع کرنا ضروری تھا ‏ورنہ ہاتھ کی لکیروں سے گلےشکوے اور صبر و شکر کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا ۔
‏ آپ نے اٹلی کو کیسے منتخب کیا اور یہاں پر آپ کیسے پہنچ گئے ڈیوڈ سلیم نے سوال کر دیا۔
یہ میرا انتخاب نہیں تھا یہ ایجنٹ پر منحصر ہوتا ہے اس کا جس خطے کے مافیا سے گٹھ جوڑ ہوتا ہے وہ اسی علاقے میں کام کرتا ہے یہ مافیا گروپ پاکستان، ‏لیبا اور اٹلی کے افراد پر مشتمل تھا ڈیوڈ سلیم صاحب آپ خود ان حالات سے گذر کر یہاں تک پہنچے ہیں بالکل ایسےہی جیسے آپ نے یہاں تک کا سفر ‏کیا ہے اسی طرح میں نے پندرہ دن کشتی کا سفر بھی کیا پاکستان سے شروع ہونے والا یہ سفر تین ماہ کے تھکا دینے والا حیات و موت کاسفر تھا ۔ ‏
دلبر زئی نے ایک لمبی آہ کھنچی اور سگریٹ کا لمبا کش لیتے ہوئے کہا تو جناب یہ تھی میری زندگی کے آغاز سے موجودہ لمحے تک کی کہانی۔

۔۔۔۔۔

اکیسواں باب:‏
‏ ‏
مولوی نظام دین اپنی جگہ پر کھڑا ہوا اور کہنا شروع کیا دوستو ہم سکہ کے دونوں رخ پر موجود ہیں اگرچہ دونوں ایک جیسے نہیں ہوتے مگر ہوتے ایک ‏ہی سکے پر ہیں ایک ہی سکہ پر جیتے اور مرتے ہیں اگرچہ ایک رخ دوسرے کو دیکھ نہیں سکتا مگر ایک دوسرے سے مضبوطی کے ساتھ جڑے رہتے ‏ہیں اسی طرح ہمارےبھی دو رخ ہیں جب ہم اپنے ملک میں ہوتے ہیں ہماری سوچ کا ہر زوایہ یورپ کی سوچ سے مختلف ہوتا ہے اور جب یورپ میں ‏ہوتے ہیں تو ہمارا نقطہ نظر مختلف ہوتا ہے ہم ہر چیز داؤ پر لگا کر یہاں رہنا بھی چاہتے ہیں اور اپنے عزیز و رشتہ داروں میں واپس لوٹنا بھی چاہتے ہیں ‏اپنے وطن کی بے ترتیب اور خوف و دہشت میں ڈوبی زندگی کا دوبارہ حصہ بننا کی دبی دبی خواہش بھی رکھتے ہے اور یہاں کی ترتیب سے چلتی زندگی کی ‏ٹریفک کا سگنل بھی توڑنا پسند نہیں کرتے ہم گمشدہ لوگ ہیں اور اپنے گم شدہ ماحول میں بھی رہنا چاہتے ہیں اور اپنے اردگرد ماحول میں زندہ بھی رہنا ‏چاہتے ہیں۔
مجھے افسوس ہوا ہے کہ میں نے کہانی کا طلسم توڑ کر آپ حضرات کو وقت کا احساس دلایا ہے ورنہ کہانی کا سحر وقت کے لمحوں کو نہایت تیز رفتاری کے ‏ساتھ نگلتا جائے گاآپ کی عمر بیت جائے گی مگر کائنات اور اس میں بسنے والوں کی کہانیاں اندھیرے میں روشنی کی طرح بکھرتی رہیں گی اور روشنی ‏رات کی سیاہی کو سنےٹکی میں مصروف رہے گی بدن خاک ہوتے رہیں گے خاک سے پھول اُگتے رہیں گے اور سورج چاند ستارے زندہ لوگ دیکھتے ‏رہیں گے۔
‏ کہانیوں کا سلسلہ چلتا رہے گا لہذا رات کافی ہو چکی ہے آپ نے گھروں کو واپس لوٹنا ہے اپنے فرائض کو نبھانے میں آپ حضرات نے کوتاہی سے کام ‏نہیں لینا ہے تاکہ معاشرے میں آپ اپنے حقوق سے انصاف کر سکیں مگر فکر نہ کریں اس کہانی کے علاوہ لاتعدادکہانیاں ابھی باقی ہیں اگلے ہفتہ ‏سلسلہ وہاں سے ہی شروع کریں گے جہاں سے توڑا گیا ہے۔ ‏

۔پہلا حصہ ختم ہوا۔

۔۔۔۔۔

٭٭٭
اس ناول کے تمام کردار، واقعات، مقامات، تاریخی حوالہ جات اور حوالہ جات کتب سب فرضی اور خیالی ہیں۔ کسی بھی طور ‏پر کسی حقیقی صورت حال سے کسی بھی قسم کی مطابقت و مماثلت محض اتفاقیہ تصور کی جائے۔

ہم گمشدہ لوگ(ناول) جیم فے غوری

———————————————————–مرکزی خیال اور تبصرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پم گمشدہ ناول کی بنیاد جنوبی اشیا کے وہ لوگ ہیں جو اپنی اور اپنے خاندان کا معیار زندگی بلند کرنے کے واسطے قانونی اور غیر ‏قانونی طریقوں سے یورپ کی طرف ہجرت کرتے ہیں اور وہاں کےماحول میں اپنی ذات کو گم کرنے کی کوشش کرتے ‏ہیں۔ وہاں کی تہذیب و ثقافت کو اپنانا بھی نہیں چاہتے اور اپنی ثقافت کو چھوڑنا بھی نہیں چاہتے۔ اپنے بچوں کی وہاں کے ‏سکول و کالج میں تعلیم و تربیت بھی کرتے ہیں مگر وہاں کی روز مرہ زندگی سے ان کو دور رکھنا کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ ‏یورپ میں انسانی آزادی اور ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے ہیں مگر ااپنے پسماندہ ممالک میں جدید ٹیکنالوجی اور انسانی آزادی کو ‏بھونڈے انداز میں بڑھ چڑھ کر بیان کرتے ہیں یہاں کی بینادی معاشرتی سہولیات میں زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں اور یہاں ‏کے امن و سکون کو اپنے حلقہ احباب میں غلط پیراے میں بیان کرتے ہیں یورپین یعنی یہاں کی مقامی زبان سیکھنے کی کوشش ‏نہیں کرتے ہیں ‏
اپنی دوسری اور تیسری نسل کو اپنی آنکھوں کے سامنے مقامی تہذیب و ثقافت میں گم ہوتا دیکھتے ہیں ۔ ‏
مذہبی لہاظ سے تمام رسومات و راویات کی پابندی بھی کرنا چاہتے ہیں مگر سزا اور جزا کے گول چکر میں ایسے پھنس جاتے ہیں ‏کہ اسی میں ختم ہو جاتے ہیں ۔
برصغیر کے لوگ جو ہجرت کر کے یہاں آ جاتے ہیں پھر وہ اپنے ممالک سے رابطہ میں تو رہتے ہیں مگر واپس اپنے ملک ‏مستقل طور پر جانا نہیں چاہتے ۔ اس ناول میں برصغیر کی تاریخ اور رومانس اور موجودہ صورت حال بھی ہے، کلچرل طور پر ‏سمندر کی متلاطم لہروں کے یہ مسافر بلکہ ہجرت زدہ لوگ خشکی پر اترنے کی کوشش میں یورپ کے رومانس میں گم شدہ ‏لوگ ہیں۔
‏ ہم گمشدہ ناول کا موضوع ہجرت اور اجنبی ماحول میں خود کو ضم کرنے کی کوشش ہے جس میں وہ گم ہو کر رہ جاتے ہیں۔